روزہ کوعربی میں صوم کہتے ہیں ۔ صوم کےلفظی معنیٰ کسی کام سے رکھنے، احتراز کرنے اورچپ رہنے کے ہیں ۔ شریعت کی اصلاح میں مکلّف آدمی کانیت کے ساتھ طلوع فجر سےغروب آفتاب تک کھانے ، پینے ، جنسی تعلقات قائم کرنےسے باز رہنے اوردیگر روزہ کو توڑنے والی چیزوںسے رکے رہنے کوصوم کہتے ہیں ۔
روزہ اسلا م کا رکن ہے اس لیے اس کوتمام آداب وشرائط اوردل کی پوری آمادگی کے ساتھ رکھنا ـضروری ہے ۔ہر مسلمان جوعاقل ، بالغ اورمقیم ہواورروزے کی مشقت برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہو ، اس پر روزہ فرـض ہے ۔ اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزہ بھی بہ تدریج فرض ہوا ہے ۔ ابتداء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوہر مہینے صرف تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا تھا ، مگر یہ فرض نہیں تھے۔ ۳ ھ ہجری میں قرآن مجید میں رمضان المبارک کے روز وں کا حکم نازل ہوا مگر اس میںاتنی سہولت تھی کہ جولوگ برداشت کی طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہ رکھ سکیں وہ ہرروزے کے عوض ایک مسکین کوکھانا کھلائیں ۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اوریہ سہولت ختم کردی گئی ، لیکن مسافر ، مریض، حاملہ، دودھ پلانے والی عورت اورضعیف کے لیے اس سہولت کوباقی رہنے دیا گیا ۔ کشمکش حیات میں کام یابی وکامرانی کے لیے ایک مومن کوزندہ وبار آور ایمان اوراسباب ووسائل درکار ہوتے ہیں اورارکان اسلام اُن کی اس ضرورت کوپورا کرتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اسلامی فرائض میں مستقل جگہ دی ہے۔
انسان میں بنیادی طور سے کھانے پینے ، جنسی تعلق قائم کرنے اور آرام وراحت کی خواہش پائی جاتی ہے۔ انسان کی کام یابی وکامرانی کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کی خواہشات زیادہ طاقت ورنہ ہونے پائیں اوراس کو مغلوب اورقابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان خواہشات کوکم کیا جائے اوروہ طریقہ اختیار کیا جائے جن سے یہ خواہشات کم زور اورمغلوب ہوجائیں۔ اس کا سب سے مؤثر ذریعہ روزہ ہے ۔ روزوں کا اصل مقصود ضبطِ نفس ہے ، زندگی کے ہر مرحلے اور ہرمیدان میں اپنی خواہشات ، تمناؤں اورآرزوؤں کواللہ کے حکم کے تابع کرنا اور اپنے آپ پر اس طرح کنٹرول کرنا کہ نفس اللہ اوراس کےرسول کے حکم کے تابع ہوجائے۔ اللہ کے حدود وقیود کا پابند ہوجائے، دنیا کی زیب وزینت اس کومتاثر نہ کرسکے ۔ اس طرح وہ ضبط نفس کا عادی ہوجائے۔
روزے کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کا پابند بنائے ۔ یہ پابندی اس کی پوری زندگی میں مطلوب ہے ، روزہ اسی پابند زندگی کی ایک علامت ہے ۔ روزے کی حالت میں کھانا پینا ترک کرکے ہم عہد کرتے ہیں کہ غیر مطلوب چیزوں کو بھی چھوڑدیں گے ۔ روزہ تربیت وتزکیہ کا ایک اہم ذریعہ ہے اوراس سے مقصود یہ ہے کہ آدمی کواس قابل بنایا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے ، وہ پورے مسرت وانبساط کے ساتھ اللہ کے احکام وفرامین کی تعمیل کرسکے ۔ یہ ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے کہ آدمی صرف اپنے مضبوط ایمان کی وجہ سے اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں حلال اورجائز چیز کے موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا اور کچھ نہ کھانے پینے کے ارادے پر قائم رہتا ہے۔
روزوں کا ایک مقصد بندہ مومن کوتقویٰ کا خوگر بنانا ہے ، اس کے اندر ایسا احساس وشعور بیدار کرنا ہے کہ وہ شاہراہ حیات میں سنبھل سنبھل کے ، اپنے دامن کو خار کانٹوں اوردنیا کی آلودگی اورگندگی سے اپنے آپ کوبچا کر دل میںاللہ کا خوف واذہان پیدا کرکے اپنی فکر اور عمل کواس کے احکام کے تابع اوراس کی مرضی ومنشا کے مطابق رکھے۔ تقویٰ کا مقام دل ہے اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے روزہ سب سے موزوں عبادت ہے۔
گناہوں سے بچانے کے لیے روزہ ڈھال ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے روزہ دار بندے کو ایک حصار میں باندھ کر گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسے ہدایت ہے کہ روزے کی حالت میں اگر کوئی اس سے لڑے جھگڑے یا برائی پر آمادہ کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ، میں کوئی بری بات زبان سے نہیں نکالوں گا ، لڑائی جھگڑا اوردنگا فساد نہیں کروںگا ۔ روزہ اس کے لیے ایک مؤثر نصاب ہے ۔ روزے کا احساس ایک بندہ مومن کوبراہِ راست اللہ کی نگرانی اورحفاظت میں رہ کر گناہوں اوربرائیوں سے ہمیشہ کے لیے بچے رہنے کا عادی بناتا ہے۔
روزے کا حاصل صبر ہے ۔ روزہ دار اپنی خواہشاتِ نفس کوروکے رکھتا ہے ۔ اس بنا پر حدیث میں روزہ کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے ۔قرآن مجید میں صبر کرنے والے کوبے حدو حساب اجر وثواب کی بشارت دی گئی ہے تو حدیث میں یہی بشارت روزہ کے لیے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ: کل عمل ابن آدم یضاعف، الحسنۃ عشر امثالہا الیٰ سبع مائۃ ضعفِ قال اللہ عزوجل الا الصوم فانّہ لی وانا اجزی بہ(مسلم ، کتاب الصیام باب فضل الصیام)’’ انسان کے اعمال میں ہر نیکی کا اجر دس گناسے ،سات سوگنا تک دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ! سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہیں اورمیں جتنا چاہوںگا اس کا صلہ دوں گا ‘‘۔ (بخاری ، کتاب الصوم) اس بے حد و حساب اجرو ثواب کی خوش خبری صرف صبر کی وجہ سے ہے کہ انسان بھوک وپیاس برداشت کرتا ہے ، حلال وطیب رزق سے رکا رہتا ہے اوراپنی نفسانی خواہشات کودباتا ہے ۔ روزہ اس کو صابرانہ زندگی کے لیے تیار کرتا ہے تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کا صبر وشکر کے ساتھ مقابلہ کرے اور دنیا میں کما حقہ اپنے فرائض منصبی کوانجام دے اور بدلے کے طور پر خدا کے ہاں بے انتہا اجرو ثواب کا مستحق ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی مقبولیت کے لیے دوباتوں کے اہتمام کی تاکید فرمائی ہے: ’’ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اوراحتساب کے ساتھ ، تواس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے‘‘۔ (بخاری، کتاب الصوم باب فضل لیلۃ القدر) ایمان کے ساتھ روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تعلق سے ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہے وہ اس کے ذہن میں ہروقت تازہ رہے اور احتساب سے مراد یہ ہے کہ آدمی اللہ ہی کی رضا کا طالب ہو اور ہروقت اپنے خیالات اوراپنے اعمال پر نظر رکھے ۔ رمضان المبارک کا روزہ ایک بہترین عبادت ہے اوراللہ نے بے حد وحساب اجر رکھا ہے مگر ان کے لیے جواپنے روزوں کی حفاظت کریں اوراس کوپورے ایمانی شعورکے ساتھ رکھیں۔
رمضان کی آخری رات اجرپانے اورمغفرت حاصل کرنے کی رات ہے ۔ اس رات میں جوکچھ مانگا جاتا ہے ، مل جاتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:
اعطیت امتی خمس خصال فی رمضـان لم تعطہا امۃ قبلہم خلوف فم الصائم اطیبُ عنداللہ من ریح المسک وتستغفر لہم الملائکۃ حتی یفطرواویزین اللہ عزوجل کل یوم جنتہ ثم یقول یوشک عبادی الصالحون ان یلقوا عنہم المؤنۃ والاذیٰ ویصیروا الیک ویصفّد فیہ مردۃ الشیاطین فلا یخلصوا اِلی ما کانوا یخلصون الیہ فی غیرہ ویغفرلہم فی آخر لیلۃ .قیل یا رسول اللہ ہی لیلۃ القدر؟ قال لاو لکن العامل انّما یوفّی اجرہ اذا قضی عملہ ) مسند احمد ج ۲ ص ۲۹۲(
’’رمضان المبارک میں میری امت کو پانچ چیزیں عطا کی جاتی ہیں جوان سے پہلے گزری ہوئی کسی امت کو نہیں دی گئیں ۔ روزے دار کے منہ کی بسانداللہ تعالیٰ کے نزدیک مسک کی خوشبوسے زیاد ہ عمدہ اور پسندیدہ ہے ۔ افطار تک فرشتے ان کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہرروز جنت کو آراستہ پیراستہ فرماتے رہتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے میرے صالح بندوں کو تکلیف اوراذیت پہنچی ہو اور وہ تیری طرف آئیں۔ سرکش شیاطین کوہتھکڑیاں ڈال کر بند کردیا جاتا ہے اورآخری رات میں ان کی بخشش فرماتا ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! کیا یہی لیلۃ القدر ہے ۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : نہیں ، بلکہ مزدور کواس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے جب وہ اپنا کام مکمل کرلیتا ہے‘‘۔
اس حدیث سے پانچ ایسے فضل کا پتہ چلتا ہے ، جورمضان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کیا ہے ۔ اس سے جہاں روزہ کی ترغیب ملتی ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کوصرف اسی بات کا پابند نہیں بناتا کہ وہ مشقت برداشت کریں اور کوئی صلہ وانعام نہ پائیں بلکہ وہ انہیں اجر دینے کی بات کرتا ہے ۔و ہ اجر ایک روزہ دار کو آخری رات میں ملتا ہے ، جس طرح مزدور کواس کے کام کی مزدوری کام کی تکمیل پر ملتی ہے ۔
اس اہم رات میں بندۂ مومن کو اپنی مغفرت اوراپنے اجر وانعام کے لیے مستعد رہنا چاہیے اورسال بھر کے لیے زاد راہ اکٹھا کرلینا چاہیے ۔ اس رات کو ہر گز فراموش نہ کریں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2017