نظامِ حکمرانی سے مؤثر رابطہ

کچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر یہ خیال مقبول ہوتا جارہاہے کہ ہمیں ملک میں موجود نظامِ حکمرانی پر اثر انداز ہونے کی شعوری کوشش کرنی چاہئے یہ واقعہ ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ایک ایسا دور گزرا جب مسلمان یہاں کے نظام سے بڑی حد تک لاتعلق رہے اُس کے بعد انہوں نے نظام وقت سے تعرض شروع کیا لیکن یہ تعرض محض اِس حد تک تھا کہ انہوں نے اپنے بعض حقوں کے تحفظ کے لئے کوشش کی مثلاً مسلم پرسنل لا کو حکومت کی مداخلت سے محفوظ رکھنے کی سعی کی۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ گزر گیا ہے اور اب مسلمانوں میں یہ رجحان پیداہورہا ہے کہ وہ شریک حکومت ہونے کی کوشش کریں۔ حالات کے تغیر کے بے بس تماشائی بنے رہنے کے بجائے مسلمانوں کے اندر یہ نیا رجحان، حالات کو بدلنے کے حوصلے کی علامت ہے۔ اور اس لحاظ سے اس کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ اِس سلسلے میں چند بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اِن سوالات کا درست جواب ملنا ضروری ہے تاکہ یہ رجحان فی الواقع ملک وملت کے لئے مفید ثابت ہوسکے۔ یہ سوالات درج ذیل ہیں:

﴿۱﴾        مسلمانوں کے اجتماعی وجود کی نوعیت کیا ہے؟

﴿۲﴾       نظام حکمرانی پر اثر انداز ہونے کے مقاصد کیا ہیں؟

﴿۳﴾       نظام حکمرانی کو متاثر کرنے کا کام کس آئیڈیا لوجی ﴿نظریے﴾ کے تحت انجام پائے گا؟

﴿۴﴾       نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں کن آداب وحدود کو ملحوظ رکھنا ہوگا؟

مسلمان کس قسم کا گروہ ہیں؟

اِنسانوں میں مختلف قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ کچھ گروہ محض نسلی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں۔عہد قدیم میں پائے جانے والے قبیلے اِسی نوعیت کے گروہ ہوتے تھے۔ آج بھی ہندوستانی سماج کا ایک بڑا حصہ ذات پات کے نظام میں گھرا ہوا ہے۔ اِس نظام میں کسی خاص ذات سے اپنے کو منسوب کرنے والے افراد کو نسلی گروہ کہا جاسکتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی نسلی گروہ کی اجتماعی دلچسپی محض اُن امور و مسائل تک محدود ہوتی ہے جو حسّی ومادّی ہیں مثلاً جان ومال کا تحفظ، مادی ترقی کا حصول اور اقتدار میں شرکت وغیرہ۔ مسلمانوں میں بعض لوگ ایسے ہیں جو شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلمانوں کو محض ایک نسلی گروہ سمجھتے ہیں اور اسی اعتبار سے مسلمانوں کو موجودہ نظامِ سیاست میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔

پھر انسانوں میں ایسے گروہ بھی پائے جاتے ہیں جن کو تہذیبی گروہ کہا جاسکتا ہے۔ جان ومال کے تحفظ کے علاوہ ایسے گروہ اُس تہذیب کو بھی باقی رکھنا چاہتے ہیں جو اُن کو ورثے میں ملی ہے۔ غالباً یہودیوں کو تہذیبی گروہ کی مثال کہا جانا چاہئے۔ ایسے گروہوں کی دلچسپی نسبتاً وسیع ہوکر اُن مسائل کو بھی اپنے دائرے میں لے لینی ہے۔ جو آبا واجداد سے ملے تہذیبی ورثے کے تحفظ سے متعلق ہوتے ہیں۔ آج مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مسلمانوں کو اِسی طرح کا ایک تہذیبی گروہ سمجھتی ہے۔ مثلاً اُن کے نزدیک پردہ ایک طریقہ ہے جو باپ دادا سے چلاآرہا ہے اور اس اعتبار سے اُن کو عزیز ہے۔ البتہ اگر سماجی رسم بدل جائے تو وہ بدلی ہوئی رسم کو بھی قبول کرنے پر آمادہ ہوں گے اگر اُسے وقت گزرنے کے ساتھ آباء واجداد کی سند حاصل ہوجائے۔

انسانی گروہوں کی ایک تیسری قسم نظریاتی گروہ کی ہے۔ یہ وہ اجتماعیت ہے جو کسی نظریے سے وابستگی کی بنا پر وجود میں آتی ہے۔ مغربی تہذیب کے غلبے کے دور سے قبل دنیا میں نظریات کارنگ عموماً مذہبی ہوا کرتا تھا چنانچہ اُن کی بنیاد پر بننے والی اجتماعیت مذہبی گروہ کی شکل اختیار کرتی تھی۔ اگر نظریے کے خدوخال دھندلے ہوجاتے ﴿اور وقت گزرنے کے ساتھ اکثر ایسا ہوجاتا تھا﴾ تو مذہبی گروہ، تہذیبی گروہ میں تبدیلی ہوجاتا تھا یعنی نظریے سے عقلی وابستگی مدھم پڑجاتی تھی اور اُس کے بجائے تہذیبی روایات سے محض جذباتی وابستگی، اجتماعی زندگی کی اساس قرار پاتی تھی۔ نظریاتی گروہ کی تعریف پر نظر رکھی جائے تو مکمل معنوں میں نظریاتی گروہ صرف ’’اُمت مسلمہ‘‘ ہے۔ اگر عوام میں نظریاتی شعور مدھم بھی پڑجائے تب بھی اُمت کی زندگی کے نظریاتی سرچشمے ﴿قرآن وسنت﴾ محفوظ رہتے ہیں اور اُمت میں ایک عنصر ضرور ایسا موجود رہتا ہے جو نظریاتی شعور کو تازہ رکھتا ہے۔

البتہ دنیا میں سب نظریاتی گروہ ایک سے نہیں ہوتے بلکہ نظریے کی فطرت کے اعتبار سے نظریاتی گروہوں کے درمیان بھی فرق ہوتا ہے۔ کچھ نظریات آفاقی ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں اور اِس بنا پر سارے انسانوں کو اپنی طرف بُلاتے ہیں۔ اِس کے برعکس بعض نظریات اپنی اپیل انسانوں کے کسی خاص گروہ تک محدود رکھتے ہیں۔ اُن کو آفاقی (Universal) نہیں کہا جاسکتا۔ یہ واقعہ ہے کہ آفاقیت کی مکمل تعریف پر صرف اِسلام پورا اُترتا ہے اور اسلام کے علاوہ کسی نظریے کو حقیقی معنوں میں آفاقی نہیں قرار دیاجاسکتا۔

انحطاط وزوال کی بنا پر مسلمانوں میں مختلف افراد کی نظر محدود ہوگئی ہے اِس لئے بہت سے مسلمان اپنے کو محض نسلی گروہ یا تہذیبی گروہ یا محدود معنوں میں مذہبی گروہ سمجھنے لگے ہیں۔ نگاہ کی اِس تنگی کی بنا پر اُن کی دلچسپیاں بھی محدود ہیں اور وہ نظام سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش اِس لئے کرناچاہتے ہیں کہ اُن مسائل کو حل کرسکیں جو کسی نسلی، تہذیبی یا روایتی مذہبی گروہ کے مسائل ہوا کرتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں اور اُن کے مابین ہونے والی گفتگو پر کوئی شخص نظر ڈالے تو وہ بآسانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پر یہی محدود نقطہ نظر غالب ہے اور اُن کے اجتماعی ایجنڈے کی وُسعت اسی تنگ دنیا کے اندر محدود ہے۔

