گزشتہ صدی میں دنیا کے متعدد ملکوں میں اسلامی تحریکات بہت واضح ہدف کے ساتھ وجود میں آئیں۔ وہ ہدف یہ تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین یعنی اسلامی نظام قائم ہوجائے۔ اس ہدف کی حقانیت پر انہیں پورا یقین اور کامل اطمینان تھا۔ اس وقت ان تحریکوں کے وجود میں آنے کی وجہ غالبا یہ بھی تھی کہ اسی صدی میں غیر اسلامی نظاموں کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی تھی، اس سے پہلے حکومتیں چلتی تھیں مگر بنا کسی نظام کا نام لیے، اور مسلم دنیا میں کوئی حکمراں خواہ اس کا طرز حکمرانی کیسا ہی ہو، یہ دعوی نہیں کرتا تھا کہ وہ کوئی مخصوص انسانی نظام نافذ کرے گا۔ مسلم حکمراں کے سلسلے میں اصولی طور پر یہی امید رکھی جاتی تھی کہ وہ اسلام کے مطابق طرز حکمرانی اختیار کرے گا، خواہ عملا ایسا نہیں ہوتا ہو۔ اسلامی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواکہ مسلم حکمراں علی الاعلان غیر اسلامی نظام نافذ کررہے تھے، یہ بات مسلم دنیا کے لیے اس قدر نئی تھی کہ بقول ایک صاحب فکر کے، فقہاء نے بہت سے اَنہوں نے مسائل فرض کیے تھے لیکن اس مسئلے کی طرف ان کا ذہن ہی نہیں گیا تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
دین کا نفاذ
اللہ کے دین کو ماننے والے اپنی زندگی کے ہر گوشے میں اور اپنے ملک کے ہر شعبے میں اللہ کے دین کو نافذ کریں، اور پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے خاص کردیں، اس کے لیے قرآن مجید کی ایک دو آیتیں نہیں بلکہ پورا قرآن مجید نہایت روشن دلیل ہے۔ ایک دو حدیثیں نہیں بلکہ پورا مجموعہ احادیث، ایک دو واقعات نہیں بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل سیرت اور ایک دو کردار نہیں بلکہ رسول کے اصحاب کی پوری تاریخ اس پر گواہی دیتی ہے۔غرض اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو، یہ قرآن وسنت کی رو سے ایک مسلمہ امر ہے۔ یہ نظام انسانوں کے ذریعہ ہی سے قائم ہو گا یہ بھی اللہ کی سنت ہے، جس پر نبیوں کی تاریخ گواہ ہے۔اسلامی تحریکات کا یہ موقف بلاشبہ نہایت مضبوط ہے کہ دنیا میں اسلامی نظام قائم ہو۔
اسلامی تحریکات کا یہ فیصلہ بھی نہایت مناسب اور مستحکم ہے کہ انسانوں کو اسلامی نظام کے قیام کی ضرورت سے واقف کرانے کے لیے تحریکیں وجود میں آئیں اور وہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدو جہد کریں۔اسلامی تحریکات کے اس موقف سے بھی مکمل اتفاق ہے کہ اگر نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جمہوریت کی شکل میں ایک پرامن طریقہ موجود ہے تو اس طریقہ کو اختیار کرنا چاہیے، اور کسی ایسے طریقہ کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے جس سے تشدد پھوٹنے اور خون خرابہ ہونے کا اندیشہ ہو۔اس مضمون میں صرف اس بات سے بحث کی گئی ہے کہ کیا اسلامی تحریکات کو انتخابات میں شریک ہوکر اسلامی نظام چلانے کے لیے خود کو پیش کرنا چاہیے؟
براہِ راست شرکت
عام طور سے اسلامی تحریکات میں رائج ومقبول خیال یہ ہے اسلامی تحریکات کو سیاسی پارٹی بن کر یا کسی دوسرے نام سے سیاسی پارٹی بنا کر انتخابی سیاست کی مقابلہ آرائی میں حصہ لینا چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ اس تجویزمیں نہ تو کوئی شرعی ممانعت نظر آتی ہے، اور نہ کوئی اخلاقی قباحت نظر آتی ہے۔البتہ اس پر غور کرتے رہنا ضروری ہے کہ اصل ہدف یعنی اسلامی نظام کے قیام کے حصول کے لیے ایسا کرنا مناسب اور مفید ہے یا نہیں ۔جب ایک اسلامی تحریک خود کو نظام چلانے کے لیے پیش کرتی ہے تو حسب ذیل بڑے نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے:
