آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے معاشرتی، تعلیمی اور معاشی انحطاط کا سلسلہ جاری ہے۔ اس انحطاط کو روکنے سے غفلت کا ارتکاب ریاستی اور مرکز ی حکومتوں نے بھی کیا اور اس میں بڑی حد تک ہماری بے توجہی کو بھی دخل رہا۔ دستوری تحفظات اور سیاسی پارٹیوں کے مسلسل وعدوں کے باوجود گزشتہ ۰۶ برسوں کے دوران ملک کی سب سے بڑی اقلیت زندگی کے تمام شعبوں میں پچھڑتی رہی اور اکثر و بیشتر اس کے خلاف جانبدارانہ رویہ اپنایا جاتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ سچ یہ ہے کہ دستوری تقاضے اور سیاسی یقین دہانیاں انھی قوموں کے لیے مفید بن پاتی ہیں، جو ملک کے جمہوری عمل میں منظم ہو کر اپنے ایجنڈے کے ساتھ شریک رہتی ہیں اور اس پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ملی تنظیموں کا استعمال اپنے افراد اور اداروں کے لیے چند چھوٹی چھوٹی مراعات حاصل کرنے سے گریز کیا جائے اور بحیثیت مجموعی ملت کے ترقیاتی ایجنڈے پر زور دیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں سے باوقار معاملات کیے جائیں۔ انگریز خان بہادر بناتے تھے اور جمہوری ہندستان میں راجیہ سبھا کی سیٹ دی جاتی ہے۔ اب اگر ملی تنظیموں کے افراد اسی کو بڑی چیز سمجھ کر اور وقتی فوائد کے چکر میں طویل المیعاد ملی فوائد پر توجہ مرکوز نہ رکھ پائیں تو مسلم ملت کا نہ سیاسی وزن اور اعتبار بڑھ سکتا ہے اور نہ ان کے حقیقی مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
زندگی کے مختلف میدانوں میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف ایک حقیقی مسئلے سے عوام الناس کو باخبر کرانا چاہتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ اسی طرح دوسرے میدانوں میں بھی کس توجہ اور مشقت کے ساتھ منصوبہ بندی اور اس سلسلے میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں پر مسلسل دباؤ بنانے کی ضرورت ہے۔
زندگی کے مختلف میدانوں میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک سنجیدہ جائزہ جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس رپورٹ میں اعداد و شمار کی روشنی میںحقیقی صورت حال اور اس صورت حال کو بدلنے کی قابل عمل تدابیر جس انداز سے پیش کی گئی ہیں، وہ اپنی بعض کمیوں کے باوجود لائق ستائش ہیں۔ اس رپورٹ میں نہ صرف حکومت کو متوجہ کیا گیا ہے، بل کہ خود ملت کی سطح پر مطلوبہ اقدامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ کیا کام ہے، جو حکومت کو لازماً کرنا چاہیے اور کیا ترجیحات ہیں، جو ہمیں اور ہماری مختلف تنظیموں، انجمنوں اور اداروں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں پورے ملک میں مسلم اوقاف کی موجودہ صورت حال کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور متعین طورپر ایسی سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں،جو بدلتے حالات میں اوقاف جائدادوں کے بہتر نظم و انصرام اور ان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اسی کے ساتھ اس رپورٹ میں اوقاف کے بہتر استعمال سے ملت کی معاشی اور تعلیمی بہبود کی راہیں بھی سجھائی گئی ہیں۔
با وجوداِس کے پورے ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائدادوں کا مکمل سروے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے، موجود ریکارڈ کی روشنی میں ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف جائدادوں کی تعدار چار لاکھ نوے ہزار ﴿۴۹۰۰۰۰﴾سے زیادہ ہے۔ ان اوقاف سے فی الحال ۱۶۲ کڑور روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔کمیٹی کا اندازہ ہے کہ ان جائدادوں کی بازاری قیمت (Market Value) آج کی تاریخ میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کڑور روپے ہوگی۔ اگر اوقاف کی ان جائدادوں کو آمدنی کے نئے امکانات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کم از کم دس فیصد سالانہ آمدنی کے لحاظ سے کل آمدنی بارہ ہزار کڑور روپے ہونی چاہیے۔ تجربے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جہاں کہیں اوقاف کی زمینوں کا بھر پور اور بہتر انداز میں استعمال کیا گیا ہے، وہاں سالانہ شرح آمدنی ۶۲ فی صد ہوئی ہے۔ جس ملت کے پاس اوقاف کی شکل میں اتنا عظیم الشان اثاثہ ہو، اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وسائل کا رونا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ اوقاف کے ان وسائل کے علاوہ خود حکومت بھی اپنی مختلف اسکیموں اور پروگراموں میں مسلم اقلیتوں کی ترقی کے لیے خصوی وسائل کی فراہمی کے لیے پابند ہے۔ اگر وقف جائدادوں کا مناسب اور ایماندارنہ استعمال کیا جاتا تو واقفین کے منشائ کے مطابق اس سے فیضیاب ہونے والوں کی معاشرتی، تعلیمی اور معاشی صورت حال آج وہ نہ ہوتی جو سچر کمیٹی رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔
اوقاف جائدادوں کی موجودہ صورت حال سے ہم واقف ہیں۔ یہ مال یتیم ہے جس پر دست درازی حکومت بھی کر رہی ہے اور بلا تفریق ملت و قوم افراد، انجمنیں اور ادارے بھی کررہے ہیں۔ بل کہ صورت حال تو ایسی ہے کہ خود متولی بھی ان جائدادوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر ہر طرح کی من مانیاں کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایسی وقف جائدادیں ہیں، جنھیں حکومت یا افراد نے ہڑپ کر لیا اور اکثر وبیشتر وقف جائدادوں کا حال یہ ہے کہ کرائے کے نام پر انتہائی حقیر رقم لی جاتی ہے یا دی جاتی ہے۔ بہت سے متولی ایسے ہیں جو خفیہ طور پر ایک موٹی رقم لے کر اونے پونے کرائے پر وقف جائدادوں کو دے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں ان وقف جائدادوں کے ذریعے ملت کی تعمیر و ترقی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
وقف ایکٹ کے تحت ریاستی سطح پر وقف جائدادوں کے نظم و انصرام کے لیے وقف بورڈ قائم ہیں۔ لیکن وقف بورڈ کو جس طرح ریاستی حکومتیں اپنی سیاسی بازی گری کا نشانہ بناتی رہی ہیں، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہر نئی حکومت اپنی منشائ کے مطابق وقف بورڈ کی تشکیل نو کرتی رہی ہے۔ اس معاملے میں نہ تو وقف ایکٹ کو خاطر میں لایا جاتا ہے اور نہ وقف جائدادوں کے بہتر نظم و انصرام کو ترجیح دی جاتی ہے۔بہار کا معاملہ سامنے رکھیے۔ ۳۷۹۱ئ سے ۹۸۹۱ ئ کے دوران پندرہ سالوں میں بارہ مرتبہ وقف بورڈ میں پھیر بد ل کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے بھی سخت تبصرہ کیا۔ اپریل ۳۷۹۱ئ میں بہار میں سنٹرل وقف ایکٹ ۴۵۹۱ئ لاگو ہوا، جس کے مطابق وقف جائدادوں کا سروے کرنا ضروری تھا۔ لیکن بہار میں آج تک سروے کا کام نہیں کرایا گیا۔ اس کام کے لیے ضروری تھا کہ سروے کمشنر کی بحالی عمل میں آتی اور مناسب تعداد میں افسروں اور عملوں کو تعینات کیا جاتا۔ بغیر سروے یہ کے کہا جاتا ہے کہ بہار سنی وقف بورڈ کے تحت ۲۰۰۰ وقف جائدادیں ہیں۔ ان جائدادوں کا کیا حال ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مختلف جائدادوں کی سالانہ آمدنی کا، جو ۷ فیصد حصہ ریاستی وقف بورڈ کے پاس جمع ہوتا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ وقف بورڈ کے ملازمین کا مشاہرہ بھی پورا نہیں ہو پاتا۔
وقف ایک امانت ہے جس کی حفاظت کی ذمے داری صرف اس کے متولین پر ہی عائد نہیں ہوتی، بل کہ اجتماعی اعتبار سے پوری ملت کو وسیع تردینی و ملی مفادات کے تحت اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے جس کی تلقین نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے اور جسے روبہ عمل لاکر آپ نے موکد کیا ہے اور جسے آگے بڑھانے کا کام آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے دور مبارک میں جاری رہا۔ اسلامی فقہ میں اوقاف کے بارے میں جو بحثیں کی گئی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ادارہ کی شر عی حیثیت اور اس کے موثر نظم و انصرام کے مختلف پہلوؤں پر ہمارے فقہائ نے حالات اور زمانے کے اعتبار سے بھر پور رہنمائی کی ہے۔ واقف کے جذبے اور محرک کے پہلو سے ملکیت خدا کی ہوتی ہے کیوں کہ واقف نے رضاے خداوندی کے لیے اپنا مال وقف کیا ۔ دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو واقف کے پیش نظر مقصد کے اعتبار سے ملکیت خلق خدا کی ہو تی ہے۔ کیوں کہ واقف نے اپنا مال ان کی بھلائی کے لیے وقف کیا۔ وقف سے متعلق اس گفتگو کا منشا یہ ہے کہ وقف املاک میں متولی حضرات کے تصرف کا دائرہ اور اس کی شرعی حدود کیا ہیں، ہم پر واضح رہیں۔ اس کی حیثیت میں ہمیشگی اور غربائ اور ضرورت مندوں کی امداد کا عنصر لازمی اور نمایاں ہے ۔ یہاں تک کہ اگر واقف ان کا تعین نہ بھی کرے تو از خود وقف میں یہ عناصر شامل مانے جائیں گے۔جب تک کہ وہ املاک باقی ہیں ان میں اضافہ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن انہیں تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی آمدنی کو واقف کے منشائ اور بدلتے ہوئے حالات میں ملت کے ضرورتمند طبقے کی امداد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مسلمانوں کی چودہ سو﴿۱۴۰۰﴾ برس کی تاریخ میں اوقاف کے ادارے نے بہ حیثیت مجموعی ملت کی تعلیم، صحت، ثقافت، معاش، سائنسی تحقیق،دینی و مذہبی علمی سرگر می اور دیگر ترقیاتی معاملات میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً سسلی میں اسلامی دور حکومت میں۳۰۰ ابتدائی اسکول کی تعمیر، ان کے اساتذہ کا مشاہرہ اور طلبا کی ضروریات وقف کی آمدنی سے پوری کی جاتی تھیں۔ دمشق، بیت المقدس، بغداد، قاہرہ اور نیشاپور جیسے بڑے شہروں میں وقف املاک کی آمدنی سے ہی ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض یونیورسٹی طب، کیمسٹری اور اسلامی علوم کے لیے مخصوص تھیں۔ اوقاف کی آمدنی سے ان یونیورسٹیوں کی عمارتوں کی تعمیر پر بھی خرچ کیا جاتا تھا اور اساتذہ کے مشاہرے، نصاب کی فراہمی، تحقیقی اور سائنسی کتب کی خریداری اور طلبا کے لیے وظائف کی فراہمی بھی کی جاتی تھی۔ عوام کو مفت طبی خدمات کی فراہمی، اسپتالوں کا قیام، اطبائ کا مشاہرہ، دواؤں کے ساتھ مریضوں کو غذا کی فراہمی، یہ سب چیزیں وقف کی آمدنی سے کی جاتی تھیں۔ وقف کے سلسلے میں ان معروف روایتوں کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا ہے تاکہ ہمارے سامنے نئے حالات و مسائل میں وقف جائدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنیوں کے صحیح اور بہتر استعمال کی مختلف صورتیں واضح رہیں۔
وقف جائدادوں اور ان کے نئے ترقیاتی اور منافع بخش امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے سچر کمیٹی میں جو سفارشات پیش کی گئیں ہیں، وہ بہت اہم ہیں۔ ضروت ہے کہ ان سفارشات کو منوانے کی مستقل کوشش کی جاتی رہے۔ان میں سے بیشتر کا تعلق حکومتی سطح پر مطلوبہ اقدامات سے ہے۔
سچر کمیٹی نے بعض اہم قانونی اصلاحات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ تاکہ وقف املاک کو ناجائز قبضہ سے چھڑانے، وقف سے متعلق حکومت کے ذمّے واجب الادا بڑی بڑی رقموں کی وصولیابی، Rent Control Act، Land Ceiling Act، Income Tax Actاور اسی طرح کے دوسرے قوانین اور ضابطوں سے وقف املاک اور اس سے ہونے والی آمدنیوں کو مستثنیٰ رکھنے اور وقف املاک سے متعلق مقدمات کے جلد نپٹارا کو ممکن بنایا جاسکے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کا دوسرا اہم جز موجودہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کے انتظامی ڈھانچے اور اس کی تشکیل میں بعض ضروری اصلاحات سے متعلق ہے۔ بلا شبہ وقف سے متعلق موجودہ انتظامی ڈھانچااطمینان بخش نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ایک طرف تو حکومت کا دائرہ کار وقف کے انتظامی اداروں کے سلسلے میں معاونت اور سہولت رسانی (Cooperation ‘ Facilitation) تک محدود رہے اور ان اداروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں خود مختاری اور قانونی تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوگا، کہ ان اداروں کی تشکیل میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی شمولیت ، خاص طور پر مالی، اقتصادی، تعلیمی، تعمیراتی اور قانونی شعبوں سے متعلق شخصیتوں اور ماہرین کا تقرر اور اس کے لیے ایک الگ انتظامی عملہ کی بحالی ، جو اردو اور اسلامی قوانین کے سلسلے میں مطلوبہ معلومات کو یقینی بنایا جائے۔ میں اس بات کا اضافہ بھی کرنا چاہوں گا کہ ان اداروں میں مشہور علمائ اور دینی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
وقف املاک کے لیے نئے ترقیاتی منصوبوں اور ملت کی معاشی اور تعلیمی ترقی میں اس کے موثر کردار کے لیے سچر کمیٹی نے مرکزی اور ریاستی سطح پر وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قیام کی سفارش بھی کی ہے۔ادارہ جاتی لحاظ سے یہ ایک اہم سفارش ہے۔ اسی کے ساتھ سبھی اوقاف کو لازمی اعتبار سے مالیاتی احتساب financial audit کے دائرے میں لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وقف املاک، جس خستہ حالی کا شکار ہیں ان میں نئی زندگی پیدا ہوگی ، بدلتے ہوئے حالات میں ان وقف جائدادوں کی سالانہ آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور اس کے منتظمین مالیاتی امور میں زیادہ چوکس اور جواب دہ ہوں گے۔
مرکزی اور ریاستی حکومتیں ان سفارشات کو سنجیدگی سے لیں اور اس پر عمل آوری کے لیے تیا ر ہوں، اس کے لیے مناسب ہوگا کہ ایک طرف تو متولی حضرات کواعتمادمیں لیا جائے، ان کے لیے ورکشاپ کیے جائیں اور وقف بورڈ کے ذمے داروں کے ساتھ مسلسل مکالمات کیے جائیں۔ تاکہ وقف سے متعلق ہماری سوچ اور ہمارا لائحہ عمل سرکاری سطح پر معقولیت کے ساتھ پہنچ سکے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہوگا ،کہ ہم عوامی سطح پر ریاستی پیمانے سے لے کر مقامی سطح تک پوری ملت کو متحرک کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ مختلف مجلسوں، جلسوں، ملاقاتوں اور تقریبات میں حکومت کے عوامی نمائندوں اور وزرائ کے سامنے اس ایشو پر ایک ہی انداز میں ہمارا موقف، ہما را مطالبہ بار بار لایا جا سکے۔ اگر ہم عوامی سطح پر ایسی فضا تیار کرنے میں کامیاب ہو سکے تو امید رکھنی چاہیے کہ صرف اوقاف ہی نہیں، بلکہ اس رپورٹ میں جن دوسرے پہلوؤں پر سفارشات پیش کی گئی ہیں، انھیں بھی نظر انداز اور مسلسل نظر انداز کرتے رہنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جمہوری نظام میں عوامی رائے عامہ اور اس کے مسلسل دباؤ کے بغیر اس بات کی توقع کرنا فضول ہوگا کہ ہماری فلاح و بہبود کے لیے کو ئی بھی سفارش، خواہ کتنی ہی معقول اور ضروری کیوں نہ ہو، اسے تسلیم کر لیا جائے گا اور اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کے تحت بننے والی اسکیموں کو زمین پر اتارنا ممکن ہوسکے گا۔ حکومت کی طرف سے ہماری تعلیمی، معاشی اور سماجی بہتری کے لیے کتنی ہی اسکیمیں جاری کی گئیں، لیکن ان کے فوائد سے ہم محروم رہ گئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ نہ رائے عامہ بیدار و باخبر کی جاسکی اور نہ مقامی سطح سے ضلعی اور ریاستی سطح تک ہمارے درمیان نگرانی اور رابطہ (Monitoring ‘ Contact) کا نظام بنایا جاسکا۔ اگر ہم اپنی ترقی کے تئیں سنجیدہ ہیں تو یہ کام ہمیں کرنا ہے اور اس کے لیے فضائ بھی تیار کرنی ہے۔ شہروں کو رہنمائی کرنی ہوگی اور گاؤں سے بلاک کی سطح پر جو بھی ٹوٹے پھوٹے متحرک افراد ہیں، انہیں جوڑ کر ایک نیٹ ورک قائم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ملت تک کچھ فیصد بھی اسکیموں کو عملاً پہنچا سکے تو یقین رکھیے کہ عوام کی بڑی تعداد ایک آواز پر ہر ایشو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی۔ ‘‘
مشمولہ: شمارہ جنوری 2011