جس سوال سے اِس بحث کا آغاز کیاگیا تھا وہ یہ تھا کہ ’’مسلمان کس قسم کا گروہ ہیں؟ ‘‘ اِسلام کی روشنی میں اِس سوال کا جواب دیا جائے تو پورے یقین کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک آفاقی نظریے کے حامل گروہ کی ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام محض نظریہ نہیں بلکہ مذہب بھی ہے اسی طرح اسلام نے تہذیب کی تشکیل کی ہے اور مسلمان ایک عظیم الشان تہذیبی روایت کے امین ہیں۔ لیکن ان حقائق کے باوجود مسلمان نہ محض تہذیبی گروہ ہیں نہ روایتی معنوں میں محدود مذہبی گروہ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی اجتماعیت کی اصل اساس نظریاتی ہے اور وہ اساسی نظریہ ایسا ہے جو تمام انسانوں کو اپنی طرف بُلاتا ہے۔ آفاقی وانسانی نظریے کا علمبردار گروہ ہونے کی بنا پر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی دلچسپی کادائرہ بھی محدود نہیں ہوسکتا۔ وہ مسائل پر محض اِس طرح غور نہیں کرسکتے جس طرح کوئی نسلی گروہ کیا کرتا ہے۔ اسی طرح اُن کی ترجیحات وہ نہیں ہوسکتیں جو کسی محدود نظر رکھنے والی جمعیت کی ہوا کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی اصل حیثیت کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیاگیا ہے:

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ ﴿سورۂ حٰمٓ سجدہ،آیت:۳۳﴾

’’اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوسکتی ہے جو ﴿لوگوں کو﴾ خدا کی طرف بُلائے اور ﴿خود بھی﴾ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماںبرداروں میں سے ہوں۔‘‘

آیت بالا میں تین پہلو قابل غور ہیں:

﴿الف﴾ خدا کی طرف لوگوں کو بلانا اس شعور کی علامت ہے کہ بُلانے والے کا نظریہ حیات، آفاقی ہے۔

﴿ب﴾ خود نیک عمل کرنا اِس امر کا اظہار ہے کہ صالح نظریہ حیات سے وابستگی محض رسمی نہیں ہے، بلکہ حقیقی ہے۔

﴿ج﴾ خدا سے باغی ماحول میں گھِرے ہونے کے باوجود، ایک مخلص بندہ خدا کی آفاقی نظریہ حیات سے وابستگی اُسے آمادہ مجبور کرتی ہے کہ وہ اِنسانوں کے سامنے اپنے مُسلم ہونے کا واضح اعلان کرے۔ اپنا تعارف وہ کسی اور حیثیت سے نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہونے کی حیثیت سے کرائے۔ یہی اُس کی حقیقی پہچان ہو۔

جناب شبیر عثمانی آیت بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہترین شخص وہ ہے جو خود اللہ کا ہو رہے، اسی کی حکم برداری کا اعلان کرے، اُس کی پسندیدہ روش پر چلے اور اور دنیا کو اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اُس کا قول و فعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں موثر ہو۔ جس نیکی کی طرف لوگوں کو بُلائے بذاتِ خود اُس پر عامل ہو۔ خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کااعلان کرنے سے کسی موقع پر اور کسی وقت نہ جھجکے، اُس کاطغرائے قومیت صرف مذہب اسلام ہو اور ہر قسم کی تنگ نظری اور فرقہ وارانہ نسبتوں سے یکسوہوکر اپنے مسلم خالص ہونے کی منادی کرے اور اسی اعلیٰ مقام کی طرف لوگوں کو بُلائے جس کی دعوت دینے کے لئے سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے۔‘‘

اسلام کی دعوت کی آفاقی نوعیت کا تذکرہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  نے اس طرح کیا ہے۔

’’اسلام کی دعوت تمام انسانوں کے لئے ہے لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے مخصوص وقتی مسائل میں اُلجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پوری نوعِ انسانی اور سارے کُرۂ زمین پر وسیع ہے۔ تمام انسانوں کے مسائلِ زندگی ہمارے مسائلِ زندگی ہیں۔‘‘ ﴿روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل، پہلاباب﴾

اثر انداز ہونے کی سعی کے مقاصد

مسلمانوں کی جانب سے نظام حکمرانی اور نظامِ سیاست پر اثر انداز ہونے کی سعی کن مقاصد کے تحت کی جانی چاہئے۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر محمدنجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں:

’’ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی سیاست کو دعوت کا خادم ہونا چاہئے یعنی ملک کے سیاسی نظام سے اُن کے ربط وتعلق کی غرض وغایت یہ ہونی چاہئے کہ ملک کے باشندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف لایاجائے۔‘‘ ﴿’’تحریک اسلامی عصر حاضر میں‘‘ باب :۱۱﴾

مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:

’’سیاسی نصب العین سے ذہن قوت واقتدار کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ قوت واقتدار حاصل کرنا، اُس میں شریک ہوناوغیرہ بطورِ خود ہندوستانی مسلمانوں کا ’’نصب العین‘‘ نہیں قرار پاسکتا۔ اُن کا نصب العین ،دعوتِ اسلامی کی راہ سے ،قبولِ حق کے نتیجے میں قائم ہونے والا بندگی رَب کا نظام ہے۔ البتہ اِسلامی افکار واقدار کے فروغ، اُن کے تحفظ اور ان افکار واقدار کے علم برداروں کے مفادات ومصالح کے تحفظ کے لئے سیاسی طاقت اور اُس کے چھوٹے بڑے مراکز سے پورا فائدہ اُٹھایا جاناچاہئے۔‘‘ ﴿ایضاً﴾

نظامِ حکمرانی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے مقاصد کو مسلمانوں پر عائد ذمے داریوں کے سیاق میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں پر جو ذمے داریاں ہر حال میں عائد ہوتی ہیں وہ یہ ہیں ’’دین پر عمل، دین کی طرف انسانوں کو بُلانا، عدل وانصاف کی علمبرداری، خیر کی طرف دعوت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ اِن ذمے داریوں کے سیاق میں مسلمانوں کی سیاسی سعی وجہد کے مقاصد یہ قرار پاتے ہیں:

﴿الف﴾ مُلک کے حالات پر نگاہ رکھنا تاکہ اِسلام پرعمل کی جتنی آزادی حاصل ہے وہ باقی رہے۔

﴿ب﴾ حالات کو تبدیل کرنا تاکہ جن پہلوؤں سے دین پر عمل کی آزادی فی الوقت حاصل نہیں ہے، اُس کو حاصل کیا جاسکے۔

﴿ج﴾ عدل وانصاف کا قیام اور ظلم وزیادتی کا ازالہ۔

﴿د﴾ برائیوں ﴿منکرات﴾ کا خاتمہ اور نیکیوں ﴿معروفات﴾ کا قیام۔

﴿ہ﴾ نظام حکمرانی کو خیر کا خادم بنانا۔

یہ مقاصد اِس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ جو معروفات قائم ہیں اُنہیں قائم رکھنے کی سعی کی جائے اور جو قائم نہیں ہیں، اجتماعی فضا میں اُن کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اِسی طرح اگر کوئی مُنکرَمِٹ چکا ہو تو اس کے احیا کی مزاحمت کی جانی چاہئے۔

سیاسی عمل اور آئیڈیالوجی

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت نہ محض نسلی یا تہذیبی گروہ کی ہے نہ محدود معنوں میں روایتی مذہبی گروہ کی۔ اِن تمام تنگ تعبیروں کے بجائے جو تعبیر مسلمانوں کے تعارف کے لئے موزوں ہے وہ ایک آفاقی نظریے کے علمبردار، اور انسانیت عامہ کے بہی خواہ، انسانی گروہ کی ہے۔ ’’اُمت مسلمہ‘‘ کے ’’خیر امت ‘‘ ہونے کے یہی معنی ہیں:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَوْ آمَنَ اَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُمْ مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُوْنَo﴿سورۂ آل عمران،آیت:۱۱۰﴾

﴿تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت انسانوں کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔ تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو اُن کے لئے اچھا ہوتا۔ اِن میں سے بعض تو مومن ہیں لیکن زیادہ تر نافرمان ہیں۔﴾

ہمارے ملک میں عام طور پر جن سرگرمیوں کو ’’سیاسی عمل‘‘ کہاجاتا ہے وہ کسی واضح نظریے یا آئیڈیالوجی کے بغیر بھی انجام دی جاسکتی ہیں۔ سیاسی جدوجہد کی دنیا میں بہت سے عناصر ایسے ہیں جو کسی علاقے کے رہنے والوں یا کسی خاص زبان کے بونے والوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں۔ اِسی طرح متعدد قوتیں ایسی ہیں جو کسی خاص سماجی طبقے کو اقتدار میں حصہ دلانا چاہتی ہیں۔ سیاسی گروہوں کی بڑی تعداد کی شبیہ یہی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے مزاج اور مقام سے جو طرزِ سیاست مناسبت رکھتا ہے وہ صرف نظریے یا آئیڈیا لوجی پر مبنی جدوجہد کا ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لئے قابل قبول آئیڈیا لوجی صرف اِسلامی آئیڈیا لوجی ہے۔

سیاست کے سلسلے میں اسلامی نظریے کا تعارف کراتے ہوئے جناب محمد نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں:

’’اسلام نے سیاست کے باب میں بنیادی رہنمائی دی ہے جو قرآن وسنت میں موجود ہے۔ انسانوں کو چاہئے کہ ریاست کی تشکیل، حاکمیت الٰہ کی بنیاد پر کریں اور اجتماعی نظم کی تفصیلات، قرآن وسنت کی روشنی میں باہمی مشورے سے مرتب کریں۔ جن امور میں کتاب وسنت میں واضح احکام نہ ملیں اُن میں اجتہاد ومشورے سے قانون سازی کی جاسکے گی۔ البتہ ایسے امور میں اطاعت کے ساتھ، اختلاف کا حق باقی رہے گا اور فیصلوں کو باہمی مشورے سے طے کردہ طریقے کے مطابق ، تبدیل کرانے کی کوشش بھی کی جاسکے گی۔‘‘ ﴿’’تحریک اسلامی عصر حاضر میں ‘‘، باب :۱۱﴾

سیاست کی نظریہ اسلامی کے مطابق تشکیل کے عملی تقاضوں کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:

’’ہندوستانی سماج میں اسلامی افکار واقدار کی ترویج اور غیر اسلامی افکار واقدار سے اس کو پاک کرنے کی مہم ایک وسیع الاطراف کام ہے. ﴿اس وسیع کام میں﴾ سیاسی عمل ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت ،آخرت میں جواب دہی، انفرادی آزادیوں اور شوریٰ کے تصورات کو قبول عام تک پہنچانے، ساتھ ہی عدل ومساوات، ہمدردی ومواسات، دیانت وامانت اور خدمت کے جذبات کو عام کرنے اور سماج کو ذات پات اور دوسرے تعصبات نیز کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے میں ہمارا سیاسی عمل بہت مدد گار ہوسکتا ہے۔‘‘ ﴿ایضاً﴾

ہندوستان کی سیاسی فضا میں جو نعرے عام ہیں وہ یہ ہیں: ’’سیکولرزم، جمہوریت، نیشنلزم ، سوشلزم اور ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ ۔ضروری ہے کہ اسلامی آئیڈیا لوجی کے مندرجہ بالا مثبت تعارف کے علاوہ، ان نعروں کے سیاق میں بھی اسلامی نقطہ نظر کو بیان کیا جائے۔ نظریہ اسلامی کے تعارف کے لئے مقبول نظریات سے اِسلام کا یہ تقابل ناگزیر ہے ورنہ اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ سمجھا جانے لگے کہ وہ بھی سیکولرزم اور نیشنلزم وغیرہ کے رائج تصورات سے اتفاق رکھتے ہیں۔

