انسان کے کردار پر تقویٰ کے اثرات

مذہب کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے دل کو مخاطب کرتا ہے، اس کا سارا کاروبار صرف اسی ایک گوشت کے لوتھڑے سے وابستہ ہے۔ جسے قلب کہا جاتا ہے۔عقائد ہوں یا عبادات، اخلاق ہوں یا معاملات، انسانی عمل کے ہر گوشئے میں اس کی نظر اسی ایک آئینہ پر رہتی ہے۔ اسی حقیقت کوآنحضرت ﷺ نے ایک مشہور حدیث میں یوں ظاہر فرمایا ہے:

اَلَا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب۱ ؎

’’ہوشیار ہو کہ بدن میں گوشت کاایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو توسارا بدن درست ہوتا ہے اور وہ خراب ہو توسارا بدن خراب ہوتا ہے، ہوشیارہو کہ وہ دل ہے۔‘‘

دل ہی کی تحریک انسان کے ہر اچھے اوربرے فعل کی بنیاد اور اساس ہے ، اس لیے مذہب کی  عمارت اسی بنیاد پر کھڑی ہوئی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو نیک کام بھی کیاجائے اس کامحرک کوئی دنیوی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے مقصود ریا، نمائش ، حبِ منفعت ، طلب شہرت یا طلب معاوضہ وغیرہ نہ  ہو، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری اورخوشنودی ہو، اسی کانام اخلاص ہے: رسول کو حکم ہوتاہے:

فاَعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ۲؎

’’لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘

اخلاص تمام عبادتوں کی روح ہے۔ نماز اگر اخلاص سے خالی ہو تو جسمانی ورزش ہے، روزہ اگر اخلاص سے خالی ہو تو وہ بھوک پیاس سے عبارت ہے، زکوٰۃ اگر اخلاص کی دولت سے خالی ہو تو دولت کے اشتہار کاایک ذریعہ قرار پاتاہے اوراسی طرح حج اگر اپنی روح اِخلاص سے خالی ہو تو وہ سیروسفر  ہے۔ قرآن وسنت سے یہ واضح ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ظاہری اعمال وافعال کی قدر اس وقت تک نہیں ہے جب تک اخلاص نہ ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

’’لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَدِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ‘‘ ۳؎

’’اللہ کی بارگاہ میں ان (جانوروں) کاگوشت اورنہ ہی ان کاخون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔‘‘

اخلاص ونیت کی درستگی کے باب میں رسول اکرم ﷺ کایہ فرمان بہت واضح ہے:

اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَوَیٰ فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا اَوْ اِلی اِمْرَاَۃٍ یَنْکِحُہَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَاہَاجَرَ اِلَیْہِ۴؎

’’اعمال (کے صحیح وغلط ہونے )کادارومدار نیتوں (کے صحیح وغلط ہونے) پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (اللہ کے واسطے ترک وطن) دنیا طلبی یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہوگی تو اسے اس کے بدلے وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے یہاںرنگ ونسل اورجغرافیائی حدبندیاں قبولیت اورعدم قبولیت میں محرک یا مزاحم نہیں بنتیں۔ وہ دلوں کی کیفیات اور اعمال کودیکھتا ہے اور اسی کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کافرمان ملاحظہ فرمائیے:

اِنَّ اللّٰہَ لَایَنْظُرُ اِلی اَجْسَامِکُمْ وَلا اِلٰی صُوَرِکُم وَلِکِن یَّنْظُرُ اِلی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ ۵؎’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کو اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘

مذکورہ بالا قرآن وسنت کی تعلیمات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت اور عمل کا پہلا رکن یہ ہے کہ وہ خالص خدا کے لیے ہو، یعنی اس میں کسی ظاہری وباطنی بت پرستی اورخواہش نفسانی کودخل نہ ہو اور خدائے برتر کی ذات کی خوشنودی کے سواکوئی اور غرض نہ ہو۔

انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت اورتبلیغ کے سلسلہ میں ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں اس سے ہمیں کوئی دنیاوی غرض اور ذاتی معاوضہ مطلوب نہیں:

وَمَااَسْئَلُکُم عَلَیْہ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبُّ العَالَمِیْنَ ۶؎

’’اورمیں اس پر کوئی مزدوری تم سے نہیں چاہتا میری مزدوری تو اسی پر ہے جو ساری دنیا کاپروردگار ہے۔‘‘

حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے بھی یہی فرمایا گیا:

یٰقَوْمِ لاَ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالاً، اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّعَلَی اللّٰہ۔۷؎

’’اے میری قوم! میں تم سے اس پر دولت کاخواہاں نہیں، میری مزدوری تو خدا ہی پر ہے۔‘‘

خود ہمارے رسول کو یہ واضح کر دینے کافرمان ہوا، میں تم سے اپنے لیے کوئی مزدوری واجرت نہیں چاہتا،اگر چاہتا بھی تو تمہارے ہی لیے:

قُل مَا سَأَ لْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَہُوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ ۸؎

’’کہہ کہ میں نے تم سے جو اجرت چاہی تو وہ تمہارے ہی لیے ، میری اجرت تو اللہ پر ہے، وہ ہر بات پر گواہ ہے۔‘‘

دنیا میں اخلاص ہی کامیابی کی اصل بنیاد ہے۔ کوئی بظاہر نیکی کا کتنا ہی بڑا کام کرے، لیکن اگر اس کی نسبت یہ معلوم ہوجائے کہ اس کامنشا اس کام سے کوئی ذاتی غرض یا محض نمائش اوردکھاوا تھا تو اس کام کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت فوراً نگاہوں سے گرجاتی ہے۔ اسی طرح روحانی عالم میں بھی خدا کی نگاہ میں اس چیز کی کوئی اہمیت وقدر نہیں ہوگی جو اس کی بارگاہِ بے نیاز کے علاوہ کسی اور کے لیے پیش کی گئی ہو۔مقصود اس سے یہ ہے کہ نیکی وبھلائی کاہر کام دنیوی مفادسے بالا ہو،بے غرض وبے لوث ہو،اجرت اورتحسین وشہرت کی طلب سے بعید ہو۔

اعمال وافعال میں اخلاص وتقویٰ کارول اہم ہے۔ اس کے بغیر اعمال کھوکھلے اور بے وزن ہوجاتے ہیں۔ اگر یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اللہ کی بارگاہ میں ان اعمال وافعال کی قدر نہیں ہوتی جوحسن نیت پر مبنی نہ ہوں۔مرضی مولا کے حصول کاجذبہ ہی در اصل حسن نیت کا مظاہرہ ہے۔ اس کے بغیر جو عمل بھی ہوگا وہ بے روح جسم کے مانند ہوگا۔

انجیل متی میں حضرت عیسیٰ کی طرف یہ قبول منسوب ہے۔

’’خبردار اپنی راست بازی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لیے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔ پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادت خانوں اورکوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہناہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے، تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تیراباپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا اورجب تم دعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنوکیوں کہ وہ عبادت خانوں میں، بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہوکر دعا کرناپسند کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھیں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تم دعا کر تو اپنی کوٹھری میں جااوردروازہ بند کرکے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کر۔ اس صورت میں تیراباپ جو پوشیدگی میں ہے دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا‘‘۔ (انجیل متی، باب: ۶، آیات: ۱۔۶)

جو لوگ خلوص دل سے خدا کی رضا کی خاطر اچھے کام انجام دیتے ہیں،آخرت کی عدالت میں انہی کی قدرہوتی ہے اورایسے لوگوں کو خداوند عزت، شہرت ، دولت، صحت اور بے شمار نعمتوںسے دنیا میں نوازتا ہے اور آخرت میں بھی یہی لوگ پورے پورے کامیاب ہوں گے۔یہ بات قرآن وسنت کی تعلیمات میں روزِروشن کی طرح عیاں ہے اوراسی حقیقت کی ترجمانی سابق کتب آسمانی سے ہوتی ہے۔

حوالہ و حواشی

۱؎  الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الایمان، ج:۱،باب من اسبترأ  لدینہ

۲؎      الزمر: ۲۔۳                ۳؎              الحج: ۳۷

۴؎     الجامع الصحیح للبخاری، ج:۱،ص:۲

۵؎         الجامع الصحیح لمسلم، ج:۲،ص:۳۱۷

۶؎   الشعراء: ۱۰۹

۷؎   ہود:۲۹

۸؎    سبا: ۴۷

۹      انجیل متی، باب:۵، آیت:۸

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223