امریکی مسلم کمیونٹی کی دینی سرگرمیوں میں شرکت کی کمی کو صرف سماجی دباؤ سے منسوب نہیں کرنا چاہیے، لیکن بلاشبہ یہ بھی ایک سبب ہے۔ امریکی مسلمانوں کے لیے امریکہ ہی واحد وطن ہے جسے وہ جانتے ہیں اور ہمیں یہ فرض کرنا چاہیے کہ ایک اصول کے طور پر وہ اپنے ملک کی بہت سی مروجہ اقدار اور رسم و رواج کو ضرور اپنائیں گے۔ کچھ مسلمان والدین اپنے بچوں کو معاشرے سے دور رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ انھیں غیر مسلم دوست رکھنے سے منع کر تے ہیں، انھیں ٹیلی وژن دیکھنے یا انٹرنیٹ کا استعمال کرنے سے روکتے ہیں، انھیں ریڈیو سننے یا سی ڈی خریدنے سے باز رکھتے ہیں اور انھیں اسلامی اسکول بھیجتےہیں یا پھر گھرپر ان کی دینی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں۔لیکن جو لوگ یہ سب کرنے کی استعداد رکھتے ہیں وہ نسبتاً کم ہیں۔ بہت سے علاقوں میں کل وقتی اسلامی اسکول موجود ہی نہیں اور ایسی صورت میں آپ کے بچے کو کلچرل تنہائی میں رکھنے کے لیے کافی وقت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، زیادہ تر مسلمان والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی عمومی بہبود کے لیے امریکی معاشرے میں انضمام ضروری ہے اور بچوں کی دانش مندانہ پرورش کے ساتھ وہ کسی حد تک انھیں امریکہ کی ناپسندیدہ عادات سے دور رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا، ان چند استثنائی والدین کو چھوڑ کر جو اپنے ماحول کے کلچرسے کام یابی کے ساتھ الگ تھلگ ہو چکے ہیں، زیادہ تر مقامی نژاد مسلمان واضح امریکی ورلڈ ویو رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ سوچنا درست نہیں کہ 80 فیصد گم شدہ مسلم نوجوانوں کو ان کے عقیدے سے نکال کر امریکی مین اسٹریم میں شامل کیا جا رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی اس ملک کے سماجی منظر نامے میں ضم ہو چکے ہیں اور وسیع تر امریکی کلچر اور مسلم ذیلی کلچر کا مسلسل جائزہ لے ر ہے ہیں۔ اس سے مقامی نژاد مسلمانوں کی جانب سے مذہب اور کلچر کو الگ رکھنے کی عام اپیل کی وجہ سمجھی جاسکتی ہے۔ چوں کہ وہ روایتی مسلم معاشرے میں سکونت پذیر نہیں ہیں، لہذا وہ فطری طور پر صرف ان مذہبی عقائد اور رسوم کو اپنانا چاہتے ہیں جو اسلام میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ لہذا، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کے زیادہ تر مذہبی سوالات کلچروں کے تصادم سے پیدا ہوتے ہیں۔
مقامی نژاد مسلمانوں کے کچھ خدشات اور شکوک و شبہات پر مندرجہ ذیل بحث میں، میں نے چار اہم لیکن باہم مشترک نقطہ ہائے نظر پر غور کیا ہے: امریکی نژاد مسلم خواتین، سیاہ فام امریکی نو مسلم، مہاجر مسلمانوں کی اولادیں، اور عام نو مسلم۔
عورت کا مقام
اسلامی کمیونٹی سے مقامی مسلمانوں کی شکایات میں سر فہرست وہ رویہ ہے جو وہ خواتین کے ساتھ روا رکھتا ہے، اور ان شکایات میں سب سے اہم صنفی امتیاز کا پایا جانا ہے۔ مغرب میں اسلام کی قبولیت کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور امریکی مسلمانوں کی ناراضی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ یہ احتجاج عام ہے کہ خواتین کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکا جاتا ہے، مسجد کے مرکزی حصے سے دور الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے اور اجتماعی محفلوں میں مردوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں، جہاں خواتین کو صنفی امتیاز کے خلاف طویل اور سخت جدوجہد کرنی پڑی ہے، وہاں یہ تصورمنطقی طور پر ناپسندیدہ ہے کہ انھیں صنفی تنہائی میں رکھا جائے۔ مزید یہ کہ کسی بھی شکل میں صنفی تفریق امریکہ میں تفریق و تعصب کی اس کی سیاہ تاریخ کی یادیں تازہ کر دیتی ہے اور تعصب اور جبر کا مترادف بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک افریقی نژاد امریکی خاتون نے کہا، “میرے لوگوں نے کچھ عرصہ قبل ہی دوسروں کے ساتھ ریستوراں میں کھانا کھانے اور بسوں میں یکساں سواری کرنے کا حق حاصل کیا ہے، اب مجھ سے کہا جارہا ہے کہ مجھے مسجد کے بیک روم میں نماز ادا کرنی ہوگی!”