اِسلامی آئیڈیا لوجی اور رائج الوقت نظریات

رائج الوقت نظریات کے سیاق میں اسلامی نظریے کو اِس طرح بیان کیاجاسکتا ہے۔

﴿الف﴾ سیکولر فلسفہ حیات یہ ہے کہ اجتماعی زندگی ہدایت الٰہی سے بے نیاز ہوکر گزاری جائے۔ اِسلام اِس خیال کو رَد کرتا ہے۔ اِسلامی تصور کے مطابق پوری زندگی ، انفرادی واجتماعی گوشوں سمیت اللہ کی ہدایت کے تحت بسر کی جانی چاہئے۔

﴿ب﴾ سیکولر ریاست افراد کی محدود مذہبی آزادی کی قائل ہے لیکن تہذیبی ونظریاتی گروہوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ اِسلامی نقطہ نظر، موجودہ ریاستوں کے اِس رویے کو غلط سمجھتا ہے۔ اسلامی مزاج کے نزدیک مناسب صورت یہ ہے کہ تہذیبی گروہوں کے وجود کو تسلیم کیا جائے اور افراد کی مذہبی آزادی کے علاوہ ان گروہوں کو بھی مذہبی وتہذیبی آزادی حاصل ہو۔

﴿ج﴾ جمہور کی حاکمیت کے بجائے اِسلام، اللہ کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت کا قائل ہے۔ جو انسان بھی اللہ کی حاکمیت کے قائل ہوں سیاسی نظام اُن سب کی شرکت ونمائندگی پر مبنی ہو گا اور اپنی نوعیت ، مزاج اور اسپرٹ کے لحاظ سے اُس کو خلافت سے تعبیر کیا جاسکے گا۔

﴿د﴾ جہاں تک جمہوری قدروں یعنی بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کا معاملہ ہے، اسلام اصولاً ان کو تسلیم کرتا ہے اور محض اس بے اعتدالی کو دُور کرنا چاہتا ہے جو ’’بے قید آزادی ‘‘ کے غلط تصور کی بنا پر پیدا ہوگئی ہے۔ اس بے اعتدالی سے بچا جائے تو جمہوری اقدار وآزادیوں کی ایسی فہرست بآسانی مرتب کی جاسکتی ہے جو اِسلامی مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ اِس معاملے میںاسلامی نقطہ نظر اور عصرِ حاضر کے رجحان کے درمیان بہت کم فرق پایاجاتا ہے۔

﴿ہ﴾ دورِ حاضر کے جمہوری نظام کے قائلین کو اس اسلامی اصول پر بآسانی مطمئن کیاجاسکتا ہے کہ ’’حکمراں عوام کی آزادی مرضی سے منتخب کیے جائیں اور اُسی وقت تک اقتدار اُن کے پاس رہے جب تک عوام کااعتماد انہیں حاصل ہو۔‘‘

﴿و﴾ البتہ جو بات سمجھانے کی شدید ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ موجود جمہوری عمل کے متعدد اجزا ایسے ہیں جو عوامی اعتماد کے مندرجہ بالا اصول کی عملاً نفی کردیتے ہیں۔ مثلاً میدانِ سیاست میں طاقتور پارٹیوں کی موجودگی اور افراد کاپارٹی لیڈر شپ کے مقابلے میں بے بس ہونا، سیاسی سرگرمیوں کے رُخ کا سرمایہ دارانہ نظام کے اشاروں کے مطابق متعین ہونا، امیدواری اور کنویسنگ کے رائج ماحول میں کذب وفریب اور بددیانتی کے وسیع مواقع کی موجودگی، نیز سرمایہ داروں جرائم پیشہ عنصر اور سیاست دانوں کاگٹھ جوڑ ۔موجودہ جمہوری عمل کی یہ خرابیاں محض اتفاقی نہیں ہیں بلکہ اُس تصور کی فطری پیدا وار ہیں جو ہدایت الٰہی کے بجائے ’’عوامی امنگوں اور خواہشات‘‘ کو قانون کا منبع قرار دیتا ہے اور خدا وتصورِ خدا کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کردیتا ہے۔ ضرورت اِس کی ہے کہ حقیقی جمہوریت کا خواب دیکھنے والوں کو اسلامی قدروں سے روشناس کرایا جائے جن کے بغیر جمہوری عمل کی یہ خرابیاں دُور نہیں ہوسکتیں۔

