تربیت اپنے نفس کو آلودگیوں سے پاک کرنے اور اسے نکھارنے اور سنوارنے کا نام ہے۔ اسی کو قرآن تزکیہ سے تعبیر کرتا ہے۔ تربیت کا تعلق صرف عمل سے نہیں ہے بلکہ قلب و ذہن سے بھی ہے۔تربیت یہ ہے کہ ہمارا ذہن مثبت اور نیک سوچ کا مرکز اور ہمارا قلب نیک جذبات و احساسات کی آماج گاہ بن جائے اور ہمارے اعمال و اخلاق سنورجائیں ۔ تربیت فرد کی اپنی ضرورت ہے اور اس کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اسی سے اس کی دنیا کی زندگی بھی حیات طیبہ بن سکتی ہے اور اسی پر آخرت کی کام یابی کا انحصار ہے۔
فرد کی ذاتی تربیت سماج کی تبدیلی کا پہلا زینہ ہے۔ تبدیلی کی صحیح ترتیب یہ ہے کہ وہ فرد سے شروع ہوتی ہے اور خاندان، معاشرے اور تہذیب سے ہوتے ہوئے نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتی ہے۔ فرد کی تبدیلی کا دروازہ اندر سے بند ہوتا ہے۔ جب تک وہ خود بدلنا نہ چاہے دنیا کی کوئی قوت اسے تبدیل نہیں کرسکتی۔ تربیت کے لیے دل کی آمادگی اور عزم ضروری ہے۔معاشرے میں جوفساد برپا ہوتا ہے وہ صرف مفسدین کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ ان مصلحین کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جنھیں دوسروں کی اصلاح کی فکر اپنے نفس کی اصلاح سے زیادہ ہوجاتی ہے۔
خدا کی مشروع کردہ تمام عبادتوں کا مقصد انسان کی تربیت و تزکیہ ہی ہے۔ چوں کہ تربیت انسان کی اپنی ضرورت ہے اس لیے یہ عبادتیں بھی اس کی اپنی ضرورت ہیں ۔ ماہ رمضان کی بھی اصل حیثیت ماہ تربیت کی ہے۔نفس کی تربیت کے لیے تسلسل ضروری ہے۔ رمضان اپنی گوناگوں عبادتوں اور ان میں ماہ بھر کے تسلسل کی وجہ سے تربیت کے لیے نہایت سازگار موسم ہے۔یہ ایک پورا پیکیج ہے جس کا ہر حصہ تربیت کے نقطۂ نظر بہت اہم ہے۔
استقبال رمضان
رمضان کی آمد سے قبل رمضان کی تیاری ضروری ہے۔ رمضان سے قبل اس کی تیاری سے رمضان کی عبادتوں کے لیے ذہنی یکسوئی اور طبیعت کی آمادگی پیدا ہوتی ہے اور رمضان سے بھر پور استفادہ ممکن ہوتاہے۔ایسا نہ ہو کہ رمضان آئے بھی اور گزر بھی جائے اور ہم اس کی برکات و ثمرات کو سمیٹنے سے محروم رہ جائیں ۔نبی کریم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپﷺ ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔گویا آپ ﷺ رمضان کی آمد سے قبل ہی اس کے شعوری طور پر استقبال لیے کمربستہ ہوجاتے تھے۔
رمضان کے روزے
رمضان کے روزوں کو اﷲتعالی فرض قرار دیا ہے۔قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ یہ روزے پچھلی امتوں میں بھی فرض تھے۔قرآن کے الفاظ میں ان روزوں کا مقصد تقوی ہے۔روزے کی حالت میں آدمی کے اندر خدا کے علیم و خبیر ہستی ہونے اور اپنے ناتواں بندے ہونے اوراس علیم و خبیر ہنستی کے آگے جوابدہ ہونے کا احساس زندہ ہوجاتا ہے۔یہی احساس آدمی کے اندر تقوی پیدا کرتا ہے۔ روزے میں ریاکاری کا عنصر شامل نہیں ہوسکتا۔اسی لیے اﷲ تعالی ایک حدیث قدسی میں فرماتا ہے کہ ’’الصوم لی وانا اجزی بہ‘‘ (روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا)۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلوں اور رویوں کی بنیادخدا کی پسند و ناپسند نہیں بلکہ سماج کی پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘یہ ہمارے نزدیک زیاد ہ اہم ہوجاتا ہے۔ جب کہ ایک مومن کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے کسی کام سے خدا خوش ہوگا یا ناراض ہوگا؟ اسی کوتقوی اور اخلاص کہتے ہیں ۔ روزہ انسان کے لیے ریاکاری (People consciousness)سے تقوی واخلاص (God consciousness)تک کا سفر طے کرنے میں بہت معاون ہوتا ہے۔آدمی کی نفسیات کے اندر جب یہ تبدیلی پیدا ہوجائے تو اس کی پوری زندگی پر اس کا نمایاں اور مثبت اثر پڑتا ہے۔
روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں جس کے معنی رکنے کے ہیں ۔ انسان کی تربیت کا کمال یہ ہے کہ اس کے اندر صبر یا ضبط نفس (self-control) پیدا ہوجائے۔یہ صبر یا ضبط نفس اگر خدا خوفی کی وجہ سے پیدا ہو تو اسی کو تقوی کہا جاتا ہے۔ روزہ انسان کے اندر یہی ضبط نفس اور تقوی پیدا کرتا ہے۔ روزے کی حالت میں انسان کو کھانے پینے اور جنسی تعلق سے روک دیا جاتاہے۔ لذت کام و دہن اور شہوت انسان کی دو بڑی کم زوریاں ہیں ۔ انسان اپنے فرج و شکم پر قابو پالے تو اس کی پرواز بہت بلند ہوجاتی ہے۔ عام حالات میں انسان بحالت مجبوری ہی بھوکا رہتا ہے۔ انسان کے پاس وسائل ہوں تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنی بھوک مٹاتا ہے کہ بلکہ لذت کام و دہن کا سامان بھی کرتا ہے۔انسان ہر دور میں لذت کا اسیر رہا ہے لیکن دور حاضر میں مغربی تہذیب کے زیر اثر لذت میں اضافہ (pleasure maximization) ایک اہم قدر بن چکا ہے۔ فوڈانڈسٹری (food industry) ذائقہ (taste)کی فراہمی اورمزے میں اضافہ (enhancement)پر مسلسل کام کررہی ہے۔سنسری سائنس (sensory science) کے نام سے علم کا ایک مستقل شعبہ وجود میں آچکاہے جس میں اشیاء خور و نوش کو consumersکے لیے لذیذ و خوش نما بنانے پر کام کیا جاتا ہے۔آج کا انسان زندگی میں معنویت کے بجائے لذت کے حصول کو اپنا مطمح نظر بناچکا ہے۔ ایسے پس منظر میں روزے کی افادیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی نفس پر اس کے بہت دور رس اثرات واقع ہوتے ہیں ۔جسمانی لذت کے پیچھے دوڑنے والی دنیا کو روزہ روحانی حلاوت سے آشنا کراتا ہے۔ روزہ انسان کی حیوانی جبلت کوکم زور کرتا ہے اور اس کے اندر ملکوتی صفات کو پروان چڑھاتا ہے۔
روزہ سے انسان کی اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے توجہ دلائی ہے کہ جو شخص روزہ رکھے اور جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اﷲ کے نزدیک اس کا بھوکاپیاسا رہنا بے کار ہے۔ خدا کے حکم پر حلال و طیب سے بھی رک جانے والا شخص کبھی خدا کی حرمتوں کو پامال نہیں کرسکتا۔اس سے کبھی رذائل اخلاق سرزد نہیں ہوسکتے۔
روزہ انسا ن کے اندر جذباتی استحکام (emotional stability)بھی پیدا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے روزے کی حالت میں فحش گوئی کرنے اور جھگڑاکرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔آپﷺنے فرمایا کہ روزے دار سے کوئی لڑائی جھگڑا کرے یا اسے گالی دے تو وہ اس سے کہے کہ میں روزہ سے ہوں (وان امرؤ قاتلہ او شاتمہ فلیقل انی صائم)۔عام طور پر لوگ اضطراری طرز عمل (impulsive behaviour)کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ بہت سی باتوں پر بے سوچے سمجھے اور جھٹ سے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ مزاج کی ایک بڑی کم زوری ہے۔ بھوک پیاس کی حالت میں اس طرزعمل کا زیادہ امکان ہوتاہے۔نبی کریم ﷺ نے روزہ داروں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ دوسروں کے اشتعال پرسوچے سمجھے طرزعمل (reflective behaviour)کا مظاہرہ کریں ۔ آپﷺنے روزے کو ڈھال قرار دیا ہے۔ اشتعال کے موقع پرآدمی جب روزے کو ڈھال بنالے تو عام دنوں وہ بدرجۂ اولی اپنی جذبات پر قابو رکھ سکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ روزہ نفس کی تربیت کے لیے موثر ترین عبادت ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے روزے بڑی حد تک بے اثر ہوچکے ہیں ۔ اس کی اہم ترین وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس کی روح کو فراموش کردیا ہے۔رمضان میں اصل چیز بھوک کا تجربہ ہے۔ لیکن اس ماہ میں مسلمان انواع و اقسام کے ذائقہ دار کھانوں کاتجربہ کرتے ہیں ۔وہ دن بھر کی بھوک اورپیاس کے بعد پرتکلف افطار کے ذریعے اپنی ساری ریاضت کو خاک میں ملا دیتے ہیں ۔روزوں کے تربیتی اثرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم رمضان کی راتوں میں کھانے پینے کی اجازت کو ‘ولاتسرفوا‘کے حکم کے ساتھ مشروط سمجھیں ۔ہم کھانے پینے کے سلسلے میں اپنی عادتوں اور ترجیحات کا جائزہ لیں اور انھیں درست کریں ۔روزوں کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی صرف روزوں کے جزئی احکام و مسائل ہی میں الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اس کی حقیقی روح اور مقصد کو ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھے۔
سحری و افطار
نبی کریم ﷺ نے سحری کرنے کی تاکید کی ہے اور اس میں تاخیر کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺنے افطار میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ ﷺفرماتے ہیں کہ لوگ اس وقت تک خیریت سے رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کریں گے۔ اس میں صرف لوگوں کی سہولت پیش نظر نہیں ہے بلکہ خدا کی غلامی و بندگی کی تربیت کے پہلو سے یہ ایک اہم حکم ہے۔ عام حالات میں جو چیزیں حلال ہوتی ہیں وہی روزے کی حالت میں خدا کے حکم سے ممنوع ہوجاتی ہیں ۔ کوئی چیز بذات خود حلال یا حرام نہیں ہوتی بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو اسے حلال یا حرام کرتا ہے۔ بندے کایہ شیوہ ہونا چاہیے کہ وہ خدا کے حکم کے آگے فوراًسرتسلیم خم کردے۔سحری میں تاخیراور افطار میں جلدی کرکے بندہ یہی گواہی دیتا ہے کہ خواہ میرے رب کا حکم کچھ بھی ہو، میں اول المسلمین ہوں ۔ جوں ہی میرا رب کھانے پینے سے مجھے روک دے گا، میں اس سے رک جاؤں گا اور جوں ہی وہ مجھے اس کی اجازت دے گا، میں کھاؤں گا اور پیوں گا۔ اس میں میری مرضی و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے۔ نیکی و تقوی کا معیار وہی ہے جو خدا نے طے کردیاہے۔میں سحری میں جلدی اور افطار میں تاخیر کرکے کبھی نیک اور متقی نہیں بن سکتا۔
قیام لیل اور تراویح
قیام لیل تربیت کے پہلو سے بڑی موثر عبادت ہے۔اﷲتعالی فرماتا ہے ’’ان ناشئۃ اللیل ھی اشد وطئا و اقوم قیلا‘‘ (بلا شبہ رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے زیادہ کارگر اور قرآن پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے)۔نبی کریم ﷺ نے رمضان کی راتوں میں نماز کے لیے قیام پر ابھارا ہے اور اس پر پچھلے گناہوں کی مغفرت کی خوش خبری سنائی ہے۔’’من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘۔رمضان میں تہجد کی نماز کا اہتمام آسان ہوجاتا ہے۔لوگ سحری کے لیے بیدار ہوتے ہیں اور تہجد کی نماز بھی ادا کرلیتے ہیں ۔مسلمانوں کی بڑی تعداد تراویح کی نماز کا اہتمام کرتی ہے۔ تراویح کی نماز بھی قیام لیل ہی کی ایک شکل ہے۔ عام دنوں میں قیام لیل کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے مگر رمضان کی بدولت یہ توفیق عام لوگوں کو بھی تراویح کی شکل میں نصیب ہوجاتی ہے۔ عام طور پر اس میں لوگ پورا قرآن بھی سن لیتے ہیں ۔ قیام لیل کا اہتمام حضور قلب کے ساتھ کیا جائے تو نفس پر اس کے بہت مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں اور خدا سے قربت نصیب ہوتی ہے۔
دور حاضر میں آرام طلبی (convenience) کو ایک اہم قدر سمجھاجاتا ہے۔ لوگوں کواس بات کی بڑی فکرہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں convenience کیسے بڑھائیں ۔قیام لیل کا ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ زندگی میں آرام اہم نہیں ہے بلکہ خدا کی راہ میں مشقت اٹھانا اور سرگرمی دکھانا اہم ہے۔
رمضان میں قرآن سے تعلق
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام دنوں میں مسلمانوں کا جو تعلق قرآن سے ہوتا ہے اس میں رمضان کے اندر کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے۔یہ تعلق قرآن تلاوت و سماعت سے آگے بڑھ کر فہم تک پہنچنا چاہیے۔تحریکی حلقوں میں بڑی حد تک تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ترجمہ خوانی اور معانی کے فہم میں فرق ہے۔بسا اوقات ایک عربی دان بھی بغیر سمجھے آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ فہم قرآن کے لیے تدبر ضروری ہے۔
فہم قرآن کا اصل مقصد یہ ہے قرآن سے تذکیر و یاددہانی کا تعلق قائم ہو۔اسی لیے قرآن میں اساسی مضامین کی تکرار پائی جاتی ہے۔قرآن کی آیات میں موجود مواد (content) ہمارے حافظے کے گودام میں جگہ پالے، یہ کافی نہیں ہے۔قرآن سے ایسا تعلق استوار کریں کہ قرآن ہمارے دل پر حکم رانی کرنے لگے اورہمارے پورے وجود پر اس کی تاثیر قائم ہوجائے۔قرآن کے بیان کردہ حقائق ہمارے شعور کا حصہ بن جائیں اور زندگی کے تمام چھوٹے بڑے معاملات میں ہمارازاویۂ نظر بن جائیں ۔قرآن اپنے مخاطبین سے یہی تعلق چاہتا ہے۔اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لرأیتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ‘‘ (اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اﷲ کے خوف سے دباجارہاہے اور پھٹا پڑتاہے)۔پہاڑ پر نازل کرنے سے مراد پہاڑ کو اس کا مخاطب بنانا ہے۔اﷲ تعالی نے انسان کو قرآن کا مخاطب بنایا ہے۔اگر قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے باوجود ہمارے اندر وہ خشیت پیدا نہیں ہوتی جو ہمارے دل کی دنیا میں تہہ و بالا کردے تو یہ قساوت قلبی ہے۔
رمضان میں قرآن نازل کرنے کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ روزوں اور قیام لیل کی ریاضتوں کے ذریعے انسان کے دل میں تقوی و خشیت خداوندی پیدا ہو اوروہ قرآن سے ہدایت پانے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے قابل ہوجائے۔
اعتکاف
رمضان کی عبادتوں میں اعتکاف کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔دنیا کی دوڑدھوپ میں انسان اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اسے خودسے ملاقات اور اپنے نفس کے احتساب کا موقع ہی نہیں ملتا۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص بظاہر دینی سرگرمیوں میں مصروف ہوتا ہے مگر اس کا دل آلائشوں اور کثافتوں سے بھرجاتاہے اور اسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔رمضان کے آخری عشرے میں بندہ دنیا سے کٹ کر مسجد میں گوشہ گیر ہوجاتا ہے۔اعتکاف خارجی دنیا کی سرگرمیوں کو تھوڑے دنوں کے لیے روک کر اپنی داخلی دنیا کے سفر کا نام ہے۔ اعتکاف میں بندے کو خود سے اور خدا سے ملاقات و خلوت کے قیمتی ایام میسر آتے ہیں ۔ ان ایام میں وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ بھی لے سکتا ہے اور اپنے ذہن و دل میں پیدا ہونے والے افکار و خیالات اورجذبات و احساسات کاتجزیہ بھی کرسکتا ہے۔ معرفت نفس کے بغیر تربیت نفس ناممکن ہے۔اعتکاف معرفت نفس کا بہترین موقع فراہم کرتاہے۔
انفاق و صدقۂ فطر
رمضان کو ہم دردی و مواسات کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔رمضان کے روزے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس دلاتے ہیں اور اس کے اندر غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہم دردی پیدا کرتے ہیں ۔ نبی کریمﷺ عام دنوں میں بھی نہایت سخی تھے لیکن رمضان میں آپﷺ سب سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ اس ماہ میں اﷲتعالی نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھاکر دیتاہے لہذا مسلمان بھی اس ماہ میں خدا کی راہ میں خوب انفاق کرتے ہیں ۔انفاق ذاتی تربیت کے لیے بہت کارگر ہتھیار ہے۔ یہ دنیا اور اسباب دنیاکی محبت کو دل سے نکال کر خدا کی محبت پیدا کرتا ہے بشرطیکہ یہ ریاکاری اور فخر و غرور سے شائبہ سے پاک ہو۔
رمضان کی ایک خاص عبادت اور انفاق ہی کی ایک قسم صدقۂ فطر ہے۔ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ عید کی خوشیاں مناتے وقت اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کا بھی خیال رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ عید کی خوشیوں سے محروم نہ ہوں ۔ یہ محض کچھ رقم دے کر فارغ ہوجانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اعلی انسانی جذبات کی آبیاری کاموقع ہے۔
رمضان اور دعائیں
قرآن مجید میں رمضان اور روزوں سے متعلق جو آیات وارد ہوئیں ہیں ان کے بیچوں بیچ دعا سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی ہے۔’’واذا سألک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔‘‘ (اے نبی، اگر میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں ، تو انھیں بتادوکہ میں ان سے قریب ہی ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں)۔ اس آیت کا نظم یہ بتاتا ہے کہ رمضان اور روزوں کا دعاؤں سے خاص تعلق ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔ دعائیں انسان کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ یہ انسان کے اندر عاجزی اور شکر کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور اس سے کبر و غرور کی آلودگیوں سے پاک کرتی ہیں ۔عبودیت کی اصل احساس عجز ہی ہے اسی لیے دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔
عید الفطر
عید الفطرخوشی کا موقع ہے۔ دیگر اقوام کے تہواروں میں عام طور پر ہنگامہ و تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ مگر خدا کے دین میں تہوار کو بھی خدا کی یاد سے معمور کردیا گیا ہے۔ مسلمان عید گاہ میں جمع ہوکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور خدا کی توفیق پر‘ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم’ کے بموجب ا س کا شکر اور کبریائی بجالاتے ہیں اورفضا اﷲ اکبر کی ندا سے گونج اٹھتی ہے۔عید کی خوشی انھیں شتر بے مہار بننے نہیں دیتی بلکہ وہ بار بار اﷲ اکبر کہہ کر اپنے عجز کا اور رب کی کبریائی کا اقرار کرتے ہیں ۔عید کے دن مسلمانوں کو اپنی شوکت کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔یہ ان کے لیے اتحاد کا بھی درس ہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021