۱۵تا۱۷؍نومبر۲۰۲۴ء کو ایک بار پھر اجتماعِ ارکان حیدرآباد کی وای ھدیٰ میں منعقد ہونے جارہاہے۔ اس سے قبل دواجتماعات ارکان اسی جگہ منعقد ہوچکے ہیں۔
پہلا اجتماع۱۴تا۱۷؍نومبر۱۹۹۷میں مولانامحمد سراج الحسن کے دورامارت میں ہواتھا اور دوسرا مولاناسید جلال الدین عمری صاحب کے دورامارت میں ۱۱تا۱۴ دسمبر۲۰۱۵ء میں ہواتھا۔ اس اجتماع میں مولانامحمد سراج الحسن صاحب علالت کے باوجود ایک عوامی سیشن میں شریک ہوئے اور خطاب فرمایا۔ اس سیشن میں شہر حیدرآباد کی اہم شخصیات شریک ہوئیں محمود علی صاحب نائب وزیراعلیٰ تلنگانہ بھی شریک ہوئے۔ اجتماع کے انتظامی امور کو بہتر بنانے کے سلسلے میں موصوف کی وجہ سے کئی سہولتیں دستیاب ہوئی تھیں۔
وقفوں میں شرکائے اجتماع کی بڑی تعداد نے نمائش دیکھنے میں دلچسپی لی۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کی جانب سے جو اسٹال لگائے گئے تھے ان سے بھی استفادہ کیا ۔سید یوسف صاحب مرحوم پر ایک ڈاکومنٹری بنانے کے لیے ذمہ داران جماعت سے انٹرویو کا بھی اہتمام تھا۔ ذمہ داران کی قیام گاہ سے متصل ہی اسٹوڈیو کا ایک چھوٹا سا نظم سلیقے سے کرلیاگیا تھا۔
نومبر۱۹۹۷ء میں جو پہلا اجتماعِ ارکان اسی جگہ ہوا تھا اس کی ایک خاص بات برابر یاد آتی ہے۔ اس اجتماع میں حسنین سید صاحب مرحوم (دربھنگہ ، بہار) جو سماعت سے بالکل محروم ہوگئے تھے، شریک ہوئے۔وہ اپنے ایک عزیز کو ساتھ لائے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ حسنین صاحب سے بہت کہاگیا کہ آپ کی شرکت کا کیا فائدہ جب کہ آپ کچھ سنتے ہی نہیں۔ یہ ایسا عذر تھا جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن اولین دور کے لوگوں کے جذبے اور نظم وڈسپلن کو دیکھیے، ان کا جواب یہ تھا کہ میری سماعت ختم ہوگئی لیکن میں تو زندہ ہوں ارکان کا اجتماع ہے تو اس میں بحیثیت رکن میری شرکت لازم ہے۔ چنانچہ گھروالوں اور مقامی رفقا وذمہ داران کی ایک نہ چلی اور وہ اپنے عزیز کو لے کر اجتماع میں تشریف لے آئے اور اجتماع سے استفادہ کا حل اس طرح نکالا کہ ساتھ آنے والے اپنے عزیز سے یہ کہا کہ اجتماع میں میرے ساتھ بیٹھو اور تمام باتیں تقاریر ، سوال وجواب وغیرہ تیزی سے نوٹ کرتے رہو اور وہ اس نوٹ کو بروقت دیکھتے رہے اور پورے طورسے استفادہ کرتے رہے۔ وقفوں میں اجتماع گاہ کی ہر جگہ اپنے عزیزکے ساتھ جاتے اور شرکا سے اسی طور سے ملاقات بات کرتے کہ خود زبانی سوال کرتے اور جو جواب ملتا اسے ان کے عزیز نوٹ کرکے دکھاتے۔ یہاں تک کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لیتے رہے کہ کہاں کس کیمپ میں کیا مسائل ہیں ۔ایک کیمپ میں ڈرم میں پانی ختم ہوگیا تھا لوگ پریشان تھے اس کی اطلاع انھوں نے بروقت ناظمِ اجتماع اور امیر جماعت کو پہنچائی۔ امیر جماعت سے یہ بھی فرمایا کہ اجتماع کے دوران اقامت صلوٰة کا معقول نظم نہیں ہے۔ مختلف اوقات کے اماموں کا تقرر یا تو نہیں ہوا یا امامت کرنے والے بروقت موجود نہیں ہوتے۔ اوقات نماز کی تختیاں بطور یاد دہانی جگہ جگہ لگانی چاہیے تھیں۔ امیر جماعت مولانا محمدسراج الحسن صاحب نے اجتماع کے دوران ناظمِ اجتماع کو بلاکر ان کو باتیں نوٹ کرائیں اور بروقت توجہ دینے کی ہدایت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ دیکھیے ہمارے اس بزرگ کو، سماعت سے محروم ہیں لیکن ہم سب سے زیادہ اجتماع سے استفادہ کررہے ہیں اور ہمیں بھی مستفید کررہے ہیں ۔یہ کیسا قابل تقلید نمونہ ہے ۔
مولانامحمد سراج الحسن صاحب ہی کے دور امارت میں دوسرا کل ہند اجتماعِ ارکان۲۵تا۲۸؍ اکتوبر۲۰۰۲ء دہلی میں منعقد ہوا ۔ یہ اجتماع دعوت نگر ، ابوالفضل انکلیو میں واقع جماعت کے کیمپس میں ہوا۔ اس وقت تک کئی عمارتیں تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔ مرکز کا موجودہ دفتر بھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ اس لیے خالی جگہوں پر بہ آسانی اجتماع کی ضروریات کے لحاظ سے معقول نظم ہوگیا۔ مریضوں اورکمزوروں کا سہارا کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام بنی اور ملی ماڈل اسکول میں بھی بہت سے لوگوں کو پناہ ملی۔
اسی کیمپس میں مولاناسید جلال الدین عمری مرحوم کے دورامارت میں۴تا۷ نومبر۲۰۱۰ء کی تاریخوں میں تیسرا کل ہند اجتماعِ ارکان منعقد ہوا۔اس دوران چند عمارتیں تعمیر ہوچکی تھیں۔ موجودہ دفتر مرکز بھی زیر تعمیر تھا۔ ارکان کی تعداد میں بھی اچھا اضافہ ہوچکا تھا۔ موجودہ مرکزکی عمارت کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہوچکا تھا ۔ رہائش گاہ کے لیے بہت سے لوگوں کو یہاں جگہ دی گئی۔ بیمار، کمزور اور بوڑھے لوگوں کو ترجیح حاصل تھی۔
اس اجتماع کے موقع پر یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک ریلی جماعت کے تعارف کے لیے نکالی جائے۔ تیاریاں مکمل تھیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے سبب اجتماع گاہ میں ملی قائدین کے خطاب کا ایک سیشن متبادل کے طورپر رکھاگیا اور ان سے شرکائے اجتماع نے استفادہ کیا۔
جماعت میں میری شمولیت کے بعد دوکل ہند سطح کے عام اجتماعات ہوئے۔ اس سے قبل چار اجتماعات ہوچکے تھے۔پہلا اجتماع۱۹۵۱ء میں کوٹھی سعادت یارخان رام پور میں ہوا۔ رام پور میں اس وقت جماعت کا مرکز تھا۔ میں نے سنا ہے کہ اس اجتماع میں پہلی مرتبہ مولانا حبیب اللہ چترپوری شریک ہوئے۔ وہ ایک بڑے خطیب اور پایے کے عالم دین تھے۔ مولانا ابواللیث صاحب بڑے مردم شناس آدمی تھےان سے فرمایا کہ وہ خطاب عام کے لیے اسٹیج پر تشریف لائیں۔ مولانا حبیب اللہ صاحب نے فرمایا کہ وہ ابھی رکن نہیں بنے ہیں اس زمانے میں کسی غیر رکن کو اسٹیج سے جماعت کی دعوت پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مولانا ابواللیث صاحب نے فرمایا کہ میں نے آپ کو رکن بنالیا آپ خطاب فرمائیں۔ مولاناحبیب اللہ صاحب آزاد ثانی کہلاتے تھے۔
دوسرا اجتماع عام لکڑکوٹ حیدرآباد میں۱۹۵۲ء میں ہوا یہ دونوں اجتماعات بڑے پیمانے پر نہیں تھے۔ پہلے اجتماع میں جنوبی ہند کی کچھ نمائندگی تھی اور دوسرے اجتماع میں شمالی ہند کی کچھ نمائندگی تھی۔ بڑے پیمانے پر تیسرا کل ہند اجتماع عام۱۹۶۰ءمیں پیرڈگراؤنڈ دہلی میں ہوااس کا ناظم مولانا انیس الدین احمد مرحوم امیر حلقہ بہار کو بنایا گیا تھا۔ اجتماع کے دوران اور بعد میں بھی ان کے حسن انتظام اور نظم وضبط کی بازگشت سنی جاتی رہی۔
چوتھا اجتماع عام ۱۹۶۷ءمیں زیبا باغ حیدرآباد میں ہوا، جس کے ناظم عبدالرزاق لطیفی صاحب مرحوم تھے ان کے بھی حسن انتظام کا بڑا چرچا رہا۔ موصوف بھی جماعت کے اندر بہترین مقررین میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ۱۹۷۴ءکے اجتماع میں بذریعہ طیارہ اس حالت میں آئے تھے کہ کینسر کا آخری اسٹیج تھا۔ رفقاء ان کو ایک نظر دیکھنے کے لیے ان کے کیمپ میں جارہے تھے جو اسٹیج کے قریب ہی بنایا گیا تھا۔ ذمہ داران جماعت کی طرف سے بار بار منع کیاجارہاتھا کہ لوگ ملاقات سے احتراز کریں۔
پانچواں اجتماع۸تا۱۰ نومبر۱۹۷۴ء میں بہت بڑے پیمانہ پر گاندھی درشن میدان دہلی میں منعقد ہوا تھا، جس کے ناظم سید حامد حسین صاحب بنائے گئے تھے اور ان کے معاون عبدالباری صاحب مرحوم تھے ،جو موسابنی مائنس جھارکھنڈ کے رہنے والے تھے۔ اجتماع گاہ کی تعمیر میں موصوف کو مہارت حاصل تھی۔ ان کا ایک کتابچہ اجتماع گاہ کی تکنیک مرکزی مکتبہ سے شائع ہوچکا ہے۔ اس اجتماع میں بیرون ملک کے خصوصی مہمانان بڑی تعداد میں شریک ہوئے تھے پورا اسٹیج ان سے بھرا ہوا تھا عرب ،ایشیا،افریقہ، یورپ ، امریکہ کے ممالک سے شرکت ہوئی تھی۔اسٹیج بیرون ملک کے مہمانوں کی کہکشاں معلوم ہوتاتھا،اخباری نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور تصاویر لے رہی تھی۔ مولانا محمد یوسف صاحب امیر جماعت باربار انھیں تصاویر لینے سے منع کررہے تھے ۔ اس زمانے میں تصویر لینا حرام تصور کیا جاتاتھا لیکن نمائندے کسی طرح باز نہیں آرہے تھے۔ مولانا ابواللیث صاحب ندوی کی صدارت تھی بہت ہی باوقار خطبہ دیاتھا۔ مولانا عبدالعزیز صاحب کا خطاب عام بہت موثر تھا۔
بہار کے کیمپ میں ایک بجے رات میں کسی طرح پانی بھر گیا تھا عبدالباری صاحب مرحوم کو خبرہوتے ہی دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں اس پر قابو پالیاگیا۔
اجتماع گاہ کا جائے وقوع مرکزی مقام پرتھا۔ لوگوں کے لیے یہاں پہنچنا آسان تھا۔ اس کی تشہیر بڑے پیمانے پر ہوئی تھی۔انتظار نعیم صاحب کو تشہیر اور نشرواشاعت کا ذمہ دار مقرر کیاگیا تھا۔ حامد حسین صاحب مرحوم نے اجتماع کی تشہیر اور اس کے نظم وانصرام میں تعاون کے لیے مختلف حلقوں سے تازہ دم نوجوانوں اور افراد کو تقریباً ایک ماہ قبل ہی مرکز طلب کرلیا تھا میں بھی ان میں ایک تھا۔ ہماری دو تین افراد کی ٹیم کو ہدایت تھی کہ روزانہ کسی نہ کسی کالج اور یونیورسٹی میں جاکر طلبہ اور اساتذہ کو اجتماع کا تعارف کرانا اور شرکت کی دعوت دینی ہے ۔ اسی دوران حامد حسین صاحب مرحوم نے یہ خوش خبری سنائی کہ مولانامودودیؒ نے اجتماع میں شرکت کی منظوری دے دی ہے ۔ مولانا یوسف صاحب نے فون پر فرمایا ہے کہ وہ اس اجتماع میں شرکت کے خود بھی خواہش مند ہیں البتہ حکومت پاکستان کی طرف سے رکاوٹ کا اندیشہ ہے کیونکہ حکومت اکثر ان کے باہر جانے پر پابندی لگادیتی ہے ۔اس مرتبہ پہلے سے ہی حکومت کو اطلاع کردی گئی ہے تاکہ کوئی پابندی عائد نہ کی جائے لیکن اگر ایسی کوئی پابندی عین وقت پر لگادی گئی تو مجبوری ہوگی ورنہ ان کا آنے کا ارادہ پختہ ہے۔ اس خبر سے ہم لوگوں میں جو ش وخروش اور بڑھ گیا۔ ہم جب لوگوں سے یہ بات کہتےتو لوگ خوش ہوتے تھے ۔جے این یو میں جب ہم طلبہ اور اساتذہ کو دعوت دینے گئے اور یہ بات کہی تو ایک کمیونسٹ مسلم استاد نے فرمایا کہ کہیں مجمع بڑھانے کے لیے تو یہ بات نہیں کہہ رہے ہو۔ ہم نے کہا کہ جماعت کا یہ طریقہ نہیں کہ بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے غلط تشہیر کرے۔ اس استاد نے کہا کہ ہم کو یقین تو نہیں آتا ہے کہ مولانامودودیؒ آئیں گے لیکن اگر وہ آئے تو ہم بھی ضرور آئیں گے۔ اجتماع سے میری کوئی دلچسپی نہیں ہے البتہ قریب آکر یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا دشمن کیسا ہے۔
ہندوستان میں خاص طورپر تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ میں کمیونزم کے اثر کو ختم کرنے میں مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا غیرمعمولی رول رہا ہے، اس لیے کمیونسٹ انھیں بڑا دشمن گردانتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کو حکومت پاکستان نے بروقت آنے سے روک دیا اور وہ نہ آسکے لیکن دنیا بھر سے آنے والوں کی شہرت بھی اتنی ہوئی کہ دہلی کی عوام اور خواص کے آنے کا سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہتا تھا۔معروف صحافی کلدیپ نیر نے اپنے تاثر میں لکھا کہ دہلی کا ہر دوسرا آدمی اجتماع میں شرکت کے لیے پہنچا۔دنمان جو ہندی کا ایک بڑا معیاری ہفتہ وار ہواکرتا تھا اور جس کا رجحان کانگریسی نظریات کی طرف تھا، اس اخبار نے بھی اجتماع کا اچھا تاثر پیش کیا ۔ تاثراتی مضمون کی سرخی ’’نیکی کے مسافر‘‘ لگائی اور اس کے ایک گوشہ میں مولانا محمد یوسف صاحب کی تصویر شائع کی۔
چھٹا کل ہند اجتماع عام ۱۴تا ۱۷ فروری۱۹۸۱ء وادی ھدیٰ حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ یہ اجتماع اب تک کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ ناظمِ اجتماع مولانا عبدالعزیز صاحب اور معاون مولانا محمد سراج الحسن صاحب تھے۔ اس اجتماع میں بھی اجتماع گاہ کی تزئین کے کام میں رہ نمائی کے سلسلے میں بہارسے عبدالباری صاحب مرحوم کو ناظمِ اجتماع نے بطور خاص مدعو کیاتھا۔ اجتماع گاہ تقریباً۶۵ایکڑ زمین میں بسی ہوئی تھی کئی چھوٹی پہاڑیوں کو توڑ کر زمین ہموار کی گئی تھی۔ پانی کی سپلائی دشوار گزار تھی۔ جس پر بڑی محنت صرف کی گئی تھی۔ مختلف حلقوں کے ذوق کا لحاظ رکھ کر مطبخ میں کھانے کا نظم کیاگیا تھا اور کھانے کی سپلائی مختلف کیمپوں میں گاڑیوں اور ٹرالیوں کے ذریعہ کی گئی تھی ۔ اس اجتماع میں بھی بیرون ملک کی نامور شخصیات کی شرکت ہوئی تھی۔زینب الغزالی صاحبہ نے بلند آواز میں یہ اعتراض کیا کہ عورتوں کو بالکل بندکرکے کیوں رکھا گیا ہے۔ وہ اجتماع کے منظر سے محروم کیوں رکھی گئی ہیں۔ مولانا محمد یوسف صاحب نے ہدایت فرمائی کہ زینب الغزالی کی کرسی اسٹیج پر مردوں کی کرسیوں کے بعد لگادی جائے اور وہ اسٹیج پر تشریف فرماہوئیں۔
اس اجتماع میں امیر جماعت مولانا محمد یوسف صاحب نے توسیع دعوت کے لیے مختلف میدانوں میں کام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ مثلاً کسانوں، مزدوروں، صنعت کاروں، نوجوانوں، خواتین، مدارس، مساجد وغیرہ۱۴ یا۱۷ کمیٹیاں تشکیل پائی تھیں۔
یہ اجتماع حاضری، نظم و انصرام اور وسعت کے لحاظ سے اتنا بڑا تھا کہ اس کے بعد اب تک پھر کل ہند اجتماع عام کے انعقاد پر اتفاق نہ ہوسکا۔ س۔م۔ ملک صاحب نے فرمایا کہ گیٹورائی کے لیے اجتماع گاہ میں جگہ کافی بلندی پر ملی تھی۔ مولاناابواللیث صاحب کسی وقت ٹہلتے ہوئے وہاں تک پہنچے اور اُس پر کھڑے ہوکر اجتماع گاہ کا جو منظر دیکھا تو فرمایا کہ عرفات کے میدان جیسا منظر نظر آرہا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب جماعت پر دیگر فرقہ وارانہ جماعتوں کے ساتھ توازن کی پالیسی کے تحت پابندی لگائی گئی تو دوسال کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت یہ پابندی اُٹھائی گئی ۔ اس کے بعد اس خواہش کا اظہار ہونے لگا کہ کل ہند اجتماع ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس سے جماعت کی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور رفقاء کے حوصلے بھی بڑھتے ہیں۔ لیکن مجلس شوریٰ میں اس پر اتفاق نہ ہوسکا۔ اس کی بجائے یہ بات طے پائی کہ اجتماعات عام منطقہ وار کئے جانے چاہییں۔ چنانچہ مرکزی موضوع ففروا الی اللہ کے تحت ۱۹۹۸اور۱۹۹۹ میں۴ منطقہ وار اجتماعات عام منقعد کیے گئے اور حلقہ کیرلہ کا اجتماع اپریل ۱۹۹۸ میں منعقد ہوا۔
منطقہ مغربی ہند کا اجتماع ممبئی (ممبرا) میں ہوا تھا۔ ناظمِ اجتماع مجتبیٰ محمد فاروق صاحب اور معاون شفیع مدنی صاحب تھے۔ اجتماع کی تیاری تقریباً مکمل ہوچکی تھی لوگ آنا شروع ہوچکے تھے کہ اچانک طوفانی بارش نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ لوگ آنا شروع ہوگئے تھے۔ میں بھی پہنچ گیا تھا۔ امیر جماعت وغیرہ دوسرے دن پہنچنے والے تھے۔ جو لوگ آگئے تھے اور جو ذمہ داران اور والنٹیر وغیرہ وہاں موجود تھے ان کی ہنگامی نشست ہوئی اور طے پایا کہ اجتماع کے التوا کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہے۔ از سر نو تیاری کے لیے کم از کم ایک ماہ چاہیے۔
چنانچہ امیر جماعت سے فون پر بات کی گئی وہ اور مرکز کے بعض ذمہ دار دہلی سے روانہ ہوچکے تھے۔ متھرا اسٹیشن پر جب ٹرین پہنچی تو سب وہیں اتر گئے اور مرکز واپس ہوگئے۔ ذمہ داروں اور نوجوانوں نے اُسی وقت سے از سر نو تیاریاں شروع کردیں اور ایک ماہ بعد دوبارہ اجتماع گاہ اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ تیار اور آباد ہوگئی۔
ایسا ہی ناگہانی طوفانی بارش کا ایک اور واقعہ حلقہ آندھرا پردیش (متحدہ) حلقہ کے اجتماع۲۰۰۲ء کی تیاریوں کے دوران میں ہوا تھا ،جو وجے واڑہ میں منعقد کیا گیا تھا۔ناظمِ اجتماع خواجہ عارف الدین مرحوم تھے ۔ سارے ٹینٹ گر گئے مایوسی نے آگھیرا لیکن خواجہ عارف الدین ہمت نہیں ہارے اور نوجوانوں سے جذباتی اپیل کی کہ اگر وہ ہمت سے کام لیں تو دو دنوں میں سب کچھ بحال ہوسکتا ہے اور اجتماع وقت پر منعقد ہوسکتا ہے۔ سبھی نے جب ایسا ہونا ناممکن قرار دیا تو خواجہ صاحب کو غصہ آگیا اور نوجوانوں کو بہت سخت سست کہا اور اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اجتماع ہر حال میں وقت پر ہوکر رہے گا خواہ یہ مہم کتنے ہی مزدوروں کو کرایہ پر حاصل کرکے سرکرنی پڑے۔ بالآخر نوجوانوں کو غیرت آئی اور خواجہ صاحب کے غصہ سے ناراضگی کے باوجود نوجوان کمربستہ ہوگئے اور دو دنوں میں رات دن ایک کرکے اجتماع گاہ بروقت تیار کرڈالی۔ خواجہ صاحب بھی مسلسل ساتھ لگے رہے اور ان کے حوصلے بڑھاتے رہے۔ ہم جب پہنچے تو نوجوان خواجہ صاحب کی ڈانٹ پھٹکار پر بڑی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے لیکن انھیں اس بات کا بہ ہرحال اعتراف تھا کہ اگر وہ ایسا رویہ اختیار نہ کرتے تو یہ مہم سر نہیں ہوسکتی تھی۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024