خوفِ آخرت

ایمانیات میں عقیدۂ آخرت ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ ایمان باللہ دین کی بنیاد ہے۔آخرت ایمان باللہ ہی کانتیجہ ہے۔ ایمان باللہ اصل ہے۔ آخرت اس کی فروع ہے۔ آخرت پر ایمان لائے بغیر ایمان باللہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایمان بالآخرت ہی وہ چیز ہے ، جس کے نتیجے میں انسانوں کی زندگیاں منوّر ہوسکتی ہیں۔

قیامت کے مناظر

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا منظر کھینچتے ہوئے فرمایا :

عَنْ عَائشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ یَبْعَثُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیْامَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلاً فَقَالَتْ عَائشَۃُ یَارَسُوْلِ اللّٰہِ فَکَیْفَ بِالْعَوْرَاْتِ؟ فَقَالَ: لِکُلِّ امْرِییٍٔ مِنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَانٌ یُغْنِیْہِ

’’حضرت عائشہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کے روز لوگوں کو ننگے پائوں ، برہنہ جسم ، بے ختنہ اٹھایاجائے گا۔حضرت عائشہؓنے عرض کیا: پھر قابلِ ستر اعضا کا کیا ہوگا؟ فرمایا: اس روز ہر شخص پر ایسا وقت آن پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کاہوش نہ ہوگا‘‘۔ ﴿نسائی﴾

قیامت ایک بہت خوف ناک دن کانام ہے۔ اس دن زمین پوری شدت کے ساتھ ہلاماری جائے گی۔ زمین میں جو کچھ مدفون ہے، زمین اس کو باہر نکال دے گی۔ زمین تمام انسانوں کو اپنے اندر سے باہر نکال دے گی۔ حاملہ عورتوںاور اونٹنیوں کے حمل ضائع ہوجاینگے۔ دودھ پلانے والی مائیں اپنے بچوں کو چھوڑکر بھاگ کھڑی ہوںگی۔ اس دن انسان ہر رشتے اور تعلق کو بھول جائے گا۔ یہ بڑے بڑے پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہوکر غبار اور رنگ برنگ کے دھنکے ہوے اون کے مانند اُڑینگے۔ انسان اس ہیبت ناک منظرکو دیکھ کر پکاراٹھے گاکہ آج یہ کیاہورہاہے۔ قرآن اس کی منظرکشی کرتے ہوئے کہتاہے :

 وَتَرَی النَّاسَ سُکٰریٰ وَمَا ہُم بِسُکٰریٰ وَلَکِنَّ عَذَابَ اللَّہِ شَدِیْدٌ  ﴿الحج: ۲﴾

’’اور لوگ تم کو مدہوش نظرائیںگے ، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوںگے بل کہ اللہ کاعذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا‘‘۔

فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا ؐ السَّمَاءُ مُنفَطِرٌ بِهِ ۚ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا ؐ ﴿مزمل: ۴۸﴾

’’اگرتم انکار کی روش اختیارکروگے تو اس دن کیسے بچ پائوگے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا، جس کی سختی سے آسمان پھٹاجارہاہوگا۔ اللہ کا وعدہ تو پورا ہی ہوکر رہے گا‘‘۔

یہ حدیث بخاری ، مسلم اور دیگر احادیث کی کتابوں میں بھی ہے۔ اس حدیث کے آخر میں یہ قرآنی آیت ہے :

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئ ُ مِنْ أَخِیْہِؐوَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ ؐوَصَاحِبَتِہٰ وَبَنِیْہِ ؐلِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُّغْنِیْہؐ ﴿عبس: ۳۴-۳۷﴾

’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا’’۔

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ وَصَاحِبَتِهِ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ  وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ  كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ (معارج ۱۰۔۱۵)

’’اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیںگے۔ مجرم چاہے گاکہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والاتھا اور روے زمین کے سبھی لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اُسے نجات دلادے ۔ ہرگزنہیں‘‘۔

شفاعت کی حقیقت

انبیائ و رسُل ، اولیائ، بزرگوں اور صلحاے امت کے متعلق یہ عام عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن وہ ضرور بخشواہی لیں گے۔ آخری نبی حضرت محمدکی امت میںہونا ہی اخروی نجات کے لیے کافی

ہے۔ چاہے اعمال واخلاق کیسے ہی ہوں۔ آخرت کی نجات کے لیے اتنے ہی کوکافی سمجھنا کہ مسلمان ہونے کااعلان کرنا یا زندگی کے بعض مواقع پر کچھ مراسم عبادات کو ادا کرلینا ہی کافی ہے۔ قرآن نے بہت تفصیل سے اس طرح کے عقائد، تصورات، خام خیالیوں، غلط فہمیوں اور خوش گمانیوں پر ضرب لگائی ہے۔ احادیث میں بھی بہت وضاحت کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی گئی ہے:

وَعَنْ عَائِشَۃؓاَنَّھَا ذَکَرَتِ النَّارَ فَبَکَتْ فَقَالَ رَسُوْل اللّٰہِ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم: مَایُبْکِیْکِ؟ قَالَتْ: ذَکَرْتُ النَّارَ فَبَکَیْتَ فَہَلْ تَذْکُرُوْنَ اَھْلَیْکُمْ یَوْمَ القِیْامَۃِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَمَافِی ثَلٰثَۃِ مَوَاطِنَ فَلَایَذْکُرُاَحَدٌ عِنْدَالْمِیْزَانِ حَتّٰی یَعْلَمَ اَیَخِفُّ مِیْزَانُہ’ اَمْ یَثْقُلُ؟ وَعِنْدَالْکِتَابِ حِیْنَ یُقَالُ ھَاؤُمُ اقْرَئُ وا کِتَابِیَہْ حَتّٰی یَعْلَمَ اَیْنَ یَقَعُ کِتَابُہ’ فِیْ یَمِیْنِہٰ أمْ فِی شِمَالِہٰ مِن وَرأئِ وَعِنْدَالصِّراطِ اِذَا وُضِعَ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَھَنَّمَ

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انھیں ایک دفعہ دوزخ کی آگ کاخیال آیا اور وہ روپڑیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیزنے رُلایا؟ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھے دوزخ کی یاد آئی اور اسی نے مجھے رُلایا۔پھر حضرت عائشہؓاللہ کے رسولسے پوچھتی ہیں کہ کیاقیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ سکیںگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین مقامات ایسے ہیں، جہاں کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ میزان پر جب تک یہ نہ معلوم ہوجائے کہ اس کا پلڑا بھاری ہے یا ہلکا ،اعمال نامہ ملنے کے وقت۔ جب کہ دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ پانے والا کہہ اٹھے گاکہ آئو میرا اعمال نامہ پڑھو۔ جب تک یہ نہ معلوم ہوجائے کہ اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں ملتاہے یا اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں آتا ہے اور صراط مستقیم پر جب کہ وہ جہنم کے اوپر رکھاجائے گا اور لوگوں کو اس پر سے گزرنے کا حکم دیاجائے گا۔                 ﴿ابوداؤد﴾

قَالَ رسول اللہ  یا مَعْشَرَقُرَیْشٍٍ اِشْتَرُوْا اَنْفُسِکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْأً وَ یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَااُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہ شَیْأً، یَا عَبَّاس ابْنَ عَبْدِالمُطَّلبِ لَااُغْنِی عَنْک مِنَ اللّٰہِ شیْأً وَ یَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اللّٰہ لَااُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہ شَیْأً…. وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ سَلِیْنیِ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَااُغْنِیْ عَنْکَ مِنْ اللّٰہِ شَیأً

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قریشی لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر کرو میں اللہ کی گرفت سے تم کو نہیں بچاسکتا، اے عبدمناف کے خاندان والو! میں تم سے اللہ کے عذاب کو نہیں ٹال سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب ﴿حقیقی چچا﴾ میں اللہ کے عذاب کوذرا بھی دور نہیں کرسکتا، اے صفیہ ﴿حقیقی پھوپھی﴾ میں تم سے اللہ کے عذاب کو تھوڑا سا بھی نہیں ہٹاسکتا، اے میری بیٹی فاطمہ! تو میرے مال سے جتنا چاہے لے لے میں دے سکتاہوں لیکن اللہ کے عذاب سے تم کو بالکل نہیں بچاسکتا۔ پس اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے بچانے کی فکر کرو کہ وہاں ایمان و عمل ہی کام آئے گا‘‘۔﴿بخاری، مسلم، ابوہریرہ﴾

زمین کی گواہی

حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت یومیئذٍ الخ پڑھی۔ ‘اُس دن زمین اپنے حالات بیان کرے گی’ پھر پوچھاکہ جانتے ہو کہ اس آیت کاکیا مطلب ہے؟ لوگوں نے کہا : اللہ و رسول ہی اس سے زیادہ واقف ہیں؟ آپنے بتایاکہ زمین قیامت کے دن گواہی دے گی کہ فلاں بندے اور فلاں بندی نے فلاں دن فلاں وقت میری پیٹھ پر بُرا یا اچھا کام و عمل انجام دیا۔

قرآن میں باری تعالیٰ کا یہ ارشاد مزید اس مفہوم کو واضح کردیتا ہے:

 أَفَلَا یَعْلَمُ ِذَا بُعْثِرَ مَا فِیْ الْقُبُورِ o وَحُصِّلَ مَا فِیْ الصُّدُورِo﴿عادیات:۹،۰۱﴾

‘‘تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ ﴿مدفون﴾ ہے اُسے نکال لیاجائے گا اور سینوں میں جو کچھ مخفی ہے، اُسے برآمد کرکے اس کی جانچ پڑتال ہوگی’’۔

ذرا انداز ہ لگائیے جب قیامت کے دن نہ صرف اعمال و افعال، حرکات و سکنات کی جانچ ہوگی، بل کہ کس ارادے، کس نیت، کن اغراض و مقاصد کے ساتھ کام انجام دیاگیا ہے، اس کی بھی جانچ ہوگی:

عَنْ اَنَسِ بْن مَالِکٍ قَالَ: کُنَّاعِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَضَعِکَ فَقَال: ھَلْ تَدرُونَ مِمَّااَضْحَلُ؟ قَالَ: قُلْنَا: اللّٰہ و رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ مِنْ مُخَاطَبَۃِ العَبْدِرَبَّہ’ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَلَمْ یُجِرْنِی مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: یَقُوْلُ بَلٰی، قَالَ: فَیَقُوْلُ: فَاِنِّیْ لَاَاَجِیْرُعَلٰی نَفْسِنیْ اِلَّا شَاہِداً مِنِّیْ، قَالَ: فَیُقُوْلُ:کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ شَہِیْداً وَبِالْکِرَامِ الکَاتِبِیْنَ شُھُوْداً، قَالَ’ فَیُخْتَمُ عَلٰی فِیْہِ فَیُقَالُ لِاَرْکَاِنہٰ اِنْطِقِیْ قَالَ: فَتَنْطِقُ بِاَعْمَالِہٰ قَالَ: ثُمَّ یُخَلَّی بَیْنَہ’ وَبَیْنَ الْکَلَامِ، قَالَ: فَیَقُوْلُ بُعْداً لَکُنَّ وَسُحْقاًفَعَنْکُنَّ کُنْتُ اُنَاضِلُ ﴿مسلم﴾

‘‘حضرت انسؓبن مالک سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھے، آپہنسے! پھر پوچھاکہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میںکس بناپر ہنساہوں؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: بندے کے اپنے پروردگار کے ساتھ مکالمے پر ہنساہوں۔ بندہ عرض کرتاہے : یارب! تو مجھے ظلم سے نہیں بچائے گا۔ اللہ فرماتاہے کیوں نہیں۔ بندہ پھرعرض کرتاہے میں اپنے خلاف اپنے سوا کسی دوسرے کو بطور گواہ جائز نہیں سمجھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج تیرے نفس اور معزز کاتبوں کی شہادت تیرے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس کے منہ پر مہر ثبت کردی جائے گی اور اس کے اعضا کو حکم دیاجائے گا کہ وہ بول کر گواہی دیں ۔ آپنے فرمایا: پس ہر عضو بول کر اس کے کرتوت بیان کرے گا، پھر اس بندے کو تنہا چھوڑدیاجائے گاکہ اپنے اعضا کی گفتگو سن لے بندہ اپنے اعضا سے مخاطب ہوکر انھیں لعن طعن کرے گا اور کہے گا دفع ہوجائو۔ میری آنکھوں سے پرے ہٹ جائو ،میں تمہاری طرف سے لڑتا رہا اور مدافعت کرتا رہا ﴿اور تم میرے خلاف گواہی دیتے ہو﴾

آخرت کی تیاری

ہماری منزل اللہ کی رضا ، اس کی خوشنودی۔ جنت کا حصول ہے، یہ بہت قیمتی گراں اور بہت مہنگی ہے۔ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے، اس کے لیے اتنی ہی قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے اتنی ہی منصوبہ بندی و ہوشیاری دِکھانی پڑتی ہے۔   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ایک تمثیل سے سمجھایا:

مَنْ خَافَ اَدْلَجَ وَمَنْ اَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ اَلاَ اِنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہِ غَالِیَۃٌ اَلاَاِنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہ الجَنَّۃُ

‘‘جو ڈرتاہے وہ رات کے ابتدائی حصے میں چل دیتاہے اور جو رات کے شروع میں چل پڑتا ہے، وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ جان لو اللہ کا سوداگراں ہے، جان لو اللہ کا سودا جنت ہے’’۔ ﴿ترمذی﴾

عرب ریگستانی خطہ ہے وہاں دن میں کافی سخت موسم ہوجاتا ہے اور ریت اڑتی ہے اور   کبھی کبھی تو اتنی اڑتی ہے کہ ریت کا ٹیلہ بن جاتا ہے۔ جو اس کی گرداب میں آجائے تو وہیں مدفون ہوجائے۔ اس وجہ سے عرب لوگ عام طورپر رات کے آخری حصے میں سفر کرتے، تاکہ دن میں موسم کے سخت ہونے سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جائیں، راہ زنوںاور ڈاکووں کے لیے بھی یہی اوقات ان کے کام کے لیے مناسب تھے۔ لہٰذا جو مسافر یا قافلہ راہ زنوں کے شر سے محفوظ رہنا چاہتاتھا، وہ رات کے ابتدائی حصے میں سفر شروع کردیتاتھا، تاکہ بعافیت اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ اسی طرح وہ مسافر یا قافلہ جس کو یہ اندیشہ لاحق ہو کہ صحیح وقت ٹھنڈے وقت میں آرام سے اپنی منزل پر نہ پہنچ پائے گا تو وہ رات کے آغاز میں ہی سفر شروع کردیتا ہے ۔ تاکہ آرام سے منزل پر پہنچ جائے۔وہ مسافر جن کو صحیح وقت پر منزل نہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے یا وہ مسافر جس کو راہ زن کے لوٹ لینے کااندیشہ ہوتاہے، دونوں ہی اپنی نیند کو قربان کرتے ہیں ، اپنے آرام کو تج دیتے ہیں تو ان کو اپنی منزل آسانی سے بخیر وعافیت مل جاتی ہے۔

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے

ایک مومن کا اصل گھر آخرت ہے، یہ دنیاا س گھر کی تیاری کی جگہ ہے۔ لہٰذا اس کو اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ ہمہ وقت ، ہر لحظہ، ہر آن اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اس عارضی گھر دنیا کو اپنا وطن نہ سمجھے، سفر کے دوران سونہ جائے، اس میں مگن نہ ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو منزل پر پہنچنا دشوار ہوجائے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک مومن کااللہ سے ایک معاہدہ ہواہے اور وہ جان ومال کے بدلے جنت کا معاہدہ ہے۔ جنت بہت قیمتی چیز ہے یہ تبھی ملے گی، جب زبان کے اعلان کے ساتھ عمل سے ثابت کیاجائے۔ اپنی جان ومال، اپنی تمام صلاحیتوں، قوتوں، لیاقتوںاور ہنرمندیوں کے ساتھ اس کے حصول کے لیے لگاجائے۔ ہرطرف سے کٹ کر اللہ کی رضا کے لیے یکسو ہواجائے:

إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ ﴿توبہ: ۱۱۱﴾

’’بے شک اللہ نے مومنوں کی جان اور ان کے مال کو جنت کے بدلے میں خریدلیا ہے‘‘۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2010

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223