مدارس کا تعلیمی معیار

حقائق اور مفروضات کا جائزہ

کسی معاشرے کی سماجی فلاح اور دنیا میں ترقی و کام یابی کے لیے علم کے حصول اور فروغ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تعلیم انسان کے اندر اس بات کا داعیہ اور احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات، خواہ وہ اپنی ذات کے تئیں ہوں یا سماج معاشرے اور خاندان کے تئیں،انھیں دیانت داری اور مہارت کے ساتھ ادا کرے، جس سے معاشرے کی چہار طرفہ نشوونما زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکے۔ موجودہ تعلیمی نظام اور اس کے تئیں عوام کا رجحان ممکنہ حد تک مادہ پرستی، نجی فائدے اور ذاتی ارتقا کے ہی ارد گرد گھومتا ہے، ایک ایسے دور میں جب کہ ہر فرد صرف مادی خواہشات کا دیوانہ اور اس کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے، اخلاقی اقدار اور معاشرتی فلاح کے تئیں اجتماعی ذمہ داریاں دونوں اب حاشئے پر چلے گئے ہیں نیز حصول تعلیم کی ساری تگ و دو صرف مادی وسائل و فوائد کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔ ہمارے دور کے تعلیمی اداروں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا سارا نصاب اور نظام ہی انھیں اصولوں پر ترتیب دیا گیا ہے کہ انسان تعلیم کی سند لے کر اپنی صلاحیت اور ہنرمندی کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکے اور ایک پر آسائش زندگی کی ضمانت اسے حاصل ہو جائے۔ اسی کے متوازی لیکن نظام اور نصاب میں نظریاتی اختلاف کے ساتھ ہمارے معاشرے میں دینی مدارس کا نظام تعلیم بھی ہے جو مادی وسائل کے حصول کو اپنی تعلیم کا بنیادی مقصد بنانے کے بجائے معاشرے میں تعلیم و تعلم کے فروغ کے ساتھ اخلاقی بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر، بہترین انسانی کردار کی تخلیق اور مجموعی طور پر ایک بہتر انسانی زندگی کی ترویج کے حصول کی تگ و دو کے لیے جانے جاتے ہیں، ساتھ ہی یہ اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سماج میں اجتماعی کردار سازی کے لیے مشعل بردار کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ مدارس کس حد تک سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کر پارہے ہیں اور انسانی اقدار کے تحفظ کےساتھ اخلاقی بنیادوں پر ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں یہ کس حد تک کام یاب ہیں، یہ مدارس کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے مجموعی تجزئے اور مدارس کے لیے خود احتسابی کا موضوع ہے۔

معاشرے میں تعلیم و تربیت کے تئیں عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے اور تعلیمی اداروں پر ہونے والے اجتماعی اخراجات اور ان سے حاصل وانے والے سماجی مفاد کے موازنہ کے لیے یہ بھی نہایت ضروری اور اہم ہے کہ معاشرے کے تعلیم یافتہ اور سر برآوردہ حضرات کو اپنے علاقے میں چل رہے تعلیمی اداروں کا معیارتعلیم، وہاں کے طلبہ کی تربیت کا نظام اور معاشرے کو ان سے ملنے والے فوائد اور ان کی خدمات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ یہ عمل عوامی آگہی کے ساتھ ان اداروں کی ترقی، فکری وسعت اور تنوع کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی زیر غور رہنی چاہیے کہ تعلیمی اداروں کا جائزہ اور ان کی خدمات کاتجزیہ مختلف عوامل مثلاً اس ملک کے زمینی حقائق، سماجی اور سیاسی صورت حال، تعلیم کے تعلق سے سماج و معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری، فعالیت اور مختلف محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک وسیع تر تناظر میں کیا جائے، جس سے تعلیمی اداروں کی خدمات کے تعلق سے بہتر اور کارآمد نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ ورنہ صرف نقائص اجاگر کرنے، منفی تنقید کرنے اور مدارس کی خدمات کو ہر وقت کمتر گردانتے رہنے سے نہ تو ان اداروں کے تعمیری کردار کا کوئی مثبت تعارف سامنے آسکتا ہے،نہ ان کی خدمات کو صحیح تناظر میں پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ سماج کے اندر ان کے بنیادی کردار اور خدمات میں بہتری پیدا ہونے کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔

کسی تعلیمی ادارے کے ایک مثالی نظام تعلیم وتربیت کی پیمائش اور اس کی کارکردگی کا جائزہ، جس میں طلبہ کے ذہن و دماغ کی افزائش اور ان کی شخصیت کی تعمیر وترقی سب سے اہم ہے، کو ہم صرف معیاری کتب کی فراہمی، تجربہ کاراور قابل اساتذہ کی تقرری اور ادارے کے لیے ایک مضبوط بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جیسے عوامل کی بنیاد پر بالکل نہیں لگا سکتے۔ اگرچہ یہ سب سہولیات تعلیم و تربیت کی بنیادی ضرورت کے ضمن میں آتی ہیں، لیکن صرف بہتر سہولیات مہیا کرادینے سے کوئی منصوبہ کام یاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے مقصد کو بروئے کار لانے، صحیح لائحۂ عمل طے کرنے اور اس کے نفاذ کے لیے ضروری وسائل کے ساتھ منصوبے کے سبھی حصہ داروں کا مکمل تعاون اسے حاصل نہ ہو۔ مدارس اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ہمارے معاشرے کا ہی ایک حصہ ہوتے ہیں اور ان کا معاشرے کے تمام منفی اور مثبت کرداروں اور محرکات سے متاثر ہونا اور ان کو اپنی شخصیت کے اندر شامل کر لینا ایک فطری عمل ہے۔ ایک طالب علم کو اپنے اطراف کے حالات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے جس ذہنی بالیدگی، قوت ادراک و فیصلہ اور مستقبل بینی کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے، اسے حاصل کرنے میں اسکول اور کالج سے کہیں زیادہ معاشرے کی مختلف اکائیوں کا عمل اور رد عمل اس کے لیے معاون ہوتا ہے۔ سماج کے اندر جاری مختلف قسم کی علمی وسماجی تحریکات، ان کا مثبت اور منفی ردعمل، ان کی مشترک تعمیری و تخریبی سرگرمیاں سب مل کر ایک طالب علم کی علمی صلاحیت اور ہنر مندی میں اضافہ کرتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کے اطراف میں پھیلے ہوئے علوم کے مختلف ذرائع اور وسائل، اطلاعات، افکار اور غیر نصابی/ غیر درسی کتب سے مزید علم کشید کرنے کی صلاحیت اور ہنرمندی کو جلا بخشتی ہیں۔

بچوں کی تعلیمی ترقی اور ان ذہنی تربیت کو مزید بہتر اور وسیع کرنے کےلئے سماج، خاندان اور والدین سب مل کر ایک اہم اکائی بنتے ہیں اور یہ اکائی مشترکہ طور پر بچوں کی تعلیم اور تربیت کو بہتر کرنے میں ایک مربوط کردار ادا کرتی ہے۔ اگر معاشرے کی یہ اکائیاں نئی نسل کی تعلیم و ترقی کے لیے پوری طرح بیدار نہیں ہیں اور اس ضمن میں اپنے فرائض سے غافل ہیں تو صرف اسکول یا مدرسہ بچوں کو وہ ضروری صلاحیت اور تربیت فراہم نہیں کر سکتا جو آج کے مخصوص حالات کے لیے ضروری ہے، اور جس کی ہم ایک مدرسہ یا اسکول سے امید رکھتے ہیں۔ جب تک والدین اور سرپرست حضرات بچوں کی تعلیم اور اس کی ترقی کے لیے ضروری عوامل سے خود کو منسلک نہیں کرینگے اور بچوں کے پورے تعلیمی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اس وقت تک تعلیم اور تعلیمی اداروں سے اپنی خواہش کے مطابق نتائج بھی حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ جب تک سماج کی یہ مختلف اکائیاں انفرادی اور اجتماعی طور بچوں کی تعلیم اور تربیت سے بیگانہ رہنے پر کاربند رہیں گی تو بچے چاہے مدرسہ میں پڑھیں یا جدید سرکاری اور نجی اسکولوں میں، مقاصد کے لحاظ سے بہت امید افزا نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی۔

طلبہ اور نوجوانوں کی فکری پرواز اور ان کی تعلیمی ترقی گھر خاندان کے ساتھ پورے سماج کی سوچ اور عمل کا مظہر ہوتی ہے، پھر وہ طلبہ چاہے کسی جدید تعلیم گاہ اور سائنس کالج کے ہوں یا مدرسے اور روایتی تعلیمی ادارے کے ہوں۔ سماج کے ایک حصے کے طور پر یہ لوگ معاشرے کی ہرتعمیری اور تخریبی فکر سے متاثر ہوتے ہوئے اسی سمت میں سوچنا اور عمل کرنا شروع کردیتے ہیں جس طرف سماج کی اکثریت کا رجحان اور عمل ہوتا ہے۔ بامقصدتعلیم اورعملی تربیت ایک اجتماعی مقصد اور مشترکہ عمل ہے اور اس مقصد کا حصول پورے معاشرے کے اجتماعی کوشش سے منسلک ہے۔ معاشرے کا یہ اجتماعی کردار جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے جتنی اہمیت کا حامل ہے اتنا ہی مدارس کے طلبہ کے لیے بھی ہے۔ جب ہم مدارس کی تعلیمی کار کردگی اور ان میں پڑھنے والے طلبہ کے علمی مظاہرہ کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس جائزے کو ہم پورے معاشرے کے فکری ارتقا اور اس کے اجتماعی کردار و عمل سے ہم آہنگ نہ کرکے صرف اسکول کی تعلیم، اساتذہ اور وہاں کے تربیتی ماحول پر ساری ذمہ داری ڈالتے ہوئے معاشرے کے اجتماعی کردار اور والدین و سرپرستوں کے رابطے اورعمل کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر قابل غور ہے کہ اگر ہم روایتی مدارس اور جدید انگریزی اسکول، دونوں طرح کے تعلیمی اداروں کی معاشرے کے لیے خدمات اور وہاں زیر تعلیم طلبہ کی ذہنی نشونما کا موازنہ کریں تو چند حیرت انگیز مفروضات اور تلخ حقائق بھی سامنے آتےہیں جن کا مشاہدہ بار بار ہوتا ہے۔ یہ حقیت ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے والدین اور سرپرستوں کی فکر مندی، ان کے تعلیمی مستقبل کی منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ کیرئیر ایڈوانسمنٹ کے تئیں ان کا کردار بالکل غیر ذمہ دارانہ، سطحی اور صرف واجبی قسم کا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کا المیہ ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی ضروریات، تربیت اور نگہداشت کے لیے سرپرست حضرات کی توجہ بہت کم اور بچے کے مستقبل کو بہتر کر نے کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس تو بہت نچلی سطح پر ہوتا ہے، بلکہ کہا جائے کہ والدین کے اندر اس ذمہ داری کا احساس ہوتا ہی نہیں تو بھی شاید غلط نہیں ہوگا۔ دوسری طرف انھیں والدین کے وہ بچے جو جدید کانونٹ یا انگریزی اسکولوں میں جاتے ہیں ان کی تعلیمی ترقی اور کیرئر ایڈوانسمنٹ کے لیے والدین کی کوشش،فکر مندی اور تگ و دو بالکل ہی الگ انداز کی ہوتی ہے۔ اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل سے ملاقاتیں کرکے تعلیمی رپورٹ لیتے رہنا، اسی طرح ٹیوشن اور نئی کتابوں اور درسیات وغیرہ کے انتظام کے لیے جس طرح انگریزی اسکول جانے والے بچوں کے لیے ان کے والدین ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لیے والدین حضرات نہیں کرتے۔ بچوں کی تعلیمی لیاقت اور تربیت میں معاشرے اور والدین کا کردار جس طرح کانوینٹ اور انگریزی اسکول جانے والے طلبہ کے لیے اہم ہے بالکل ویسا ہی اور اتنا ہی اہم مدارس کے طلبہ کے لیے بھی ہے۔ یہ جاننا اور سمجھنا دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اگر جدید تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوئے طلبہ کی معاشرتی کار کردگی، ان کی علمی اور سماجی صلاحیت کا مظاہرہ اور ایک مخصوص سطح کا فیصلہ لینے کے ہنر کی پیمائش کی جائے اور انھیں مشترک پیمانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کی فعالیت اور صلاحیت کی پیمائش بھی اسی اسکیل پرکریں تو ہم مدارس کی کارکردگی اور وہاں کے طلبہ کی علمی صلاحیت اور کارکردگی کے تعلق سے زیادہ بہتر اور غیر جانب دار نتیجے پر پہنچ سکیں۔

ہمارے معاشرے میں تعلیم کے دوران یا تعلیم کے بعد کسی طالب علم کی ذہنی صلاحیت، قوت فیصلہ،ذی شعور انداز برتاؤ، دانشمندی اور فہم و فراست جیسے مختلف عوامل کا ایک معقول اور منطقی مظاہرہ ہی اس کے تعلیم یافتہ ہونے کا پیمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم کی علمی پرداخت اور اس کے ذہنی ارتقا کے لیے درج بالا عوامل کی پیمائش ہم صرف اسکول/ کالج یا مدرسہ / جامعہ کی سطح پر دی جانے والی علمی تربیت کی بنیاد پر نہیں کر سکتے اور نہ کسی اسکول یا مدرسہ میں ایک ہی کلاس کے طلبہ کی مختلف درجہ بندی کے لیے صرف اسکول کالج یا مدرسہ کو ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔ ہمارے آس پاس بہت سارے لوگ مختلف طرح کے کام کر رہے ہوتے ہیں، خواہ وہ کسی اسکول کالج سے فارغ التحصیل ہوں یا بغیر کوئی روایتی علم حاصل کیے صرف اپنے ذاتی ہنر اور محنت سے سماج میں کوئی خدمت انجام دے رہے ہوں، کام کے دوران ہر ایک کا عملی مظاہرہ، برتاؤ اور کام کرنے کا انداز دوسرے سے الگ ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تعلیمی تربیت کے علاوہ گھر، والدین اور سماج نے ہر ایک انسان کی تربیت کرنے اور اس کے انداز فکر و عمل کو مثبت تعمیری رخ دینے میں کیا اور کتنا کردار ادا کیا ہے،وہی سماجی اور معاشرتی تربیت ہی اسے دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔ بعینہ یہی صورت حال دوران تعلیم طلبہ پر بھی صادق آتی ہے کہ ایک ہی ادارہ یا ایک ہی استاد کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کرنے والے مختلف طلبہ کی علمی صلاحیت اور قوت کارکردگی الگ الگ ہوتی ہے۔ یہ بات صرف مدارس یا اسکول ہی تک محدود نہیں، بلکہ بڑے بڑے طب مینجمنٹ اور انجینئرنگ یا دیگر اعلی تعلیم دینے والے عالمی شہرت کے اداروں پر بھی اس نظریے کا اطلاق ہوتا ہے جہاں مختلف طلبہ، با وجود اس کے کہ وہ ایک ہی نصاب، استاد، تجربہ گاہ اور علمی ماحول ہوتے ہوئے بھی آپس میں بالکل الگ الگ صلاحیت،حکمت اور ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ،خواہ وہ اعلیٰ تعلیم کا ہو یا اسکول اور مدرسہ، اگر ہم کسی درجے کے طلبہ کی علمی لیاقت اور صلاحیت کا جائزہ لیں تو ایک درجہ کے صرف پانچ سے دس فیصد بچے ہی ایک شاندار ذہنی صلاحیت اور فہم و تدبر کا مظاہرہ کرنے کے لائق ہوتے ہیں یا اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی طالب علم تعلیم کے بعد زندگی کے عملی میدان میں کام یاب ہونے کا ہنر بھی دوران تعلیم حاصل کر لیتے ہیں، خواہ ملازمت ہو، سیاست ہو، تجارت ہو یا خاندانی کاروبار میں شراکت داری کے ذریعے کام کرنا ہو،یہ وہی پانچ سے دس فیصد ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم کے دوران بھی اسی طرح کا مظاہرہ کر چکے ہوتے ہیں اور بعد میں زندگی کے ہر میدان میں اسی طرح کی کارکردگی اور کام یابی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد طلبہ کی ستر سے اسی فیصد تعداد اوسط درجہ کے طلبہ کی ہوتی ہے اس میں کچھ اوسط سے تھوڑا اوپر بھی ہوتے ہیں اورکچھ اوسط سے کم بھی ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوڑ دھوپ کرتے ہیں کچھ بہتر مواقع حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں،کچھ مجبوری والا کام یا پیشہ اختیار کر کے ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں کثیر تعداد ایسے طلبہ کی ہوتی ہے جو اپنی خواہش سے اپنا کیرئر منتخب نہیں کرپاتے بلکہ مجبوری کے ساتھ کوئی خاص کام کرنے لگتے ہیں اور ایک اوسط انداز کی زندگی گزارتے ہیں۔ ہر جگہ اس طرح کے اوسط درجہ کے طلبہ کی اکثریت ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد ہر کلاس میں پانچ سے دس فیصد طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بالکل ناقص کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کسی طرح پاس ہو کر اپنا نصاب اور تعلیم مکمل کرتے ہیں اور پھر سماج پر ایک طرح کا اضافی بوجھ بن کر یا مجبوراً کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے ضروریات زندگی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طلبہ کی یہ درجہ بندی چھوٹے بڑے روایتی، پیشہ ورانہ ہر طرح کے تعلیمی اداروں میں دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ ایک ہی ادارے میں طلبہ کے درمیان اس طرح کی درجہ بندی اسکولی تعلیم کے بجائے ان خارجی امور اور عوامل سے پیدا ہوتی ہے جو تعلیمی ادارے کے باہر طالب علم کی شخصیت کے ارتقا میں معاونت کرتے ہیں خواہ وہ والدین ہوں، سرپرست ہوں یا معاشرے کی دیگر اکائیاں ہوں۔

تعلیمی اداروں کے منتظمین کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہر سطح اور مختلف تخصص کے اداروں میں طلبہ کی ذہنی پرورش، فہم وفراست کے ارتقا اور ہنر مندی و صلاحیت کی افزائش میں معاشرے کے مختلف اداروں کا کتنا اور کیسا کردار ہے۔ ایک طالب علم کی ذہنی پرداخت، پرورش، تربیت، صلاحیت اور ہنرمندی میں اضافہ کے لیے جس طرح والدین، خاندان، معاشرہ اور سماجی ادارے ایک انفرادی اور اجتماعی اکائی کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں بالکل ویسے ہی اسکول، کالج اور مدرسہ کا بھی طالب علم کی شخصیت کے ارتقا میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ مدارس اور اسکولوں کی خدمات کا جائزہ لیتے وقت ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہو جاتی ہے کہ ہم ہر بچے کی ذہنی افزائش، فہم اور شعور کے ارتقا کو صرف اسکول یا مدرسہ کی تعلیم اور تربیت پر منحصر سمجھتے ہں اور اس کی ہر خوبی یا خامی کو صرف اسکول کی تعلیم کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اُس وقت ہم سماج کے ان دیگر اہم اکائیوں اور کرداروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ایک بچے کی افزائش اور تربیت میں اسکول سے زیادہ اہم اور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طالب کی ذہنی افزائش اور فہم فراست کی ترقی کو اگر ہم کسی پیمانے سے پرکھنا چاہتے ہیں تو اس پیمانے میں اسکول اور مدرسہ کے ساتھ ان عوامل کی شمولیت کو بھی یقینی بنانا ہوگا ہو جو ایک طالب علم کی ذہنی ترقی اور نشونما پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جن کا ایک طالب علم کی ترقی میں اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بغیر ان اکائیوں اور عوامل کی شمولیت کے ایک طالب علم کی صلاحیت و ترقی کا جائزہ لینا کار عبث ہی سمجھا جائے گا۔

ایک طالب علم کے ذہنی ارتقا اور شخصیت کی تشکیل میں جن بنیادی عناصر کو کلیدی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اس میں اخلاقی اقدار کی پاسداری، اچھی یادداشت، نئے خیالات اور آئیڈیاز پر ذہن کو مرکوز کرنے کی قدرت، تخیل کی پرواز، حساسیت،تخلیقی صلاحیت اور اپنے خیالات و احساسات کو واضح کر دینے کی خوبی جیسے مختلف النوع عوامل بہت اہم مانے جاتے ہیں۔ انسانی ترقی کے یہ وہ عوامل ہیں جو ایک طالب علم کے ذہنی شعور اور اس کے بالغ نظر ہونے کی علامت تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان عوامل کا بڑا حصہ اسکول کی تعلیم کے بجائے سماج میں موجود والدین اور سرپرستوں کے علاوہ دیگر مختلف النوع انفرادی اور اجتماعی اداروں کی عمومی کار کردگی کا مرہون منت ہے۔ طلبہ کے مختلف گروہوں کے اندر شخصیت کی تشکیل کے لیے ضروری ان عوامل کو پروان چڑھانا اور طالب علم کی شخصیت کو اسی انداز میں تعمیری رخ دینا ہی تعلیمی اداروں کا مقصد ہوتا ہے۔ اگر مدارس اپنے طلبہ کے اندر اس طرح کی خصوصیات پیدا کرنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو مدارس اپنے مقصد میں کام یاب تصور کیے جا ئینگے اور اگر جدید طرز تعلیم کے ادارے ان صلاحیتوں کو اپنے طلبہ کے اندر پیدا کر دیتے ہیں تو یہی ان کی اصل کام یابی تصور کی جائے گی۔ ان صلاحتیوں کو اجاگر کرنے اور انھیں طلبہ سے روشناس کروانے میں ادارے کی معاون نصابی سرگرمیاں اور اس تعلق سے غیر نصابی مطالعہ بھی ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتاہے۔ جو ادارے اپنے بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں اور صحت مند مطالعات کے لیے تیار کرتے ہیں، ان کی معاونت اور رہ نمائی کرتے ہیں بلا شبہ ان اداروں کے بچے دوسروں سے بہتر مظاہرہ کرتے ہیں۔

برصغیر میں مدارس کا موجودہ نصاب، جو کم و بیش ایک ہی طرح سے تما م مدارس میں نافذ ہے، کافی پرانا ہے، جن بزرگوں نے اسے ترتیب دیا تھا وہ اس وقت کی مذہبی و سماجی ضرورتوں کےمطابق اور ایک حد تک زمانے کے تعلیمی مقاصد سے ہم آہنگ بھی تھا، لیکن موجودہ وقت میں جس رفتار سے معاشرتی اقدار اور معاشی امکانات تبدیل ہو رہے ہیں، تعلیمی اداروں کو بھی ان تبدیلیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ضروری ہوتاہے۔ اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ارباب مدارس اپنے یہاں جاری نظام تعلیم اور طلبہ کی نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں ضروری ممکنہ تبدیلی سے گریزاں اور تعلیم کے جدید متوازی نظام کو اپنے اور اپنے دین و ایمان کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنے شعبۂ تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے، نصاب میں زمان و مکان کی ضرورتوں کے مطابق امکانی تبدیلی اور نظام تعلیم میں جدت لانے و اپنانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ مدارس کا نصاب اپنے آپ میں ایک جدید نصاب ہونے کے قدرت رکھتا ہے اور زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اپنے اندر معاشی و سماجی مسائل کا ادراک اور آفاقی حل بھی سموئے ہوئے ہے، لیکن اہل مدارس کی ناکامی یہی ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتانے میں کام یاب ثابت نہیں ہو پا رہے ہیں کہ جن معاشرتی و انسانی علوم کی ترویج و ترقی کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم کیے جارہے ہی مدارس میں بعینہ وہی علوم رائج اور شامل درس ہوتے ہیں۔آج کی مشہور زمانہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں جہاں سائنس کے بڑے بڑے شعبے قائم ہیں وہیں بشریات اور سماجیات کے علوم کی تعلیم و تحقیق کے لیے بھی اتنا ہی بڑا شعبہ قائم ہے تاکہ ہر آن ہونے والی سماجی تبدیلیوں کے ساتھ انسانی معاشرے کو درپیش چیلنجز کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکے اور ایک بہتر مثالی معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ سماجی علوم کی ترویج و ترقی اور ان کی تدریس و تحقیق کا بنیادی مقصد ایک ترقی یافتہ سماج کی تشکیل و تدوین ہے جس کے لیے چند مروجہ علوم اور نصاب تیار کیے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کو سماجی مسائل کا صحیح ادراک ہو سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مدارس بھی انھیں علوم کی ترویج اور تدریس کے مراکز ہیں۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223