خواتین کو الگ تھلگ رکھنے کی ایک عام دلیل یہ ہے کہ اس سے اباحیت کو ہوا نہیں ملے گی جو امریکی ثقافت کا ایک ایسا پہلو ہے جسے بہت سے مسلمان قابو سے باہر سمجھتے ہیں۔ خوف یہ ہے کہ اگر مساجد اور اجتماعی تقریبات میں ہوس پرستوں کو ملاقات کی اجازت دی گئی تو اس سے خاندان اور معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ قدیم شرعی کلیہ، “جو چیز حرام کی طرف لے جائے، وہ حرام ہے” اکثر عورتوں کو الگ تھلگ رکھنے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کلیہ، ابتدائی طور پر معقول لگ سکتا ہے، کیوں کہ یہ بہت واضح ہے، تاہم یہ سخت ترین احکام سازی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر اختلاط مردو زن حرام ہے کیوں کہ اس سے جنسی تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں تو کیا عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے نہیں باز رکھا جانا چاہیے سوائے اس کے کہ انتہائی ضروری ہو، کیوں کہ گھروں سے باہر نکلنے سے لامحالہ اختلاط ہوگا ہی؟ قدیم مسلم علما نے اس نکتے پر بحث کی ہے۔ یہی کلیہ اس دلیل میں استعمال کیا جاتا ہے کہ عورت کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں دیا جانا چاہیے، کیوں کہ اگر اکیلی ہونے پر اس کی گاڑی خراب ہوجائے تو موقع پر پہنچنے والا مرد اس کی مدد کرنے سے انکار کرسکتا ہے جب تک کہ وہ اس کے جنسی مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کردے۔
اس طرح کے دلائل کا انحصار اس بات پر ہے کہ مسلمان کس حد تک احکامات شرعی کے عدم اتباع کے امکان کو کم کرنے کی خاطر ذاتی آزادی کو محدود کرنے کے لیے آمادہ ہیں، اور کس حد تک وہ ممکنہ منفی ضمنی اثرات کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر امریکہ اچانک خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد کر دیتا ہے، تو خاندان میں مرد ڈرائیوروں کی عدم موجودگی یا مصروفیت کی بنا پر، سماجی و معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے، خواتین اور بچوں کو لانے لے جانے کی خاطر ڈرائیوروں کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گا–تقریباً 1 ڈرائیور فی کنبہ۔ ڈرائیوروں کی فراہمی کو اوسط خاندان کے لیے سستا بنانے کے لیے ان کی اجرت اتنی رکھنی ہوگی جو موجودہ اقل ترین اجرت سے کم ہو۔ ظاہر ہے، تقریباً پچاس ملین معمولی تنخواہ دار مرد ڈرائیوروں کی آمد سے اس کے اپنے مسائل اور خدشات پیدا ہوجائیں گے۔
قرآن مجید کی مذہب میں نئی باتیں ایجاد کرنے اور رسوم و رواج کی حد سے زیادہ پاس داری کی بہ تکرار مذمت کو مدنظر رکھیں تو امریکی اسلامی منظر نامے میں مسلمانوں کے لیے بنیادی مسئلہ رسوم و رواج کے نفاذ کے حوالے سے ان کے ممکنہ سماجی اثرات کانہیں بلکہ اس کا ہے کہ آیا یہ رسوم اسلام کے لیے ضروری ہیں یا نہیں۔ قرآن حکیم کی رو سے یہ ایک اہم معاملہ ہے، کیوں کہ رائے، ترجیح، یا رواج کی عینیت (idealization)تلاشِ حق کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
اے نبیؐ، ان سے کہو “تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمھارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا!” اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر ر ہے ہو؟ (یونس: 59)
اور یہ جو تمھاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔ (النحل: 116)
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امریکہ میں مسلمان اپنی مروجہ رسوم کا مسلسل ازسرنو جائزہ لیتے رہیں تاکہ دین کے لیے بنیادی اور غیر ضروری رسوم میں تمیز کی جاسکے۔ جن رسوم کو امریکہ میں اسلام کی ترقی کے لیے غیر ضروری اور نقصان دہ سمجھا جائے ان کو ختم کر دینا چاہیے یا کم از کم ان لوگوں کے لیے گنجائش پیدا کی جانی چاہیے جو ان پر عمل نہ کرنا چاہیں، تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھیں دین کا لازمی جز بناکر پیش نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ وہ مقامی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے دین کے تئیں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا غیر ضروری ذریعہ بن سکتے ہیں اور اسلام قبول کرنے کی راہ میں ان کی تلاش حق کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہے۔ تاہم، غیر ضروری عقیدوں اور اعمال کو ختم کرنا ہمیشہ لگا بندھا عمل نہیں ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی بیشتر رسوم اس لحاظ سے “دینی” ہیں کہ وہ اجر و ثواب کی امید سے تحریک پاتی ہیں اور ایسی مذہبی علتوں پر قائم ہیں جن کے دلائل بسا اوقات قرآن و سنت کی رہ نمائی سے مستنبط ہیں۔ خواتین کی ڈرائیونگ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ قرآن اور احادیث میں زنا سے بہ صراحت منع کیا گیا ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ خاتون ڈرائیور کو ایسی صورت حال پیش آجائے جہاں وہ خود کم زوری کی شکار ہوجائے یا اس کا جنسی استحصال کیا جاسکے۔ لہٰذا خواتین کو ڈرائیونگ سے روک دیا گیا۔ لیکن کسی عمل کے لیے مذہبی جواز یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ وہ دین کے لیے ضروری ہے۔ جن شواہد، مقدمات اور مفروضات پر اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے، ان کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے، اور جوابی ثبوتوں، دلائل اور استدلال پر غور کرنے اور انھیں تولا اور پرکھا جانا چاہیے۔ خواتین کو علیحدہ رکھنے کی بحث سے اس نکتے کی وضاحت میں مدد مل سکتی ہے۔
مجھے خواتین کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے کوئی براہ راست نص (یعنی قرآن کی کوئی آیت یا مستند حدیث جو واضح طور پر مسلم مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے روکتی ہو) نہیں ملی اور نہ ہی بالواسطہ شواہد کافی ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت 53 اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے کہ صنفی علیحدگی مسلمانوں پر واجب ہے۔ آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو ، نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ۔ ہاں اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ ۔ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو ۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے ۔ اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا ۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔
اس آیت میں صحابہ و صحابیات کو ہدایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کے حجروں میں بلااجازت داخل نہ ہوں، جیسا کہ ان میں سے بعض کی عادت تھی۔ قدیم مفسرین نے لکھا ہے کہ چند واقعات اس آیت کے نزول کا باعث بنے۔ اس کے بعد صحابہ کرام سے کہہ دیا گیا کہ جب انھیں ا زواج رسول ﷺ سے بات کرنے کی واقعی ضرورت پیش آجائے تو وہ ان کے گھروں سے باہر رہیں اور دروازے پر پردے کی اوٹ سے بات کریں۔ عورتوں کی علیحدگی کے حامی ان احادیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں جن میں ازواج رسول مختلف صحابہ کرام سے مذکورہ بالا آیت میں بیان کردہ طریقے سے گفتگو کرتی ہیں۔
یہ دلیل کہ مذکورہ بالا آیت سے عورتوں کو الگ تھلگ رکھے جانے کا عام رواج قائم ہوا، ناقابل تردید نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہی واضح نہیں کہ آیا یہ آیت اُسی قسم کی سخت علیحدگی کا حکم دیتی جو آج کل بہت سی مساجد میں رائج ہے، حتی کہ ازاواج مطہرات کے حوالے سے بھی۔ آیت کا مقصود صرف خانوادہ ٔرسول کو کسی حد تک پرائیویسی دینا اور انھیں عجیب و غریب حالات سے بچانا بھی ہوسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مشن اس وحی کے زمانے میں ایسے مرحلے میں تھا جب ان کے حجرات کے باہر صحن میں باقاعدگی سے لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا، جن میں سے بہت سے نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے بدو بھی تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کا لہجہ کوئی عام حکم کا نہیں ہے۔ اسی سورت میں بہت سے احکام ایسے ہیں جو خاص طور پر رسول اللہ ﷺ اور ازواج رسول پر نافذ ہوتے ہیں، جنھیں قرآن مجید میں “ نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو” بیان کیا گیا ہے (33: 32)۔ تیسری بات یہ ہے کہ احادیث کے مجموعوں میں اس بات کے بہت سے شواہد موجود ہیں کہ ابتدائی اسلامی تاریخ میں عورتوں کو الگ تھلگ رکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب کا حجة الوداع کے دوران غیر محرم عورتوں کے پاس جانا اور بالوں سے جوئیں نکلوانا، رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے باہر کی عورتوں میں سے ایک عورت کا رسول اللہ ﷺ کے برتن سے کھانا کھانا، ایک صحابی کی بیوی کا مرد مہمانوں کی ضیافت کرنا، رسول اللہ ﷺ کا ایک میاں بیوی کے ساتھ بیٹھ کر شوہر کے خواب کے بارے میں بات کرنا، دو مرد صحابہ کا ایک صحابیہ کی عیادت کرنا اور ان کا رسول اللہ ﷺ کی وفات پر اظہار افسوس کرنا۔ ایسی بہت سی روایات ہیں جن میں مسلمان عورتیں جنگوں میں حصہ لیتی ہیں، جہاں وہ لڑتی ہیں، تیر اندازوں کو تیر فراہم کرتی ہیں، فوجیوں کو کھانا اور پانی پہنچاتی ہیں اور زخمیوں کا علاج کرتی ہیں۔ ایک مشہور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسجد میں ان سے مہر کی رقم کی حد متعین کرنے پر جرح کر لی تھی۔ اس کے علاوہ امام مالکؒ نے دوسری صدی ہجری کے اواخر کی اپنی کتاب مؤطا میں لکھا ہے کہ انھیں کسی عورت کے مخلوط مجلس میں بیٹھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی مرد محرم ہو، مثال کے طور پر باپ یا چچا۔ امام مالکؒ اپنی رائے کو سنت مدینہ پر استوار کرتے ہیں جو رسول اکرم ﷺ کے زمانے سے رائج مقامی روایت ہے۔
تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو الگ تھلگ رکھنا کسی قاعدے کے طور پر نافذ نہیں تھا۔ چناں چہ امریکی مسلمانوں کے اجتماعات پر اس کے نفاذ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف معاشرے پر ایک غیر ضروری بار ہے بلکہ بہت سے مخلص متلاشیانِ حق کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں کو مغرب میں پاپولر اباحیت زدہ اختلاط کو اپنانا چاہیے- ہم میں سے جو لوگ یہاں پلے بڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اختلاط یقیناً اکثر و بیشتر ناجائز جنسی تعلقات کا باعث بنتا ہے–لیکن کمیونٹی کی سرگرمیوں میں مخلوط شمولیت امریکی اسلامی کمیونٹی کی صحت و ترقی کے لیے ضروری ہے۔
خواتین کی قیادت
خواتین کی علیحدگی امریکی تاریخ کے لیے اجنبی ہے لیکن زیادہ تر دیگر ثقافتوں کی طرح خواتین کی اقتدار کے عہدوں سے علیحدگی اجنبی نہیں۔ پچھلی صدی کے وسط میں اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، حالاں کہ جب میں چھوٹا تھا تو اقتدار کے عہدوں پر اس وقت بھی بہت کم خواتین تھیں۔ خواتین سیاست دانوں، پروفیسروں، ڈاکٹروں، ججوں، بینکوں کی صدور، چیف ایگزیکٹو، پولیس افسران اور اسی طرح کے دیگر عہدوں پر خواتین شاذ و نادر ہی نظر آتی تھیں۔ آج، مقتدر عہدوں پر بہت سی خواتین فائز ہیں، اگرچہ اب بھی کم نمائندگی ہے، لیکن امریکہ اس تصور کے ساتھ بہت زیادہ با آرام (comfortable)ہو گیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر زیادہ تر نو مسلم امریکیوں کے بارے میں درست ہے، جو لبرل (کم از کم اسلام لانے سے پہلے) اور دوسری نسل کے مسلمان ہیں، جنھیں پہلے دن سے ہی اسکول میں پڑھایا جاتا ہے کہ ایسا کوئی کیریئر نہیں جس میں خواتین کام یاب نہ ہوسکیں۔ اس سے امریکہ میں پیدا ہونے والے بہت سے مسلمانوں میں مایوسی کا ایک اور سبب پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر اسلامی مراکز میں مذہبی قیادت خواتین کو بااختیار عہدوں پر رکھنے کے خلاف ہے۔ ایسی برادریوں میں خواتین کو بورڈ آف ڈائریکٹرز یا ایگزیکٹو کمیٹیوں میں خدمات انجام دینے سے باز رکھا جاتا ہے۔ بہت سی مساجد میں خواتین کو انتخابات یا کمیونٹی ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔
یہاں بھی اس قدامت پسندانہ موقف کی حمایت میں براہ راست شواہد بہت کم ہیں۔ اس بحث میں اکثر بخاری میں شامل ایک واحد حدیث کی دلیل دی جاتی ہے، اگرچہ یہ انتہائی معروف ہے:
حضرت ابو بکرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جنگ جمل میں ایک بیان سے بہت فائدہ پہنچایا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ اہل فارس نے خسرو کی بیٹی کو اپنا حاکم تسلیم کرلیا ہے تو آپؐ نے فرمایا: “جو قوم اپنے امور ایک عورت کے ہاتھ میں دے دے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔”
اس روایت کے واحد راوی حضرت ابو بکرہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انھوں نے 8 ہجری (629 عیسوی) میں اسلام قبول کیا تھا۔ جنگ جمل( 36ہجری) میں رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علیؓ کے درمیان لڑی گئی تھی۔ حضرت ابوبکرہؓ نے حضرت عائشہؓ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا تھا اور انھیں اس حدیث کے یاد آنے پر اور شاید یہ یقین ہونے پر کہ حضرت عائشہ کی شکست یقینی ہے، شرح صدر ہوا۔ فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کو 6 ہجری میں رومیوں نے شکست دی تھی اور اسے معزول کرکے مصلوب کردیا تھا۔ اگلے تین برسوں کی سیاسی ہلچل میں، کم از کم دس مختلف افراد اس بکھری ہوئی سلطنت کے تخت پر قابض ہوئے۔ خسرو کی بیٹی کو تقریباً 8 ہجری میں تخت پر بٹھایا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار فارس میں ایک خاتون حکم راں بنی تھی۔ ایک سال بعد ہی اس کی حکومت گر گئی۔
تقریباً تمام علما اس حدیث کو قبول کرتے ہیں، حالاں کہ حال ہی میں اس کی سند پر کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس روایت کی تاریخی تفصیلات (ابو بکرہ نے 8 ہجری میں اسلام قبول کیا، خسرو کی بیٹی اسی سال اقتدار میں آئی، رسول اللہ ﷺ نے سقوط فارس کی پیش گوئی کی تھی جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے ان سے اس پیش رفت کے بارے میں سوالات کیے تھے) اور یہ حقیقت کہ راوی کوئی ممتاز صحابی نہیں ہیں، اس مفروضے کی تائید کرتا ہے کہ حدیث کسی حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ اس روایت کی ترسیل میں کسی مرحلے پر کوئی تسامح ہوا ہوگا۔
یہ بیان کہ “جو قوم اپنے امور کسی عورت کے سپرد کردے وہ خوش حال نہیں ہو گی”، ایک عمومی نوعیت کا بیان ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی حقیقت کو بیان کرتا ہے جو زمان و مکان سے مشروط نہیں۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ “تاریخ میں اس مقام سے آئندہ، کوئی بھی قوم جو…” یا “یہ قوم جو” بلکہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ کوئی بھی قوم، کسی بھی وقت یا جگہ کی، جو اپنے امور عورت کے ہاتھ میں دے دے، ترقی نہیں کرے گی۔ میرے اس حدیث کی ترسیل کی درستی پر سوال اٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن خود ایک واضح تردید پیش کرتا ہے۔ اس میں ملکہ سبا کو ایک دانا، عقل مند اور طاقت ور حکم راں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کی رعایا ان کی حکومت میں بڑی مادی کام یابیاں حاصل کرتی ہے اور ملکہ سبا انھیں بت پرستی کو ترک کرنے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عقیدہ توحید پر مبنی مذہب کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ملکہ سبا حضرت سلیمان یا کسی اور کے لیے اپنے تخت سے دست بردار ہوگئی تھیں، یا حضرت سلیمان کے تحت بنی اسرائیل نے ملک سبا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس طرح ہر دنیوی اور روحانی اعتبار سے ملکہ سبا کی رعایا نے ان کی قیادت میں کام یابی ہی پائی۔
بعض لوگ اعتراض کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید پہلے کی شریعتوں کومنسوخ کرتا ہے، لیکن ہم یہاں شرعی قوانین کی بات نہیں کر ر ہے ہیں۔ عورت کی قیادت کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کے عمومی بیان اور قرآن میں ملکہ سبا کی سربراہی کو حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک قانون کسی دوسرے قانون کو منسوخ کرسکتا ہے، لیکن ایک حقیقت کسی دوسری حقیقت کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ اگر دو بین حقیقتیں ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو ان میں سے کم از کم ایک غلط ہونی چاہیے۔ لہٰذا اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن میں ملکہ سبا کی تصویر کشی میں کوئی غلطی نہیں ہوئی اور رسول اکرم ﷺ نے خواتین سربراہان مملکت کے بارے میں کوئی غلطی نہیں کی تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ اس روایت کی ترسیل میں غلطی ہوئی ہے۔
احادیث کی ترسیل میں غلطیوں کا صدور قدیم محدثین کے نزدیک ایک معروف بات تھی۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ترسیل کے ابتدائی مراحل میں راویوں نے بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کو من و عن بیان کرنے کے بجائے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ ایک ہی واقعہ کے بیان میں احادیث میں پائے جانے والے تغیرات کی وجہ یہی ہے۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام ؓکے بارے میں بھی یہ بات معلوم ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا ہوتا، اسے جب ایک دوسرے کو سناتے تو باہم اصلاح کرتے تھے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ غلط ترسیل کا امکان محض کسی حدیث کو رد کرنے کی بنیاد ہے، لیکن جب کوئی روایت قرآن یا کسی ثابت شدہ حقیقت سے متصادم ہو تو ہمیں ترسیل میں تسامح پر غور کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر ہم سمجھتے ہوں کہ یہ کسی حقیقی واقعے سے متعلق ہے۔ چناں چہ حدیث ابو بکرہ میں کسی نہ کسی مرحلے پر کوئی غلطی ضرور ہوئی ہوگی۔ اصل واقعہ کچھ اس طرح ہو سکتا ہے: صحابہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ اہل فارس نے اپنے امور ایک عورت کے ہاتھ میں دے دیے ہیں، جس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:“وہ ترقی نہیں کریں گے۔” ترسیل کے کسی مرحلے پر ایک معمولی سے اشتباہ سے مندرجہ بالا الجھن پیدا ہوگئی ہوگی۔ یقیناً، یہ صرف قیاس آرائی ہے اور اس بحث کا مرکز نہیں ہے۔ سب سے اہم نتیجہ یہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ خواتین کی قیادت کو ناپسندیدہ قرار دینے والی حدیث میں خامی کا امکان ہے اور اس لیے اسے خواتین کی قیادت کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
عورت ہونا مشکل ہے
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (التوبة: 71)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مومن آپس میں ایک جسم کے مانند ہیں، جب جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کو تکلیف پہنچتی ہے۔” (متفق علیہ)
جس دن میں مسلمان ہوا، مجھے یقین تھا کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس نے ان تمام انسانی رشتوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو مجھے واقعی عزیز تھے۔ ایرانی یرغمالی بحران کے فوراً بعد اور لبنان میں سمندری بیرکوں پر بمباری سے کچھ عرصہ قبل امریکہ میں اسلام قبول کرنا کسی ثقافتی بغاوت سے کم نہیں تھا۔ جب میرے گھر والوں اور دوستوں نے شروع میں میرے اسلام پر صدمے اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب میرے لیے تنہائی کے دن آنے والے ہیں۔ لہٰذا میں نے نماز سے طاقت حاصل کی اور مسجد میں رسمی نمازوں میں شرکت شروع کردی تاکہ اپنے نئے مذہب کے مطابق ان نمازوں کو ادا کرنا سیکھ سکوں۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ میں ایک ایسی عالمی برادری میں شامل ہو گیا ہوں جو باہمی محبت اور توجہ کے ایسے بندھن سے بندھی ہوئی جو میں نے قریبی خاندانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا تھا۔
مسلمان ایک دوسرے کو “بھائی” اور “بہن” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور جن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے بہت سے لوگ اس اصول کا بہت احترام کرتے ہیں۔ کمیونٹی کے ارکان بیمار ہو جائیں، اپنے پیاروں کو کھو دیں یا مشکل وقت میں گھر جائیں، تو مسلمان گروہ در گروہ تسلی اور مدد کی پیش کش کے لیے آتے ہیں۔ اسی طرح، جب اسلامی معاشرے میں کوئی پیدائش ہو، کوئی گریجویٹ ہوجائے یا کسی کی شادی کا موقع ہو، تو سب کی طرف سے خوشی منائی جاتی ہے، اکثر مسجد میں عشائیہ دیا جاتا ہے۔ اخوت کا یہ رشتہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے بیچ قائم ہےکیوں کہ سرحدوں اور قومیتوں کی تقسیم مسلمانوں کےنزدیک اور قوموں کے مقابلے میں بہت کم اہمیت رکھتی ہے۔ جب کسی بھی ملک کے مسلمانوں کو ناانصافی، جبر یا حملے کا سامنا کرنا پڑے تو دنیا بھر کے مسلمان غم و غصہ محسوس کرتے ہیں، اور جب ان میں سے کوئی کام یاب ہوتا ہے، تو اس بات سے قطع نظر کہ اس کی وطنیت کہاں کی ہے، دور دراز کے مسلمان بھی اس کی کام یابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
میرے مذہب تبدیل کرنے کے بعد مجھے یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ مجھے مسلم برادری میں آسانی سے قبول کر لیا جائے گا، کیوں کہ میں ان کی روایات سے ناواقف تھا اور ایک ایسی قوم سے آیا تھا جن کی مسلمانوںسے ہمیشہ ایک حریفانہ نسبت رہی ہے۔ میں نے مان لیا تھا کہ مجھے کسی حد تک لاتعلقی، بلکہ شک کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ لیکن اگر کچھ لوگ لاتعلق ر ہے بھی، تو وہ بہت کم تھے، اور گرم جوشی اور مہربانی کی حیرت انگیز لہر نے میرا استقبال کیا۔ سان فرانسسکو کے مسلمانوں نے مجھے اپنی مہمان نوازی اور اخلاص سے نہال کر دیا۔ میری شادی سے پہلے کے دو برسوں کے دوران، مجھے تقریباً ہر رات کھانے پر مدعو کیا جاتا تھا۔ مسلم بھائیوں نے مجھے قرضوں کی پیش کش کی، تحفے تحائف دیے، مجھے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اجتماعی طور پر کوششیں کیں، اپنی خواتین رشتہ داروں سے اس امید میں متعارف کرایا کہ میں ان کے خاندان میں شادی کروں، اپنے خرچ پر حج پر لے جانے یا اپنے اہل خانہ سے بیرون ممالک ملنے کی پیش کش کی۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کسی بہت بڑے قبیلے نے گود لے لیا ہو۔ جب میں پہلی بار بہت سے مسلمانوں سے ملتا تھا تو وہ مجھے یوں گلے لگاتے گویا میں ان کا کوئی دیرینہ بچھڑا ہوا بھائی ہوں۔
مجھے جس تپاک کا استقبال ملا وہ کوئی استثنائی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بہت سے امریکی نومسلموں سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی مساجد کی مشہور ہستیاں بن چکے ہیں اور ان کے ساتھ ناقابل یقین ہم دردی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ وہ ساتھی مسلمانوں کے ساتھ اپنی حیرت انگیز رفاقت اور ان عظیم مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہیں جن سے ان کے بھائی دین سیکھنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح مسجد ان کے لیے ایک گھر، سماجی قبولیت کی جگہ، مغرب میں ایک مسلمان کی حیثیت سے رہنے کے تناؤ سے بچنے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔
البتہ تمام امریکی مسلمانوں کو ویسی اجتماعی شفقت و قبولیت اور گرم جوشی کا تجربہ نہیں ہوا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اگرچہ مسجد بہت سے مسلمان مردوں کے لیے سکون اور رفاقت کی جگہ ہے، لیکن بہت ساری امریکی مسلم خواتین، خاص طور پر امریکی نژاد مسلم خواتین ایسا نہیں سمجھتیں۔ میں مقامی نژاد مسلم خواتین سے جو سب سے بڑی شکایت سنتا ہوں وہ یہی ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں مسجد کا کلچر مایوس کن طور پر خواتین گریز ہے۔ خواتین کی علیحدگی اور قائدانہ مناصب پر خواتین کا نہ ہونا، اس کے ثبوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اکثر توہین آمیز سلوک کے ذاتی تجربات بھی بتائے جاتے ہیں۔ مجھے “ان مذہبی” مسلمان مردوں کی طرف سے عورتوں کے ساتھ ناروا اور اہانت آمیز سلوک کے بے شمار واقعات موصول ہوئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ خواتین کو مناسب لباس نہ پہننے، مسجد کے مرکزی ہال میں نماز ادا کرنے، “خواتین کے داخلی دروازے” سے مسجد میں داخل نہ ہونے یا باہر نہ نکلنے پر اجنبی مردوں کے ذریعے ٹوکا جاتا ہے۔ میں نے بہت سی ایسی خبریں سنی ہیں کہ غیر مسلم خواتین اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے مسجد جاتی ہیں اور انھیں سخت رد عمل کے ذریعے مذہب سے دور کر دیا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین اس بات پر معترض ہیں کہ مسجد کو مردوں کا علاقہ قرار دیاگیاہے اور یہ کہ عام طور پر مسجد کی تقریبات میں خواتین کی شرکت کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا یا پھر اس سے بھی بدتر، ان کی شرکت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مساجد میں، رمضان میں مہینہ بھر یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ مسجد مردوں کا علاقہ ہے۔ یونیورسٹی اسلامک سینٹرز میں عام طور پر پورے رمضان کے دوران افطار کا اہتمام کیا جاتا، اور اگرچہ مرد طلبہ کو دعوت ملتی ہے کہ ان کی شرکت پر مسرت ہوگی، تاہم مسلم طالبات کو دعوت دینے یا ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔
نو مسلم مردوں کو عام طور پر ان کی برادریوں میں احترام حاصل ہوتا ہے، لیکن نو مسلم خواتین اکثر خود کو اس سے اجتماعی شفقت سے محروم پاتی ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر زیادہ مضبوطی سے قائم رہتی ہیں اور نو مسلم مردوں کے مقابلے اسلامی سرگرمیوں میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، لیکن ان میں سے بہت سی اس بات پر افسوس کرتی ہیں کہ وہ اپنی برادریوں میں حاشیے پر ڈالی جاتی ہیں، نظرانداز کی جاتی ہیں، یا ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ وہ یہ بھی احتجاج کرتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کی ان کی نیت پر بعض اوقات شک کیا جاتا ہے۔ کئی بار مجھے مسلمانوں نے بتایا ہے، ہوسکتا ہے یہ بعض نو مسلم خواتین کے بارے میں سچ ہو، کہ امریکی خواتین بنیادی طور پر مسلمان شوہروں کو تلاش کرنے یا رکھنے کے لیے اسلام قبول کرتی ہیں۔
اسلام اور ثقافت روایتی مسلم معاشروں میں اس قدر مربوط ہیں کہ نو مسلم حضرات مشرق وسطیٰ کے رسم و رواج کے مطابق ڈھلنے کا کافی دباؤ محسوس کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے امریکی خواتین کی جانب سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ روایتی اسلامی معاشروں کی خواتین کی ثقافت اور امریکہ کی خواتین کی ثقافت دونوں معاشروں کے مردوں کی ثقافتوں سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ مزید برآں، ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا میں رہنے والے تقریباً تمام مہاجر مسلمانوں یا آنے والے مسلمان مرد مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور اس طرح اپنی نو مسلم خواتین کی بہ نسبت آس پاس کے معاشرے سے زیادہ واقف اور باآرام ہیں۔ مسجد میں خواتین کی ثقافت میں ضم ہونے کے لیے امریکی خواتین کو جس حد تک جانے کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بے چینی یا رد کیے جانے کے احساسات پیدا ہوسکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کا معاشرہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی عفت کی حفاظت کے لیے زیادہ کوشش کرتا ہے۔ کسی نوجوان لڑکے کے فلرٹ کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اکثر برداشت کرلیا جاتا ہے، لیکن کسی عورت کی رومانوی دل چسپی کا تھوڑا سا اشارہ بھی اس کے اور اس کے خاندان کے لیے خوف ناک شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس ساٹھ کی دہائی کے بعد سے امریکہ میں جنسی اخلاقیات میں تیزی سے نرمی آئی ہے اور آج مرد و خواتین کم و بیش یکساں طور پر بے لگام ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہیں اور امریکی خواتین کے بارے میں مسلمانوں کے ذہن میں بے حیائی کے ساتھ اپنی جنسیت کا اظہار کرنے والی خواتین کا تصور سرایت کر چکا ہے۔ کئی مواقع پر شادی کے خواہاں مسلمان مردوں نے مجھے بتایا کہ وہ امریکی نو مسلم خواتین سے سے شادی کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ان میں شاید ہی کوئی باکرہ ہوگی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نوجوان مرد سمجھتے ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی یہ خواتین جنسی بے راوی کا شکار رہتی ہیں، تاہم یہ ان کے منفی دقیانوسی تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ بہر صورت، ماضی کی برائیوں سے قطع نظر، مذہب تبدیل کرنے والیوں کو اسلام میں داخل ہونے کے بعد پاکیزہ و عفیف سمجھا جاتا ہے اور مجموعی طور پر مسلمان ان کا احترام کرتے ہیں، لیکن میں نے کچھ مواقع کے بارے میں سنا اور مشاہدہ کیا ہے جب اس قسم کے تعصبات سامنے آئے ہیں۔ مجھے خاص طور پر ایک واقعہ یاد ہے جب میں سان فرانسسکو میں رہتا تھا۔ ایک مقامی مسجد کے امام سے عربی کی تعلیم حاصل کرنے والی متعدد خواتین نے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے شکایت کی کہ امام نے مختلف مواقع پر ان کے ساتھ متعدد جنسی زیادتیاں کی ہیں۔ ان الزامات پر غور کرنے والی سماعت میں شکایت کنندگان سمیت کسی بھی خاتون کو شرکت کی اجازت نہیں تھی، لیکن امام کے متعدد حامیوں نے اس بنیاد پر ان کا دفاع کیا کہ ان پر الزام لگانے والیاں ماضی میں “فاحشہ” اور “طوائف” سے زیادہ کچھ نہیں تھیں، حالاں کہ اس قسم کے بہتان کو اسلام کے دس بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ میں نے صرف چند مثالیں دیکھی ہیں جن میں امریکی خاتون کے بارے میں دقیانوسی سوچ کو نو مسلم خواتین پر بھی لاگو کیا گیا، لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد نے ایسے واقعات کی اطلاع دی ہے جہاں ان کے تقوی کی کمی کی طرف اشارہ کیاگیا، زیادہ تر غیر ملکی یا مہاجر مسلم خواتین کی طرف سے! ۔ دوسری نسل کی کئی نوجوان خواتین نے مجھے بتایاکہ بیرون ملک سے آنے والی مسلمان خواتین بھی بعض اوقات ان کی خوبیوں پر سوال اٹھاتی ہیں، زیادہ تر ان سوالات کی شکل میں جیسے “کیا تمھارا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟” یا “کیا تم اب بھی ڈیٹ کرتی ہو؟” حالاں کہ روایتی مسلم کلچروں میں اس طرح کے سوالات کو انتہائی اہانت آمیز سمجھا جاتا ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ مقامی نژاد مسلم خواتین کے بارے میں یہ رویہ کس قدر پایا جاتا ہے اور نہ یہ جانتا ہوں کہ کتنی امریکی مسلمان خواتین تعصب کو صحیح یا غلط سمجھتی ہیں، البتہ جہاں یہ رویہ ہے یا اسے محسوس کیا جاتا ہے، وہاں یقینی طور پر نو مسلم بہنیں خود کو مسجد میں ناپسندیدہ محسوس کرسکتی ہیں۔
تعصب اور علیحدگی کا امکان کسی بھی نسلی اور مخلوط ثقافتی معاشرے میں موجود ہے اور شاذ و نادر ہی یہ یک طرفہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات مسلم مردوں کی برادری میں یہ دونوں رویے دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن یہ بات معلوم ہے کہ خواتین سماجی طور پر بہت زیادہ درجہ بند (stratify)کی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زیادہ تر مساجد میں مردوں کی کمیونٹی کو خواتین کے مقابلے میں مغربی تعلیم اور کلچر سے زیادہ واقفیت حاصل ہے، جس سے مردوں کو باہمی تعامل اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے خاصا زیادہ مشترکہ تجربہ اور مشترکہ زمین ملی ہے۔ مردوں کے برعکس، جن مساجد میں صنفی علیحدگی نافذ کی جاتی ہے، وہاں کی خواتین کا عام طور پر آس پاس کے معاشرے کے ساتھ محدود رابطہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرتے وقت اپنی مقامی ثقافت کے معیاروں کو عبور کرنے کی ان کی صلاحیت کم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح میں جس مسجد میں جاتا ہوں وہاں مردوں کے اجتماعات میں درس اور عمومی گفتگو کی زبان ہمیشہ انگریزی ہوتی ہے، جب کہ خواتین کے اجتماعات کم وبیش ہمیشہ عربی میں ہوتے ہیں۔ اگر خواتین کے پروگرام انگریزی میں ہوتے ہیں تو وہاں شریک خواتین کی اکثریت کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہا جا رہا ہے۔
امریکی اسلامی کمیونٹی میں مقامی سطح پر بڑھتی ہوئی شرکت کے لیے مذکورہ بالا صنفی رکاوٹیں مذہب و اور کلچر کے اس بڑے بحران کی غماز ہیں جو مسلم نوجوانوں اور نو مسلم حضرات کو درپیش ہے۔ کسی بھی مقامی مسلم کمیونٹی میں یہ بحران کس حد تک موجود ہے، اس کا انحصار قدرتی طور پر اس بات پر ہے کہ اس کی مسجد کا کلچر آس پاس کے کلچر سے کس حد تک متصادم ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ مسلمانوں کے ایسے عقائد اور رسوم و رواج موجود ہیں جو امریکی رسم و رواج اور اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے اور اسلام پر بنیادی طور پر سمجھوتا کیے بغیر ان سے دست بردار نہیں ہوا جاسکتا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اسلام کو معاصر امریکی کلچر میں ڈھالنا درست نہیں ہے، مسلمانوں کو ایسی ثقافتی رکاوٹیں پیدا نہیں کرنی چاہئیں جن کی ضرورت نہ ہو۔ یہ قرآن کے اس فرمان کے سب سے اہم مضمرات میں سے ہے جس میں انسان کی گھڑی ہوئی چیزوں کو خدا کے ساتھ منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیوں کہ جب ایسا کیا جاتا ہے تو حق پوشیدہ ہو جاتا ہے اور مذہبی فکر و عمل غیر ضروری طور پر سکڑ جاتا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے لیے یہ غلط ہوگا کہ وہ اپنے عقیدے کے واضح مطالبات کو ترک کردیں، اسی طرح انھیں خدا کے نام پر ایسی چیزوں کا مطالبہ بھی نہیں کرنا چاہیے جن کے لیے کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے۔ ہم جلد ہی اس موضوع پر واپس آئیں گے۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2024