﴿ز﴾ اسلام، نیشنلزم کے بجائے وحدت آدم کا قائل ہے اسلام کے مطابق ملکوں کی خارجہ پالیسی کی درست اساس محض قومی مفاد نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی عدل وانصاف ،وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عالمی امن کا قیام ہے۔ ضرورت ہے کہ سیاسی عمل میں شریک مسلمان انسانی وحدت کے اِس آفاقی نقطۂ نظر کو تمام انسانوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کریں۔

﴿ح﴾ اِسلام نہ سوشلزم کا قائل ہے اور نہ بے قید سرمایہ داری کا۔ اِن بے اعتدالیوں کے مقابلے میں اِسلام وہ معتدل معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس میں سرمایہ اور وسائل کو اللہ کی امانت اور انسان کو خلیفہ الٰہی قرار دیاگیا ہے۔ اِس تصور کے مطابق تمام معاشی سرگرمیوں کو جن میں دولت کی پیداوار، تقسیم اور استعمال شامل ہیں، اخلاقی اصولوں اور حدودِ الٰہی کا پابند ہوناچاہئے نیز ریاست کو اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہئے کہ تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوں، عدل وانصاف قائم ہو اور دولت سارے معاشرے میں گردش کرتی رہے۔ اقبال نے اسلام کے معاشی نظام کی تصویر یوں کھینچی ہے۔

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک وصاف

منعموں کو مال ودولت کا بناتا ہے امیں

﴿ط﴾ محدود مفہوم کی حامل ویلفیئر اسٹیٹ کے مقابلے میں اسلام کا منشا ’’خیر کی خادم ریاست‘‘ کا قیام ہے۔ اس اصطلاح کا معیار مطلوب تو اِسلامی ریاست ہے جس کا مقصد قرآن مجید بیان کرتا ہے۔

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِیْ الْأَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتَوُا الزَّکَاۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِo﴿سورۂ حج، :۴۱﴾

’’﴿یہ اہل ایمان﴾ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کاحکم کریں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کاانجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

اگر اسلامی ریاست نہ ہوتو جو بھی ریاست موجود ہو اُس کے سلسلے میں کوشش کی جانی چاہئے کہ وہ ممکنہ حد تک خیر کی خادم بن سکے۔

آداب وحدود

مقاصد کو اجتماعی سرگرمیوں کارُخ متعین کرنے والی اصل شے قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اجتماعی سرگرمیوں کی مکمل تصویر گری صرف مقاصد کے بیان سے نہیں کی جاسکتی۔ مقاصد کے علاوہ اُن آداب وحدود کی معرفت بھی ضروری ہے جو اجتماعی عمل کو منضبط (Regulate) کرتی ہیں۔ آج کل اِن آداب وحدود کو Rules of the Game﴿آداب بزم﴾ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کے سیاق میں نظامِ حکمرانی پر اثر انداز ہونے کے لئے ایک بنیادی سوال کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے۔

’’حالات پر اثر انداز ہونے کے ہمارے جذبے کے پیچھے اصل مقصود کیا ہے؟ موجودہ آدابِ بزم سے استفادہ کرکے اقتدار حاصل کرنا یا خود آداب بزم میں انقلابی تبدیلی لانا۔‘‘

جومسلمان موجودہ نظام حکمرانی کو متاثر کرناچاہتے ہیں اُن کو سمجھ لینا چاہئے کہ اُن کا مقصود دوسرا ہے نہ کہ پہلا۔ اسلامی نظریے کی اسپرٹ تقاضا کرتی ہے کہ موجود سیاسی کلچر کو بدلا جائے اور اس کی جگہ متبادل کلچر رائج کیا جائے۔ موجودہ کلچر کا ایک پہلو رائج نظریات ہیں جن کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ اِسلام سے اُن نظریات کا تصادم واضح ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کا بڑا حصہ، غلط تصورات ونظریات کی تردید اور اُن کے درست متبادل کی پیش کش پر مشتمل ہوناچاہئے۔ سیاسی کلچر کا دوسراپہلو رائج طریقے ہیں۔ موجودہ سیاست میں جھوٹ ، فریب اور بددیانتی عام ہے۔ اِسی طرح انسانیت عامہ کے بجائے محض کچھ طبقات یا گروہوں کے مفاد کی خدمت، اہل سیاست کا عام وطیرہ ہے۔ مسلمانوں کو اِن مقبول عام غلطیوں سے بچنا ہوگا۔ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے مشرکانہ ر سوم وتقریبات میں شرکت ،درگاہوں و بت خانوں پر حاضری ، قبروں پر خراج عقیدت ، تصاویر اور مجسموں کااستعمال، جائز وناجائز ہر ذریعے سے وسائل کی فراہمی اور جذبات کا استحصال، سیاست کی دنیا میں عام ہے۔ جو پُرعزم افراد فی الواقع صالح تبدیلی لانا چاہتے ہیں اُن کو مندرجہ بالا تمام حرکتوں سے پرہیز کرناہوگا، جن میں عموماً لوگ کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

نظام حکمرانی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے تحت بہت سے کام کئے جاسکتے ہیں ان میں تین کام بنیادی ہیں۔ ﴿الف﴾ رائے عامہ کی تربیت ﴿ب﴾ عوامی تحریک چلاکر حکومت کے طرز عمل کو متاثر کرنا اور ﴿ج﴾جمہوری اداروں میں اقتدار حاصل کرکے نظام میں جُزوی اصلاحات کرنا۔ مندرجہ بالا کاموں میں سے پہلے دو کے اندر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ اِن کے ذریعہ فضا میں بڑی تبدیلی بھی لائی جاسکتی ہے اور Rules of Game﴿آداب بزم﴾ میں تغیر کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔ رہا تبدیلی کا تیسرا ذریعہ یعنی جمہوری اداروں میں اقتدار کے حصول کی کوشش تویہ واقعہ ہے کہ تبدیلی وانقلاب کے بہت سے داعیوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے لیکن بیش تر مثالیں ایسی ہیں کہ وہ آداب بزم کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اِس کے برعکس اکثر ایسا ہوا ہے کہ انہیں موجود۔ آدابِ بزم ۔سے ساز گاری کرنی پڑی ہے اور اپنے نظریے پر اُن کی ثابت قدمی متاثر ہوئی ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ آداب وحدود کی رعایت کے سلسلے میں اصولی موقف اور معیار ہمیشہ ہمارے سامنے رہنا چاہئے اور کم سے کم معیار سے بھی نیچے گِرجانے کو کسی حال میں برداشت نہیں کیاجاناچاہئے۔ جناب محمد نجات اللہ صدیقی کے الفاظ میں یہ معیار درج ذیل ہے:

’’اسلامی افکار واقدار کے فروغ، ان کے تحفظ اور ان افکار واقدار کے علمبرداروں کے مفادات ومصالح کے تحفظ کے لئے سیاسی طاقت اور اُس کے چھوٹے بڑے مراکز سے پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اِسی مقصد کے تحت ہندوستان کے جمہوری سیاسی عمل میں اِس طرح حصہ لینا چاہئے کہ اسلام کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہ ہو۔‘‘ ﴿ایضاً﴾

مشمولہ: شمارہ جون 2013

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223