ہمارے اتحاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ دین کی بنیادی باتوں کو اہمیت دی جائے۔ عقائد، اخلاق اور معاملات پر زور دیا جائے۔ جزئی اور فروعی مسائل میں جو اختلافات موجود ہیں ان اختلافات کی اپنے حدود کے اندر پوری گنجائش ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں سختی نہ اختیار کی جائے اور ہر ایک کو اپنے مسلک پر قائم رہنے اور اس پر عمل کی اجازت دی جائے۔ جزئی مسائل کو وہ اہمیت دینا جو بنیادی مسائل کی ہے اور ان پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ قائم کرنا سخت نقصان دہ ہے۔ امت جن مسائل سے اس وقت دوچار ہے وہ سب کے مشترک مسائل ہیں ان کے حل کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جزئی اور فروعی مسائل کو اہمیت دینے سے یہ بڑے بڑے مسائل نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں گے اور اس سلسلے میں جو کوشش ہونی چاہیے وہ نہیں ہوسکے گی۔ یہ سب کا نقصان ہے۔
بعض اوقات افراد اور جماعتوں کے درمیان حسنِ ظن اور اخلاص کے وہ جذبات نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ وہ ان کی چھوٹی بڑی کسی فروگذاشت کو نظر انداز کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح فضا میں اتحاد اور یک جہتی نہیں پیدا ہوسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور بہ تقاضائے بشریت کبھی کسی سے کسی معاملہ میں کوئی فروگذاشت ہوجائے تو عفو و درگذرسے کام لیا جائے۔ اسی طرح ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ امّت کے مشترکہ مسائل کو گروہی سیاست سے بالاتر رکھا جائے۔ اگر ان مسائل کو ہر جماعت اپنے فائدہ اور دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنا چاہے تو یہ مسائل کبھی حل نہیں ہوسکیں گے۔ (زندگی نو، جون 1987)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021