نظریۂ ارتقا

ردّوقبول اور متبادل امکانات (1)

ڈاکٹر محمد رضوان

نظریۂ ارتقا کو معلوم انسانی تاریخ کے اہم ترین نظریات میں سے گردانا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا اساسی نظریہ ہے جس کے استنباط اور استخراج سے ایک خاص قسم کے ورلڈ ویو کی تعمیر گئی (جو ہنوز جاری ہے!)، جو مادہ پرست تہذیب کے بنیادی اور اساسی تصورات و اصطلاحات کی تعبیر کے لیے ضروری تھیں۔

یہ نظریہ کم و بیش ہر علم کی شاخ میں بالواسطہ یا بلا واسطہ داخل ہے۔ جانوروں میں تولید کے لیے نر چننے سے لیکر اسٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والوں (executives ) کی کمپنیوںکے حصص میں خرید و فروخت کی ترجیحات تک کی توجیہ و تشریح اس نظریہ کے تحت کرنے کی کوشش کی گئی۔

سوشل بایولوجی یا سماجی حیاتیات اب سائنس کی ایک معروف شاخ ہے۔ بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک مکمل سائنس کی حیثیت میں متعارف ہورہی ہے، جو نظریہ ارتقا اور اس کے جوہری اصولوں کی تطبیق کر کے افراد اور قوم کے سماجی رویوں کی توجیہ کرتی ہے۔(۱) اس سائنس کے اپنے علمی مجلات ہیں، محققین ہیں، کانفرنسیں ہوتی ہیں، بلکہ حیاتیاتی سماجی بیانیہ ایک معروف بیانیے کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔(۲) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سائنسی حلقوں میں عبقری برتری اور انسانی زندگی اور معلوم انسانی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں کس قدر اثر و رسوخ کا حامل بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ معروف سائنسی تاریخ دان جان ہیڈلے بروک (پیدائش ۱۹۴۴)نے سائنس اینڈ ایجوکیشن نامی اہم جریدے میں ڈاروینی کائنات (Darwinian universe)کی اصطلاح استعمال کی ہے۔(۳)

بنیادی طور پر نظریہ ارتقا کی توسیع ان سوالات پر بھی کردی گئی ہے جو فطری طور پر ہر انسان کے دماغ میں ابھرتے ہیں، اور ان سوالات کو دائمی نوعیت کے سوالات بھی کہا جاتا ہے۔ و ہ سوالات حسب ِذیل ہیں:

۱۔ کائنات اور زمین کیسے وجود میں آئے؟

۲۔ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟

۳۔ انسان کیسے وجود میں آیا؟

۴۔ مختلف جانداروں میں تنوع کیوں ہے ؟

۵۔ دوسرے جانداروں سےہر جاندار الگ ہونے کے باوجود کچھ یکسانیت کیوں رکھتا ہے؟

۶۔ انسان دوسرے عام جانداروں سے مختلف کیوں ہے اور یہ امتیاز اسے کیسے حاصل ہوا؟

یہ سوالات ماضی میں بھی انسانی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ سائنس اور فلسفے کی تقسیم ماضی قریب کا واقعہ ہے، اس سے قبل فلسفی اور سائنس داں ایک ہوا کرتے تھے۔ اس لیے یہ سوالات عام طور پر فلسفے کے سوالات جانے جاتے تھے، اور فلسفی حضرات اس وقت کے فلسفیانہ طریقہ کار سے ان کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

عام طور پر نظریہ ارتقا کا بانی و موجد چارلس ڈارون کو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سوال کہ انسان کیسے وجود میں آیا اس کا تذکرہ ما قبل یونان اور یونانی فلاسفہ کے یہاں بھی مل جاتا ہے۔ مثلاً اناکسي ماندر (Anaximander متوفی : ۵۴۶ ق م) نے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے اس کا تذکرہ اپنی تحریر میں کیا ہے۔ اس نے مفروضہ قائم کیا کہ زندگی کی ابتدا سمندر میں ہوئی تھی، اور انسان جانوروں سے وجود میں آیا ہے۔(۴)

انیکسی مینڈر کو علمی حلقوں میں دنیا کے اولین فلسفیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے تقریباً سو برس بعد ایمپیڈوکلیز(Empedocles متوفی: ۴۳۴ ق م ) نامی فلسفی کا بھی تذکرہ ملتا ہے جس نے اسی طرح کا ملتا جلتا نظریہ پیش کیا تھا۔

واضح رہے کہ ترتیب کے کچھ فرق کے ساتھ ڈارون کے معاصرین  ویلیس (Wallace) اورلیمارک (Lamarck)نے بھی جانداروں میں ارتقا کے نظریے کو پیش کیا تھا۔لیمارک کا نظریہ بہرحال جزوی طور پر رد ہوا۔ البتہ ویلیس کے نقطہ نظرکو وہ قبول عام حاصل نہیں ہوا۔(۵)

قبل اس کے کہ ہم نظریہ ارتقا پر مزید آگے بڑھیں، یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دراصل نظریہ ارتقا ہےکیا ۔ پچھلی سطور میں گذر چکا ہے کہ نظریہ ارتقا ایک چیزہے اور اس کے استنباط واستخراج اور ان کی بنیاد پر بہت سے سائنسی مظاہر جو جانداروں میں ظہور پذیر ہوتے ہیں ان کی توجیہ علیحدہ چیزہے۔ (حالانکہ جدید ڈاروینیت اس ثنوی تقسیم کو نہیں مانتی بلکہ اس کی رو سے جانداروں میں موجود تقریباً تنوع کی معمولی ردو بدل اور استثنا کے ساتھ ڈاروینی نظریہ تشریح و توجیہ کرسکتاہے۔)

ڈارون کی چار کتابیں زیادہ مشہور ہوئیں۔ ان چاروں کتابوں میں موجود مجموعی مشاہدہ، بعض تجربے، اور تخیلات پر موجودہ ڈاروینیت (Darwinism) کی بنیاد کھڑی ہے۔ان کتابوں کےعلاوہ اس کے مقالات ہیں جو مختلف جریدوں میں شائع ہوئے تھے۔ یہ چار کتابیں درج ذیل ہیں۔(۶)

۱۔ On the Origin of Species [اصل الانواع ]، پہلا ایڈیشن ۱۸۵۹

۲۔ The Voyage of the Beagle [بیگل کا سفر]، ۱۸۳۹

۳۔ The Descent of Man [انسان کا نزول]، ۱۸۷۱

۴۔ The Expression of the Emotions in Man and Animals [انسانوں اور جانوروں میں جذبات کا اظہار]، ۱۸۷۲

ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ڈارون نے دو مفروضے قائم کیے ہیں:

اولاً، ارتقا، زمین پر موجود زندگی کی اکائی اور تنوع دونوں کی توجیہ کرتا ہے۔

ثانیاً، فطری انتخاب تنازع للبقاء کے ذریعے اور موروثی مادے میں بہتری کی سمت میں تبدیلی کرکے نئی انواع کو جنم دیتا ہے۔

ان دو مفروضات کو نظر میں رکھتے ہوئے، درج ذیل کچھ نکات میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا خلاصہ بیان کیا جاسکتا ہے:

۱۔ تمام جاندار فطری ارتقا اور تدریجی بہتری سےوجود میں آئے، ابتدائی خلیے سے لے کر انسان بننے تک، تمام جاندار تدریجاً وجود میں آئے، اور یہ اس طرح ہوا کہ جو جاندار اپنے اطراف کے ماحول میں بہتر طریقے سے مطابقت (adaptation) پیدا کرسکےوہی باقی رہ گئے۔ جو نہ کر سکے وہ فنا ہوگئے۔ یہ بہتری مخصوص ماحول کے اعتبار سے تھی۔ کسی مخصوص معیار (Standard Scale )کے تناظر میں نہیں۔ افزائش نسل کے نتیجے میں یہ بہتر خصوصیات نئی انواع میںمنتقل ہوئیں اور وہ مزید بہتر ہوئیں۔

۲۔ نئی انواع کا وجود ہزاروں لاکھوں نسلوںکے نتیجے میں ہوا۔ نسل در نسل وہ تمام خصوصیات جو ماحول میں زندہ رہنے کے لیے ضروری تھیں، ان میں مزید بہتری نے نئی انواع کو جنم دیا۔

۳۔ تمام جاندار افزائش نسل کے لیے بہت زیادہ بچےپیدا کرتے ہیں، جو نسل کو برقرار رکھنے کی شرح سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ مثلاً مچھلیاں لاکھوں انڈے دیتی ہیں، ان میں سے کچھ ہی باقی رہ پاتے ہیں۔ دیگر جاندار بھی بہت سےبچے دیتے ہیں، تاہم ان میں سے تولید کی عمر تک کم ہی پہنچ پاتے ہیں۔

۴۔ تنازع للبقا ء:  وسائل کی محدودیت کی وجہ سے ہر نسل وسائل کے لیے مسابقت کرتی ہے، جس کے نتیجے میں وہی باقی رہ پاتے ہیں جو مضبوط اور بہتر ہوں۔ چنانچہ جنگل میں وہی شیر زندہ رہ پاتے ہیں جو بہتر طریقے سے شکار کرنے کے قابل ہوں، یا قحط سالی کے زمانے میں شکار کی عدم دستیابی کی صورت میں وہی شیر باقی رہتے ہیں جو شکار کی تلاش اور شکار دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔

۵۔ تمام جاندار اپنے ماحول سے مطابقت کے نتیجے میں زندگی کی ضمانت پاتے ہیں۔ ماحول سے مناسب مطابقت انہیں زندہ رہنے اور افزائش نسل کا موقع فراہم کرتی ہے۔

۶۔ جینیاتی تغیر(genetic variation): ہر نسل کے ساتھ جینیاتی تغیر ایک لازمی شے ہے ۔ جینیاتی تغیر اگر ماحول سے مطابقت میں مددگار ہوگا تو جاندار باقی رہے گا، اگر یہ تغیر اس کے برعکس ہوا تو جاندار مرجائے گا۔ اس کی نمایاں مثال خرد بینی جاندار ہیں۔ وہ جاندار جو مخصوص غذائی مادوں کو حل کرنے اور انہیں اپنی نمو کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، وہ اس غذائی ماحول میں باقی رہ جاتے ہیں۔

جینیاتی تغیر اور ارتقا کا تعلق اب واضح ہورہا ہے اور ایک دو مستثنیات کے ساتھ خورد ارتقا (microevolution ) پر بہت سے سائنسدانوں کا اتفاق ہے، لیکن خورد ارتقا پر اب بھی خاصے اختلافات موجود ہیں۔(۷)  واضح رہے کہ جینیاتی تغیر غیرحتمی، بے ربط اور یکایک ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ بہتری کی خاطر ہی واقع ہو۔ (۸)

فطری انتخاب کا دباؤ:  المختصر، فطری انتخاب تنازع للبقاء، جینیاتی تغیر، ماحول سے مطابقت پذیری اور افزائش نسل میں زیادتی یہ پانچ عناصر مل کر دنیا میں موجود ہر زندگی بشمول، بیکٹیریا، حیوانات چرند پرند، پیڑ پودے، ان کے وجود اور ان کے ارتقا کے ضامن ہیں۔ نیز ان جانداروں میں موجود ہر خصوصیت جوہری اعتبار سے ان چار عناصرکی ہیئت ترکیبی کی مرہون منت ہے۔

اسلامی دنیا میں اس نظریے کے متعلق کچھ زیادہ علمی ہل چل نہیں دیکھی گئی (اس کے اسباب پر آگے بحث آئے گی، ان شاءاللہ) لیکن پچھلے ۵۰برسوںمیں اس ضمن میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔(۹)

موجود ہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اسکولی نصابوں میں، کالج کی اعلیٰ تعلیم کے دوران یہ نظریہ پڑھایا جاتا ہے۔ مسلم اساتذہ اور طلبہ اسے سرسری انداز میں پڑھتے ہیں۔ جو طلبہ یا اساتذہ اسے سنجیدگی سے پڑھتے ہیں وہ ذہنی خلجان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی توجیہات اور تشریحات میں بہت ساری باتیں پائی جاتی ہیں۔ بالعموم نظریہ ارتقا کا تصور مذہب مخالف ہے۔ مذہبی، نیم مذہبی اور کٹر مذہبی حلقوں میں اس نظریہ کو مذہب مخالف ہی مانا جاتا ہے۔

نظریہ ارتقا نے، اور بالخصوص انسانی نظریہ ارتقا نے، اسلامی دنیا سے زیادہ مغربی دنیا میں ہلچل مچائی بلکہ ہلچل سے آگے بڑھ کر ایک علمی بھونچال پیدا کردیا چرچ اور سائنس کی بدنام زمانہ کشمکش (dynamics) کا تقاضابھی یہی تھا کہ افراد، ادارے اور راے عامہ نظریہ ارتقا اور بائبل کے تخلیقی بیانیے کی ثنویت (binary) کے کسی ایک طرف کھڑے ہوجاتے۔ راے عامہ نے نظریہ ارتقا کی طرف کھڑا ہونا مناسب سمجھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ بائبل کے تخلیقی بیانیے کا بہت تفصیلی اور ساختیت پسند (structued) ہونا بھی ہے۔ اس کے بالمقابل قرآنی تخلیقی بیانیہ زیادہ تفصیلی اور ساختی نہیں ہے۔(۱۰)

اس دور میں انسانی ارتقا کےنظریےکو قبول عام حاصل ہونے کی متعدد وجوہات رہیں، لیکن ان میں کلیسا کے آہنی پنجے اور غیر فطری انسانی پابندیاں علمی بددیانتی، آزادانہ علمی جستجو پر غیر ضروری قدغن، سائنسی تحقیقات کو حقیر گرداننا، سائنسی تحقیقات کو مذہب مخالف سمجھنا، علم اور حصول علم پر مخصوص طبقہ کی اجارہ داری وغیرہ اہم ہیں۔

اب بدلی ہوئی صورت حال یہ ہے کہ نظریہ ارتقا کے بالمقابل (creationism) اور (design) کی پوری تحریک ہے۔ اسے زبردست مالی وسائل حاصل ہیں۔ اس کے اپنے جریدے ہیں۔ ہزاروں ویب سائٹیں ہیں، کئی نام ور سائنس داں بھی اس کے ہم نوا ہیں۔ اس کے علاوہ اسکولوں کے نصاب سے نظریہ ارتقا کی تدریس کو ختم کرنے کی قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے۔(۱۱)

یہ تحریک بالاصل نظریہ ارتقا سے زیادہ الحاد کے حاملین کے ذریعے نظریہ ارتقا کو استعمال کرنے کے رد عمل کے نتیجے میں برپا ہوئی ہے۔

الحادکے حاملین نے انواع کے ظہور، انسان کے ارتقا اور تنازع للبقاء کے مجرد مگر متصل نظریات میں خلط مبحث کرکے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ الحاد کے حاملین کے ہاتھوں میں یہ نظریہ ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ انہوں نے انسانی زندگی کے دائمی سوالات کو چالاکی سے اس نظریےسے جوڑ دیا جب کہ اصلاً یہ نظریہ الحاد کی بہت سی جہتوں سے بحث ہی نہیں کرتا جن کے ڈانڈے اس نظریے سے ملادیے گئے۔ مثلاً، واضح رہے کہ دائمی سوالات تین دائروں میں تقسیم ہوتے ہیں: (۱) کائنات، (۲) حیات انواع اور اس کی ابتدا اور (۳)  انسان اور انسان سے جڑے تمام سوالات۔ نظریہ ارتقا صرف انواع، ان کے تنوع اور ان کے وجود سے بحث کرتا ہے، جبکہ دائمی سوالات کے دو بڑے دائرے ہیں:

کائنات

۱۔ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کیا یہ اپنے آپ وجود میں آسکتی ہے؟ جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے مبینہ طور پر بالآخر تسلیم کرلیا تھا۔ (۱۲)

۲۔ کیا کائنات اتفاقی ہے؟

۳۔ کائنات کا انجام کیا ہونا ہے؟

۴۔ کیا کائنات محسوس اور واقع کے درمیان کی کوئی چیز ہے؟

۵۔ کیا کائنات تخلیق کی محتاج ہے؟

۶۔ کیا کائناتی قوانین مجرد ہیں یا تابع ؟

حیات

اسی طرح حیات اور اس سے جڑے تمام سوالات ہیں مثلاً:

۱۔ زندگی کی ابتداکیسے ہوئی؟ زندگی کی شروعات کے لیے درکار ابتدائی عناصر ابتدائی کرہ ارض کے اندر ہی موجود تھے؟ مکمل طور سے؟

۲۔ کیا عناصر کی ترکیب الل ٹپ (random ) طرز پر ممکن تھی؟

۳۔ کیا عناصر میں ظہور ترتیب اتفاقی تھا یا ہے؟

۴۔ کیا دنیا میں جو کچھ موجود ہے وہ عناصر کی ہیئت ترکیبی اور مقدار و پیچیدگی کی وجہ سے وجود میں آیا، یا ہیئت اور مقدار اس انداز میں رکھی گئی کہ وہ ان کا وجود ممکن ہوسکا؟

۵۔ زندگی کی ابتدا اگر سادہ خلیہ نما شے سے ہوئی ہے تو کیا اس خلیہ نما شے کا غیر ارضی (extra terrestrial) ہونا ممکنات میں سے ہے؟

انسان

اسی طرح انسان اور اس سے جڑے تمام سوالات ہیں، حو اس کےوجود اور اس کی مخصوص خصوصیات سے متعلق ہیں۔

الحاد کے حاملین نے، مذکورہ بالا سوالات کے نامکمل جوابات کو، جوحیات و کائنات کی ابتداسے متعلق ہیں،استعمال کرکے، نظریہ ارتقا کے سہارے الحاد کی پوری عمارت کھڑی کی ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نظریہ ارتقا یا نظریۂ انواع اپنی اصل کے اعتبار سے انواع کے ظہور، انواع کے تنوع اور تنازع للبقاء کے نتیجے میں نئی انواع کے ظہور کی ایک سائنسی توجیہ کے طورپر پیش کیا گیا تھا۔ اس کے پیش نظر موجود ہ الحاد کے لیے بنیادیں فراہم کرنے کا مقصد نہیں تھا۔ اسی لیے نظریہ ارتقا کے ردو قبول اور انسانی زندگی اور انسان کے اس زمین پر وجود میں آنے کی تفصیل کو اس زاویے سے دیکھنا چاہیے۔

اس نظریہ پر تنقید اس سلسلہ مضامین کا مطمح نظر نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں چند سوالات قائم کیے جائیں گے اور ان کے جوابات کی بنیاد پر نظریہ ارتقا کے رد قبول اور متبادل امکانات کا ایک بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جائے گی۔ وہ سوالات درج ذیل ہیں:

۱۔ کیا حیات کی ابتدا اور انواع کی تشکیل کے متبادل نظریات ہیں یا ہوسکتے ہیں؟

۲۔ کیا انسان میں موجود کیمیائی، حیاتیاتی، جنسیاتی، نفسیاتی، پیچیدگیاں محض ترتیب عناصر (order)کی وجہ سے ہیں؟

۳۔ کیا نظریہ ارتقا مذکورہ بالاتمام پیچیدگیوں کا تشفی بخش جواب دیتا ہے؟

۴۔ کیا ارتقائی طریقے کے متبادل تعاملات و طریق ہیں؟ کیا ارتقائی استثنا محض استثنا ہے یا اس میں کوئی متبادل یا بالکل نیا طریقہ حیات و طریقہ ارتقا مضمر ہے؟

۵۔ کیا تخلیق منصوبہ بند ہے؟ یعنی کیا تخلیق میں کوئی ڈیزائن ہے؟

۶۔ خدا آشنا ارتقا (theistic evolution )کی حقیقت کیا ہے؟

۷۔ کیا نظریہ ارتقا مذہب مخالف یا الحاد موافق ہے؟

۸۔ ارتقا میں خالص سائنسی سوالات کیا ہیں؟

۹۔ کیا خوردارتقا (microevolution ) اور کلاںارتقا (macroevolution ) میں تفاوت ہے؟ اگر ہے تو کیا یہ حقیقی ہے؟

۱۰۔ اگر ارتقا خورد والی سطح پر یقین کی حد تک پہنچ چکا ہے تو کلاں والی سطح پر درست کیوں نہیں ہوسکتا؟

۱۱۔ کیا نظریہ ارتقا کو مان لینا الحاد کا اقرار ہے؟

۱۲۔ کیا نظریہ ارتقا ےانسانی اور ڈاروینیت ایک ہی ہیں؟

ان تمام سوالات کے احاطہ کے علاوہ نظریہ ارتقا پر مسلم مفکرین کی آرا کا تفصیلی جائزہ بھی پیش نظر ہے۔(جاری)

حواشی و حوالہ جات

۱۔ایڈورڈ-او- ولسن ’’Sociobiology: The new sythesis‘‘ مشمولہ ایڈورڈ  ہیئر، دی برٹش جرنل آ سائیکیاٹری، ۱۵۰، ۵ (۱۹۸۷)

(سوشل بائیولوجی کی اصطلاح اصلاً ایڈوریڈ- او- ولسن ہی سے منسوب ہے۔)

۲۔ رچرڈ نیڈ لیبو ’’You can’t keep a bad idea down: Evolutionary biology and International relations‘‘ مشمولہ انٹرنیشنل پالیٹکس ریویو ۱، ۲۰۱۳

۳۔ جان ہیڈلے بروک ’’Darwin and religion: Correcting the caricatures‘‘ مشمولہ سائنس ایجوکیشن، ۱۹، ۴-۵، ۲۰۱۰

۴۔انیکسی مینڈر کی تخلیقات براہ راست ہم تک نہیں پہنچی ہیں بلکہ ان کا تذکرہ ارسطو کی تحریروں میں ملتا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں: www.famousscientists.org

۵۔کہا جاتا ہے کہ ڈارون اور الفریڈ ویلس اچھے ساتھی تھے، لیکن ویلس بنیادی طور پر ایک روحانی فلسفی تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ فطری انتخاب انسان کی عقل اور روح کی توجیہ نہیں کرسکتا۔ وہ محض ایک فلسفی ہی نہیں تھے بلکہ ایک عبقری مصنف بھی تھے۔ انہوں نے مزدوروں کے حقوق، زمینی مالکانہ حقوقی اور قانون پر بھی قلم اٹھایا۔ تقریباً ۲۰کتابیں اور ایک ہزار کے قریب مقالات ان سے منسوب ہیں۔ انہوں نے ڈارون خطوط بھی لکھے جن میں انہوں نے مذہبی نوعیت کا اختلاف کیا۔ انہوں نے ڈارون سے علیحدہ فطری انتخاب پر کام کیا تھا اور وہ اس پر اپنا نظریہ رکھتے تھے۔ تفصیلات کے لیےدیکھیےنیچرل ہسٹری آف میوزیم کی ویب سائٹ: www.nhm.ac.uk

۶۔ دی آٹوبایوگرافی آف چارلس ڈارون، ۱۸۰۹-۱۸۲، ایڈیٹر بارلو نورا – ۱۹۵۸

۷۔ خورد ارتقا اور کلاں ارتقا کی غیر تکنیکی بحث کے لیے دیکھیے: اسٹینفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی آن لائن www.plato.stanford.edu

۸۔جینیاتی تغیرکی تفصیل کے لیے دیکھیے:  www.evolution.berkeley.edu

۹۔عام طور پر نظریہ ارتقا کے رد پر بھی سارا زور رہا۔ ترکی کے ہارون یحیٰ کا تمام تر لٹریچر نظریہ ارتقا کے رد کے محور پر گھومتا ہے۔ لیکن یہ رد سائنسی بنیادوں پر نہیں ہے۔ بلکہ Creationism کی مغربی تحریک کے بطن سے پیدا ہونے والے لٹریچر کا یا تو ترجمہ ہے یا فوصل ریکارڈ کی نیم سائنسی توجیہ تشریح (جو زیادہ تر غیر منطقی ہے)پر مبنی ہے ۔ ہر چند کہ اس کے بعض مشمولات لائق اعتنا ہیں، لیکن چونکہ اسے پاپولر سائنس کی طرز پر لکھا گیا ہے، اس لیے اس پر سائنسی دنیا کم ہی اعتبار کرتی ہے۔

۱۰۔تفصیلات کے لیے دیکھیں سلمان حمید اور ان کی تحقیقات :

www.hampshire.edu/faculty/salman-hameed

۱۱۔تفصیلات کے لیے دیکھیں: www.pewforum.org

پیو فورم کے تحقیقاتی ماڈل میں گوناگوں خامیاں ہیں اور یہ عموماً غیر متعصب بھی نہیں سمجھا جاتا، تاہم سائنسی طریقہ کار اورکراس چیک کرنے کے بعد ان کے مشمولات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

 

مشمولہ: شمارہ نومبر 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau