تربیت اولاد میں والد کا کردار

عموماً تربیت اولاد کے تعلق سے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ تربیت کی  اصلا ً اور ساری ذمہ داری صرف اور صرف ماں  ہی کی ہوتی ہے‌۔ جب کہ تربیت اولاد وہ فریضہ ہے جو والد اور والدہ دونوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ بچے کی صحیح ڈھنگ سے نگہداشت  کے ساتھ اعلی اخلاق و کردار کی حامل شخصیت پروان چڑھانے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ دونوں اپنا رول ادا کریں۔ اس میں شک نہیں کہ ماں بچوں کے بہت سے کام انجام دیتی ہے لیکن ’تربیت ‘ بچوں کے کام کرنے کے علاوہ بچوں پر کام کرنے کا مشن ہے۔ ماں سے بچوں کی انسیت زیادہ ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں  ہے کہ والد بچوں کو کلی طورپر والدہ کے حوالے کردے اور ان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ کسی اور کام کو اپنے فرائض میں شامل ہی نہ سمجھے۔ والد گھر اور خاندان کا سربراہ ہوتا ہے اور ایک حدیث کے مطابق ہر فرد ذمے دار ہے اور اپنے ماتحتوں کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ باپ اپنے گھر کا ذمے دار اور اپنے بچوں کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ والد کا کردار بھی تربیت اولاد کے ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

والد کا کردار اور اس کا تقاضا

امام غزالیؒ نے احیا ءعلوم الدین میں تربیت کے تعلق سے چند اہم باتیں لکھی ہیں۔فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ پس جس طرح باپ بچے کو دنیا میں آگ سے بچاتا ہے اس کا آخرت میں آگ (جہنم) سے بچانا زیادہ بہتر ہے۔ آخرت میں برے انجام سے بچانے کے لیے دنیا میں نیک تربیت کرنی ہوگی۔

والد کے کردار سے متعلق کچھ ضروری باتیں یہاں بیان کی جائیں گی۔

والدہ کا انتظام:  پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے لیے نیک ماں کا انتظام کیجیے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، نکاح کے لیے رشتہ تلاش کرتے وقت دین داری اور نیک اخلاق واوصاف کو ترجیح دینی چاہیے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے رشتوں کا انتخاب کریں۔ واضح رہے والد پر بچوں کے حقوق ان کی پیدائش سے قبل ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے نکاح کے معاملات سےہی سوجھ بوجھ سے کام لیں۔

منظم و منتظم نظام کا قیام:  باپ کا کردار طاقت و رعب کا مظہر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں : ’’ماں کو چاہیے کہ بچے کو باپ سے ڈراتی رہے‘‘۔ یہاں ایسا دبدبہ مقصود ہے اور سودمند بھی جس کی وجہ سے گھر میں نظم و نسق قائم رہتا ہے۔ لیکن اگرباپ صرف خوف کی ایسی علامت بن جائے کہ جس کے گھر میں ہوتے ہوئے خاموشی چھائی رہے اور ہر طرف ڈر کا بسیرا ہو تو ایسا کردار خود اس کے لیے اور اس کے اپنوں کے لیے ضرر رساں ہے۔ والد کے تئیں دل میں احترام کا مقام یوں قائم ہونا چاہیے کہ گھر کے نظام میں عمدہ تسلسل رہے اور افراد مخصوص نظم کے پابند رہیں۔

معروف فقیہ اور محدث امام نووی فرماتے ہیں ، ’’باپ کو اپنے بچے کو نظم و ضبط میں رکھنا چاہیے اور اسے وہ سکھانا چاہیے جو اسے مذہبی فرائض کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔‘‘ آپ مسلمان ہیں تو اسلامی نظام کے قیام کی ابتدا گھر سے کیجیے۔ اسلامی شریعت نے ایک مکمل نظام حیات جو عطا کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں پہنچانے کے مواقع تلاش کیجیے۔ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں، تو بچوں سے ان کی ادائیگی یقینی بنوائیے۔ انھیں نماز کی طرف کم سنی سے دل چسپی دلائیے۔ باپ اپنے بچوں کو مسجد اپنے ساتھ ضرور لے جایا کرے، تاکہ وہ جماعت سے نماز پڑھنے کے اطوار سیکھ سکیں۔ رمضان کا مہینہ مومن کی تربیت کا مہینہ ہے لہذا اس میں بچوں کی مناسبت سے ٹائم ٹیبل بنوا کر انھیں بھی رمضان المبارک سے استفادہ کرنے دیں۔ تلاوت قرآن کا وقت مقرر کریں۔ صبح جلدی اٹھنا، رات جلد سوجانا، کھیلنے اور پڑھنے کا مخصوص وقت مقرر کرنا، حفظان صحت (غسل کرنا، ناخن کاٹنا، بال بنانا، دانت صاف کرنا، کپڑے صاف رکھنا وغیرہ) کا خیال رکھنا۔ ماں ان تمام کاموں کو محنت و مشقت سے بنا کسی شکوہ کے انجام دیتی ہے تاہم ایسے تربیتی امور میں باپ کی بھی شمولیت ہونی چاہیے۔

بیشتر والد حضرات جب کبھی بچوں کی پرورش کے ضمن میں انھیں منظم اور بااصول بنانا چاہتے ہیں تب وہ اپنے رعب و جلال کا حد درجہ استعمال کرتے ہوئے اپنی شخصیت کا اثر کافور کردیتے ہیں۔غصّہ، ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ سے بچہ اطاعت گزار اور نظم کا پابند بنتا ہے، یہ سوچ درست نہیں ہے۔ امام غزالی ؒنے نصیحت کی ہے کہ ’’ ہر غلطی پر بچوں کو ٹوکنا نہیں چاہیے، اس سے ان کے ذہنوں میں تنقید کو سننا اور غلطی کا ارتکاب کرنا بے وزن ہو جاتا ہے اور بات دل پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ والد کو اولاد کے ساتھ بات کی ہیبت کا حق محفوظ رکھنا چاہیے۔ وہ انھیں کبھی کبھار زجروتوبیخ بھی کرے‘‘  یعنی سختی بس اسی حد تک کرنی چاہیے کہ وہ مفید ثابت ہو۔

باپ کو لازماً اصول پسند ہونا ہوگا۔ جب وہ خود منظم اور بااصول ہوگا، تبھی اس کے کردار کا اثر تادم حیات بچوں پر قائم رہے گا۔ چارلیس کیٹرینگ امریکی لیجنڈ، مؤجد و محقق کہتے ہیں کہ ’’ ہر باپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک دن اس کا بیٹا اس کی نصیحت کے بجائے اس کے ماڈل پر عمل کرے گا‘‘ اپنی زندگی مثالی بنائیے تاکہ آپ کی اولاد بھی کامرانی کی منازل طے کرسکے۔

مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر فٹزہگ ڈوڈسن نے How to Father نامی کتاب لکھی ہے، جو بچپن سے جوانی تک بچے کی تربیت کے لیے ایک معاون گائیڈ ہے۔ کتاب میں ڈسپلن کے تعلق سے جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ بچوں کو نظم و ضبط سکھانا ایک مشکل امر ہے ، مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈسپلن کا مطلب تین چیزوں کی تعلیم دینا ہے: پہلی، فرد خود پر قابو پانا سیکھ جائے۔ دوسری، اپنی راہ خود متعین کرنا سیکھ جائے۔ تیسری، اس میں اِن کی قابلیت پیدا ہوجائے۔ یہ کتاب ایک والد کے لیے اچھا تحفہ اور منظم رہ نمائی کا منصوبہ ہے۔

شفقت کا سائبان:  ماں محبت و الفت کی پیکر ہے تو باپ بھی شفقت و چاہت کا سائبان ہے۔ مدتوں سے باپ کے کردار کو سختی کی علامت بنا کر کچھ اس انداز میں پیش کیا جاتا رہا کہ اس کے کردار سے اپنائیت اور انسیت غائب سی ہو کر رہ گئی۔ اس میں یہ بھی ہوتا رہا کہ باپ اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ان کا اولاد سے لگاؤ اور پیار بھی کہیں چھپ سا گیا۔ ڈیوڈ پوپینو، ماہر سماجیات جنھوں نے والد اور والدیت کے متعلق اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، ان کے نزدیک تربیت میں والد کی شمولیت کا بچوں پر جو مثبت اثر ہوتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے متعدد ماہر نفسیات اور محققین نے مشاہدات پر مبنی تحقیقات پیش کی ہیں، جس کا نچوڑ یہی ہے کہ باپ سے پیار اور محبت پانے والی اولاد پُراعتماد اور خودمختار بن کر ابھرتی ہیں۔ ایسے بچوں کی ذہانت ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارتی ہے اور بچے قابل بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل تدبیریں مفید ثابت ہوں گی:

بچوں کے ساتھ اچھا تعلق بنانے کے لیے ان کے ساتھ وقت گزارئیے۔ ان کی باتیں سنیے، انھیں کہانی سنائیے، ان کے ساتھ مل کر کھیلیں، سیر و تفریح کا اہتمام کریں۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر آپ بچے کی شخصیت کو سمجھ سکیں گے۔ ان کی صلاحیتوں، قابلیتوں نیز کم زوریوں اور خامیوں کو جان سکیں گے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی امیدیں کیا ہیں اوران کے ڈر، خوف اور خدشات کیا ہیں۔

بچوں کے مسائل اور ان کی کمیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھیں۔ نکتہ چیں نہیں ان کے خیر خواہ بن کر ان کا تعاون کریں۔

بچوں کی ہمت افزائی کرتے رہیے۔ اچھے کاموں پر ان کی تعریف کریں۔ نیک کارناموں پر آپ انعام بھی دے سکتے ہیں۔ بچوں کے لیے ماں کے علاوہ باپ کی حوصلہ افزائی بہت معنی رکھتی ہے۔

کسی مضمون (سبجیکٹ) میں آپ ماہر ہوں تو اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ان کی رہ نمائی کریں۔

ان کے دوستوں اور سہیلیوں کے بارے میں ضروری معلومات رکھیں۔ تاکہ وہ غلط صحبت سے اور تنگ کرنے والے بچوں سے محفوظ رہیں۔

بچوں کے اسکول میں اسپورٹس ڈے، کلچرل ڈے، رزلٹ ڈے، پیرینٹ میٹنگ وغیرہ پر جب والدین کو اسکول میں مدعو کیا جاتا ہے، وہاں غیر حاضر مت رہیے۔

بچوں کی والدہ سے تعلقات:  والد کے بچوں کی والدہ کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے ہیں، بچوں کی تربیت میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ کیوں کہ اسی کے ذریعے والد اپنے بچوں پر اپنا گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔ جو خاوند اپنی بیوی کی عزت کرتے ہیں وہ بچوں کے سامنے اپنا مثبت کردار پیش کرتے ہیں اور بچے بھی ان سے خوش رہتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اگر شوہر بیوی کے تئیں غلط رویہ اختیار کرے تو بچوں کے دل میں اپنے ابو کے لیے عزت و احترام کا رتبہ قائم نہیں ہوپاتا۔ میاں بیوی کے باہمی تعلقات اگر دوستانہ ہوں تو شوہر بحیثیت والد بچوں کے ساتھ وقت گزارنے میں لطف محسوس کرتا ہے اور بیوی بھی بطور ماں بچوں کے کاموں کی انجام دہی اور فرائض کی تکمیل میں توانائی محسوس کرتی ہے۔ اس طرح مثبت توانائی اور دل شاد ماحول میں بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما بہتر سے بہتر ہوتی ہے۔

شوہر اور بیوی کے باہمی تعقات کے حوالے سے درج ذیل کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

آپس میں عزت و احترام سے گفتگو کریں۔ اونچی آواز میں بات کرنا، تحقیر و تذلیل کرنا، کھانے میں نقص نکالنا، جسمانی نقص اور ظاہری کمیوں (رنگت، قدوقامت، موٹاپا) کا مذاق اڑانا جیسی قبیح باتوں سے دور رہیے۔

معاشی معاملات و مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر گھر کے کاموں میں حصہ لیجیے۔ گھر کے کاموں میں تعاون کرنا اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔

اگرچہ مسائل سے نمٹنے کے لیے گفتگو ضروری ہے لیکن بحث و تکرار سے گریز کریں۔خصوصا بچوں کے سامنے ایسی صورت حال سے بچیں۔

حلال روزی:  لازمی طور پر حتی الامکان کوشش کریں کہ آپ کا رزق حلال ہو۔ اکثر پیشوں میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حلال روزی کی پاکیزگی پر حرام کے جراثیم لگاتی ہیں۔

