فکری پس منظر
تعلیم وتعلم کے میدان میں تہذیب حاضر کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ عصری علوم وفنون کو عرفان حیات وکائنات اور اطاعت رب ذوالجلال سے کیسے جوڑا جائے۔ ’’اقرا باسم ربک الذی کی اولین وحی کا منشا بھی یہی ہے۔ ’’علم حاضر‘‘ نے معلوماتی خزانوں کا ذخیرہ تو ضرور فراہم کردیا ہے مگر انسان کو یقین سے محروم کردیا ہے۔ جب کہ اسلام میں تمام تر علم کی بنیاد خدائے وحدہ، لاشریک کے اقرار اور کلمہ حق پر ہے۔ یہاں ظاہری بینائی سے آگے باطنی نگاہ اور انفس کے ساتھ آفاق پر تفکر وتدبر کی تاکید کی گئی ہے ۔ عصر حاضر نے علم کو محض فن بنادیا ہے۔ جب کہ علم تو عین حق اور بجائے خود روشنی ہے۔ جو اپنی ذات سے رب کائنات کی پہچان کراتاہے۔ آج تمام تر سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات واختراعات کے باوجود کرہ ارض کی نصف انسانی آبادی علم سے یکسر محروم ہے۔ مگر اسلام انسان کے پورے کردار کی تعمیر وتشکیل کانسخہ شفا پیش کرتا ہے۔ حضور رسالتﷺ مآب کی ایک مشہور حدیث اسی نسخہ شفا کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ جس میں مرد کامل کی تعریف اس طرح پیش کی گئی ہے:
’’عرفان میرا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے محبت میری بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، ذکر الٰہی میرا مونس ہے اعتماد میرا خزانہ ہے، حزن میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے صبر میرا لباس ہے، رضائے الٰہی میری غنیمت ہے، عاجزی میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین میری قوت ہے صدق میرا سفارشی ہے، جہاد میرا کردار ہے اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
اس تصور کو داخل نصاب اور جزوعلم بنایا جائے تو ایک ایسی نسل تشکیل پائے گی جس کو محکوم بنانا دشوار اور غلام بنانا ناممکن ہوگا ۔اسلام اور مسلمانوں نے ہردور کے فکری وعملی چیلنجوں کاحسب حال جواب دیاہے۔ آج ’’انفارمیشن‘‘ اور نالج‘‘ کے دھماکے نے اکیسویں صدی کو ’’معلوماتی صدی‘‘ میں تبدیل کردیاہے۔ تعلیم، صحت، صنعت اور حکومت میںانقلابی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ چنانچہ مستقبل قریب کی معاشیات کے تین پہلوؤں کا بار بار ذکر کیاجارہا ہے۔ یعنی نالج، انفارمیشن اور وزڈم ﴿Wisdom عرفان وحکمت﴾ ان کی بنیاد پر خود اپنے ملک میں تمام تر فرقہ پرستی، کرپشن، اور قتل وغارت گری کے باوجود پانچ خوشگوار مادی انقلابات کا ہم مشاہدہ کرچکے ہیں۔ یعنی ’’زرعی انقلاب، جوہری انقلاب ، خلائی ٹکنالوجی کاانقلاب، معلوماتی انقلاب اور سفید ﴿دودھ﴾ انقلاب‘‘۔دنیا کے تیز رفتار معاشی ترقی پذیر ملکوں میںہمارا شمار کیاجارہاہے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں سائنس اور انجینئروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ لیکن یک رخی تعلیم وتربیت کے سبب تعلیم کی روح کمزور تر ہے۔ اگر سائنسی ومعروضی اور اخلاقی بصیرت ہوتی تو ملک وملت بہت سی ہولناکیوں سے محفوظ رہتی۔ ملت اسلامیہ ہند نے خود اپنی تعلیم وسائنسی تاریخ کو فراموش کردیا ہے۔ جسے حال کی دریافتوں سے جوڑ کر از سر نو تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بغداد، دمشق اور قرطبہ میں ایسے مدارس قائم کیے گئے تھے، جنہوں نے ان عظیم الشان شخصیتوں کو پیدا کیا جن کاسکہ قرون وسطیٰ کے یورپ میں سیکڑوں سال تک چلتا رہا۔ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور سائنس کی دنیا کے چمکتے ستارے تھے۔ الہشام ، جابربن حیان، رازی، ابن سینا، ابوریحان البیرونی،ابوالقاسم خلف ابن ظہر، ابن بیطار، ابن رشد، الغزالی، ابن عربی ابن خلدون۔
ان اداروں اور شخصیات کی نشوونما اسلامی نقطہ نظر کی بنیاد پر ہوئی ۔زندگی کی اساس ایک قائم ودوائم روحانی وجود پر استوار ہے، جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا جس قوم کو مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھنا ہے اسے کچھ دوامی اصولوں اور کچھ ہنگامی مسائل کے ثبات وتغیر کی خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر فرد اور معاشرے کی تعمیر وتشکیل کرنی ہوگی۔ تغیر کو اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔کُل یوم ہوفی شان ﴿۵۵-۲۹﴾ مشہور اندلسی فقیہہ ابن شاطبی نے اپنے موافقات میںلکھاہے کہ شریعت اسلامیہ کو پانچ چیزوں کی حفاظت منظور ہے۔ دین، نفس ، عقل مال اور نسل۔ بقول علامہ اقبال عالم اسلامی کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: ﴿۱﴾کائنات کی روحانی تعبیر ﴿ملاحظہ ہو خطبہ اوّل علم اور مذہبی مشاہدات از تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ﴿۲﴾ فرد کاروحانی استخلاص ﴿ملاحظہ ہو خطبہ اوّل مذہب اور تمدن﴾ اور ﴿۳﴾ وہ بنیادی اصول ﴿قرآن کے محکمات﴾ جن کی نوعیت عالم گیر ہے اور جن سے انسانی معاشرے کا ارتقا روحانی اساس پر ہوتا رہے۔ لہٰذا متوقع اسلامی یونیورسٹی کو کسی دباؤ یا احساس کمتری کے بغیر مشرق ومغرب کے تمام مثبت اور معروف وجہاں کشا علوم وفنون کو اسلامیانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں مغرب کی اندھی تقلید مہلک ہوگی۔ بقول علامہ اقبال:
’’یقین کیجیے آج یورپ سے بڑھ کر انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں۔‘‘﴿تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ ، ۲۷۶﴾
چنانچہ تعلیم وتدریس کی بنیاد کے طور پر انبیاء ی حکمت کے آٹھوں نکات کو روبہ عمل لانا ضروری ہوگا﴿۱﴾ اخلاص ﴿۲﴾ نرمی، حلم وبردباری ﴿۳﴾ حکمت ﴿۴﴾صبر ﴿۵﴾ وضاحت ﴿۶﴾ خوشگوار طرز تکلم ﴿۷﴾ باوقار انداز ﴿۸﴾ طلبا کی عزت نفس کا خیال، ان بنیادوں کے ساتھ تعلیم کے بدلتے منظر پر نگاہ رکھنی بھی ضروری ہے۔ دو دہائیوں میں سرعت خیز وحیرت انگیز اور تاریخ ساز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ زراعتی انقلاب کو برپاہونے میں ایک ہزار برس کا عرصہ لگا۔ اب ہر دس سال پر ایک نیاانقلاب برپاہورہاہے۔ پہلے تعلیم وتدریس کی ذمہ داری حکومت کے سپرد تھی اب اس کا نجی کرن (Privatisation)ہورہاہے۔ رواں صدی میں عمومی اور اعلیٰ تعلیم پر ساری دنیا کی طرح اپنے ملک میں بھی خصوصی توجہ دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ چنانچہ سروشکچھا ابھیان (SSA) کے بعد ’’حق اِطلاع‘‘ ﴿RTI﴾ اب ’’حق تعلیم‘‘ ﴿RTE﴾ کے قوانین نے نالج کمیشن کی سفارشات کو روبہ عمل لانے لیے زمین ہموار کردی ہے۔ چنانچہ اپنا ملک ایک تعلیم یافتہ معاشرہ بن جانے کی راہ پرگامزن ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم ترقی پذیر معاشرہ بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس وجہ سے اب ہر فرد کو گاہے گاہے اپنے علم کی توسیع اور اسے اپ ڈیٹ کرتے رہناپڑے گا۔ اب عمومی اور روایتی تعلیم کے ساتھ فاصلاتی اور آن لائن تعلیم میں بھی سرعت آئے گی۔ کمپیوٹر کا فروغ ہر روز ہر میدان میں بڑھتاجائے گا۔ اب ہر بچے کو لازماً اسکول جانا ہوگا اور تعلیم نسواں پر یکساں توجہ دینی ہوگی کہ اس کے بغیر یکساں وہموار تعلیم کا تصور ممکن ہی نہ ہوگا۔ تعلیم ترقی کی جانب مرکزی اور ریاستی دونوں سرکاریں تیز رفتار پیش قدمی کریں گی۔ پوری دنیا گلوبل کلچر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عنقریب دیگر ممالک اپنے اپنے تعلیمی نظام کے ساتھ ملک پر تقریباً چھا جائیں گے۔ تعلیم عالمی ارتقا کا سب سے اہم ذریعہ بنے گی۔بنیادی تعلیم ترقی وخوشحالی کی کلید رہے گی۔ اس لیے فاصلاتی تعلیم وقت کی آواز بنتی جارہی ہے۔
عنقریب روایتی اور فاصلاتی تعلیم کافرق تقریباً مٹ جانے والاہے۔ روایتی کی طرح ورچوئل یونیورسٹیوں کاقیام ہونے لگے گا۔ نصابی، میقاتی اور حسب ضرورت مختلف النوع اور مختلف المدتی درسیات کا رواج عام ہوجائے گا۔ ٹکنالوجی کی تیز رفتارترقی کے سبب تعلیمی میدانوں میں تیز ترتبدیلیاں واقع ہوں گی۔ عصری تعلیم کی خوبیوں اور خامیوں نے عجب دھوپ چھاؤں کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ایک طرف محیرالعقول ترقیات کی دوڑ ہے دوسری طرف موسمی تغیرات سونامی کا قہر اور گلوبل وارمنگ کی قیامت خیزی، ایٹمی توانائی ، مہلک ہتھیار ، ایٹم بم ، میزائل ، راکٹ، بارود کاڈھیر۔ صنعتی انقلاب اشیائے تعیش کی فراوانی کاربن ڈائی آکسائڈ کاپھیلتازہر، ٹرینوں، بری وبحری جہازوں کی کثرت مگر جنگل وسبزہ زار کی قلت، ایٹمی تجربات، زہریلی گیسوں کی بہتات، تازہ آکسیجن کی کمی، گرین ہاؤس گیسوں میں دن دو نی اضافہ ،فریج کولر اے سی، پختہ مکانات کے جنگل عظیم شہروں کاظہور اور اوزون کے بڑھتے سوراخ نے ظہر الفساد فی البروالبحر کا منظر پیش کردیاہے۔ اللہ نے ہر چیز نپی تلی اور متوازن بنائی ہے۔ ﴿رحمن۸، اعراف۵۶، بقرہ۱۹۵﴾ نوبت بہ ایں جارسید کہ ندیاں ، نالے، گنگااور جمنا ہی نہیں گوپاک کرشنا گاندھی لفظوں میں:”with water inderneath sinking and garbage above rising what await us?یعنی زمین کے نیچے پانی کے سوتوں کاڈوبتے جانا اور زمین کے اوپر غلاظتوں کاڈھیر اب ہمارے لیے کیا رہ گیا ہے؟ نتیجتاًزمین آہستگی کے ساتھ مررہی ہے (Dying a slow death) اس خوفناک متضاد صورت حال کو بدلنے کے لیے موجودہ نظام تعلیم کو بدلنا لازمی ہے کیونکہ انسان ﴿مادہ﴾ جسم وروح کامرکب ہے۔ لہٰذا صرف مادی علوم اور ترقی کافی نہیں۔ انسانی زندگی کی طرح جملہ حیات وکائنات اور دنیوی وسائل کی عمر اور ذخائر بھی محدود ہیں۔ لہٰذا خدا، انسان اور کائنات کے درمیان درست رشتے کا قیام شرط اوّلین ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے روحانی تصورات کو ہندوستان کے تناظر میں بروئے عمل لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ موجودہ علمی، تعلیمی اور سائنسی تناظر کو بدلاجائے۔ شاہنواز فاروقی کے لفظوں میں مسلمانوں کے تمام علوم وفنون اسلام کے تصور خدا، تصور کائنات اور تصور علم پر استوار ہیں لہٰذا مسلمان اس بنیاد پر علم تخلیق کرنے لگ جائیں تو تناظر کی اس تبدیلی کے بعد کائناتی مظاہر مادی مظاہر نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بن جاتے ہیں۔ خود انسان مادی وجود نہیں رہتا۔ روح ، نفس اور جسم کامجموعہ بن جاتاہے۔ وہ سیاسی، سماجی، یا معاشی حیوانی نہیں کہلاتا، اشرف المخلوقات بن جاتا ہے۔ تناظر کی یہ تبدیلی صرف علوم وفنون ہی نہیں اسلامی انقلاب کا بھی نقطہ عروج ہے۔ جس کا عملی نمونہ سیرت پاکﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں دیکھا جاسکتا ہے اورجس کی توصیف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اورتمام معاملات کاانجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ﴿الحج:۴۱﴾