(نقصانات اور آزمائشوں میں فرق واضح رہے، ہدف کا گم ہوجانا، اور داعی کی شناخت کا مجروح ہوجانا ’’نقصان‘‘ ہے، اور اس راہ میں جانی ومالی ضرر ’’آزمائش‘‘ہے، اس تجزیہ میں آزمائشوں سے بچانے کی فکر پیش نظر نہیں بلکہ نقصانات سے بچانے کی فکر پیش نظر ہے)
(۱): انتخابی مقابلے میں حصہ لینے کی صورت میں اسلامی تحریک ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کے لیے سیاسی حریف اور سیاسی مد مقابل بن جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ ایک دعوتی تحریک اپنے مدعوئین کے درمیان سیاسی حریف کی صورت اختیار کرلے۔ اسلامی تحریک کے وجود کا تقاضا ہوتا ہے کہ ملک کے تمام باشندے اسلامی تحریک کے مخاطب اور مدعو ہوں۔ عوام کے علاوہ سیاسی افراد، سیاسی جماعتیں، اور ملکی ادارے سب کے سب اسلامی تحریک کے مخاطب اور مدعو ہوں۔ مخاطب اور مدعو کا یہ رشتہ شدید طور سے متأثر ہوجاتا ہے جب اسلامی تحریک سیاسی مقابلے میں سامنے آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ شخص جو اسلام کو پسند کرتا ہے مگر کسی وجہ سے اسلامی تحریک کو ووٹ نہیں دیتا ، وہ بھی اسلامی تحریک سے ایک دوری پر چلا جاتا ہے۔
(۲): اسلامی تحریک جب انتخابی عمل میں شریک ہوتی ہے تو اسلامی تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ انتخابی عمل کے نتائج قرار پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ نتائج اسلامی تحریک کی کارکردگی اور پیش قدمی کی صحیح عکاسی نہیں کرتے ، واقعہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کی دعوت پھیل رہی ہو، لوگ اس سے متأثر بھی ہورہے ہوں مگر متعدد وجوہ کی بنا پر اسلامی تحریک کو ووٹ نہ مل رہے ہوں، ایسی صورت حال میں دنیا کے سامنے پیغام یہی جاتا ہے کہ عوام نے اسلامی تحریک کو رد کردیا، اور اسلامی تحریک کو رد کرنے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام نے اسلامی نظام کو رد کردیا جس کے قیام کا مشن لے کر اور جس کے لیے خود کو اہل تر قرار دے کر اسلامی تحریک انتخابی میدان میں اتری ہے۔
(۳): اسلامی تحریک کے افراد کو انتخابی عمل میں جہاں کامیابی ملتی ہے وہاں خورد بینی نگاہوں سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی کارکردگی کیسی رہی، کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہونے کی صورت میں یہ تأثر پھیلتا ہے کہ اسلامی نظام کا نظریہ عملی سطح پر اطمینان بخش نہیں ہے۔ حالانکہ کارکردگی کا پورا تعلق نظریہ سے نہیں ہوتا ہے، اس میں مواقع کی دستیابی، عوام کی دینی واخلاقی صورت حال، ذمہ دار فرد کی ذاتی قابلیت اور اس کا کمٹمنٹ، اور دیگر بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ لیکن اسلامی نظام چلانے کے لیے جب اسلامی تحریک خود کو اہل ترین جماعت کی حیثیت سے پیش کرتی ہے، تو فطری طور سے اسلامی تحریک کے افراد کی خراب کارکردگی اسلامی نظام کے نظریہ کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ بڑا فرق ہے اس میں کہ قرآن میں ہر مسئلے کا حل ہے، اور اس میں کہ ہم قرآن مجید کی روشنی میں ہر مسئلہ کو حل کرنے والے واحد اہل یا دوسروں سے زیادہ اہل تر گروہ ہیں، پہلی صورت میں لوگ قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں دوسری صورت میں ہماری کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔
(۴): اسلامی تحریک جب انتخابی عمل میں اتر کر ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اپنا سیاسی حریف بنالیتی ہے، تو وہ ان کی سازشوں اور تخریبی کارروائیوں کا آسان نشانہ بن جاتی ہے۔ اسلامی تحریک کو ہمیشہ آزمائشوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے، لیکن جب آزمائش خالص دعوتی وجوہات سے ہو، تو اس آزمائش سے دعوت میں غیر معمولی تاثیر اور کشش پیدا ہوتی ہے، لیکن انتخابی سیاست میں شریک ہونے کے بعد ایسی ہر آزمائش کو سیاسی سرپھٹول کا شاخسانہ باور کرادیا جاتا ہے، اور پھر اس آزمائش میں وہ کشش اور تاثیر نہیں رہ جاتی ۔
(۵): دعوتی گروہ کی اعلی شان اس کی بے لوثی اور بے غرضی میں پنہاں ہوتی ہے۔ اسلامی تحریکات کا دنیاوی مصالح کے سلسلے میں وہی موقف ہوتا ہے جو انبیاء کا رہا ہے، کہ انہیں اپنی محنت کا صلہ دنیا سے نہیں چاہیے ۔ تاہم انتخابی مقابلہ آرائی میں شرکت کرنے سے اسلامی تحریکات کا یہ عظیم اور بلند موقف ضرور متأثر ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلامی تحریکات کے سامنے اقتدار کا مقصد دنیا کمانا نہیں ، مگر مخالف پروپیگنڈے کے ساتھ عوام کو یہ بات سمجھانا آسان بھی نہیں ۔
(۶): انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی صورت میں اسلامی تحریکات میں مفاد پرستوں کے داخلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، عہدوں کی خواہش بہت سے موقع پرستوں کو تحریک میں لے آتی ہے۔ یہ موقع پرست ہر طرح سے تحریک کے اعلی عہدوں پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ تحریک کے اندر جتنی اونچی پوزیشن حاصل ہوگی، تحریک کی سیاسی فتوحات میں بھی اتنا ہی بڑا حصہ پالینے کی امید رہے گی۔ تحریک کے اندر دنیاداری کا چرچا زیادہ ہونے لگتا ہے، اسلامی تحریک کے اندر وہ ماحول بنتا ہے جسے دینی رنگ کی مادہ پرستی Religious Materialism سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(۷): ہر سیاسی پارٹی کی طرح اسلامی تحریک کو بھی سیاسی میدان میں آنے کے بعد موقع بموقع دوسری سیاسی پارٹیوں سے وقتی اتحاد کرنا پڑتا ہے، اس وقتی اتحاد کے پیچھے فوری اور ضروری مصالح کا حصول بھی ہوسکتا ہے، اور درپیش بڑے ضرر کو دفع کرنا بھی ۔ اسلامی تحریک کے اس طرح کے اتحاد کو عوام کے درمیان اسلامی نظام کے سلسلے میں سمجھوتے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں صفائی پیش کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، خاص طور سے اگر اس اتحاد سے وہ نتائج نہ نکل سکیں جن کی توقع کی گئی تھی۔
(۸): انتخابی عمل کا بوجھ اسلامی تحریک کے اصل کام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ شروع میں ملنے والی قلیل اور چھوٹی سیاسی فتوحات بڑی فتوحات کی امید اس طرح پیدا کردیتی ہیں، کہ پھر فتوحات کے پیچھے بھاگنے کا نشہ سا سوار ہوجاتا ہے، اور پھر وہی کام سب سے اہم معلوم ہونے لگتا ہے، ساری جدوجہد اسی پر مرکوز ہونے لگتی ہے، تربیتی، تعلیمی اور دعوتی منصوبے نگاہوں میں افادیت کھونے لگتے ہیں۔ انتخابی مقابلہ بہت زیادہ محنت اور وسائل مانگتا ہے، اسلامی تحریک اپنا سب کچھ جھونک دے تو بھی اونٹ کے منھ میں زیرہ جیسا لگتا ہے، ایسے میں انتخابی عمل کا بار گراں اٹھانے والی اسلامی تحریک اپنے اصل کام سے دست بردار ہونے پر مجبور ہونے لگتی ہے۔ اصل کام ہے اسلامی نظام کے لیے فرد کو تیار کرنا، اور اس کے لیے معاشرے کو ہموار کرنا، اور یہ کام تربیت اور دعوت کے بے شمار منصوبے مانگتا ہے۔ تربیت ودعوت کے نشانے مکمل نہ ہوپانے کی صورت میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تحریک کے نمائندہ افراد اسلام کے سچے نمائندے ثابت نہیں ہوتے، عوام کے دل ودماغ اور ان کا کیرکٹر اسلامی نظام کے لیے تیار نہیں ہوتا، بایں ہمہ ہر انتخاب کے موقع پر اسلامی تحریک اسلامی نظام کے نام پر ووٹ مانگنے کے لیے آتی ہے، اور نامراد واپس جاتی ہے، اس کی انتخابی قوت کا سارا دارو مدار اس پر رہ جاتا ہے کہ اس کی اپیل کس قدر جذباتی ہے۔ اگر کبھی کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہے تو عوام کی خراب اخلاقی حالت اس کامیابی کو نہ برقرار رہنے دیتی ہے، اور نہ ثمر آور ہونے دیتی ہے۔
(۹): اسلامی تحریک کے لیے کیڈر(کارکنوں) اور قیادت میں مطلوب بنیادی صلاحیتیں انتخابی عمل کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، ایک داعی جماعت کو الگ طرح کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں، جبکہ ایک سیاسی جماعت کو دوسری طرح کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابی عمل کے لیے مطلوب صلاحیتوں والے افراد ہی پوری تحریک پر حاوی ہوجاتے ہیں، اور تربیتی ودعوتی عمل کے لیے جو صلاحیتیں مطلوب ہیں وہ بے قیمت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ عوام کی تالیاں جیت لینے والے شعلہ بیان مقررین ہی تحریک کے منصوبہ ساز اور اہل حل وعقد قرار پاتے ہیں۔
(۱۰): انتخابی عمل کی ضرورتیں فوری اور ہنگامی نوعیت کی ہوتی ہیں، ان میں مصروف ہونے کی وجہ سے تربیتی اور دعوتی عمل کی ضرورتوں کی طرف سے شدید بے توجہی ہوتی ہے۔ دعوتی عمل کی ضرورتیں طویل المدت ہوتی ہیں ، اور ان کے لیے گہری منصوبہ بندی اور بہت زیادہ ذہنی یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر تحریک کے تعلیمی اور تحقیقی ادارے اپنا اصل کام کرنے کے بجائے سیاسی مقررین اور سماجی کارکنان تیار کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
(۱۱): انتخابی عمل میں داخل ہونے کے لیے کیڈر کی تعداد بڑھانے پر توجہ بڑھ جاتی ہے، جب کیڈر تحریک کی ضرورت بن جاتا ہے تو کیڈر کی پسند اور ناپسند بھی اہم ہوجاتی ہے۔ انجام کار معیارات گرنے لگتے ہیں، ضابطے ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں، اور روایات پھیکی پڑنے لگتی ہیں۔ تحریک کے اندر کیڈر کو سہولت بخش ماحول دینا اور اس کی تفریح طبع کا سامان مہیا کرنا تحریک کی ضرورت بن جاتا ہے۔
(۱۲): انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کے لیے عوام کی خوشنودی حاصل کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے، اور جہاں عوام کی خوشنودی اہمیت اختیار کرنے لگتی ہے، وہاں افراد اور تحریکیں اقدار، افکار اور کردار سے دست بردار ہونے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ پھر تحریک کی خاطر عوام کو تبدیل کرنے کے بجائے عوام کی خاطر تحریک کو تبدیل کرنے کے مطالبے خود تحریک کے اندر سے سر اٹھانے لگتے ہیں۔
یہ کچھ اندیشے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ سب ہر جگہ پائے جاتے ہوں، بلاشبہ ان میں سے کچھ پر یا بیشتر پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اور اگر انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ ہی کیا جائے، تو ان اندیشوں سے تحریک کو محفوظ رکھنا لازم ہے۔ اسلامی تحریکات کے لیے اس پر سنجیدگی اور گہرائی سے غور کرنا ضروری ہے کہ ان متوقع نقصانات کو کم سے کم کس طرح کیا جائے۔اس سلسلے میں بحث ونظر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کیا کسی ملک کے سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے سیاسی پارٹی کی صورت میں انتخابی مقابلے میں حصہ لینا ضروری ہے، یا اس کے بغیر بھی عوامی رائے عامہ پر توجہ کرکے عوامی تر بیت کرکے نظام کی تبدیلی کا تصور کیا جاسکتا ہے؟
راقم کا خیال ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے انتخابات والا راستہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ اس منزل کا راستہ ہی نہیں ہے۔ اسے ضروری سمجھ لینے ہی کی وجہ سے اسلامی تحریکات نے اسے اختیار کیا ۔ ستم یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ ایک آسان شارٹ کٹ بھی محسوس ہوتا ہے۔ سیکولرزم نیشنلزم سوشلزم کمیونزم وغیرہ نظریات کے لیے تو یہ راستہ ایک شارٹ کٹ کے طور پر کامیاب قرار پاسکتا ہے، کیونکہ ان نظریات کا اثر پوری زندگی پر نہیں پڑتا ۔ عموما انفرادی زندگی ان نظریات کے اثر سے مستثنیٰ سمجھی جاتی ہے۔ یہ نظریات بسا اوقات محض پرکشش مگر کھوکھلے نعروں سے غذا پاتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ نظریات کوئی بہت بڑی ذمہ داری بھی اپنے حاملین پر عائد نہیں کرتے، اس کے علاوہ ان نظریات کو دنیا پرستی اور خود غرضی کے ساتھ جمع کرنے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں ہوتی ۔ لیکن اسلامی نظام قائم کرنے میں وہ نزاکتیں ہیں جو ایسے کسی شارٹ کٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہیں۔
انتخابی عمل میں عدمِ شرکت
اس پہلے خیال کے مقابلے میں دوسرا خیال یہ ہے کہ اسلامی تحریکات اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد تو بھرپور کریں، مگر نظام چلانے کے لیے خود کو کبھی پیش نہ کریں۔ نہ تو انتخابی عمل میں حصہ لیں، اور نہ ہی کسی منصب کے مقابلے میں شامل ہوں۔ نہ یہ شرکت اسلامی تحریک کے نام سے ہو، اور نہ ہی کسی دوسرے نام سے سیاسی پارٹی بنا کر ہو۔ نہ یہ کام کی ابتدا میں ہو، اور نہ ہی یہ مستقبل قریب یا مستقبل بعید کے لائحہ عمل میں رہے۔ اول روز سے یہ بات طے شدہ رہے کہ یہ اسلامی تحریک ہے اور یہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے ذہن سازی کرے گی، اس کے لیے ماحول بنائے گی، اس کے لیے بہترین صلاحیتیں تیار کرے گی، اور بہترین صلاحیتوں والے افراد کو اس مقصد کی جانب راغب کرے گی۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام ہی ملک کے لوگوں کی چوائس اور پسند بن جائے، اور پھر وہی ملک کا آئین قرار پائے۔ اس کے بعد اسلامی نظام کو چلانے کے لیے ملک کے عوام انہیں منتخب کریں جنہیں وہ اس کے لیے اہل اور بہتر سمجھتے ہوں۔ تاہم اس آخری مرحلے میں بھی اسلامی تحریک بطور اسلامی تحریک خود کو اس انتخابی عمل میں شامل نہیں کرے گی، بلکہ وہ اسلامی تبدیلی کی حفاظت کے لیے خود کو وقف رکھے گی۔
اس خیال کی مزید تشریح کے لیے درج ذیل باتیں بھی سامنے رہیں:
(۱): اس طرح اسلامی تحریک کا دائرہ کار بہت وسیع ہوجائے گا۔ ملک کے تمام عوام تحریک کے مخاطب ہوں گے، ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی اسلامی تحریک کی مخاطب ہوں گی، اسلامی تحریک ہر سیاسی پارٹی کے اندر نفوذ کرے گی، خواہ وہ پارٹی کسی بھی نظریے کی حامل ہو، اسلامی تحریک کے سامنے کسی سیاسی پارٹی کو ہرانا نہیں ہوگا، بلکہ اس کا ہدف ہر سیاسی پارٹی کے اندر اسلامی نظام کے نظریے کو فروغ دینا ہوگا۔ اسلامی تحریک یہ چاہے گی کہ آنے والے وقت میں عوام بھی اسلامی نظام کے لیے آمادہ ہوجائیں اور سیاسی پارٹیاں بھی اسلامی نظام کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائیں۔ جس طرح پہلے زمانے میں غیر مسلم بلکہ اسلام دشمن قبیلوں کوبھی اسلام کی دعوت دی جاتی تھی، اسی طرح عہد حاضر میں سیاسی پارٹیوں کو اسلامی فکر اور اسلامی نظام کا مخاطب بنایا جائے گا۔ کوئی بعید نہیں کہ ایک پارٹی جو مذہب کے انکار پر قائم ہوئی تھی، اسلامی تحریک کی کوششوں کے نتیجے میں ایک اسلام پسند پارٹی میں تبدیل ہوجائے۔
(۲): اسلامی تحریک کوشش کرے گی کہ حکومت بنانے اور حکومت چلانے کے بہتر سے بہتر طریقوں کو دریافت کیا جائے۔ اسلامی تحریک موجودہ طریقوں کے اندر پائی جانے والی خامیوں کو سب کے سامنے لائے گی، اور مجوزہ طریقے کی خوبیاں دلائل کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرے گی۔ طریقہ انتخاب اور طریقہ حکومت کے سلسلے میں فکر وتحقیق کرنے کے لیے اسلامی تحریک بہترین دماغوں کو متوجہ کرے گی، اور انہیں اس کام کے لیے تیار کرے گی۔ اسلامی تحریک اپنی اصلاحی تجاویز کے ذریعہ پورے ملک کے لیے ایک مسیحا کا رول ادا کرے گی۔ چونکہ وہ انتخابی کشمکش اور مقابلہ آرائی سے دور رہ کر یہ کام کرے گی، اس لیے یہ امید بجا ہوگی کہ اس کے کاموں کو ہر حلقے میںاچھی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اصلاحی تجاویز کی پشت پر انتخابی ایجنڈا نہ ہو تو وہ سب کے لیے قابل قدر ہوتی ہیں۔
(۳): اسلامی تحریک کو چونکہ اپنے افراد کو اقتدار پر نہیں لانا ہوگا، اس لیے وہ پوری آزادی اور قوت کے ساتھ اپنے افکار اور اپنی قدروں کو پیش کرسکے گی۔ اس سلسلے میں اس کے اوپر نہ جماعتی مصالح کا دباؤ ہوگا، اور نہ ہی عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کا محرک پریشر ہوگا۔
(۴): اسلامی تحریک کے سامنے چونکہ اپنی افرادی طاقت سے حکومت بنانے کا ہدف نہیں ہوگا، اس لیے بھیڑ جمع کرنے کے بجائے ساری توجہ دعوتی قوت میں اضافے پر مرکوز رہے گی، افراد کے کردار کی مضبوطی، فکر کی پختگی، دعوتی صلاحیتوں میں مہارت اور اعلی ہدف سے محبت یہ اوصاف اسلامی تحریک کا حقیقی سرمایہ اور اصل قوت ہوں گے جس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے گی۔
(۵): انتخابی سیاست سے دور رہنے کی وجہ سے، اور سارے عوام اور تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو اپنا میدان کار سمجھنے کی وجہ سے اسلامی تحریک کی کوشش یہ ہوگی کہ اس کے فکری اثرات ہر جگہ پہنچ جائیں، مقننہ اور انتظامیہ بھی اسلامی تحریک سے متأثر ہو، عدلیہ اور فوج میں بھی اس کی فکر عام ہو، صحافت اور تعلیم کے میدانوں میں بھی اس کے افکار کو فروغ حاصل ہو، سماج کی جڑوں(Deep Society) میں بھی اسلامی نظام کی فکر رواں دواں ہوجائے، اور حکومت کی جڑوں(Deep state) میں بھی اسلامی نظام کی فکر رچ بس جائے۔
(۶): انتخابی مقابلہ آرائی سے دور رہنے کی وجہ سے اسلامی تحریک بڑی حد تک مخالفوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ کر کام کر سکے گی۔ اس کی افرادی قوت کا کہیں مظاہرہ نہیں ہوگا، مگر اس کے فکری اثرات ہر طرف پھیلتے جائیں گے۔ اگر آزمائشیں آئیں گی، تو وہ خالص دعوتی نوعیت کی آزمائشیں ہوں گی، جس کا اسلامی تحریک کو بھر پور فائدہ ملے گا۔ اس کے علاوہ شدید آزمائشیں پوری تحریک کو لپیٹ میں لینے کے بجائے اس کے کچھ حصہ کو ہی متاثر کرسکیں گی، پہلی صورت میں تو پوری کی پوری تحریک لپیٹ میں آجاتی ہے۔
(۷): اسلامی تحریک کے سامنے یہ بات بھی رہے گی کہ وہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی طرف متوجہ کرنے والی تحریک ہے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا کام انجام دینا پوری امت کی ذمہ داری ہے، اور پوری امت کے انجام دینے سے ہی یہ ذمہ داری ادا ہوسکے گی۔
(۸): امت کے اندر یا امت کے بالمقابل اسلامی تحریک کا کوئی الگ تشخص نہیں بنے گا، اسلامی تحریک اس طرح امت کی رگ وپے میں رواں دواں ہو گی کہ وہ امت کی صورت حال میں بڑی تبدیلی لائے گی، مگر اس میں اور امت میں تشخص اور پہچان کا کوئی فرق نہیں ہو گا۔
(۹): اسلامی تحریک خالص دعوتی تحریک ہوگی، وہ اپنے ذمہ امت کے کاموں کا اضافی بوجھ بطور جماعت نہیں لے گی، امت کے تمام کام امت کو انجام دینے ہوں گے، اسلامی تحریک کے افراد بطور افراد امت وہ سب کچھ کریں گے جو امت کے کرنے کے کام ہیں، لیکن اسلامی تحریک کے کارکن کے طور پر وہ صرف دعوتی کام کریں گے، اسلامی تحریک دعوتی ذمہ داری کو بھی پوری امت کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امت کو دعوتی کام میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کرتی رہے گی، کسی بھی کام میں اسلامی تحریک کا امت کے کسی بھی ادارے سے مقابلہ یا ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ جو بھی کشمکش ہوگی وہ اسی نوعیت کی ہوگی جیسی کشمکش سے انبیاء کرام کو گزرنا پڑتا ہے۔
(۱۰): اسلامی تحریک کے لیے اپنا جماعتی تشخص زیادہ اہم نہیں رہے گا، اس لیے اس کا کسی مسلم دینی جماعت سے یا مسلم دینی ادارے سے حریفانہ مقابلہ بھی نہیں ہوگا، وہ ہر جماعت اور ادارے کے ذریعےدرست افکار کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی، اس کی فکر سے متأثر ہونے والے کے لیے اپنی جماعت اور ادارے کو چھوڑ کر آنا ضروری نہیں ہوگا، کیونکہ مقصود یہ ہوگا کہ امت کے اندر جتنی دینی جماعتیں اور ادارے ہیں، خواہ اس وقت ان کی فکر جو بھی ہو، وہ سب اسلامی تحریک کی فکر کو بتدریج قبول کرلیں، خواہ ان کی جماعتی ساخت پہلے کی طرح برقرار رہے۔
(۱۱): اسلامی تحریک کے سامنے ہدف یہ ہوگا کہ اسلامی نظام کے قیام کی فکر سیاسی سطح پر زیادہ سے زیادہ پھیلے، اس لیے وہ یہ ضروری نہیں سمجھے گی کہ جو اس کی فکر سے متأثر ہو، وہ اپنی سیاسی پارٹی یا اپنا حکومتی ادارہ یا اپنی سماجی پوزیشن چھوڑ کر اسلامی تحریک میں شمولیت اختیار کرے، اس کے ہدف کے حصول کے لیے یہ زیادہ مفید ہوگا کہ جو جہاں ہے وہیں پر رہتے ہوئے اس فکر سے متأثر ہونے کے بعد دوسروں تک اس فکر کو پہنچائے، تاکہ وہ فکر کسی ایک گروہ اور ایک جماعت تک محدود رہنے کے بجائے ہر جگہ پائی جائے۔
(۱۲): پہلی صورت میں ہوتا یہ ہے کہ انتخابات میں اسلامی تحریکات اس منشور کے ساتھ سامنے آتی ہیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت چلائیں گی، اسلامی تحریکات پورے خلوص کے ساتھ یہ منشور پیش کرتی ہیں، لیکن مقابل فریقوں کو یہ تأثر پھیلانے کا خوب خوب موقع ملتا ہے کہ یہ لوگ اسلام کے نام پر اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں، اور اپنے جماعتی مصالح کے لیے عوام کے دین پسند جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ صورت حال اس سے بہت مختلف ہوگی جب اسلامی تحریک کی جدوجہد کے نتیجے میں عوام اسلامی نظام کو چاہنے والے بن جائیں، ان کی پسند کے نتیجے میں ملک کا آئین اسلامی ہوجائے، اور ہر پارٹی اسی نظام کو چلانے کی پابند بن جائے، اور پھر تمام پارٹیوں کا منشور یہ ہو کہ وہ ملک کو بہتر طریقے سے چلانا چاہتی ہیں، عوام دینی نوعیت کے جذباتی نعروں کا سامنا کرنے کے بجائے ملک چلانے کے لیے جن کو زیادہ اہل سمجھیں اور جن کی صلاحیت اور صالحیت پر انہیں زیادہ بھروسہ ہو انہیں منتخب کریں۔
یہ خیال آتا ہے کہ اسلامی تحریک نے اسلامی نظام کے لیے برسہا برس محنت کی، بے پناہ قربانیاں دیں، اور اپنے افراد کی اس طویل عرصے میں فکری تربیت کی، اس لیے دوسروں کے مقابلے میں اسلامی تحریک اسلامی نظام کو چلانے کی زیادہ اہل ہے، مگر یہ درست سوچ نہیں معلوم ہوتی ۔ اسلامی تحریک کی قربانیوں کا صلہ آخرت میں ملے گا، اور یہی اول روز سے نیت ہونی چاہیے، یہی دعوت میں اخلاص کا تقاضا ہے۔ جہاں تک اہلیت کی بات ہے، ایک کامیاب دعوتی جماعت مملکت کے انتظام کے لیے بھی اہل تر ہو یہ لازم اور ضروری نہیں ۔ جس وقت اسلامی نظام کو چلانے کا وقت آئے گا اس وقت اس کام کے لیے اہل تر لوگ منتخب کیے جائیںگے ۔ دعوتی جدوجہد کا تجربہ مملکت چلانے کے لیے لازماً بنیاد نہیں بن سکتا ۔ البتہ تحریک اسلامی اس پر بھرپور توجہ دے کہ جو لوگ کار حکومت کے لیے سامنے آسکتے ہیں، اور اس کے لیے مناسب ہوسکتے ہیں، ان کی بہتر فکری تربیت کی جائے۔
خلاصہ کلام
اپنا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے، اسلامی تحریکات کے سامنے یہ دونوں ماڈل غور وفکر کے لیے سامنے رہنے چاہئیں۔ ایک ماڈل یہ ہے کہ اسلامی تحریک اسلامی نظام کے قیام کے لیے بھی اور پھر اس کے انتظام وانصرام کے لیے بھی خود کو اہل تر سمجھتے ہوئے اپنے نام سے یا دوسرے نام سے انتخابی عمل میں حصہ لے۔ اس کے بجائے دوسرا ماڈل یہ ہے کہ اسلامی تحریک کسی بھی طرح کے انتخابی عمل میں حصہ نہ لے، اور مکمل یکسوئی کے ساتھ صرف اسلامی نظام کے قیام کے لیے ملک کے تمام عوام کو تمام سیاسی پارٹیوں کو اور ملک کے تمام اداروں کو آمادہ اور تیار کرے۔ اسلامی نظام کے انصرام وانتظام کا کام ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے، جو عوام کے درمیان سے ابھر کر سامنے آئیں اور جنہیں عوام اس کام کے لیے اہل سمجھ کر ان پر اعتماد کریں۔ جب ملک کا آئین اسلامی ہوجائے گا تو غیر اسلامی طرز حکومت کے لیے جواز باقی نہیں رہے گا، اور جب عوام اسلام پسند ہوجائیں گے تو ان لوگوں کے لیے عوامی رائے کے حصول کے دروازے بند ہوجائیں گے جو اسلامی نظام کے مطابق حکومت کرنے کے قائل نہ ہوں۔ گوکہ اس وقت بھی عوام میں اسلام پسندی قائم رکھنے کے لئے اور اداروں پر اسلامی نظام کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے اسلامی تحریک کو طاقتور بیدار اور فعال رہنا ہوگا۔راقم یہ سمجھتا ہے کہ پہلے ماڈل میں شدید قسم کے نقصانات کا اندیشہ ہے، اور کامیابی کے امکانات کم ہیں، بلکہ ایک خول میں بند ہوجانے کا ڈر زیادہ ہے۔ دوسرے ماڈل میں نقصانات کا اندیشہ کم ہے، کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، اور محض ایک پارٹی میں محدود ہوجانے کے بجائے اس عظیم نظریہ کے وسیع سے وسیع تر میدانوں اور مخفی سے مخفی تر گوشوں میں پھیل جانے کے امکانات زیادہ ہیں، اور یہی تو اصل مطلوب ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2018