سادہ الفاظ میں شعور اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہاجاتاہے۔ طب اور نفسیات میں اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے: شعور اصل میں عقل (Mind)کی ایک ایسی کیفیت کو کہاجاتاہے جس میں ذاتیت (Subjectivity)، فہم الذاتی(Self-awarness)، ملموسیہ (Sentience)، دانائی (Sapience)اور آگاہی (Perception) کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور ذاتی (Onself) و ماحولی حالتوں میںایک ربط موجود ہو۔
آگاہی
آگاہی دراصل کسی حس کو سمجھنے کا عمل ہوتاہے جو دماغ میں انجام دیاجاتاہے یا آگاہی کسی حس سے پیدا ہونے والا عقلی تاثر ہوتاہے۔ آگاہی کا لفظ اپنے عام استعمالات کے علاوہ نفسیات سے بھی بہت گہرا تعلق رکھتاہے اور علم ادراک (Congnitive Science)میں اس سے مراد ادراک سے بعد کا درجہ لیاجاتاہے۔
حس
سائنس بالخصوص طبّ و حیاتیات میں حس (Sensation) سے مراد کسی جاندار کو ہونے والی اس آگاہی کی ہوتی ہے، جو کسی حس یا Sensoryعضو کے کسی Stimulusسے تحریک پانے کے بعد دماغ میں کوئی احساس اجاگر کرتی ہے۔ یہ حس آنکھ سے داخل ہونے والی روشنی بھی ہوسکتی ہے یا پھر جلد پر لگنے والی کوئی شے بھی جیسے کوئی گرم چیز وغیرہ۔
ادراک
علم طب اور نفسیات کی تمام شاخوں میں ادراک (Congnitio) سے مراد عقل کا وہ حصہ ہے، جہاں سے احساس اور گہرا تاثر دماغ میں نمودار ہوتا ہے۔ جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ شعور کس طرح جاری رہتا ہے تو ہمیں چار حالتوں کا علم ہوتا ہے:
۱- ہرحالت کسی نہ کسی شخص کے شعور کاجزو ہوتی ہے۔ فرض کریں درس کے کمرے میں بہت سے خیالات وافکار موجود ہیں، میرے بھی اور آپ کے بھی۔ ان میں سے بعض باہم مطابق و متحد ہیں اور بعض متصادم۔ یہ جس قدر باہم اور ایک دوسرے سے الگ ہیں اسی قدر مسلسل و مربوط بھی ہیں۔ کیا اُس کمرے میں کوئی ایسا بھی خیال ہے جو کسی شخص کا خیال نہ ہو؟اس کے دریافت کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیںہے۔ کیوںکہ ایسے خیال کا ہم کوکبھی تجربہ نہیں ہوا۔ اس لیے جن شعوری حالتوں سے ہم بحث کرتے ہیں وہ ظاہر ہے شخصی شعوراوراذہان ذوات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر ذہن اپنے خیالات و افکار کو اپنی حد تک ہی رکھتاہے۔
۲- ہر شخص کے شعور میںحالتیں ہمیشہ متغیر ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک نفسی حالت ایک بار طاری ہونے کے بعد دوسری بار اس طرح سے نہیں پلٹ سکتی کہ بعینہٰ ایسی ہی ہو جیسی پہلی مرتبہ تھی۔ جو چیزیں جوانی میں ولولہ انگیزہوتی ہیں وہ بڑھاپے میں بے معنی اور نکمی نظر آنے لگتی ہیں۔
۳- ہر شخص کا شعور محسوس طورپر مسلسل ہوتاہے۔ ایک شخص رات میں سوتاہے،اس کا ذہنی شعور اور ذہنی تعلق نیند کے دوران منقطع ہوجاتاہے لیکن جب وہ سوکر اٹھتاہے تواس کا شعور ماضی اس کے شعور حال سے مل جاتاہے۔ اس کو وہ تمام حالتیں یاد ہیں جو سونے سے قبل کی تھیں۔ معلوم ہواکہ زمانہ ماضی کی جو حالتیں ان اوصاف کے ساتھ ہوتی ہیں ان سے موجودہ ذہنی حالت لازمی طورپر مل جاتی ہے۔
۴- اپنے معروض کے بعض اجزا کی طرف زیادہ مائل ہوتاہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض اجزا کی طرف مائل نہیں ہوتا اور ہر وقت معروض کے بعض اجزا کو لیتاہے اور بعض کو رد کردیتاہے۔ معلوم ہواکہ یہ ہر لحظہ ان اجزا میں بعض کا انتخاب کرتارہتا ہے۔
شعور کی یہ دو حالتیں جن سے ہر شخص متاثرہوتاہے اور اسی کے ذریعے اس کا قلب و ذہن بھی متاثر ہوتارہتا ہے۔ اس کاآغاز کسی چیز کے محسوس کرنے سے ہوتاہے اور اختتام کسی عمل کے مکمل ہونے پر۔ قرآن جب کہتاہے کہ ’’یہ اندھے ہیں، گونگے ہیں، بہرے ہیں، انھیں کچھ نہیں سوجھتا‘‘تو اس صورت میں قرآن انسان کے شعور کی اس حالت کاذکر کرتا ہے، جس میں سب کچھ دیکھنے ، سننے اور مشاہدہ کرنے کے باوجود انسان ایک طرح کی بے ہوشی کا شکار رہتا ہے۔ وہ لاشعور کی کیفیت میں مبتلا ہوتاہے۔ اس کو درک حاصل نہیں ہوتا اور نہ وہ آگاہی حاصل کرپاتاہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ایسے افراد کاتذکرہ کرتاہے:
أَفَمَن یَمْشِیْ مُکِبّاً عَلَی وَجْہِہٰ أَہْدَی أَمَّن یَمْشِیْ سَوِیّاً عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ oقُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونo ﴿ملک:۲۲،۳۲﴾
’’بھلا سوچو ، جو شخص منھ اوندھائے چل رہاہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہاہو؟ ان سے کہو۔ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے، سمجھنے والے دل دیے۔ مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔‘‘
یہاں جو صورت حال بیان کی گئی ہے اس میں بھی انسان کی دوحالتوں کاتذکرہ کیاگیاہے۔ ایک شعوری اور دوسری غیرشعوری یا لاشعوری۔ شعوری حالت میں وہ اپنی زندگی اور اس کے نشیب وفراز کو سوچ سمجھ کر اور علم کی روشنی میں انجام دیے جانے والا عمل کرتاہے وہیں دوسری حالت یہ ہے کہ ایک انسان بے سوچے سمجھے اور لاعلمی میں اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں عہد الست کا تذکر فرماتاہے، یہ عہدالست وہ عہد ہے جو ہم نے عالمِ ارواح میںکیا ہے ۔ یہ وعدہ قرآن میں عہدالست کے نام سے بیان ہواہے۔ عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جسم و جان دے کر ان سے شعوری عہد لیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو خود ان پر گواہ بناکر پوچھاکہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے کہاکہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ قرآن کہتاہے:
وَاِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْٓ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَیٰٓ أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَآ أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَ ﴿اعراف:۱۷۲﴾
’’اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلادو، وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدمؑ کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالاتھا اور انھیں خود کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھاتھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انہوںنے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں اور ہم اس پر گواہی دیتے ہیں، یہ ہم نے اس لیا کیاکہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے پہلے بے خبر تھے۔‘‘
یہ وہ واقعہ ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور ہر انسان کے تحت الشعور میں یہ بات پیوست ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرے گا اور اس کی اس بندگی میں شب و روز کے تمام اعمال داخل ہوجائیںگے۔ اب اگر کوئی انسان شعور کے اس حصے کو جس کو تحت الشعور کا نام دیاگیا ہے، جانچنا چاہے تو جانچ سکتاہے اور جب بھی وہ کسی ایسے کام میں مبتلا ہوتاہے، جو اللہ کی مرضی کے خلاف کیاجانے والا ہوتو شعور کا وہ حصہ اس کو ملامت کرتا ہے، روکتاہے اور اس عہد کو ایک دھندلی شکل میں پیش کرکے اس غلط کام سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا اگرہم نے اُس احساس کو پالیا اور اُس کو نظرانداز نہ کیا تو پھر ہم اس بُرائی سے بچ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اس احساس کو دبادیااور بُرائی میں آگے بڑھتے گئے تو پھر ہمارے تحت الشعور میں موجود اس عہد کے احساس میں مزید دھندلاہٹ پیدا ہوجائے گی اور یہ دھندلاہٹ اگر صاف نہ کی گئی تو بڑھتے بڑھتے اس احساس کو ختم کردے گی جو ہمارے شعور کی آواز ہوگی۔ اِسی واقعے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دل پر پڑنے والے اس سیاہ دھبے سے تشبیہ دی ہے، جو بڑھتے بڑھتے دل کو مکمل طورپر سیاہ کردیتاہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتاہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبّا پڑجاتاہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتاہے اور اس گناہ سے بازآجاتاہے تو اس کے دل کا وہ دھبّا صاف ہوجاتا ہے اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے۔
بچپن سے جوانی تک اور پھر عقل کی پختگی کے دوران انسان کے خیالات ، افکار، احساس، رویے اور عمل میں ماحول کابڑا دخل ہوتاہے۔ ماحول کے اثرات انسان کی عقل کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اس کے شعور کو بھی۔ بچپن اور جوانی کے شب و روز اور ان میں رہتے ہوئے جو کچھ ایک انسان دیکھتا، سنتا اور مشاہدہ کرتا ہے اور وہ تمام باتیں اور حالات جو اس کے سامنے رونما ہوئے، ذہن کے اُس حصے میں جمع ہوتے رہتے ہیں جس کو تحت الشعور کہتے ہیں۔ اسی لیے بچوں کی تربیت میں گھر کا ماحول، سماجی ماحول، دوست احباب کا ماحول، مدرسہ، اسکول اور کالج کے ماحول کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ ماں باپ کے خیالات، اُن کے رہنے سہنے کا طریقہ، ان کے شب وروز کے معاملات اور پھر اُس بچے کو گھر کی جانب سے حاصل ہونے والی آزادی، بچے کے ذہن کو مختلف طرح سے سنوارنے اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہی وہ خیالات و افکار ہوتے ہیں جو آگے چل کر انسان کی خواہشوں اور تمناؤں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ انسان کا ارتقائ اس انداز سے ہونا چاہیے کہ وہ اپنے گھر، خاندان، علاقے، معاشرے، شہر، ملک اور دنیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو صالح معاشرہ اور ماحول فراہم کیاجائے جہاں وہ انسانی خوبیوں کے ساتھ پروان چڑھ سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّٰی oوَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیo بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَاo وَالْآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَّأَبْقَیٰo ﴿الاعلیٰ: ۱۴-۱۷﴾
’’فلاح پاگیا ہو جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی، مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالاں کہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
انسان جب اپنے نفس کاتزکیہ کرے گا اور ایک صالح ماحول بھی میسر آجائے گا تو پھر یہ ممکن ہے کہ اس کی زندگی، اس کے شب و روز، اس کی فکر اور اس کی سیرت میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے انسان کے دل میں احساس ذمے داری پیدا ہوجائے اور اس طرح اس کے تمام فیصلوں میں اور اس کی جانب سے انجام دیے جانے والے ہر عمل میں انسانیت کے لیے خیرخواہی ، عدل وانصاف اور بھلائی کے جذبات پیدا ہوں۔
اجتماعیت کی ضرورت
ہم جانتے ہیںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کو جب عام کیا تو اپنی شریک حیات حضرت خدیجہؓ ، اپنے دوست حضرت ابوبکرؓ اور اپنے خاندان کے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ وہ لوگ ایمان لائے انھوںنے فیصلہ کیاکہ اس پیغام ربّانی کو دوسروں تک پہنچانا اب ان کے فریضے میں شامل ہے۔ اس طرح ایک چھوٹی سی اجتماعیت وجود میں آئی جس میں ہر آنے والے نئے دن اضافہ ہوتا گیا اور یہ بہت جلد ایک بڑی اجتماعیت کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ اللہ کے رسول نے فرمایاکہ ’’جب تین آدمی سفر پر نکلیںتو چاہیے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں۔‘‘ ﴿ابوداؤد-ابوسعیدخدری(رح)﴾ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: جب سفر کی حالت میں لوگوں پر جماعت بننا فرض کیاگیاہے تو یہ بات بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگی کہ اہل ایمان ایک جماعت کی شکل اختیارکریں۔ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ انفرادی زندگی گزاریں۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو پانچ باتوں کا حکم دیتے ہیں:
۱-اجتماعی زندگی گزار و، ۲-جماعت کے ذمے داروں کی بات سنو، ۳-ان کی اطاعت کرو، ۴-ہجرت یعنی دین کا مطالبہ ہوتو اپنا وطن چھوڑو، وطن کی محبت پر قینچی چلادو، جو بھی تعلق دین کی راہ میں حائل ہو اسے توڑڈالو،۵-جہاد کرو۔اللہ کی راہ میں اپنی تمام تر کوشش خرچ کرڈالو۔‘‘ ﴿مشکوٰۃ : بحوالہ ترمذی و مسنداحمد، حارث بن اشعری﴾
اس اجتماعی نظم اور اجتماعی جدوجہد کے تعلق سے یہ حدیث بھی ہمارے لیے اہم ہے۔ عمرو بن عبسہؒ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے ’’قیامت کے دن خدائے رحمان کی داہنی جانب کچھ ایسے آدمی ہوںگے، جو نہ بنی ہیں اور نہ شہید، ان کے چہروں کا نور دیکھنے والوں کی نظر کو خیرہ کرتا ہوگا، ان کے مقام اورمرتبے کو دیکھ کر انبیائ اور شہدائ بہت خوش ہورہے ہوںگے۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہوںگے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ مختلف قبائل اور بستیوں کے لوگ ہوںگے جو اللہ کے ذکر کے لیے دنیا میں اکٹھا ہوتے تھے، پاکیزہ اور بہترین کلام چنتے تھے جس طرح کھجور کھانے والا بہترین اور لذید کھجوروں کاانتخاب کرتا ہے۔‘‘ ﴿المنذری بہ حوالہ طبرانی﴾۔ معلوم ہواکہ اجتماعیت سے وابستگی لازم ہے اور اس سے دوری ایک ناپسندیدہ عمل۔ ایک مسلمان کو نہ صرف اپنی زندگی میں اسلام کو نافذکرنا ہے بلکہ جس علاقے اور معاشرے کا وہ حصہ ہے، اس میں بھی اسلام کو نافذ کرنا اس کی اہم ترین ذمے داریوں میں سے ہے۔ اسلامی نظام کو قائم کرنا، اسلامی قوانین کو نافذالعمل بنانا، اسلامی اسٹیٹ کو وجود میں لانا، اس کے لیے کوششیں کرنا، اس کے لیے عوامی سطح پر رائے ہموار کرنا، اسلامی نظام کو بطور متبادل پیش کرنا اس حالت میں جب کہ دیگرنظام ہائے حکومت موجود ہوں اور اسلامی نظام کی عادلانہ اور منصفانہ پالیسیوں کو سمجھانا کسی فرد واحد کاکام نہیںہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
وَمَن یَعْتَصِم بِاللّہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم ﴿آل عمران:۱۰۱﴾
’’جس نے اللہ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلیااسی کو سیدھاراستہ دکھادیاگیا۔‘‘
مزید فرمایا: اعتصمواً باللّٰہ ﴿الحج۲۲:۸۷﴾ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘ معلوم ہواکہ انتشار کا شکار نہ ہو، منتشر نہ رہو، بلکہ ایک اللہ کو اور اس کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور اگر تم ایسا کروگے تو ایک جماعت بن جاؤگے، تم میں اجتماعیت پروان چڑھے گی اور تمھاری سعی وجہد اجتماعی ہوگی، سیدھا راستہ انھی لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کو، اس کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اجتماعیت سے وابستہ ہونا اور اجتماعی سعی وجہد کرنا یہ بھی اللہ رب العزت کے احکام میں سے ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے ﴿مسلمانوں کی﴾ جماعت سے بالشت بھر بھی علاحدگی اختیار کی تو بے شک اس نے اسلام کے طوق کو اپنی گردن سے اتار پھینکا۔‘‘ ﴿بہ روایت حضرت ابوذر(رض): سنن ابوداؤد﴾
زمانے کی چکاچوند
موجودہ حالا ت کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں اور اس میں اپنے شب و روز کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس رواں دواں زندگی اور اس کی چکاچوند میں ہماری ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ ایک طرف ہمارے اوپر کیرئر زم کا بھوت سوار ہے تو تو دوسری طرف جنونی حدتک اعلیٰ معیار زندگی کے حصول کی خواہش، جس کے نتیجے میں ہماری زندگی کا مقصد صرف اور صرف حصول دنیا بن کر رہ گیا ہے۔ جس طرح دن میں آسمان پر ستارے ہونے کے باوجود سورج کی روشنی اپنی آب و تاب میں ستارے کی روشنی کو غائب کردیتی ہے، ٹھیک اسی طرح دنیا کی رنگینی اور اس کی رغبت ہمارے احساسات، ہمارے خیالات، ہماری خواہشیں اور ہمارے عزائم کو حد درجہ اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہیں۔ نتیجۃً وہ مقصد پس پشت چلاجاتا ہے جو ہماری زندگی کے لیے اللہ رب العزت نے طے کیاتھا۔ قرآن کہتاہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً﴿ملک:۲﴾
’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیاتاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ ﴿آل عمران::۰۱۱﴾
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایاگیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
غورفرمائیں کیا آج ہماری نظرشعوری لحاظ سے ان ہدایات کی جانب اٹھتی ہے؟ کیا ہمیں قرآن پر، اس کے احکام پر سیرت محمدﷺ پر غور کرنے، سوچنے اور تدبر کرنے کا موقع میسر آتاہے؟
سرگرمی کے اسباب
کسی بھی کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے اس میں سرگرمی، جوش، جذبہ اور لگن ضروری ہے اور سرگرمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس غرض کے ساتھ آدمی کی دلچسپی میں گہرائی اور گرم جوشی موجود ہو۔ یہ سرگرمی اور گرم جوشی مختلف طرح کے کاموں کے سے متعلق پیدا ہوسکتی ہے۔ نفس پرستی میں آدمی اس قدر غرق ہوجائے کہ وہ وہی اس کی دلچسپی بن جائے۔ وہ اپنی خواہشوں کو حاصل کرنے اور ان کو پورا کرنے کے لیے سرگرمی اختیار کرسکتاہے اور اس حالت میں اس کے لیے حلال اور حرام کی تمیز ختم ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اولاد کی محبت کسی شخص کو اس درجہ متحرک کرسکتی ہے کہ وہ ان کی خوشی اور ان کی کامیابی کے لیے ﴿کام یابی کے خود سے وضع کردہ معیارات کی روشنی میں﴾ ان تمام حدود کو توڑدے جو مناسب نہ ہوں اور پھر اولاد کی محبت کی ہی خاطر وہ اُن کاموں سے بھی زیادہ جو اس کے لیے لازم آتے ہوں ساتھ ہی غیراخلاقی اور غیراسلامی کاموں میں بھی ملوث ہوجائے۔ اسی طرح قوم ووطن کاعشق انسان کو اللہ کا باغی بناسکتا ہے۔ وہ اس عشق میں اس قدر مبتلاہوسکتا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے باغیوں کی پشت پناہی کرے، ان سے مدد کی بھیک مانگے، ان کے آگے ہاتھ پھیلائے اور ان کے لیے غیراسلامی کاموں میں میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردے۔ لیکن ہماری سرگرمی کی اس میں گہرائی اور گرم جوشی صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوش نودی کے لیے ہونی چاہیے۔ ہماری رغبتیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہونا چاہییں۔
تعلق باللہ سے مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیاہے؟ ہم کس طرح معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یانہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں ہمیں پہلے معلوم کرنے ہوںگے۔ اپنے خیالات اور اعمال کو اس تعلق باللہ سے موازنہ و مقابلہ کرنا ہوگا اور جب ہمیںاطمینان حاصل ہوجائے کہ اب ہمارا خیال، ہماری فکر اور ہمارے روزمرہ کے اعمال اس تعلق کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں، تب ہمیں اس راہ میں مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔ تعلق باللہ سے مراد یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں قرآن وحدیث کی روشنی میں انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ oلاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن ﴿الانعام: ۱۶۲-۱۶۳﴾
’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیاگیاہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والامیں ہوں۔‘‘
تعلق باللہ بڑھانے کے لیے سب سے پہلے اللہ وحدلاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرناہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دنیا میں اگر قانون چلے گا توتو صرف اللہ کا کیونکہ وہی اس کائنات کامالک ہے اور مالک کے حکم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیاجاسکتا۔ وہ معبود ہے، جس کی عبادت کی جائے گی اور اس کی عبادت میں شرک نہیں کیاجائے گا۔ وہ حاکم ہے اور اس کے تمام احکام زندگی کے ہرمعاملے میں اول و آخر ہوںگے۔ جس معاملے میں اس نے جو حکم دیاہے، اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس معاملے کی تکمیل ہوگی۔ کسی اور دُنیوی حاکم، بادشاہ یا حاکمِ وقت کی حاکمیت نہیں چلے گی اور اگر چلے گی بھی تو اس پادشاہ حقیقی کے حکم کے مطابق ہی چلے گی ۔
تعلق باللہ کی افزایش کے وسائل
کسی بھی چیز کے مکمل ہونے کے بعد لازم ہوتاہے کہ ان طریقوں کو بھی اختیار کیاجائے جو اس کی افزایش میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تعلق باللہ کے فکری اور عملی ارتقائ کے لیے جن باتوں پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے ان کا تذکرہ کردیاگیا ۔ اب ان باتوں کاتذکرہ بھی ضروری ہے جو اس تعلق کے افزایش میں مددگار ثابت ہونے والے ہیں، ان میں چار باتیں اہم ہیں۔ ﴿۱﴾ نماز ﴿۲﴾ ذکر الٰہی ﴿۳﴾روزہ اور ﴿۴﴾انفاق فی سبیل اللہ۔
ترجیح آخرت
اسلامی شعور کو پختگی دینے اور کاز میں سرگرم عمل رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آخرت کو ہمیشہ یاد رکھاجائے اور ہر معاملے اور ہر مرحملے میں آخرت کو ہی ترجیح دی جائے۔ دوسرے معنی میں ہم جو کام بھی انجام دینے کا فیصلہ کریں اس میںاس بات کالحاظ رکھیں : ﴿۱﴾خدا کی زمین پر خدا کی خلافت کاحق ادا کرنے کی ہم میں کتنی قابلیت ہے اور اس قابلیت اور صلاحیت کا ہم کس درجہ استعمال کررہے ہیں۔ ﴿۲﴾باغی اور خودمختاربن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر۔ ﴿۳﴾خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا نفس اَرباب من دون اللہ کی۔ ﴿۴﴾خدا کی دنیا کو خدائی معیار کے مطابق سنوارنے کی سعی و جہد کرتے ہیں یا بگاڑکی ﴿۵﴾خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کشمکش اور مقابلہ کرتے ہیں یا ان کے آگے سپرڈال دیتے ہیں۔ یہ وہ ہمارے رویے ہیںجو واضح کردیتے ہیں کہ ہم اپنے کاموں، اپنی کاوشوں، اپنی صلاحیتوں اور اپنے افکار وخیالات کوکیا رخ دے رہے ہیں۔ آخرت کا خیال اگر ہمارے افکار وخیالات اور ہمارے اعمال میں رچ بس گیا تو وہ ہمارے اعمال میں نمایاں تبدیلیاں ظاہر کردے گا۔
فکر آخرت کی تربیت کے ذرائع
یہاںپھر ہمیں آخرت کی فکر کرنی ہوگی۔ اس فکر کو سنوارنا ہوگا اور اس کی تربیت کرنا ہوگی۔ گویا ایک بار پھر ہمیں ان بنیادوں سے وابستہ ہونا ہوگا جو ہمارے افکار پر حاوی ہونے والے ہیں اورغیراللہ کے افکار وخیالات اور ان کے قایم کردہ نظام باطل سے بچانے والے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی چیز قرآن کریم ہے۔ اس کے واقعات ہیں، اس کے احکام ہیں، اس میں موجود کامیابی کی بشارتیں اور ناکامی کے معیارات ہیں اور وہ واضح ہدایات ہیں جو ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔جب ہم قرآن کا مطالعہ کریںگے، غورو فکر کریںگے اور دل کی آنکھوں سے اس کامشاہدہ کریںگے تو یہ تمام صفات ہمارے اندر پیدا ہوجائیںگی۔ دوسری چیز احادیث صحیحہ ہیں اور ان میں موجودہ روایات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ ہیں، وہاں بھی غورو فکر اور تدبر اور حالات پر ان کو منطبق کرنے کی صلاحیت درکار ہوگی۔ تیسری چیززیارت قبور ہے، یہ ہمارے موت کے احساس کو تازہ کرتی ہے اور دنیا کی حد درجہ محبت کو کم کرتی ہیں۔ اس سے آخرت کا احساس تازہ ہوتا ہے اور جنت اور جہنم کا تصور آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایک بندہ مومن ان تمام کاموں سے بچ جاتاہے، جو اس کو خسارے اور ناکامی کی طرف لے جانے والے ہیں اور ان کاموں کو کرنا اور اس راہ پر چلنا آسان ہوجاتاہے، جو بہ ظاہر دشوار ہونے کے باوجود کامیابی اور کامرانی کا اعلان کرتی ہیں۔‘‘
مشمولہ: شمارہ اپریل 2011