ایسے حاملین علم وفن کو خدا چار فضیلتوں سے نوازتا ہے۔
﴿۱﴾ اخلاقی فضیلت
﴿۲﴾ زمانی فضیلت ﴿طاقت﴾
﴿۳﴾انجذابی فضیلت یابرتراستقامت اور
﴿۴﴾علمی فضیلت
اس تعلیمی وتناظری تبدیلی یاانقلاب کے بغیر موجودہ یک طرفہ علمی دھماکے (knowledge explosion)کو تعمیری رُخ دینا ممکن ہی نہیں۔ اس وقت انفارمیشن ٹکنالوجی نے سماج ومعاشرہ اور سیاست ومعیشت کو منقلب کرنا شروع کردیا ہے ان کی حشر سامانیوں کا اندازہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹ کے بڑھتے دائروں پر ایک نظر ڈال لینے سے ہوسکتا ہے۔ ان دنوں فیس بک، جی میل، یوٹیوب، ای میل وغیرہ عام میڈیا سے زیادہ موثر ہوچکے ہیں اسی لیے وقتاً فوقتاً ان کے لیے قانون بنانے کامطالبہ بڑھتا جارہا ہے۔ ان کے ذریعے چیزیں اچانک پھیل کر سب کو حیران کردیتی ہیں۔ انہیں روکنا ممکن نہیں رہ جاتا ہے۔ عالم عرب میں ’’بہارعرب‘‘ کی لہروں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ اس کی وسعت وہمہ گیری کے لیے درج ذیل واعداد شمار پر ایک نظر ڈال لینا مفید ہوگا۔
﴿۱﴾ فیس بک پرہر ہفتے ۳۶۵ارب مواد کا ساجھا کیاجارہا ہے۔ ساتھ ہی ہرمنٹ میں پوری دنیا میں صرف ۴۸ گھنٹے کے دوران ویڈیو، یو ٹیوب پر اپ لوڈ بھی ہوجاتاہے۔
﴿۲﴾ ٹیوٹر، ہرروز اس مائیکرو بلوگنگ ویب سائٹ پر ۲۵ لاکھ ٹیوٹ کیے جاتے ہیں۔
﴿۳﴾ وکی پیڈیا پرابھی تک ۲۶ ملین آرٹکلس کااندراج ہوچکا ہے۔ یہ مواد دنیا کی معروف زبانوں بشمول اردو میں دستیاب ہے۔
﴿۴﴾ مائیکرو بلوگنگ پلیٹ فارم اور سوشل نٹ ورک ویب سائٹ ’’ٹمبلر‘‘ پر ہر ایک منٹ میں ۳۸۱۹۶ پوسٹ ڈالے جاتے ہیں۔
اس طرح ہر طرح کا مواد اور خبریں پلک جھپکتے عالم گیر ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قدر سرعت پذیر ذرائع ابلاغ کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے پہلو ہیں۔
﴿۵﴾ اب T.V. ،3Dجنوبی کوریائی L.G.کمپنی بازار میں لاچکی ہے ۔اس سے بھی آگے موجودہ ’’ہائی ڈیفی نیشن‘‘ پلازماتکنیک سے لیس 4Dپرریسرچ مکمل ہوچکی ہے جن سے تعلیم وتعلم کے کام میں بھی مزید سہولتیں دستیاب رہیں گی۔ اتنا ہی نہیں ورلڈ کلاس اور معیاری اساتذہ کی خدمات بھی عالمی پیمانے پر ہمیشہ سہل الحصول رہیں گی۔
مندرجہ بالا متضادومنفی ومثبت کیفیات اور تکنیک کی موجودگی میں کسی مسلم یونیورسٹی کاقیام ایک بڑاچیلنج بھی ہے اور بنی نوع انسانی کے لیے ایک بڑی نعمت بھی کہ حال ومستقبل کے تمام پیچیدہ مسائل کاحل اللہ نے آخری نبیﷺ کے اسوہ حسنہ اور آخری کتاب میں مضمر رکھاہے۔ یہ کسی اور فلسفہ ازم یا طرز فکر میں ممکن ہی نہیں لہٰذا اس سنہری موقع سے مسلمانان ہند کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ وہ ہر اہم ریاست میں ایک مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ شمال مشرقی ہند میں جھارکھنڈ کو مرکزیت حاصل ہے۔ جہاں اس طرح کی یونی ورسٹی کے قیام کے بڑے امکانات ہیں۔ اقبال کے لفظوں میں:
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012