اپنے پیشے کے تعلق سے اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ کہیں مہنگائی کے پریشر نے جیب کو کالا تو نہیں کیا۔ بعض والدین بچوں کو بہترین اسکول میں تعلیم دلوانے، یا پیشہ ورانہ کورس میں شریک کرانے، یا بیرون ملک تعلیم کی خاطر بھیجنے کے لیے لون لیتے ہیں یا ایسے انتظامات کرتے ہیں جنھیں اسلام نے ناپسند کیا ہے۔ شریعت کی خلاف ورزی کے بعد اچھی تعلیم و تربیت کی جڑ ہی میں گھن لگ جاتا ہے، تو میٹھے پھل کیسے ملے گے۔اپنے بچوں کی تعلیمی استعداد کو بھی اسی رخ پر آگے بڑھائیں کہ انھیں بھی حلال روزی کے لیے مواقع دستیاب ہوں۔

تعلیم کا انتظام:  اچھی تربیت کا لاینفک جزو اچھی تعلیم ہے۔ بچوں کا حق ہے کہ انھیں بہتر تعلیم سے آراستہ کریں۔اسکول میں نام درج کرانے سے پہلے اپنے علاقے کے اسکولوں کی معلومات ضرور لیجیے تاکہ آپ کے بچے کو بہتر اسکول میں داخلہ مل سکے۔ اسکول کی انتظامیہ، ماحول، پڑھائی سبھی باتوں پر اس طرح توجہ دی جائے کہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی آپ کی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا ہوجائے۔

اخراجات:  اور جو کچھ تم (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو گے وہ اس کا بدل دے گا۔ اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے [سورہ سبا: 39]بیوی بچوں بالخصوص بیٹیوں پر خرچ کرنے کی فضیلت کے بارے میں بہت سی روایتیں ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بہتر دینار وہ ہےجو آدمی اپنی اولاد پر خرچ کرے۔ اولاد کو حسب ضرورت سہولیات فراہم کرنا والد کا فرض ہے۔ خرچ کرنے میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے اور اسراف سے بھی ہاتھ روکنا چاہیے۔ بچوں کوغیر ضروری آسائشیں اور سہولیات فراہم کرکے انھیں تعیش پسند نہیں بنانا چاہیے۔ضروریات کی فراہمی کے علاوہ ان میں محنت کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔

دعا کرنا:  ایک حدیث کے مطابق باپ کی اولاد کے حق میں مانگی گئی دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے اپنی اولاد کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان کی پیدائش کے قبل سے تو زندگی کی مختلف سطحوں پر انھیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ان کی صحتمندی کی دعا، ہدایت کی دعا، نیکیوں اور عبادتوں کی توفیق کی دعا، قرآن کو سینے میں اتارنے کی دعا، صلاحیتیں نکھرنے کی دعا، قابل بننے کی دعا وغیرہ ایسی کئی ساری دعائیں ہیں جن سے ان کے لیے دنیا و آخرت کی کام یابی کی راہیں آسان ہوسکتی ہیں۔

روشن نمونے

اولاد کی تربیت کے تعلق سے ماضی کے اوراق میں عظیم ماؤں کی عظیم داستانیں مل جاتی ہیں، لیکن شخصیت سازی میں عظیم والد کے احسانات بھی بھلائے نہیں جاسکتے۔ آئیے ہم تاریخ سے کچھ سنہرے پدرانہ نقوش پیش کرتے ہیں تاکہ بچوں کی تربیت کے تئیں فرض شناس والد کا تصور روشن ہوکر سامنے آجائے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:  عظیم برگزیدہ نبی ہیں۔ قرآن مجید نے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو نمونہ کہا ہے۔ عیدالاضحی ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے نادر اور اہم پہلوؤں کی یاددہانی کراتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کا قربانی کےلیے تیار ہوجانا اور اپنے والد کو آنکھ پر پٹی باندھنے کا مشورہ دینا ان کی اعلی پائے کی تربیت اور عمدہ پرورش کی عکاسی کرتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام لمبی عمر تک اولاد کی دعا مانگتے رہے پھر اولاد کی پیدائش کے بعد اولاد کے حق میں اور آئندہ نسلوں کے حق میں دعائیں کرتے رہے۔ بطور والد ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ اپنے آپ میں بہترین عملی نمونہ رکھتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام:  حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک انوکھا خواب دیکھا اور اپنے ابا حضور سے بیان فرمایا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جان گئے کہ اس خواب میں عظیم خوش خبری پنہاں ہے۔ ان کے بیٹے کو نبوت اور اقتدار حاصل ہونے والا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے بیٹے خواب سے اشارہ پاکر حسدکا شکار ہوجائیں اور یوسف علیہ السلام کے خلاف کوئی سازش کریں۔ اس لیے انھوں نے اپنے فرزند یوسف علیہ السلام کواپنا خواب دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا۔ باپ بیٹے کی مختصر سی گفتگو ان دونوں کی آپسی دوستی اور رازداری کا پتہ دیتی ہے۔ بحیثیت والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی دوراندیشی قابل تعریف ہے، کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شیطان ان کے بچوں کے درمیان فتنہ برپا کرے۔

