اپنے ایک قدیم ترین بزرگ دوست کوکھوکر میں یہ محسوس کررہاہوں کہ اقامت دین کے لیے صبر آزما جدوجہد کرنے والوں کی راہ مُشکلہوگئی ہے اور شاید ہمارا جدا ہونے والا ہم سفر کام ادھورا چھوڑکر چلاگیا۔ لیکن جب میںمستقبل پر نگاہ ڈالتاہوں تو اس رفیق کے خون جگر کے طفیل شاہراہ فکروعمل روشن نظر آتی ہے اور ہمیں اپنی منزل مقصود تک رسائی آسانی نظر آرہی ہے۔ فضل الرحمن فریدی سے ۱۹۵۲سے اس وقت تک یعنی ۵۹ سالہ رفاقت کی بے شمار دلکش گھڑیاں ذہن میں تازہ ہورہی ہیں۔ ہماری پہلی ملاقات الٰہ آباد میں اس وقت ہوئی جب میں ہائی اسکول کاطالب عِلم تھا اور فریدی صاحب الٰہ آباد یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کررہے تھے۔ احمدزکریا علوی اور حسّان کلیمی ان کے قریبی دوستوں میں تھے۔ الٰہ آباد کے محلہ شاہ گنج میں الانصاف کے دفتراور صاحب الانصاف محمد اسحاق مرحوم کے دولت خانے پر محفلیں آراستہ ہوتیں۔ الانصاف نام کا ہفت روزہ اس وقت تحریک اسلامی کا واحد ترجمان تھا، جو محمد اسحاق صاحب کی ادارت میں شائع ہوتاتھا۔ اس وقت الٰہ آباد میں تحریک اسلامی کے ذہین طباع مخلص اور سرگرم عمل افراد کی ایک انجمن آراستہ تھی جن میں نمایاں محمد اکرام، سعید احمد صدیقی، ڈاکٹر افتخار ، سہیل احمدزیدی، مولوی محمد مشتاق وغیرہ تھے۔ درس قرآن کی مجلسیں اور شعرو ادب کی محفلیںآراستہ ہوتی تھیں۔ اس وقت کا الٰہ آباد مجھے خلد کاایک گوشہ محسوس ہوتا۔
میرے مربی و چچا سید عبد الوافی وہاں ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے اور میں اکثر چھٹیاں ٹانڈا سے الٰہ آباد جاکر گزارتا۔ فریدی صاحب کی ذہانت سے لبریز اور متحرک وسیماب پا شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ تھے تو معاشیات کے طالب علم لیکن زبان و ادب کا بڑا لطیف ذوق رکھتے تھے۔ مدیرالانصاف محمد اسحاق اور دیگر اصحاب قلم اورداعیان حق سے ان کے قریبی روابط تھے۔ خاص طورپر حسّان کلیمی اور علوی صاحب ان کے قریبی احباب میں تھے۔ ۱۹۵۲ میں ان لوگوں کی ایک محفل میں مسلم بورڈنگ ہائوس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ پھر فرید ی صاحب ۱۹۵۲میں ایم اے کرنے کے بعد رام پور ثانوی درس گاہ میں چلے گئے اور میں تعلیم کے اگلے مراحل کے لیے لکھنؤ میں پہلے اپنے چچا سید عبدالکافی کے ساتھ جاکر مقیم ہوا پھر جماعت اسلامی لکھنؤ کے دفتر واقع بارود خانہ مولوی گنج میں مرحوم رشید کوثر فاروقی کے ساتھ قیام پذیر رہا اور بی اے کی تعلیم مکمل کرلی۔
اس دوران لکھنؤ طرح طرح کی علمی وادبی سرگرمیوں کامرکز تھا۔ ابوالمجاہد زاہد، رشید کوثر فاروقی، احمد حسین انصاری، اکبر زمزم اور ان سب کے سرپرست م نسیم نے اشتراکی ترقی پسندوں کے بالمقابل ادارۂ ادب اسلامی کاپرچم بلندکررکھاتھا۔ ہر ماہ بڑی دھوم دھام سے ادبی نشستیں ہوتیں جن میں لکھنؤکے نوجوان لکھنے والے شرکت کرتے۔ ماہنامہ نئی نسلیں آب و تاب سے شائع ہوتا۔ میں نے یونیورسٹی اور شہر کے اسلام پسند نوجوانوں کو ایک رشتے میں پروکر اسلامک اسٹڈی سرکل قایم کی تھی۔ اس کی بھی نشستیں ہوتیں۔
فریدی صاحب رام پور جاتے اور وہاں سے آتے ہوئے لکھنؤ میں ضرور قیام کرتے اور اکثر میں ان کامیزبان ہوتا۔ ان کے درس قرآن اور خطابات میں بڑی تازگی، دلکشی اور گداز ہوتا۔ مولانا عبدالغفار ندوی جو امیر حلقہ اور شہر کی اکثر علمی و ادبی شخصیتوں کے لیے باعث کشش تھے، ہم لوگوں کے سرپرست تھے۔ فریدی صاحب ا ن سے بے حد قریب تھے۔ مولانا کاوطن جونپور کے قریب قصبہ شاہ گنج میں تھا۔ وہ دل کھول کر تحریک کے نوجوانوں کی مدارات کرتے۔ یہی حال م نسیم کا بھی تھا جو فریدی صاحب اور رام پور و علی گڑھ کے دیگر نوجوانوں نجات اللہ صدیقی اور عرفان احمد صاحبان کے لیے بے حد وجہ کشش تھے اور دینی و ادبی کاوشوں سے لوگوں کو مسحور کرلیتے۔ پھر ان کی حضرت گنج کے کافی ہائوس اور یحییٰ گنج میں دفتر نئی نسلیں میں مدارات اور دلکش گفتگوئوں کی وجہ سے لکھنؤ ایک ایسا محور بن گیاتھا جسے دوران سفر نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
فریدی صاحب اُدھر ثانوی درس گاہ سے فارغ ہوکر آگرہ کے ایک کالج میں لیکچرر ہوکر چلے گئے اور میں لکھنؤ یونیورسٹی سے فرصت پاکر ۱۹۵۷میں رام پور پہنچا۔ رام پور اس وقت تحریک اسلامی کی وجہ سے اہل علم و قلم کاایک بڑا مرکز بن گیاتھا۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند اسی زمانے میں اپنے نئے دستور کے مطابق منظم ہوا۔ ابن فریداس کے صدر اور خاکسار اس کے سکریٹری مقرر کیے گئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صدیقی اس کے اساسی ارکان میں تھے۔ ۱۹۵۸ میں یہاں سے ادارہ کا ترجمان ماہنامہ دانش جاری ہوا۔ اس کے حلقہ ادارت میں ابن فرید کے علاوہ سید احمد عروج قادری، سید زین العابدین بھی شامل تھے۔ فریدی صاحب اس مجلہ کو برابر اپنے مشوروں سے نوازتے۔ ان دنوں جب وہ چھٹیوں میں گرما میں جونپور آتے تو یہ خاکسار اکثر اپنے وطن ٹانڈہ سے جونپور جاتا اور کئی دن ان کے ساتھ قیام کرتا۔ ان کے والد محترم بے حد خوش مزاج اوروسیع الظرف تھے۔ جونپور کے تمام تاریخی مقامات ہم لوگوں کے زیر پاتھے۔ جمیل احمد فاروقی اردو کے ایک ممتاز نقاد جونپور میں ہم لوگوں کی خوب تواضع کرتے۔
اسی زمانے میں فریدی صاحب کی ردولی میں شادی ہوئی تو ہم سب احباب ان کی بارات میں شریک تھے۔ راستے بھر تحریکی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ میری ثانوی درس گاہ کے قیام کے دوران فریدی صاحب اپنے خطوط میں مجھے برابر علمی مشورے دیتے رہے۔ ان کی قرآن حکیم پر نظر گہری تھی۔ رام پور میں میں نے اسلامک یوتھ آرگنائزیشن قایم کی اس کی ماہانہ نشستیں بڑے اہتمام سے ہوتی تھیں۔ فریدی صاحب آگرہ سے برابر اس کے سلسلے میں مشوروں سے نوازتے۔ ۱۹۶۰ میں میرا ایک سال مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں قرآن کے مطالعے کے سلسلے میں قیام رہا۔ فریدی صاحب اور نجات صاحب ہم احباب کو برابر تعلیمی مشورے دیتے رہے۔ پھر میں چند دن کے لیے دہلی میں دعوت کے ادارتی شعبے میں جناب محمد مسلم صاحب کی طلب پر گیا مگر فریدی صاحب کی رائے تھی کہ میرا ایم اے کرنا ضروری ہے چنانچہ میں نے گورکھپور یونیورسٹی میںانگریزی میں ایم اے کے لیے داخلہ لیا۔ ۱۹۶۰میں فریدی صاحب علی گڑھ میںبحیثیت لیکچرر شعبہ معاشیات آچکے تھے۔ میں چھٹیوں میں علی گڑھ جاتارہا اور فریدی صاحب کے دولت کدے پر قیام ہوتا رہا۔
ابن فریدصاحب بھی علی گڑھ میں تھے اور نجات صاحب و عرفان صاحب بھی وہیں تھے۔ یہ لوگ علم وفکر کا محور تھے اور مجھے نئے نئے موضوعات اور مسائل پر مطالعہ کرنے اور لکھنے کی تحریک ان کی وجہ سے ہوئی۔ اب ادارۂ ادب اسلامی کامرکز فیض آباد کا شہر ٹانڈا بن چکاتھا جہاں اس کے نئے صدر مختار احمد مظاہری تھے جنھوںنے ۱۹۶۷میں ماہنامہ دوام کے اجرا کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۶۳میں جب ریڈینس دہلی سے شائع ہوا تو مجھے مرحوم یوسف صدیقی نے طلب کیا۔ فریدی صاحب کی بھی رائے تھی کہ میں انگریزی صحافت کے شعبے میں داخل ہوں۔ میں ایک سال ریڈینس کی خدمت انجام دیتا رہا۔ اس وقت جماعت اسلامی ہند کا مرکز رام پور سے دہلی آچکاتھا۔ فریدی صاحب علی گڑھ سے برابر مختلف نشستوں میں شرکت کے لیے دہلی آتے رہے اور سوئی والان کے دفتر میں قیام ہوتا رہا۔ مگر ایک سال بعد میں نے محسوس کیاکہ صحافت میرا اصل میدان کار نہیں ہے اور میں فیض آباد ایک کالج میں لیکچرر ہوکر چلاگیا۔ دوام کے اجرا کے بعد مرحوم سے برابر مشورے حاصل ہوتے رہے۔
مسلم مجلس کے ساتھ میری سرگرمیوں پر فریدی صاحب خوش نہ تھے اور سیاست سے الگ رہنے کے جماعت کے فیصلے پر مطمئن تھے۔ پھر بھی بڑے اجتماعات میں مرحوم سے برابر ملاقات ہوتی رہتی۔ وہ مجھے بعض تحریروں پر ٹوکتے اور فہمائش بھی کرتے رہے۔ مگر ادارہ ادب اسلامی ہند کے تعلق سے ہم لوگ شانہ بشانہ چل رہے تھے۔ انہوں نے دوام بند ہونے اور مختار احمد خاں کی طویل علالت کے سبب ادارۂ ادب کے جمود کو ختم کرنے کے لیے ۱۹۷۷ میں علی گڑھ میں ایک نشست طلب کی اور ادارے کے تمام ذمہ داروں کو مدعو کیا۔ کافی گفت و شنید ہوئی۔ نسیم مرحوم اور مجھے اس کی تنظیم نو کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک ترجمان کے اجرا کا بھی فیصلہ ہوا جس کی فریدی صاحب نے مالی ذمہ داریاں سنبھالنے کاوعدہ کیا۔ فریدی صاحب کے تعاون سے نمائندہ نئی نسلیں کا اجرا ہوا۔
پھر موصوف ۱۹۷۸میں ملک سے باہر چلے گئے۔ ۱۹۸۸ میں واپسی پر انھوں نے باضابطہ تصنیف و تالیف کے مشغلے کو اختیار کیا، ریڈینس کے مدیر رہے۔ انگریزی زبان میں اقتصادیات پرکتابیں تحریرکیں جو مکتبہ جماعت اسلامی ہند سے شائع ہوتی رہیں۔ مسلمانوں کے اقتصادی مسائل پر خاص طور سے قلم اٹھاتے رہے۔ ماہنامہ زندگی نو کی ادارت کے دور میں انھوں نے مسلسل ملک کے سیاسی ومعاشی مسائل پر اظہار خیال کیا۔ بڑی بڑی ملکی و عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ اردو میں ایک درجن کے قریب کتابیں شائع ہوئیں جن میں چند نہایت معرکۃ الآرائ موضوعات پر ہیں مثلاً سرمایہ دارانہ نظام ایک چیلنج، دور حاضر کا کرب او اسلام کانظام حیات، عدل کی تلاش، اسلام عالمی امن کانقیب، صنفی تفریق اور اسلام وغیرہ۔ وہ مسلسل تحریک اسلامی کی ذہنی و فکری قیادت کے فرائض ادا کرتے رہے اس کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ جماعت اسلامی کا ہر فرد ان کے خیالات کے وزن کو محسوس کرتاتھا۔ انھوں نے علی گڑھ کے ادارۂ تحقیق و تصنیف کی اس کے سکریٹری کی حیثیت سے ایک مدت تک رہنمائی کی۔
ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی کا ملک کے ممتاز علمی و فکری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز سے بھی گہراتعلق رہا۔ ۱۹۸۷میں اس کے دہلی میں قیام کے بعد سے اس کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے رہے۔ ۱۹۸۹ سے ۱۹۹۹ تک اس کے جرنل آف آبجکٹیو اسٹڈیز کے مدیر رہے اور اس دوران ۴ کتابیں اس ادارہ کے لیے تحریر کیں۔
ڈاکٹر فریدی مرحوم کا ملک کے اسلامی ذہن و فکر کے نوجوانوں سے گہرا رابطہ تھا۔ جب ایس آئی او قائم ہوئی تو اس کو ملک میںمتوازن انداز سے اسلام کی اشاعت اور اپنی تربیت کے پروگرام بنانے میں رہنمائی کی۔ ان نوجوانوں کی مسلسل ذہنی و فکری رہنمائی کرتے رہے۔
ڈاکٹر فریدی صاحب کی شخصیت سوز وگداز کا مرقع تھی۔ مجھے وہ برابر خطوط لکھتے تھے اور میں ان سے رہنمائی طلب کرتا تھا اور راہ حق کے سفرمیں جو مسائل پیش آتے اس پر گفتگو کرتاتھا۔ جب میں یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ہوا تو ان کے اور پروفیسر عبدالحق کے مشورے سے دہلی آکر تحریکِ اسلامی کی کچھ خدمت انجام دینے کافیصلہ کیا اور ۴ سال تک جماعت کی تصنیفی اکیڈمی کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ ۲۱ اگست ۱۹۹۹ کو انھوں نے اپنے ایک خط میں علی گڑھ سے مجھے لکھا:
’میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیاہوسکتی ہے کہ بالآخرآپنے تحریکِ اسلامی کی براہِ راست خدمت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس عزم پر قایم رکھے۔ میں جب آپ جیسے حضرات کو قافلے سے دور دیکھتا ہوں تو بس آنسو بہاکرچپ ہوجاتا ہوں اور دلوں کے بدلنے والے پروردگار سے دعا کرتاہوں کہ آپ کو پھر اس قافلے سے جوڑدے جس کے ساتھ سفر نے آپ کی اور ہماری شخصیت کی آبیاری کی ہے۔ بحمدللہ ابن فرید تو جلد ہی لوٹ آئے مگر آپ کی راہ تکتے تکتے ایک زمانہ گزر گیا۔ تصنیفی اکیڈمی کا قیام انشائ اللہ دوچار مہینوںمیں ہوجائے گا۔ لیکن شخصی طورپر آپ کام فوراً شروع کرسکتے ہیں۔ تفصیلات مرتب کرنے کے لیے اور باہمی مشورے کے لیے ہروقت ملاقات کے لیے حاضرہوں جب چاہیں علی گڑھ تشریف لاسکتے ہیں یا پھر دہلی میں امیر جماعت اور غلام اکبر صاحب سے مل سکتے ہیں۔ ۱۱ستمبر کو میرٹھ جانا ہے اگر آپ کے لیے ممکن ہوتو میرٹھ آجائیں وہاں محترم حفیظ میرٹھی کی بھی زیارت ہوجائے گی اور تفصیلی بات چیت بھی یا پھر علی گڑھ تشریف لائیں‘‘ فضل الرحمن فریدی
پھر۲۹ستمبر۱۹۹۹کودوسرا خط ملا جو میرے خط کے جواب میں تھا جس میں میں نے تحریک کے اندر منصوبہ بندی کی کمی کا ذکر کیا تھا۔ لکھتے ہیں:
’آپ کے خط سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہاہے۔ بھئی اگر ہم لوگوں کے معاملات اتنے متعین اور خطوط کار اتنے واضح ہوتے جن کی آپ کو توقع تھی تو ہمارا حال وہ نہ ہوتا۔ یہ تو پوری ملت اسلامیہ کا حال ہے کہ عزائم اور دعوے تو بہت ہی اعلیٰ اور رفیع الشان ہوتے ہیں لیکن راستہ نہ معلوم ہوتا ہے اور نہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ کا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس خاکے میں رنگ بھریں۔ آپ اور ہم صرف مصنف یا کارکن نہیں ہیں جو پہلے سے طے شدہ اسکیموں پر عمل کرنے لگ جائیں۔ ہمیں توتحریک کی مدد دونوں صورتوںسے کرنا ہے۔ راستہ سجھانابھی ہے اور اس پر چلنا بھی ہے۔ میری نظر میں آپ کا مقام یہی ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس مشکل میں تحریک سے تعاون کریں۔
انشائ اللہ ہم لوگ تصنیفی اکیڈمی کاخاکہ تیارکرلیںگے۔ تھوڑا سا صبر سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلنے کے لیے صبر سب سے اہم زاد راہ ہے۔اس درمیان میرا مشورہ یہی ہے کہ چند اہم موضوعات منتخب کرکے اُن پر لکھنا شروع کردیں۔ میں امیر جماعت اور کوثریزدانی صاحب دونوں کو خط بھی لکھوںگا اور تفصیلی گفتگو بھی کروںگا اور ان کے نتائج سے آپ کو باخبر رکھوںگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کا عزم نہ صرف برقرار رکھے بلکہ اس کو مزید استحکام بخشے۔ آپ کا بھائی فضل الرحمن فریدی۔‘
پھر میرے ۴ سالہ کارکردگی کے دوران مرحوم سے باربار مرکز جماعت اسلامی ہند میں اور کبھی کبھی اکیڈمی کے کام سے علی گڑھ کے سفر کے دوران اور اکثر اکیڈمی کی نشستوں میں ملاقات ہوتی رَہی اوراستفادے کا موقع ملتارہا۔
فریدی صاحب کو انگریزی زبان میںاظہار خیال اورتحریر وتقریرپر پوری قوت حاصل تھی لیکن ان کی خوبیاں اور ان کی قرآن وسنت پر عمیق نظر ان کی اردو کی تحریروں میں جھلکتی۔ وہ خاصی رواںاور سلیس نثر لکھتے تھے اور بڑے سلیقے سے اظہار خیال کرتے تھے۔ انھوں نے عربی و فارسی کی باضابطہ تعلیم حاصل کی تھی اور دین کے مآخذ سے براہ راست استفادہ پر قدرت رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کے مقالات میں قرآن وحدیث کے جگہ جگہ حوالے موجود رہتے تھے۔ ضرورت ہے کہ ان کی اردو تحریروں کا ایک جامع انتخاب مرتب کرکے شائع کیاجائے اورزندگی نو کی جوتحریریں ابھی تک کتابی شکل میں نہیں آئی ہیں انھیں شائع کیاجائے۔
ہمارے حلقے میں فریدی صاحب کی ذہانت وطباعی اور نکتہ آفرینی کا ہر شخص قائل تھا۔ جسم تو ہلکا پھلکاتھا مگر تحریر بڑی بھاری بھرکم اور قدآور ہوتی تھی۔ بالخصوص معاشیات کے موضوع پر تو وہ اسلامی حلقوں میں چندمنتخب لوگوںمیں شمار کیے جاتے تھے۔
فریدی صاحب سے ایک تعلق ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مجیب الرحمن فریدی کی وجہ سے بھی تھاجو سلطان پور میں پریکٹس کرتے تھے اور ان کاایک نرسنگ ہوم بھی تھا۔ وہ نہایت بلند اخلاق اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے لبریز انسان تھے۔ مجھے بچپن سے جانتے تھے۔ وہ میرے گھریلو معالج تھے اوربڑے نازک مراحل میں میرے اورمتعلقین کے کام آتے تھے۔ فضل الرحمن فریدی مرحوم اکثر اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے سلطان پور تشریف لے جاتے اور مجھ سے اور حکیم خواجہ اقبال احمد سے باربارملاقات فرماتے اور متعدد تحریکی، دعوتی و علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔
فریدی صاحب کے علمی مرتبے کے علاوہ ان کی ذاتی خوبیاں بے شمار ہیں جن پر ان کا سوانح نگار قلم اٹھائے گا۔ افسوس ہے کہ ہرنازک وپیچیدہ مرحلے میں ہماری رہنمائی کرنے، ہمیں ٹوک دینے اور ہمیں راہ حق وصواب کی طرف موڑدینے والاانسان دنیا سے چلا گیا۔ خدا انھیں ان کی دینی خدمات کااجر عطا کرے اور جنت الفردوس میں مقام عنایت کرے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011