ملت کا تعلیمی ایجنڈا اور این جی اوز کا مطلوبہ کردار

سید تنویر احمد
زیر نظر مضمون 29 فروری ویکم مارچ 2024 کوعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں منعقد ایک قومی سیمینارمیں پیش کیا گیا۔ قارئین کے استفادہ کے لیے اس مضمون کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)

تعلیم کے میدان میں کئی مسلم غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز )کام کر رہی ہیں۔ یہ غیر سرکاری تنظیمیں پرائمری اور سیکنڈری سطحوں کے پرائیوٹ اسکولوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ ان میں اکثر اسکول تجارتی ہیں تاہم ان میں سے کچھ رفاہی بنیادوں پر بھی کام کر رہےہیں۔ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی مسلم این جی اوز کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسکولوں کے قیام کے علاوہ اداروں کی ترقی و استحکام اور فلاح و بہبود کے بارے میں شاید ہی سوچتی ہیں۔ بلکہ شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ این جی اوز ملت کی ہمہ جہت ترقی کے منصوبوں سے ہی بیگانہ ہیں۔

وقت کی ضرورت ہے کہ جمہوری نظام کے تحت مسلم ملت کے درمیان ایسی این جی اوز قائم کی جائیں جن کا مقصد مسلمانوں کو تعلیمی اعتبار سے اونچا اٹھانا ہو۔

درج ذیل مقاصد کے حصول کےتحت این جی اوز قائم کی جا سکتی ہیں:

غریب طلبہ کی مختلف سطحوں پر مالی امداد

مسلم علاقوں میں زکوۃ و خیرات اور امد ادکی رقم اکٹھا کی جائے اور ان رقوم سے ہونہار طلبہ کے حصول تعلیم کے لیے مالی مدد کی جائے۔ مختلف افراد اور تنظیمیں زکوۃ و خیرات کی رقوم جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اگر مسجدوں کو بنیاد بناکر یہ کام کیا جائے تو زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ ہر مسجد کے پاس اس کا تفصیلی ڈیٹا ہو کہ اس مسجد کے علاقے میں تعلیم کی صورت حال کیا ہے، کتنے طلبہ و طالبات درمیان میں ہی تعلیم کا سلسلہ توڑ چکے ہیں۔ تعلیم جاری رکھنے میں اگر معاشی کم زوری مانع ہے تو اس کا انتظام مسجد کا بیت المال کرے۔ ہر مسجد کا بیت المال ایک این جی او کی حیثیت اختیار کرے۔ اس کے ذریعے حالات کا جائزہ لیا جائے اور مائیکرو پلاننگ کی جائے۔ اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے سافٹ ویئر سے مدد لی جا سکتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کو بااختیار بنانا

یونی ورسٹی سطح کی اعلی ٰ تعلیم میں مجموعی اندراج کا تناسب (GER) بڑھانے کے پروگرام پر غور کیا جائے۔ فی الحال، 4.49 فی صد مسلم طلبہ اعلیٰ تعلیم (گریجویشن) سے وابستہ ہیں۔ این جی اوز کو چاہیے کہ ملت میں بے داری پیدا کریں، طلبہ کی رہ نمائی کریں اور یونی ورسٹی سطح کی اعلی تعلیم میں مسلم طلبہ کے مجموعی اندراج کا تناسب (GER) بڑھانے میں طلبہ کی مدد کریں۔ یوں تو ملت میں نیٹ (NEET) اور جےای ای (JEE)کے مسابقتی امتحانات کا شعور پایا جاتا ہے۔ لیکن سینٹرل یونی ورسٹیوں میں داخلے کا رجحان کم ہے۔ اگر ہے بھی تو شمالی ہند کے بعض طلبہ میں ہے۔ جنوبی بھارت کے مسلم طلبہ میں عموما سماجی علوم میں تعلیم کو جاری رکھنے میں دل چسپی کم ہوتی ہے۔ اس سطح پر شعوری بے داری اور طلبہ کو درپیش مسائل کا حل ا ہم چیلنج ہیں۔

کیریئر گائیڈینس اینڈ کونسلنگ

بالعموم مسلم طلبہ کے درمیان تعلیمی رہ نمائی کا فقدان پایاجاتا ہے۔ لہذا، این جی اوز کو کیریئر گائیڈنس کا کام اپنے ذمے لینا چاہیے۔ کیریئر کے سلسلے میں وہ طلبہ اور والدین کی رہ نمائی کریں۔ طلبہ کا جائزہ لینے کے لیے سائیکو میٹرک ٹیسٹ (psychometric test) بھی کرائیں اور اپنے رجحان اور دل چسپی کے مضمون کا انتخاب کرنے میں ان کی مددکریں۔

اسکولی تعلیم کے عمل میں مسلم ملت کی شرکت

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 اسکولوں کو سماج سے جوڑنے کی سفارش کرتی ہے۔ اس مقصدکے تحت مرکزی وزارت تعلیم نے ودیانجلی کے نام سے ایک پورٹل کھولا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد تعلیم کے معیار کو بڑھانے میں سماج کو خدمات مہیا کرنا ہے۔ مسلم ملت کو اس طرح کی ایک این جی او بنانے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جو ایسے رضاکاروں کا اندراج کرے جو اسکولوں، غریب طلبہ، ڈراپ آؤٹ طلبہ کی مدد کر سکیں اور سنجیدہ و محنتی طلبہ کو اچھے جزوقتی اساتذہ فراہم کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف میدانوں کے برسر روزگار ماہرین کے چند گھنٹے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی خدمات کو ریاضی، سائنس اور انگریزی پڑھانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید سمجھنے کے لیے ٹیچ فار انڈیا (Teach for India) کے ماڈیول کا مطالعہ مفید ہوگا۔ اس منصوبے پر تعلیم یافتہ خانہ دار مسلم خواتین زیادہ عمل کر سکتی ہیں۔

ڈراپ آؤٹ کا سدّ باب کرنا

دوران تعلیم طلبہ کے تعلیم چھوڑ دینے (dropout) پر قابو پانا ایک مشکل کام ہے۔ این جی اوز کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہوگی۔ مختلف سروے بتاتے ہیں کہ ڈراپ آؤٹ کی اہم وجہ ریاضی اور انگریزی زبان کے مضامین میں کم زوری ہےاور بہت سے معاملات میں مالی عوامل شامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، این جی اوز انگریزی زبان اور ریاضی سکھانے کے لیے ماہراساتذہ کی رضاکارانہ طور پر خدمت حاصل کرسکتی ہیں۔

وہ تعلیمی انتہائی نگہداشت یونٹ (Academic Intensive Care Unit- AICU) شروع کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوٹ کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کم زور طلبہ کے معیار کو بلند کرنے کے لیے راقم کے کتابچے بہ عنوان ’’کم زور طلبہ کی سطح کیسے بلند کریں؟ ’’ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتابچہ میں تعلیمی انتہائی نگہ داشت کو انجام دینے کا طریقہ کار و ضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تعلیمی وظائف کی تقسیم کا کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ مل کر مالیات سے متعلق مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اگر طلبہ کو انگریزی زبان اور ریاضی سکھادی جائے تو وہ تعلیم میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ عام طور پر مسلم سماج میں تعلیم یافتہ خواتین شادی کے بعد ملازمت کرنا پسند نہیں کرتیں۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ ایک دو گھنٹے یا تو اپنے گھروں میں کوچنگ سینٹر قائم کر یں یا قریب کے کسی سرکاری یا نجی اسکول میں اپنی خدمات پیش کریں۔ اس کے لیے وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (NIOS) اور دیگر بورڈ اور اداروں سے مدد حاصل کر سکتی ہیں، جواوپن اور فاصلاتی طریقوں سے تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ اگر انگریزی زبان اور ریاضی کو پڑھایا جائے تو طلبہ کی عام سطح بلند ہوگی اور وہ تمام مضامین کو سمجھ سکیں گے اور پڑھنے میں زیادہ دل چسپی لیں گے۔

سرکاری اسکولوں پر توجہ دینا

مسلم ملت کے ذریعے قائم ہونے والی این جی اوز تعلیمی میدان میں کام کرنے والے سرکاری اسکولوں کی مدد کا کام بھی کریں گی اور ان اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کو درکار ضروری امداد بھی فراہم کریں گی۔ سرکاری اسکولوں میں جانے والے طلبہ کے والدین کو خصوصی پیرنٹنگ سیشن (parenting sessions) کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے این جی اوزاسکولوں کوکمیونٹی سے جوڑنے والی اسکیم کے تحت ان اسکولوں کے والدین کے لیے پیرنٹنگ کلاسوں (parenting classes) کا انعقادکریں۔ مسلم ملت کو حکومت کے زیر انتظام اداروں میں اپنا مثبت رول ادا کرنا چاہیے۔ چھوٹے اسکولوں کو بہتر انفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچے) فراہم کرنے اور ان میں باہمی امداد کا نظم قائم کرنے کے لیےتعلیمی اداروں کی ایک کوآپریٹو سوسائٹی(cooperative society) شروع کی جا سکتی ہے۔

سماجی اداروں کا قیام

ایسے تعلیمی اداروں کی مدد کے لیے سماجی ادارے قائم کیے جائیں جو مالی طور پر کم زور ہیں۔ اس میں شریک ہونے والے تعلیمی اداروں کو مدد فراہم کی جائے۔

پالیسیوں کے تعلق سے مثبت کردار

کسی بھی صحت مند جمہوریت میں پالیسی سازی کے عمل میں دل چسپی،پالیسی ساز اداروں میں شمولیت و مشورے اور پالیسیوں پر ناقدانہ رد عمل جمہوریت کو طاقت ور بنانے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ بھارت کے مسلم سماج میں اس طرح کے این جی اوز کی کمی محسوس کی جاتی ہے جو خاص طور سے تعلیم کے سلسلے میں ہونے والے پالیسی سازی کے عمل میں اپنا فعال رول ادا کریں۔

تعلیم پر تحقیق

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال سے واقفیت کے لیے سروے، مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی توجہ اس بات پر مرکوز کی جائے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی و استحکام کی پالیسی اور پروگرام بنائیں۔

حکومت اور شہریوں کے درمیان خلا کو پُر کرنےکی حکمت عملی

اس کام کے لیے این جی اوز سے مدد اس لیے لی جاتی ہے کیوں کہ وہ حکومت اور شہریوں کے درمیان خلا کو پُرکرتی ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے مثبت اقدام کے نفاذ میں اعلیٰ سطحی بدعنوانی غالب ہے۔ این جی اوز اس ضمن میں نگراں کے طور پر کام کرسکتی ہیں۔ اس طرح وہ حکومت کی جانب سے طے شدہ کروڑہا سرمائے کی اسکیمات میں ہونے والی بدعنوانیوں پر قابو پاسکیں گی۔ عام طور پر ان اسکیموں سے بعض مخصوص ادارے استفادہ کرتے ہیں۔ اسکیم کے حصول کے لیے افسران اور دلالوں کو بڑی مقدار میں کمیشن دینے کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں۔ ان سب خامیوں پر این جی اوز نظر رکھ سکتی ہیں۔

تعلیم کا جامع نقطہ نظر

این جی اوز اسکولوں،خاص طور پر ایسے اسکولوں کی جہاں اقلیتی طلبہ بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں،مدد کے لیے منصوبہ (پروجیکٹ) تیار کریں۔ وہ تعلیم کے لیے ایک ایسے جامع نقطہ نظر کے نفاذ کی کوشش کریں جو شہریت کی تربیت (citizenship training)فراہم کرے۔ اس کے علاوہ این جی اوز پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے اسکولوں میں ضروری سرگرمیاں انجام دیں۔ ان اہداف کے سلسلے میں نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 زور تو دیتی ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام ابھی طلبہ میں ان اہداف کے حصول کا شعور بے دار کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے طلبہ کو ان اہداف سے آگاہی بھی حاصل نہیں ہے۔ ان اہداف پر کام کرنے کے لیے مسلم این جی اوز کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اسی طرح فی زمانہ اکیسویں صدی کے ہنر کا بھی بڑا شور و غوغا ہے۔ یہ صلاحیتیں بعض بین الاقوامی تنظیموں بشمول امریکہ کی مشہور یونی ورسٹی ایم آئی ٹی (Massachusetts Institute of Technology) نے طے کیے ہیں۔ یہ بارہ صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جنھیں طلبہ میں نصاب کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پیدا کرنا ہے۔ یہ صلاحیتیں نئی نسل کو انٹرنیٹ کے اس دور میں عالمی شہری بنانے کے لیے ضروری تصور کی جارہی ہیں۔

اساتذہ کی تربیت

اسکولوں کی مدد کے ذیل میں یہ بھی اہم ہے کہ این جی اوز اساتذہ کو تدریسی مہارتوں کی تربیت دے کر انھیں اپنے موضوع کا ماہر بنانے کا کام کریں۔

کوچنگ سینٹر

این جی اوز کا ایک خاص میدان کار یہ بھی ہے کہ وہ مستحق اور غریب طلبہ کے لیے مختلف کورسوں کے لیے منعقد ہونے والے مسابقتی امتحانات میں کام یابی کے حصول کے لیے کوچنگ سینٹر قائم کریں۔ اس حوالے سے خاص طور پر قومی اہمیت کے اداروں جیسے این ڈی اے، سینٹرل یونیورسٹی انٹرینس ٹیسٹ (CAD)، کامن لا ایڈمیشن ٹیسٹ (CLAD) وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جاسکتی ہے۔

یوں تو بعض ادارے اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں جن میں اکثریت کانوینٹ اداروں کی ہے۔ غریب نادار اور دیہاتی طلبہ کے لیے کوچنگ سینٹر سے قبل انکیوبیٹر (incubators)قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انکیوبیٹر میں دراصل ذہین، محنتی، دل چسپی اور عزم رکھنے والے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ کوچنگ سینٹر میں داخلہ سابقہ امتحانات میں حاصل شدہ نمبرات کی بنیاد پر ہوتا ہے جب کہ انکیوبیٹر میں داخلہ طالب علم کے شوق، جذبہ اور ذہانت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ملت کے کئی ذہین طلبہ مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے امتحانات میں اپنے جوہر نہیں دکھا پاتے۔ ایسے طلبہ کی نشان دہی اور انھیں تراش کرکے لعل و گوہر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کام میں این جی او زکا کلیدی کردار ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ این جی اوز طلبہ کو سائنس، ریاضی اور کھیلوں (sports) کے مختلف مقابلوں کے لیے تیار کرنے کی کوشش کریں۔

فنون اور ثقافت

دیکھا گیا ہے کہ فنون اور ثقافت کے میدان میں صرف چند این جی اوز ہی کام کر رہی ہیں۔ ایسی این جی اوز قائم کرنے کی ضرورت ہے جو مسلم اقلیتوں سے متعلق فنون، ثقافت، دست کاریوں اور اچھی تہذیبی روایات کا تحفظ کرسکیں اور انھیں فروغ بھی دے سکیں۔ اس میں مثال کے طور پر فن خطاطی، نغمہ سرائی، ڈراما، مختلف اقسام کی دست کاری وغیرہ شامل ہیں۔

ریاستی سطح پر این جی اوز کو ایس سی ای آرٹی اور دیگر نجی ناشرین کے ذریعے شائع کی جانے والی نصابی کتب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے این جی او زکو نصاب اور نصاب کے ڈیزائن کی تشکیل میں مسلم ملت کی نمائندگی بھی کرنی چاہیے۔ تقریبًا ملک کی تمام ریاستوں میں درسی کتب کی تیاری کا کام ایس سی ای آر ٹی کرتے ہیں۔ ان کے نام مختلف ہیں۔ درسی کتب کی تیاری میں کبھی سہواً تو کبھی دیگر وجوہات کی بنا پر غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ ان غلطیوں کا اثر طلبہ کے ذہنوں پر بڑا منفی ہوتا ہے۔ ایسی کوتاہیوں کی نشان دہی کرنا،نشان دہی سے قبل نصاب اور کتب کی تیاری میں شمولیت اختیار کرنا،تعلیم کے میدان میں ایک اہم کام ہے۔ تعلیمی میدان میں سرگرم باشعور افراد اس کام کے لیے ہر ریاست میں ایک این جی او قائم کریں۔

ایسی بھی این جی اوزہونی چاہئیں جو اقلیتوں کی تعلیم کے حوالے سے مرکزی و ریاستی حکومتوں کے بجٹ کا جائزہ لیتی رہیں۔ بجٹ کی منظوری سے قبل اسکیموں کو وضع کر نے کا حکومت کو مشورہ دے۔ منظور شدہ اسکیموں کے متعلق عوام تک معلومات پہنچانے کا موثر انتظام کرے۔ مالیاتی سال کے اختتام سے قبل بجٹ کے استعمال کا جائزہ لے اور محسوس کی گئی کمیوں کوسرکاری عہدیداروں اور سیاسی لیڈروں تک پہنچائے۔ یہ این جی اوز بجٹ میں مناسب اضافے کے لیےگروپ سازی (lobbying) کا کام بھی کریں۔

ہم خیال این جی اوز کو آپس میں تال میل اور تعاون و اشتراک کے ذریعے ان کاموں کو انجام دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے مرکزی تعلیمی بورڈ اپنا بھر پور تعاون پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔

ملت کی جانب سے چلائے جا رہے اداروں کے انفراسٹرکچر(ڈھانچے) ایک مدت کے بعداستعمال میں نہیں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجدوں، درگاہوں اور خانقاہوں کے تحت موجود وسیع و عریض اداروں کا تعلیمی اور ثقافتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے این جی اوزپروگرام بنا سکتی ہیں۔ اس سلسلے کی چند تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:

ان جگہوں پر کوچنگ سینٹر کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔

اسٹڈی سینٹر، جہاں طلبہ کو خود مطالعہ کے لیے جگہیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔

اسکل ڈیولپ منٹ سینٹر کا قیام

یوپی ایس سی اور ریاستوں کے سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کے مراکز

اسپورٹس کلب کا اہتمام

ملت کی سماجی زندگی میں کھیل کو د کی اہمیت بڑی حد تک کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے برخلاف کھیل کود کو ٹی وی اور موبائل فون پر دیکھنے کا شوق بڑھ رہا ہے۔ کھیل کود کو ملت کے مذہبی وغیر مذہبی اداروں اور شخصیات کے ذریعے جتنی اہمیت اور توجہ ملنی دینی چاہیے تھی وہ نہیں مل سکی ہے۔ کھیل کود کی سرگرمیوں کے کئی فائدے ہیں۔ صحت مندی، تناؤ سے نجات اور زندگی میں نظم و ضبط کی عادت کا فروغ پانا کچھ اہم فائدے ہیں۔ ان تمام سے بڑھ کر جب نوجوان اپنی صلاحیتیں کھیل کود میں لگاتے ہیں تو بہت سی گندی عادتوں جیسے نشہ خوری سے بھی پرہیز کرنے لگتے ہیں۔ ان دنوں اسپورٹس کے بجائے ورزش خانوں اور جِم جانے کی روایت چل پڑی ہے۔ حالاں کہ جِم کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ملت کے نوجوانوں میں اسپورٹس کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ملت کے ذریعے قائم کردہ اسکولوں کے میدانوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ محلے میں اسپورٹس کلب قائم کیے جائیں۔ یہ کلب تکثیری سماج میں دیگر مذاہب کے نوجوانوں کو قریب لانے اورانھیں مسلم کلچر سے واقف کرانے میں مدد کریں گے۔

ایک زمانے میں تعلیم بالغان کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ اب تعلیم بالغان کو دیگر انداز سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً کسی شہر میں آٹو رکشہ ڈرائیور کو آداب گفتگو اور گاہکوں کے ساتھ پیش آنے کے آداب سکھائے جائیں۔ ترکاری اور پھل فروخت کرنے والوں کو بنیادی تجارتی آداب سکھائے جائیں۔ نوجوانوں کو انگریزی اور سیلز مین شپ (salesmanship)کی ٹریننگ دی جائے۔ مختلف اقسام کی لطیف مہارتیں (soft skills) سکھانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے اسکولوں میں موجود جگہ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اوقاف کے ساتھ تعاون

گرچہ یہ مشکل امر ہے لیکن این جی اوز کو وقف کی جائیدادوں اور وقف کے فنڈ کےبہتر استعمال کے لیے وقف بورڈ اور محکمئہ وقف کے ساتھ تعاون کرکے ملت کے تعلیمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

موجودہ سیاسی حالات میں اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو کچھ سیاسی نوعیت کے قانونی مسائل سے بھی دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ ان چیلنجوں سے مقابلے کے لیے ریاستی سطح پر تعلیمی اداروں کو قانونی صلاح دینے کے لیے ماہرین کی ضرورت ہے۔ یہ کام بھی این جی اوز اپنے ذمے لے سکتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ضرورتیں اور ان کی تعلیمی ترقی کے تمام ہی منصوبے اور پروگرام مسلمانوں کی غیر سرکاری تنظیموں کی خصوصی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کی سنجیدہ کوششیں ان منصوبوں کی کام یاب تکمیل میں یقینًا اہم کردار ادا کریں گی۔ مسلم این جی اوز کی فعالیت حقیقت میں مسلم ملت کو فعال بنانے کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau