ہندستانی سماج اور تحریک اسلامی ہند

مولانا سید جلال الدین عمری

جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع ارکان منعقدہ ۴-۷/نومبر ۲۰۱۰کے افتتاحی اجلاس میں مولانا سید جلال الدین عمری امیرجماعت اسلامی ہند نے “ہندستانی سماج اور تحریک اسلامی ہند” کے موضوع پر خطاب فرمایاتھا۔ چوںکہ موصوف نے اس میں جن امور کی جانب توجہ دلائی ہے وہ امت مسلمہ کے تمام افراد کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے شکریے کے ساتھ اسے ماہ نامہ زندگی میں بھی شائع کیاجارہاہے۔﴿ادارہ﴾

انَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الاسْلاَمُقف وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ الاَّ مِن بَعْدِ مَا جَآئ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْط وَمَن یَّکْفُرْ بِاٰ یَاتِ اللّہِ فَاِنَّ اللّہِ سَرِیْعُ الْحِسَابِo        ﴿آل عمران:۱۹﴾

’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرزعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایساکیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکارکرے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔‘‘

مکرم ومحترم ارکان جماعت مرد و خواتین!      السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘

ارکان جماعت کا کل ہند اجتماع ۲۵/ تا ۲۸/اکتوبر ۲۰۰۲ کو مرکز کے اسی کیمپس میں منعقد ہواتھا۔ اس کے آٹھ برس بعد ہم ﴿۴ /تا ۷/نومبر۲۰۱۰ ﴾اسی کیمپس میں دوبارہ جمع ہیں۔ آپ حضرات نے دہلی سے نسبتاً متصل علاقوں سے بھی اور دور درازگوشوں سے بھی یہاں آنے کے لیے زحمت سفر برداشت کی ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آنے والے ساتھیوں میں نوجوان اور جوان سال ہم سفر ارکان بھی ہیں اور ہمارے بزرگ اور معمررفقاء بھی۔ آپ کا یہ سفر ’’اقامت دین‘‘ ہی کا ایک حصہ ہے، جو ہمارا نصب العین ہے اور جس کے لیے ہم سعی وجہد کررہے ہیں۔ میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ ہمارا یہ اجتماع اپنے مقصد میں کام یاب ہو۔ ہم سب ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں آگے بڑھیں اور ملک و ملت کی راہ نمائی کا فرض بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔

رفقاے محترم! آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا نے مادی لحاظ سے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور مزید ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ تعلیم و تدریس عام ہورہی ہے، ریسرچ اور تحقیق کے نئے نئے پہلوتلاش کیے جارہے ہیں۔ قدیم اور جدید معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ اقتصادی میدان میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ مختلف ممالک اس معاملے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں ہیں۔ جو چیزیں دست یاب نہیں تھیں، وہ قابل حصول ہیں۔ عیش و عشرت کے سامان کی فراوانی ہے۔ آمد ورفت کی غیرمعمولی سہولتیں حاصل ہیں۔ جو سفر ہفتوں اور مہینوں میں طے ہوتے تھے وہ دنوں میں، بلکہ گھنٹوںمیں طے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئی اہم واقعہ پیش آئے وہ سب کی نگاہوں میں آجاتاہے اور اس پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔ رسل و رسائل اور پیغام رسانی کے ذرائع اس قدر ترقی کرچکے ہیں کہ منٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بات آسانی سے منتقل ہوجاتی ہے۔ ان تمام وجوہ سے دنیا ایک بستی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو ممالک سائنس اور ٹکنالوجی میں جتنے آگے ہیں، ان کو مادی سہولتیں بھی زیادہ حاصل ہیں اور وہی دنیا کی قیادت بھی کررہے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک مادی ترقی سے چمک رہے ہیں اور اس کی چمک دمک سے نگاہیں خیرہ ہورہی ہیں، دوسری طرف افریقی ممالک ہیں جہاں اکثریت غربت، افلاس، مرض اور جہالت کی شکار ہے اور بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے اور کہیں کہیں تو وہ جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

آج ہر طرف انسانی حقوق کا چرچا ہے، لیکن جدھر دیکھیے ، انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ خاص طورپر اقلیتوںاور کم زور طبقات کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ ہرفرد کا یہ حق سمجھاجاتا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات کا سلوک ہو اور اسے عدل وانصاف حاصل ہو۔ ریاست کی ذمے داری قرار دی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی فرق و امتیاز کے مظلوم کو انصاف فراہم کرے اورظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے۔ اس کے لیے ہرملک میں عدالتیں قائم ہیں۔ لیکن عدالتی کارروائی اتنی طویل اور پیچیدہ ہوتی ہے اور اس کے مصارف اتنے زیادہ ہیں کہ عام آدمی کے لیے حصولِ انصاف دشوار سے دشوار تر ہوگیاہے۔ بین الاقوامی سطح پر عدل و انصاف کی نگرانی کرنے والے ادارے موجود ہیں، لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ظالم اور جابر قوموں کے خلاف کوئی اقدام کریں۔

ہرطرف امن و امان کا ذکر ہے۔ ناجنگ معاہدے بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود دنیا جنگ و جدال سے محفوظ نہیں ہے۔ جنگ ظلم وجور کے خاتمے اور حق و انصاف کے قیام کے لیے ہوسکتی ہے، لیکن یہاں امن کے نام پر کم زور قوموںکاخون بہایا جارہاہے۔ اس کے خلاف کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔

ہمارا ملک بھی مادی ترقی کی راہ پر تیزی سے گام زن ہے اور ترقی پزیر ملکوں میں اسے سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک غیرمتوازن ترقی ہے۔ اس کا فائدہ شہری آبادی کو اور وہ بھی اس کے ایک مخصوص طبقے کو حاصل ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی غربت اور افلاس کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں کی ۰۴ فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی بیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ رہائش، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں بھی اسے میسر نہیں ہیں۔ ان حالات میں اسے اپنا وجود باقی رکھنا ہی مشکل ہے، وہ ترقی کے بارے میں کس طرح سوچ سکتی ہے؟

اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں، ان کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور باہم نفرت و عداوت ہے۔ اس وجہ سے ہی ذہنی فاصلے ہیں، انھیں سمجھنے اور دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے۔ ان مذاہب کے درمیان جو فرق و اختلاف ہے وہ بھی ملک کے سامنے اچھی طرح واضح نہیں ہے کہ وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں۔

ہندستان کا سماج مختلف ذاتوں اور طبقات میں منقسم ہے۔ ان میں سے بعض طبقات کو اعلیٰ و ارفع اور بعض کو ادنیٰ اور پست تصور کیاجاتاہے۔ اس عدم مساوات کو مذہبی سند بھی حاصل ہے۔ سیاسی پارٹیاں بہ ظاہر اس کے خلاف ہیں، لیکن عملاً اسے ختم کرنا نہیں چاہتیں۔ بل کہ اسے باقی رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور فائدہ اٹھارہی ہیں۔ ان کی پوری سیاست کسی نہ کسی طبقے کی حمایت پر ہورہی ہے۔

یہاں بعض طبقات تعلیمی اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں اور ملک کی زمامِ اقتدار انھی کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کے پست طبقات کو اوپر اٹھانے اور اقتدار میں انھیں شریک کرنے کی جو چھوٹی بڑی تدبیریں کی جارہی ہیں،وہ ناکافی ہیں۔ اس لیے ابھی وہ اقتدار سے دور ہی ہیں۔

یہاں اکثریت اور اقلیت کافرق بھی ہے۔ دستوری لحاظ سے سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن عملاً یہ حقوق اقلیتوں کو پوری طرح حاصل نہیں ہیں اور وہ تعلیم اور معیشت میںپیچھے اور سیاسی لحاظ سے کم زور ہیں۔ وہ ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہتے ہیں، ان کے ساتھ اور بھی مسائل ہیں۔

اس ملک بل کہ پوری دنیا کاایک اہم مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ کرپشن، رشوت، خیانت اور بدعہدی کازور ہے۔ یہاں کسی بھی شخص کو خریدا جاسکتا ہے اور پیسے کے ذریعے جائز اور ناجائز کام کیا اور کرایا جاسکتا ہے۔

جنسی تعلقات کو حدود کاپابند ہونا چاہیے، اس کی خلاف ورزی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب مغرب کے زیراثر جنسی آوارگی جس طرح پھیل رہی ہے وہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آزادانہ جنسی تعلق میں کوئی قباحت نہیں محسوس کی جاتی، اس پر کسی قسم کی بندش کو خلافِ فطرت تصور کیاجاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ہم جنسی کی لعنت کو بھی قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

یہ ملک سیاسی لحاظ سے سیکولر اور جمہوری ہے۔ اسی کی بنیاد پر یہاں کا اجتماعی نظام چل رہاہے۔ قوانین وضع ہوتے ہیں اور عدالتی نظام قائم ہے۔ اسی کو مضبوط بنانے کے لیے تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ لیکن مذہبی لحاظ سے یہاں کی اکثریت شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہے۔ اسی کے تحت عبادات ہوتی ہیںاور خوشی وغم کے ساری رسوم انجام پاتی ہیں۔ یہاں کی تہذیب و معاشرت پر مغرب کے اثرات بھی ہیں اور وہ اپنے مضبوط مذہبی اثرات بھی رکھتی ہے۔

یہاں احیاء مذاہب کاجذبہ بھی موجود ہے۔ ہندومت ، عیسائیت ، بدھ مت، جین مت اور اب تو یہودیت تک کی تبلیغ ہورہی ہے۔ اس کے لیے اسکول، کالج اور مختلف رفاہی ادارے کام کررہے ہیں۔

ان حالات میں ہم اقامتِ دین کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ ہمارا ایمان و یقین ہے کہ دنیا اور آخرت میں انسان کی فلاح اسلام ہی سے وابستہ ہے۔ اسی میں اس کے دکھ درد کاعلاج ہے اور اسی سے اس کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اسی سے انسانوں کے درمیان فرق و امتیاز ختم ہوسکتا ہے اور ظلم کاخاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام ممکن ہے۔ اسی سے سکون سے محروم انسان کو سکون و راحت اور آخرت کی فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔یہاں اس کے بعض پہلوئوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

موجودہ دور کا اجتماعی اور سیاسی نظام سیکولرزم اور جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہے۔ مذہب کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کردیاگیاہے۔ اس رویے کے حق میں عقل اور تجربے کو پیش کیاجاتاہے کہ انسانی عقل اس سے بہتر نظام تجویزنہیں کرسکتی اور مذہب دنیا کو عدل وانصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ مسائل کے حل کے لیے عقل اور تجربہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے خدا اور وحی و رسالت پر ایمان ضروری ہے۔ آخرت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ نیکی اور بدی کا وجود، انسان کی آزادیٔ فکر وعمل اور عدل و انصاف اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک روز انسان کے اعمال کا حساب و کتاب ہو اور اس کو اس کی جزا یا سزا ملے۔ آخرت کے انکار کے بعد انسان بے لگام ہوتا ہے۔ عقیدۂ آخرت کے بغیر انسان کے اندر اعلیٰ کردار پیدا نہیں ہوتا اور اسے ملکی قانون کا پوری طرح پابند بنانا بھی دشوار ہے۔

موجودہ دور نے مادی فلسفۂ حیات کواپنایا ہے۔ اس کاپورا طرز حیات اسی فلسفے کے تابع ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی نظرمحدود ہے۔ وہ اپنی ذات کے اردگرد گھومتاہے۔ یا زیادہ سے زیادہ اپنا خاندان اس کے پیش نظررہتا ہے، جس سے اس کے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ ملک و قوم کو بھی اپنے مفاد ہی کے پہلو سے دیکھتاہے۔ اس مفاد پرستی کے نتیجے میں یہاں خود غرضی ہے، ظلم اور ناانصافی ہے، استحصال ہے، جرائم ہیں اور جنسی آوارگی ہے۔ معاملات میں صداقت و راست بازی، تعلقات میں محبت، ہم دردی، ایثار اور قربانی جیسی اعلیٰ اخلاقی خوبیاں ختم ہورہی ہیں۔ اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام انسان کو مفاد پرست بننے سے روکتا ہے اور اس کے اندر اعلیٰ کردار پیدا کرتاہے اور اسے عدل و انصاف اور قانون کاپابند بناتاہے۔

اس میں شک نہیں کہ اس سلسلے میں جماعت کے پاس بڑا قیمتی لٹریچر موجود ہے۔ جماعت سے باہر کے حلقوں میں بھی اس پر بڑی قابل قدر کوششیں ہوئی ہیں۔ موجودہ الحاد اور بے دینی کے مقابلے کے لیے اس پورے ذخیرے سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ جدید حالات کے پس منظر میں اس علمی کام کو اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس طرف ہماری توجہ ہونی چاہیے۔

دعوتِ دین ، شہادت علی الناس اور اقامتِ دین پوری امتِ مسلمہ کی ذمے داری ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔وہ اپنی جدوجہد میں پوری امت کو شریک کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کی اصلاحی کوشش کا اہم پہلو ہے۔ اس کے لیے اس کی جدوجہد جاری ہے۔ اس کے اثرات کہیں کہیں محسوس ہورہے ہیں، امت کے اندر اس کا شعور بیدار ہورہاہے۔ مختلف افراد، مدارس اور حلقے اس طرف متوجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو کام یاب کرے۔

ایک سیکولرملک میںپندرہ کروڑ کی امت مسلمہ بعض مسائل سے بھی دوچار ہے۔ اس کا تعلق اس کے وجود و بقا سے بھی ہے اور اپنی دینی شناخت کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے سے بھی۔ ان مسائل میں جان ومال کی حفاظت، فسادات کی روک تھام، غربت و افلاس اور جہالت کا ازالہ، دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کانظم، مساجد اور مدارس کا قیام، پرسنل لا میں عدمِ مداخلت، اوقاف کا تحفظ اور ان کاصحیح استعمال، عدل وانصاف کا حصول اور ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس کے لیے چارہ جوئی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کی طرف جماعت کی شروع ہی سے توجہ رہی ہے۔ اس کے لیے وہ سیاسی سطح پر مختلف تدابیر اختیار کرتی رہی ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں وہ مزید مؤثر اقدامات کرنا چاہتی ہے۔

اسلام اللہ کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا خالق ومالک ہے۔ وہی ہماری عبادت واطاعت کا مستحق ہے۔ انسان کے لیے اس کے سوا نہ تو کسی کے سامنے سر جھکانا جائز ہے اور نہ اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکرکسی کی اطاعت ہوسکتی ہے۔ اللہ کا یہی دین اس کے پیغمبروں اور اس کے نیک بندوںکے ذریعے دنیا کو ملتارہاہے۔ آج بھی دنیا کو اس کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی دور کا انسان اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جماعت اپنے یومِ تاسیس سے اسی حقیقت کو واضح کرتی آرہی ہے۔ اس نے بتایاکہ اسلام چند عقائد و عبادات ہی کا نام نہیں ہے، بل کہ ایک نظام حیات ہے، جس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ جماعت اسلامی کی یہی شناخت ہے کہ وہ اسلام کو نظام حیات کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔

ہم جب کہتے ہیں کہ اللہ کے دین کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اس کے عقائد و عبادات، اخلاق وقانون، معیشت و معاشرت اور سیاست سب اس کے دائرے میں آتے ہیں تو بہت بڑا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میںزبردست تبدیلی کی دعوت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان عقیدۂ توحید قبول کرے اور اپنی زندگی میں خداپرستی کی راہ اختیار کرے۔ اس کے مطابق اس کی عبادات ہوں، اخلاقی قدریں اور معاشرت و معیشت سب کچھ اس سے ہم آہنگ ہو اور نظام سیاست اس کے تابع ہو۔ یہ دراصل اُدْخُلُوْ فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً کی دعوت ہے۔

ہم اسلام کو موجودہ نظامِ حیات کے متبادل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ہماری دعوتی و تعلیمی کوششوں میں یہی تصور کارفرما ہوتاہے اور اسی کے لیے ہم خدمتِ خلق کا کام انجام دیتے ہیں۔ ہماری جو مہمات ہوتی ہیں، ان کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتاہے کہ اسلام ایک متبادل کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے۔

ان تمام کوششوں کے باوجود یہ احساس ہورہاہے کہ اسلام کو اس ملک کے لیے اور پوری نوع انسانی کے لیے متبادل کے طورپر پیش کرنے کے لیے ابھی بہت جدوجہد اور تگ و دو کرنی ہوگی۔ یہ بات کھل کر کہنی چاہیے اور اس کے جو تقاضے ہیں وہ پورے ہونے چاہییں۔

جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاق اور قانون کی پابند ہے اور پُرامن ذرائع اختیار کرتی ہے۔ اس کی سرگرمیاں ملک کے سامنے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار بالکل کھلا ہواہے۔ وہ نہ تو خفیہ تدابیر اختیار کرتی ہے اور نہ مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور عداوت کے جذبات ابھارتی ہے۔ بل کہ انسانی جان ومال اور عزت و آبرو کے احترام کی تعلیم دیتی ہے اور محبت، ہم دردی اور نصح و خیرخواہی کے ساتھ اللہ کا دین ان تک پہنچاتی ہے۔

اس ملک میں جمہوریت ہے، جو یہ مواقع فراہم کرتی ہے کہ اسلام کا ہم بھرپور تعارف کرائیں اور بتائیں کہ اسی میں ملک کی اور پورے عالم کی فلاح ہے۔ اس کے تقاضے پورے کریں اور اس راہ میں جو رکاوٹیں ہیں، انھیں دور کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔‘‘

مشمولہ: شمارہ اپریل 2011

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau