کسی بھی فقہ کے مسلک بننے کے لیے کچھ لازمی عناصر درکارہوتے ہیں، مثلا ساخت کے اعتبار سے ایک امام اور ان کے تلامذہ اور علمی طور پر مسلک کی بنا بننے والے کچھ مبادی اور منہج جیسے: امام کی جانب منسوب روایات اور اصولوں کی ان کی جانب نسبت کا مستند وقابل اطمینان ہونا، امام کے فقہی قواعد کا استخراج اور ان کی ترتیب، ایسی کتابیں جن میں ان قواعد کو جمع کرکے ان پر فروع کی بنیاد رکھی جائے، تخریجِ مسائل اور تدریس کے لیے مناسب طریقہ ہائے کار کی تشکیل، ترجیح کے اصولوں اور مسلک کے مطابق فتاوی دینے کے طریقوں کی تعیین، ان سب امور سے ایک مسلک کی اپنی مستقل ساخت اور اس کی وہ اصولی صورت تشکیل پاتی ہے جس کی روشنی میں مختلف علاقوں میں اس کے مختلف مکاتب وجود میں آتے ہیں۔
امام زرکشیؒ (وفات۷۹۴ھ) نے ان مسالک کے جن کی منہجی خدمت نہیں ہوسکی ہے مقبول نہ ہونے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ان ائمہ کی ہی تقلید ممکن ہوتی ہے جن کے مسالک مدون اور اس قدر عام ہوتے ہیں کہ ان کے مطلق کی قید اور عام کی تخصیص معروف ہو، اس کے برخلاف جن ائمہ کے فتاوی مدون نہیں ہوتے، بلکہ یوں ہی منقول ہوتے ہیں تو ان کی تقلید ممکن نہیں ہوتی، اس لیے کہ ان فتاوی کی بابت یہ شک رہتا ہے کہ کہیں کوئی دوسرا فتوی ایسا نہ ہو جو اس فتوے کے لیے تکملہ، قید یا تخصیص کی حیثیت رکھتا ہو…، یعنی ایسے حضرات کی تقلید سے اصل مانع یہ ہے کہ ان کے مسلک کی حقیقت کا علم ناممکن ہوتا ہے۔‘‘
’المستدرک علی مجموع فتاوی ابن تیمیۃ‘ میں امام ابو عمرو ابن صلاح شافعی (وفات۶۴۳ھ) کی یہ رائے درج کی گئی ہے کہ: صحابہ اگرچہ دوسروں سے زیادہ علم رکھتے تھے لیکن مقلد کے لیے کسی صحابی کے مسلک کی تقلید جائز نہیں ہے، اس لیے کہ انھوں نے اپنا علم مدون اور اصول وفروع مرتب ومنضبط نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی کا مسلک وجود میں نہیں آسکا، یہ کام بعد کے علما نے کیا ہے۔‘‘
ان لازمی عناصر میں سے کسی عنصر کے نہ پائے جانے کی وجہ سے بعض فقہی مسالک ترقی نہیں کرسکے اور جاری نہیں رہ سکے، مثلا کبھی مسلک کی علمی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی، یا کوئی مسلک کوئی ایسی شاذ راہ اختیار کرلیتا ہے جو دیگر تمام مسالک کے خلاف ہوتی ہے، اس کی مثال قیاس فقہی کی بابت ظاہریہ کا رویہ ہے، انھوں نے قیاس کی نفی کی، حالاں کہ قیاس فقہ کے لیے ایک لازمی اصول ہے، اس موقف کی وجہ سے ظاہریہ پر ہر چہار جانب سے شدید تنقید ہوئی، فقہ میں قیاس ایسی لازمی ضرورت ہے کہ خود داود ظاہری کو اسے اختیار کرنا پڑا گو کہ انھوں نے اسے استدلال کا ایک طریقہ مانا تشریعی مصدر نہیں، خطیب بغدادی کے الفاظ میں: ’’انھوں نے احکام شریعت میں قیاس کے دخل کی قولا نفی کی لیکن عملی طور پر وہ اسے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور اسے ایک دلیل کہا۔‘‘
زہد اور عزلت پسندی
اس موقع پر ہم نفسیاتی کیفیات اور مسلک کی تدوین نیز اگلی نسلوں تک مسلک کے پہنچنے پر ان کے اثر انداز ہونے سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے ہیں، بعض ائمہ نے اپنی تصنیفات اور اپنے علم کو وہ حیثیت نہ دی جس کے وہ مستحق تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ورثہ ضائع ہوگیا، مثلا امام اوزاعیؒ کی تصنیفات نذر آتش ہوگئیں تو انھوں نے اس کے بعد اپنی تصنیفات پر توجہ ہی نہیں دی، ابن عساکرؒ نے بیان کیا ہے کہ: ’’زلزلہ میں امام اوزاعیؒ کی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں، یہ تیرہ بڑے رجسٹروں میں تحریر تھیں، ایک شخص ان کی تصنیفات کے نسخے لے کر حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ یہ آپ کی تصنیفات کی نقل ہے، ان کی اصلاح اپنے ہاتھ سے فرمادیجیے، لیکن امام اوزاعیؒ نے اپنی زندگی میں اپنی تصنیفات کے ان نسخوں پر توجہ ہی نہیں دی۔‘‘ جس زلزلہ کا یہاں پر ذکر ہے وہ ۱۳۰ھ میں شام کے ساحلی علاقوں میں آیا تھا۔
جب ائمہ پر ایسی کیفیات کا غلبہ ہو تو ان کے تلامذہ بدرجۂ اولیٰ اس سے دوچار ہوں گے، اور ان کی ایک تعداد بھی عزلت پسندی اور اپنی ذات تک محدود رہنے کا رویہ اختیار کرے گی، امام ابن عقیل حنبلیؒ (وفات۵۱۳ھ) نے حنابلہ کے معدوم ہونے کی یہی وجہ بتائی ہے، ’مناقب احمد بن حنبل‘ میں امام ابن جوزیؒ نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’اس مسلک پر ظلم اس کے حاملین نے کیا ہے، یہ نیک لوگ تھے، ان میں سے جس کو بھی کچھ علم حاصل ہوتا وہ عزلت پسندی اور عبادات کی جانب مائل ہوجاتا، اور تعلیم وتعلم سے اپنا رشتہ توڑ لیتا۔‘‘
امام اوزاعیؒ کے مسلک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، آپ کے صاحبزادے محمد زاہد وعابد تھے، ابن عساکر کے بقول انھوں نے اپنے والد کے صرف وہی اقوال نقل کیے جن کا تعلق اخلاقی تعلیمات سے تھا، یہی صورت امام ثوری کے مسلک کے ساتھ بھی پیش آئی، وہ جماعتِ زاہدین کے شیخ ومرشد تھے، ان کے شاگرد بشر الحافی پر بھی ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں نے یہ کہہ کر روایتِ حدیث ترک کردی کہ: ’’علم حدیث آج طلبِ دنیا اور حصول لذت کا ایک وسیلہ ہے…، میری بہت سی کتابیں ہیں… اور میں بحالتِ صحت وزندگی ان کو دفن کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘ یہی صورت حال امام ابوثورؒ کے مسلک کے ساتھ پیش آئی، حضرت جنید بغدادیؒ (جو اس پائے کے فقیہ تھے کہ اپنے استاذ امام ابو ثورؒ کی مجلس میں ان کے سامنے فتوے دیا کرتے تھے) نے تصوف اختیار کرلیا، اور اپنے استاذ کے مسلک کی اشاعت پر توجہ نہیں دی۔
مسالک کے ضیاع میں یکسو تلامذہ کی کم تعداد، بعد والوں کی دون ہمتی اور عدمِ تدوین نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، اس کی مثال میں حنبلی مسلک کو پیش کیا جاسکتا ہے، اگر امام احمد کے شاگردوں کے شاگرد ابو بکر خلال ؒ (وفات۳۱۱ھ) نے چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں امام احمدؒ کے اقوال وعلوم کی تدوین کا بیڑا نہ اٹھایا ہوتا تو یہ مسلک بھی ناپید ہوگیا ہوتا۔
خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ: ’’خلال ؒ نے امام احمدؒ کے علوم کو جمع کرنے پر توجہ دی، اور اس کے لیے مختلف خطوں کے اسفار کیے، اور ان کو مدون کیا، امام احمد کے مسلک میں ان سے بڑھ کر کسی نے تدوین کا کام نہیں کیا‘‘، ذہبیؒ نے بھی ’سیر أعلام النبلاء‘ میں لکھا ہے کہ: ’’خلال سے پہلے امام احمد بن حنبل کا کوئی مستقل مسلک نہیں تھا، انھوں نے ہی امام احمد کے اقوال کو تیسری صدی ہجری کے بعد جمع، مدون اور مدلل کیا۔‘‘
شاگردوں وعلمائے مسلک کی سستی وکوتاہی
امام اوزاعیؒ کے مسلک کے ساتھ ایک مسئلہ یہ درپیش آیا کہ ان کے تلامذہ کی تعداد بہت محدود تھی، اور انھوں نے مسلک کی حفاظت وترویج کے سلسلے میں عالی ہمتی کا ثبوت بھی نہیں دیا، ابن عساکر کے مطابق امام موصوف کے فتاوی کا گہرا علم رکھنے والے شاگرد کُل دس تھے، اور اِن حضرات نے اُن کے دس فیصد سے بھی کم فتاویٰ مدون کیے، ان کے شاگردوں نے ان کے فتاوی کی تدوین اور ان کے مذاکرہ پر توجہ نہیں دی، تفریع واستنباط کا تو ذکر کیا! اسی لیے ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ امام اوزاعی کے معاصر شامی فقیہ امام سعید بن عبد العزیز تنوخی (وفات۱۶۷ھ) امام اوزاعیؒ کے شاگردوں کو اس سلسلے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہتے: ’’آخر تم لوگ امام اوزاعیؒ کے فتاوی جمع کیوں نہیں کرتے، ان کا باہم مذاکرہ کیوں نہیں کرتے۔‘‘
پھر جب امام اوزاعیؒ کا یہ مسلک اندلس پنہچا تو وہاں بھی اسے اپنے لیے یکسو علما دست یاب نہیں ہوسکے، یعنی ایسے علما میسر نہیں آئے جو اس پر ویسی توجہ دیں جیسی توجہ ایک مسلک کو اپنی بقا اور فروغ کے لیے مطلوب ہوتی ہے، مثلا قاضی مصعب بن عمران کے سلسلے میں ابن الفرضی نے ’تاریخ علما الاندلس‘ میں لکھا ہے کہ: وہ ’’امام اوزاعیؒ اور دیگر شامی علما نیز اہل مدینہ کی آرا نقل کرتے تھے، کسی ایک مسلک کی تقلید نہیں کرتے تھے، اور اپنی صوابدید سے فیصلے کرتے تھے‘‘، یہی صورت حال امام لیث بن سعد کے مسلک کے ساتھ پیش آئی، جسے امام شافعیؒ نے (ذہبیؒ کے نقل کردہ) اپنے الفاظ میں یوں تعبیر کیا ہے: ’’لیث بن سعدؒ مالک بن انسؒ سے زیادہ فقیہ تھے، لیکن ان کے شاگردوں نے انھیں ضائع کردیا۔‘‘
بعض مسالک کے ناپید ہونے کا سبب یہ بھی ہوا کہ ان کے متبعین کسی ایک جگہ خاصی تعداد میں جمع نہیں ہوسکے، بلکہ مختلف علاقوں اور شہروں میں پھیل گئے یا بٹ گئے، جس کے نتیجہ میں کوئی ایسا مرکز وجود میں نہیں آسکا جہاں ان کے مسلک کی اچھی علمی خدمت ہوتی، ان کی تدوین ہوتی، مسلک فروغ پاتا، اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جاتا، اور اس طرح وہ مرکز اپنے مسلک کا ایسا قلعہ بنتا جو اس کی حفاظت وترقی کا ضامن ہوتا، اس کی ایک مثال امام ثوریؒ کا مسلک ہے، جن کے شاگرد کوفہ، بغداد، موصل، دینور، ری (آج کا تہران)، خراسان اور مصر میں پھیل گئے تھے۔
اسی طرح کچھ مسالک کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ ان کے اساس کار اماموں کے ممتاز تلامذہ اس دنیا سے بغیر اپنے جانشینوں کو تیار کیے جلد ہی رخصت ہوگئے، مثلا شام میں امام اوزاعی کے جو تلامذہ ان کی فقہ کا گہرا علم رکھتے تھے وہ جلد ہی وفات پاگئے، اور اندلس میں عبد الملک بن حسن زونان (وفات۲۳۲ھ) نے اوزاعی مسلک ترک کرکے مالکی مسلک اختیار کرلیا۔ امام ثوریؒ کے مسلک کے ناپید ہونے کا بھی غالبا یہی سبب تھا، ان کے تمام سرگرم تلامذہ ان کی وفات کے بعد صرف تیس برس کی مدت میں انتقال کرگئے، سب سے پہلے امام ثوری کے ممتاز ترین شاگرد معافی موصلی نے وفات پائی، پھر بشر الحافی نے تدریس کا سلسلہ ختم کرکے اعمالِ تصوف پر اپنی توجہ مرکوز کردی، یہی صورت حال ظاہریہ کے ساتھ بھی پیش آئی، ابن خلدون نے اپنے زمانہ میں ظاہری مسلک کے حال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پھراہل ظاہر کا مسلک اپنے ائمہ کی وفات کی وجہ سے ناپید ہوگیا۔‘‘
ان معدوم ہوچکے مسالک کے علما کی عدم موجودگی میں ان کی کتابوں سے استفادہ کرکے اگر کوئی ان کے احیا کی کوشش کرتا، تو وہ ایک طرح کی بدعت کا مرتکب خیال کیا جاتا، ابن خلدونؒ لکھتے ہیں: ’’معلمین کے بغیر براہ راست کتابوں سے استفادہ کرنے کی اس روش کی وجہ سے بعض لوگ ’بدعت‘ کے مرتکب خیال کیے جاتے، ایسا ابن حزمؒ نے کیا تھا، وہ ظاہری ہوگئے، ظاہری علما کے اقوال کا علم انھوں نے نہایت محنت سے حاصل کیا، پھر ظاہریہ کے امام، امام داود سے اختلاف کیا، اور دیگر ائمہ پر سخت ترین تبصرے کیے، نتیجہ یہ ہوا کہ اہل زمانہ ان کے خلاف ہوگئے، ان کا مسلک نہایت نامقبول ٹھہرا اور ان کی کتابوں پر بھی توجہ نہیں دی گئی، بلکہ بازاروں میں ان کی فروخت ممنوع قرار پائی، کبھی کبھی ان کی کتابیں پھاڑے جانے کے واقعات بھی پیش آئے۔‘‘
حکومتوں کی جانب سے داروگیر
تلامذہ کے اندر علمی پختگی، جمع وتدوین کی صلاحیت، اپنے استاذ کی قدر وقیمت کے احساس اور ان کے علم کی نشرواشاعت کی اہمیت کا خیال تبھی پیدا ہوتا ہے جب سازگارعلمی فضا قائم ہو، امام لیثؒ کے شاگردوں نے اپنے استاذ کے علم پر جو کما حقہ توجہ نہیں دی اس کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں مصر میں علم اس صورت میں موجود نہیں تھا جو اس کی تحصیل کے لیے لازمی ہے، اور ان کو تدوین کا وہ سلیقہ بھی نہیں تھا جس کے ذریعے وہ امام کے اقوال وروایات کو ضائع ہونے سے بچاسکتے۔
امام لیثؒ کثیر التصانیف تھے، اسی لیے ذہبیؒ نے ان کو ’ کثیر التصانیف امام‘ کہا ہے، لیکن پہلی صدی ہجری کے آخر تک اہل مصر کا رجحان صرف فتن وملاحم اور فضائل اعمال کی روایات کی جانب تھا،ابن یونس نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ: ’’ یزید بن ابی حبیب نوبیؒ (وفات۱۲۸ھ) وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے مصر میں علم وفقہ کو فروغ دیا، ان سے پہلے اہل مصر صرف فتن، ملاحم اور ترغیب کے موضوعات پر ہی توجہ دیتے‘‘، یہ یزید بن ابی حبیبؒ امام لیثؒ کے استاذ تھے۔
بسا اوقات فقہی ماحول کے اختلافات بھی ایسی شدت اختیار کرلیتے کہ اس کی تاب نہ لاکر کوئی مسلک ناپید ہوجاتا، مثلا حنابلہ(جن کے ساتھ ظاہریہ تھے) اور امام طبریؒ کے درمیان اختلاف ایسا رخ اختیار کرگیا کہ امام طبریؒ کا مسلک اس کی وجہ سے ختم ہوگیا، گوکہ وہ اس قضیہ میں (بقول عظیم محدث ابن خزیمہؒ) مظلوم تھے، ذہبیؒ نے اس سلسلہ کی تفصیل یوں بیان کی ہے: ’’ابن جریر طبریؒ اور ابوبکر بن داود کے درمیان اختلاف ہوگیا، اور دونوں طرف سے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا، حنابلہ ابوبکر بن داود کے ساتھ تھے، اس طرح ان کی تعداد زیادہ ہوگئی، انھوں نے طبریؒ کے ساتھ ناروا سلوک کیا، طبریؒ کے ساتھ ایسے حالات پیش آئے کہ وہ اپنے گھر میں محصور ہوگئے۔‘‘
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی فقیہ دیگر فقہا یا جمہور پر تیز وتند تنقید کرتا جس سے اس کے تعلقات دیگر فقہا سے خراب ہوجاتے، اس کے نتیجے میں اس کی ایسی مخالفت ہوتی کہ اس کا مسلک جم نہیں پاتا اور وہ معاشرے میں مقبولیت اور فروغ سے محروم ہوجاتا، اس کی سب سے واضح مثال امام ابن حزمؒ کی ذات ہے، ابن بسام شنترینیؒ (وفات۵۴۲ھ) نے’الذخیرۃ‘ میں اپنے مخالفین کے ساتھ ان کا طرز عمل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وہ نرم الفاظ واسلوب کے بجائے نہایت دھاردار الفاظ واسلوب میں گفتگو کرتے، جس کی وجہ سے لوگ ان سے متنفر ہوجاتے…، یہی روش انھوں نے اپنے معاصر فقہا کی بابت اختیار کی جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں ان سے دوری پیدا ہوگئی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب ان کے مخالف ہوگئے، ان کو بیک زبان گم راہ قراردینے لگے، حکومتی حلقہ کو ان کے’ فتنہ‘ سے متنبہ کرنے لگے، اپنے عوام کو ان سے باز رہنے کی تلقین کرتے، نتیجہ یہ ہوا کہ حکومتیں ان کو اپنے علاقوں سے جلا وطن کرنے لگیں۔‘‘
بعض مسالک کو حکومتوں کی جانب سے داروگیر کا بھی سامنا کرنا پڑا، مثلا عباسی خلفا نے امام سفیان ثوریؒ کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا کہ ان کے لیے درس حدیث بھی ممکن نہیں رہا، خطیب بغدادیؒ نے اس سلسلہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جب (عباسی خلیفہ) ابو جعفر منصور نے (۱۵۸ھ میں حج کرنے کے لیے)مکہ کا سفر کیا تو اس نے یہ منادی کرادی کہ اگر سفیان ثوری کو پاؤ تو ان کو سولی دے دو، امام ثوریؒ کے لیے سولی نصب کردی گئی، اور ان کے نام کی پکار بھی لگ گئی‘‘، لیکن منصور کی مکہ میں اچانک وفات ہوگئی اور اس طرح امام سفیان ثوریؒ نجات پاگئے۔
امام اوزاعیؒ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، عباسیوں نے دمشق پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسے خیر باد کہہ دیا، پھر جب ان کی ملاقات عباسی گورنر عبد اللہ بن علی عباسی سے ہوئی تو بنو امیہ کو بلا سبب قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے جیسی اس کی حرکتوں پر امام اوزاعیؒ نے نہایت جرأت کے ساتھ اس پر تنقید کی، پھر مجبورا انھیں اپنی بقیہ زندگی بیروت میں سرحد پر ایک مرابط (سرحدی پہرہ دار) کے طور پر گزارنی پڑی۔
جب کہ اندلس میں امام اوزاعیؒ کے مسلک کے خاتمہ کا سبب یہ ہوا کہ وہاں کے اموی حکمراں معروف مالکی فقیہ یحیی بن یحیی لیثی مالکی (وفات۲۳۴ھ) کے نہایت قدرداں تھے، اور اس لیے قاضیوں کا تقرر ان کے مشورے سے ہی کرتے، اس لیے لوگوں کا رجحان بالعموم مالکی مسلک کی جانب ہونے لگا، کچھ عرصہ بعد تو یہ صورت حال پیش آئی کہ امیر حکم مستنصر (وفات۳۶۶ھ) نے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ’’مالکی مسلک سے روگردانی کرنے والے شخص کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور اسے اپنے برے اعمال اچھے لگنے لگتے ہیں۔‘‘ (یہ وہ اوصاف ہیں جو قرآن مجید نے بدترین کفار کے بتائے ہیں)۔
حکومتی حلقوں میں مسالک کے نفوذ کا کتنا اثر پڑا اس کا اندازہ ہم اس سے کرسکتے ہیں کہ ابن الجوزیؒ نے ’مناقب أحمد بن حنبل‘ میں ابن عقیل حنبلی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’اس حنبلی مسلک پر اس کے حاملین نے ظلم کیا ہے، اس لیے کہ حنفی وشافعی علما قضا یا دوسری حکومتی ذمہ داریاں قبول کرلیتے، جس کی وجہ سے ان مسلکوں کی تعلیم وتعلم کی جانب لوگوں میں رجحان پیدا ہوتا، لیکن حنبلی مسلک کے علما میں جن کو بھی کچھ علم حاصل ہوتا ان کا رجحان زہد وعبادت کی جانب ہوجاتا۔‘‘
حالات وکیفیاتِ زمانہ کا اثر
سیاسی تبدیلیوں کا ایک بڑا اثر شہروں کی کیفیت پر بھی پڑتا تھا، کسی خطہ میں کسی حکومت کا دارالسلطنت پائے جانے سے وہ خطہ اور شہر ترقی کرجاتا تھا، اور اس کے اثرات میں اضافہ ہوتا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں اس علاقہ کا رائج مسلک ترقی پاتا تھا، مثلا دولت عباسی کا قیام ہوا تو عراق میں حنفیت اور حجاز میں مالکیت کا بول بالا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں مسالک اس تبدیلی کے نتیجے میں بہت طاقتور ہوگئے۔
اس کے بالمقابل امام اوزاعی کا مسلک درحقیقت اہل شام کا مسلک تھا، اور جس وقت وہ وجود میں آیا اسی عہد میں خلافت بنو امیہ کا زوال ہوگیا، جس کا دارالسلطنت دمشق تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ عمرانی وعلمی سرگرمیاں وہاں ماند پڑگئیں اور ان کا مرکز اب عراق قرار پایا۔
ابن خلدون نے حنفی مسلک کی طاقت کا ایک راز یہ بھی بتایا ہے کہ ’’یہ مسلک عراق وبغداد کا تھا، اور امام ابو حنیفہ کے تلامذہ کا خلفائے بنی عباس سے قریبی رابطہ تھا‘‘، ابن خلدون ہی عراق میں مالکی مسلک کے کم زور پڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’(عراق کے مالکی امام) ابو بکر ابہریؒ (وفات۳۷۵ھ) اور ان کے ممتاز تلامذہ کی وفات ہوجانے کے بعد، نیز عہدۂ قضا پر حنفی وشافعی فقہا کی تقرری سے عراق میں مالکی مسلک کم زور ہوگیا، اور اس کا تعلیمی سلسلہ ماند پڑگیا اس لیے کہ عام طور پر لوگ حکم رانوں اور سربرآوردہ طبقات کا اتباع کرتے ہیں۔‘‘
ابن حزمؒ نے مالکی وحنفی مسالک کی اپنے اپنے علاقوں میں پھیلنے کی وجہ بھی یہی بتائی ہے، ان کے شاگرد حمیدی ؒ نے ’جذوۃ المقتبس‘ میں ان کا یہ ملفوظ نقل کیا ہے کہ: ’’یہ دونوں مسالک ابتدا میں حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھے،…اس لیے کہ لوگ دنیوی جاہ ومنزل کی طرف رغبت رکھتے ہیں، اور اسی جانب آگے بڑھتے ہیں جہاں سے ان کے مصالح کی تکمیل ہوتی ہے۔‘‘ حمیدی نے اسی طرح لکھا ہے کہ قیروان ومغرب میں حنفی مسلک موجود تھا، لیکن جب امام سحنون مالکیؒ نے قضا کا عہدہ قبول کرلیا تو قیروان ومغرب میں حنفی مسلک کم زور ہونے لگا۔
امام اوزاعی اور دیگر ائمہ کے مسالک کو اندلس میں یہی صورت حال پیش آئی، وہاں ان کا مقابلہ مالکی مسلک سے ہوا، لیکن غیر مالکی مسالک پنپ نہیں سکے، قاضی عیاض مالکیؒ اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں: ’’لوگوں نے اندلس میں مالکی مسلک قبول کیا، اور طاقت کے زور پر دوسرے مسالک کے بالمقابل اس کی حفاظت کی، باہر سے آنے والے بعض حضرات نے شافعی، حنفی، حنبلی اور ظاہری مسلک وہاں داخل کرنا چاہا، لیکن وہ اس میں کام یاب نہیں ہوسکے، اور یہ مسالک اپنے لانے والوں کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔‘‘
ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ جغرافیائی حالات اور طلبأ علم کے اسفار کا بھی مسالک کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں دخل ہوتا تھا، مثلا مغرب واندلس میں امام مالک کا مسلک اس لیے فروغ پایا کہ اندلسی طلبا مدینہ آتے، جہاں مالکی مسلک تھا، اوراس سفر میں انھیں شام جانے کی ضرورت پیش نہ آتی جہاں امام اوزاعی کا مسلک رائج وغالب تھا، اسی طرح یکساں سماجی حالات بھی مسالک کے فروغ میں کردار ادا کرتے، مثلا حجاز کی طرح اندلس ومغرب کے ماحول پر بھی بداوت غالب تھی، اس لیے وہاں اہل حجاز کا مالکی مسلک فروغ پایا اور اس نے امام اوزاعی کے مسلک کو ختم کردیا، حالاں کہ امام اوزاعی کا مسلک وہاں پہلے پہنچ گیا تھا۔
(بشکریہ الجزیرہ)
مشمولہ: شمارہ اگست 2021