حضرت لقمان علیہ السلام:  حضرت لقمان علیہ السلام کے نام سے قرآن میں ایک سورہ منسوب ہے۔ قرآن نے ان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں نقل فرمائی ہیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام دانش ور اور سلیم العقل انسان تھے اس لیے انھوں نے دانائی کا نچوڑ اور عمر بھر کی غور و فکر سے حاصل حکمتیں بیٹے میں منتقل کردیٖں۔ یہ واقعہ اشارہ دیتا ہے کہ والد کا کردار صرف بچوں کو تعلیم دلوانے تک ہی نہیں بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کرنے کے لیے بھی وہ ذمہ دار ہے۔

امام مالک کے والد:  امام مالکؒ کے والد اپنے زمانے کے محدث تھے اور انھی کی بدولت گھر میں حدیث و فقہ کا ماحول تھا۔ ان کے والد بچوں سے اکثر سوالات کرکے ان کا جائزہ لیا کرتے۔ دل چسپ واقعہ کچھ یوں ہے کہ امام مالک کو بچپن میں کبوتر بازی اور گانے کا شوق ہوچلا تھا۔ وہ سوچا کرتے کہ وہ بڑے ہو کر ایک اچھے گلوکار بن سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے والد نے دونوں بھائیوں کا جائزہ لینے کے لیے سوالات پوچھ لیے جس کے جوابات امام مالک کےبھائی تو دے سکے لیکن امام مالک نہیں دے سکے۔ جس پر والد صاحب نے انھیں تنبیہ کی کہ ان کبوتر وں نے تمھیں برباد کردیا جب کہ تمھارا بھائی علم میں آگے بڑھ رہاہے۔ اور پھر وہ چیلنج امام صاحب نے دل پر ایسا لیا کہ مدینہ منورہ کی علمی تاریخ کے عظیم الشان استاذ بن گئے۔ معلوم ہوا کہ بچوں کے تعلیمی و تدریسی معاملات میں یوں بھی کردار نبھایا جاتا ہے۔

امام غزالیؒ کے والد:  امام غزالیؒ کے والد پیشے سے درزی تھے۔ انھیں اپنے ان پڑھ ہونے پر پچھتاوا رہا اور اسی لیے بچوں کو تعلیم دلوانے میں خوب محنت کیا کرتے۔ جب انتقال کا وقت قریب آیا تو اپنے دونوں بیٹوں کو مصارف تعلیم کے ساتھ ایک دوست کے حوالے کرگئے کہ ’’میں لکھنے پڑھنے سے قاصر رہا ۔ ان دونوں کو تعلیم دلائی جائے تاکہ میری جہالت کا کفارہ ہوسکے۔ ‘‘امام غزالی اپنے والد بزرگوار کے خلوص و سنجیدگی، سچی تڑپ اور کڑی محنت اور مقبول دعاؤں کا نتیجہ تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:  تمام نمونوں سے اعلی و ارفع نمونہ اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ کا ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر کردار کامل اور حسین و جمیل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں بیٹوں اور نواسوں نواسیوں کے لیے شفقت ومحبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھے۔۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺاپنی چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کا گرم جوشی سے کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور انھیں پیشانی پر بوسہ دیتے۔ نواسوں کے لیے سواری بن جاتے اور ان کے ساتھ کھیلا کرتے۔ حضرت رقیہؓ کی بیماری میں فکر مند ہونا، حضرت زینبؓ کو مکہ سے مدینہ لانے کا انتظام کرنا، حضرت فاطمہؓ کی شادی کے بعد بھی ان کے گھریلو مسائل حل کرنا وغیرہ وہ باتیں ہیں جو ایک ذمہ دار، سنجیدہ اور پر وقار والد ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ بلاشبہ آپ انسانی تاریخ کے بہترین اور مثالی باپ تھے۔

 

مشمولہ: شمارہ جولائی 2022

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau