تحریکی فکر کی اساسیات کیا ہیں اس کو سمجھنے کے لیے پہلے تحریک کو ٹھیک سے سمجھ لینا چاہیے تاکہ اس کی فکری اساسیات کو سمجھنا آسان ہوجائے۔آپ جانتے ہیں کہ :
’’تحریک اس اجتماعی جد و جہد کوکہتے ہیں جو کسی سماج میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لیے کی جاتی ہے۔‘‘
اس جملے کے دو حصےہیں : 1۔ اجتماعی جد و جہداور 2۔ سماج میں مطلوبہ تبدیلی۔ پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مطلوبہ تبدیلی سے مراد کیا ہے؟ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سماج میں کچھ چیزیں نا مطلوب ہیں جن کو بدلنا ہے۔ پھر دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ سماج میں مطلوبہ اور نا مطلوبہ چیزوں کو طے کرنے کی بنیاد کیا ہے؟ اس کے لیے تو فرد، سماج، خیر و شر کا معیار سب کی سمجھ ضروری ہے گویا مکمل ورلڈ ویو اس میں سما جاتا ہے۔ اس لیے، مطلوبہ تبدیلی کے لیے ایک نظریہ(ideology) ضروری ہے جس سے زندگی اور سماج میں مطلوب و نا مطلوب، صحیح و غلط کا تصور قائم ہو۔ پھر تبدیلی کے لیے نصب العین یعنی اجتماعی ہدف اور اس کاطریقہ کار دونوں کا واضح شعور بھی لازمی ہے تاکہ تبدیلی لانے کی جد و جہد الل ٹپ اوربے سمتی کا شکارنہ ہوجائے۔چوتھا نکتہ اجتماعی جد و جہد میں اجتماعیت کےبنیادی اصول اور اس کی خاص ترکیب بھی اساسی اہمیت رکھتی ہے۔
ان تمام نکات کو ملا کر آپ دیکھیں گے تو تحریک کی اساسیات میں چار بنیادی نکات بہت صاف نظر آئیں گے: 1۔ تحریک کا نظریہ 2۔ اس کا نصب العین3۔ اس کا طریقہ کار4۔ اجتماعیت کی بنیادیں یعنی ترکیب خاص جس سے اس کے امتیازی اوصاف کی شناخت ہوتی ہے۔پھر اجتماعیت میں کچھ افراد ذمہ اریوں کے منصب پر ہوتے ہیں اور بقیہ ان کے دست و بازو یعنی عام ارکان ہوتے ہیں۔ صاحب منصب کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا جائے گا اور کون سی صفات ان میں اصل مطلوب ہیں؟ یہ باتیں بھی کسی تحریک کی اساسیات کا حصہ ہوتی ہیں۔
اب ذرا تحریک اسلامی اور دیگر تحریکوں کے فرق کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ کیوں کہ تحریک اسلامی بھی دنیا کی عام تحریکوں کی طرح بظاہر ایک تحریک ہے جو سماج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود اسلامی تحریک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے اور اسے معاصر تحریکوں میں کسی پر قیاس کرنا ہمالیائی غلطی ہوگی۔ کیوں کہ دنیا کی دوسری تحریکوں کے اہداف زمینی ہوتے ہیں اور ان کا محرک بھی زمینی ہی ہوتا ہے۔ جس قوم، ملک یا سماج میں یہ تحریکات چلتی ہیں اس کی دنیوی کام یابی ہی ان کا محرک اور غایت بھی ہوتی ہے اور اسی روشنی میں ان کا نصب العین بھی طے ہوتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی میں ساری سرگرمیوں کا محرک رضائے الہی اور فلاح آخرت ہے۔ کیوں کہ اس کا ورلڈ ویو بالکل دوسرا ہے اور اسلام میں کام یابی کا تصور اصلاً آخرت کی کام یابی ہے جب کہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ چناں چہ تحریک اسلامی کا داخلی ماحول ترجیح آخرت کے جذبے سے معمور رہتا ہے۔ اگر دنیوی کام یابی کو اخروی کام یابی پر یہاں ترجیحی حیثیت حاصل ہوجائے تو تحریک اسلامی اپنے کردار میں اسلامی نہیں رہے گی۔ توحید کے ساتھ قرآن میں آخرت کا ذکر پوری طرح اسی لیے چھایا ہوا ہے کہ آخرت ہی نگاہوں کے سامنے رہے اور اس لیے بھی کہ توحید کے تقاضے پر عمل آوری کے لیے اصل قوت و حرارت تصور آخرت سے ہی ملتی ہے اور ملنی چاہیے۔اس نکتے کی وضاحت کے بعد اسلامی تحریک کی تعریف اس طرح کی جائے گی کہ’’اگر کسی اجتماعی جدوجہد کی : (1)اصل غایت یا محرک صرف رضائے الہی اور فلاح آخرت ہو (2) اس کے نظریے کی بنیاد (3)اس کا نصب العین (4)طریقہ کار اور (5) نظام جماعت کی ترکیب بلا کسی کمی بیشی کے وہی ہو جو اسلام کاہے تو یہ اجتماعی جدوجہد اسلامی تحریک کہلائے گی‘‘۔
مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب مرحوم اپنی ’تحریک اسلامی ہند‘ میں حقیقی غایت یعنی محرک اور نصب العین کے فرق کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں (اقتباس ملاحظہ ہو):
’’تحریکوں کا ایک نصب العین ہوا کرتا ہے اور ان کی ایک حقیقی غایت ہوتی ہے، جو اس نصب العین کے پس پشت موجود ہوا کرتی ہے۔ حقیقی غایت سے مراد وہ اصل مقصود ہے جس کی خاطر یہ نصب العین اختیار جاتا ہے۔ نصب العین کو قالب اور غایت مقصود کو اس کی روح سمجھیے۔ مثال کے طور پر کمیونسٹ تحریک کو لے لیجیے اس تحریک کا نصب العین پرولتاری نظام کا قیام ہے مگر فی نفسہ یہ نظام اس کی اصل غایت مقصود نہیں ہے۔بلکہ یہ ہے—جیسا کہ اس کا دعوی ہے—کہ محنت کشوں مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ پورا پورا معاشی انصاف ہو، انھیں ساری ضروریات زندگی فراہم ہوں اور ان کا استحصال نہ ہونے پائے۔ کمیونزم اگر پرولتاری انقلاب کو اپنا نصب العین قرار دیتا ہے تو صرف اس لیے کہ اس کے خیال میں یہی انقلاب اس غایت مقصود تک پہنچنے کی واحد سبیل ہے اور اسی نظام کے وجود پر اس مقصد کا حصول موقوف ہے۔ غور و فکر کے بعد آپ دوسری تمام تحریکوں کا معاملہ بھی ایسا ہی پائیں گے اور انھی میں تحریک اسلامی بھی شامل دکھائی دے گی۔ چناں چہ اس کا نصب العین اگر ’اقامت دین‘ ہے تو اس کی غایت مقصود انسان کی اخروی زندگی کی نجات اور فلاح ہے اور اصل اہمیت قدرتی طور پر، اسی چیز کی ہے، جس کے بغیر اقامت دین کا نصب العین ایک لفظ بے معنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص بھی اس نصب العین کو اپنا تا ہے اسے وہ صرف اس لیے اپنا تا ہے، یا کم از کم یہ کہ اسے لاز ما صرف اس لیے اپنانا چاہیے کہ اس کے ذریعے وہ اپنے خدا کی رضا حاصل کر سکے گا، اس کی رحمت و مغفرت سے ہم کنار ہو سکے گا اور اس کی اخروی زندگی کام یاب و با مراد ہو سکے گی۔ اس ایک مقصود، اس ایک مطلوب اور اس ایک مرکز آرزو کے سوا اس کا کوئی اور حقیقی مقصود و مطلوب بالکل نہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی غیر معمولی اہمیت کی بات تھی اور بالکل ضروری تھا کہ اسے ہر وقت نگاہوں میں رکھاجاتا۔ چناں چہ یہی ضرورت اور مصلحت تھی جس کے پیش نظر نصب العین کے دیگر اہم نکتوں کو جہاں تشریح کے ذریعے ذیلی طور پر واضح اور نمایاں کیا گیا ہے، وہاں اس سب سے خاص اور سب سے بنیادی نکتے کو خود نصب العین ہی کی اصولی تعبیر میں شامل رکھا گیا ہے۔‘‘
چناں چہ دستور جماعت اسلامی ہند میں دفعہ 4 کی عبارت اس طرح لکھی گئی کہ ’’جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضائے الہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے۔ اس جملے میں ’صرف‘ کے لفظ پر بھی غور کرنا چاہیے۔
اوپر کے مباحث کی روشنی میں آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تحریکوں کی اساسیات کے بنیادی نکات چار نہیں پانچ ہوتے ہیں لیکن اسلامی تحریک کے اساسی تصورات میں پانچواں اہم نکتہ تحریک کا محرک صرف رضائے الہی اور فلاح آخرت ہوناہے اور یہی تحریک اسلامی کی اصل روح ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ تحریک اسلامی کی دو حرکتیں ہیں ایک افقی (horizontal)یعنی دنیوی اور دوسری عمودی(vertical) یعنی اخروی۔ عمودی حرکت کا اصل مرکز فرد کا ارتقا ہے اور افقی حرکت کا مرکز اجتماعی ہدف کا حصول ہے۔ اس طرح دونوں مل کر اقامت دین کے نصب العین کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس میں فرد کا مکمل ارتقا معاشرے کی تعمیر اور اس کے لازمی اداروں کی تشکیل سب شامل ہے۔ چناں چہ اقامت دین کی پہلی اینٹ ایمان بالغیب کے ہاتھوں فرش کے ساتھ عرش پر بھی رکھی جاتی ہے۔جس میں بنی آدم کے ساتھ خدا اور اس کے فرشتوں کی گواہی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کی کام یابی کے لیے فرشتے بھی دعا کرتے ہیں۔ اس کی کام یابی کے شرائط میں اخلاص مع اللہ اور عقل و حکمت اور تجربہ کے ساتھ اسوۂ رسولﷺ کی پیروی بھی اصل شرط ہے۔ اس کی کام یابی میں سنت الہی کے عام اصول کے ساتھ نصرت الہی کے کچھ خاص اصول بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ انبیائی مشن کا تسلسل ہے جو امت محمدیہ پر ختم نبوت کے بعد ڈالی گئی ہے۔ بھلا اس تحریک کو دوسری عام سماجی اور سیاسی تحریکوں پر قیاس کرنا ہمالیائی غلطی نہیں تو اور کیا ہوگی۔اس کی اس عظمت، بلندی اور پاکیزگی کو ارکان جماعت اسلامی کو پوری طرح سمجھنا، محسوس کرنا اورتازہ رکھنا چاہیے اور اس کے شایان شان سیرت و کردار، ایثار و قربانی، صبر و استقامت، عزیمت و حکمت اور انسانیت کی خیر خواہی اور لوجہ اللہ خدمت انسانی کا فریضہ انجام دیتے رہنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ خلوت و جلوت دونوں حالتوں میں زندگی اس طرح گزرے جیسے وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں اگر یہ نہ ہوسکے تو اس قدرایمان و یقین کو تازہ ضرور رکھنا چاہیے کہ خدا ان کو دیکھ رہا ہے۔ یہی تحریک کے ارکان کا مطلوبہ کردار ہے اور معیار مطلوب دفعہ 9 کی روح ہےجس کو مرتبہ احسان کہتے ہیں۔ یہی تحریک اقامت دین میں فرد کے ارتقا کی ضامن اور سماج میں مطلوبہ تبدیلی لانے کی شرط ہے۔ اس لیے کہ یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے۔
جدید دور میں تحریکیں اپنے اساسی تصور کے مطابق اجتماعی جدوجہد کو منصوبہ بند طریقے سے صحیح سمت میں متحرک رکھنے کے لیے بنیادی دستاویز تیار کرتی ہیں جو اس تحریک کا دستور کہلاتا ہے۔ چناں چہ تحریکی شعور کی اساسیات اور لوازمات اس کی اساسیات اور فروعیات مستقل رہنے والے اور تبدیل ہونے والے اجزا مختلف دفعات میں شامل ہیں۔چناں چہ کسی تحریک کے فکری اساسیات کو جاننے کے لیے سب سے معتبر ذریعہ اس کا دستور ہے۔لہذا جماعت اسلامی کے دستور کا مطالعہ بغور کرنا چاہیے تاکہ فکری اساسیات کے سارے خدوخال نمایاں اور مستحضر رہیں۔ لیکن یاد رہے کہ کسی متن(text) کے مطالعے میں سیاق کے ساتھ تناظر کی بھی اہمیت ہے جس کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ویسے اللہ کا شکر ہے کہ ہماری صف اوّل کےمعتبر عالم اور فکری ترجمان مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم نے ’’تحریک اسلامی ہند‘‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے جس نے تحریک اور اس کے دستور کی تفہیم کو آسان کردیا ہے۔ روداد اول تا پنجم اور اجتماع رام پور بھی تحریکی فکر کی اساسیات اور مخصوص مزاج کو سمجھنے کا ایک مستند تاریخی ریکارڈ ہے۔کیوں کہ یہی ابتدائی چند سال تحریک اسلامی کا فاؤنڈیشن پیریڈ یعنی اساسی عہد بھی ہے۔
جماعت کا جودستور اس وقت ہمارے پاس ہے اس میں شروع سے ترمیم ہوتی رہی ہے۔ لہذا اس کا ایک جزء جو قابل ترمیم ہے وہ اساسی فکر کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن جس حصے میں بنیادی ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے وہ اساسی فکر کا حصہ ہے۔ چناں چہ دستور جماعت میں حصہ اوّل یعنی دفعات 5،4،3 تحریک اسلامی کی فکری اساسیات پر مشتمل ہے۔حصہ دوم اور سوم میں نظم اجتماعی کے بنیادی کردار کے حوالے سے اسلامی اجتماعیت کی اساسیات کے لازمی نکات کو شامل کیا گیا ہے۔ جن سے نظم جماعت کے مزاج، قیادت کے معیار اور ارکان کے کردار کا امتیازی وصف قائم ہوتا ہے۔ ان کی حیثیت بھی اساسی ہےمثلا دفعہ 10 کی عبارت کا یہ حصہ کہ ’’جماعت اسلامی ہند کا نظام شورائی ہوگا‘‘ اس کی اساسی فکر کا حصہ ہے۔جماعت کی رکنیت کے شرائط، امیر جماعت اور دیگر ذمہ داریوں کے لیے مطلوبہ اوصاف اس کی اجتماعی نظم کے اساس ہیں۔ (نظام شورائی پر یہاں وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اگر اس کی تفصیل دیکھنا ہو تو قرآن میں سورة الشوری “امرھم شوری بینھم”(آیت 38) میں مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن میں پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔)
بہرحال تحریکی فکر کی اساسیات میں سب سے پہلا نکتہ عقیدۂ توحید ہے جس کا پہلا جزو لا الہ الا اللہ ہے جس کا ترجمہ،تشریح اور اس کے لازمی علمی اور عملی تقاضوں کا بیان دفعہ 3 میں درج ہے۔ اس کا دوسرا جزو محمد رسول اللہ ہے اور اس کی بھی تشریح اور اس کے لازمی تقاضے کا ذکر بھی تفصیل سے اسی دفعہ 3 میں بیان کیا گیا ہے۔دونوں مل کر تحریک کے عقیدے(belief system) کی تشکیل کرتے ہیں۔یہ کلمہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور تحریکی فکر کا بنیادی پتھر ہے۔
تحریکی فکر کی اساسیا ت کا دوسرا نکتہ اس کا نصب العین اقامت دین ہے جس کی تشریح میں دین اور اقامت دونوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جو تمام انبیائے کرام کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کی 23 سالہ پیغمبرانہ جدوجہد کے قرآنی مشن کا عنوان ہےجس میں (1)داعیانہ جد و جہد، (2)اتباع شریعت،(3)معاشرے میں شریعت کے نفاذ کی قوت کے حصول اور اس کی حکمت عملی،(4) امت مسلمہ کی تشکیل ا ورتزکیہ سب شامل ہیں۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امت مسلمہ ہی تحریک اسلامی کا بنیادی معاشرتی اساس (social base) ہے اگرچہ مخاطب ساری انسانیت ہے۔ یہ پہلو بہت اہم اور قابل توجہ ہے کیوں کہ امت اور جماعت کے رشتے میں اسی سے توازن قائم ہوتا ہے، اسی سے جماعت میں امت پن کا احساس زندہ رہتا ہے اور یہ احساس تحریک کو تحزب اور گروہی عصبیت سے بھی بچاتا ہے۔ یہ
صحیح ہے کہ یہ نصب العین اقامت دین اپنی نوعیت میں خالص اصولی نصب العین ہے۔ یہ کوئی وقتی،عارضی، ہنگامی چند ایشوز پر مبنی یا کچھ مسائل کے حل،مسلکی یا سیاسی مفادات کے حصول کی علاقائی،طبقاتی،فقط اصلاحی روایتی رسمی مذہبیت یا شخصی عقیدت،اور قومی اساس تحریک نہیں ہے۔ بلکہ اصولی طور پر پوری انسانیت اس کی مخاطب ہے۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی تحریک خدا مرکز، انسانیت دوست اور اخروی جہت رکھتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود یہ تحریک امت مسلمہ کا ایک باشعور اور فعال حصہ ہے جامد قومیت کا حصہ نہیں ہے۔ لہذا تنظیمی اور عملی طور پر جماعت اسلامی ہند کے لیے ہندوستان کے تمام شہری خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں اس کے رکن بن سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کے تمام افراد مسلم امت کے فرد ہونے کی حیثیت سے اس کے خاموش رکن ہیں لیکن انھیں اس کا شعور نہیں۔
یہاں پر یہ واضح کرنا بھی غیر ضروری نہیں ہوگا کہ جب مغرب کے انسانوں نے خدا کا عملاً انکار کرکے انسانوں کی اپنی خدائی یعنی حاکمیت جمہور کا اعلان کیا تو توحید ہی کے تقاضے کے طور پر مولانا مودودیؒ کے لٹریچر میں حاکمیت الہ کا اسی زور شور سے اعلان کیا گیا۔جس زور شور سے مغرب نے انکار کیا تھا اور جس احساس کبریائی کے ساتھ اور جن بلند بانگ دعووں کے ساتھ انھوں نے اس دین مغرب یعنی بے خدا جمہوریت کے قیام و استحکام کو ساری دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی تھی اسی نسبت سے تحریک اسلامی کے بانی نے بھی پورے احساس عبدیت اور تقاضائے بندگی کے ساتھ حاکمیت الہ کا مدلل انداز میں برصغیر کے کوچہ و بازار میں اعلان کیا جس کو آپ تحریک کے لٹریچر میں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن یہی نظریہ توحید جب دستور جماعت کی دفعہ 3 کے متن میں بیان ہوا تو اپنی بہترین شکل، جامع انداز اور متوازن اسلوب میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو دفعہ 3 کی تشریح جس میں حاکم تشریعی اور حاکم تکوینی کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مالکیت اور حاکمیت کے حق کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح رسالت کے منصب کے باب میں یہ وضاحت موجود ہے کہ‘‘ رسول خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے،کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجے میں ہو اس کو اسی درجے میں رکھے۔‘‘
یہ ایک واضح لکیر ہے جو ایمان بالرسالت کی عظمت اور حرمت کے سرحد کی محافظ ہے نیز انسانی فکر کو ہر طرح کی ذہنی غلامی اور شخصیت پرستی کی آلودگی سے پاک رکھتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں علمی لٹریچر سے استفادہ اور صحابہ کرامؓ، علمائے حق اور صلحائے امت سے عقیدت و محبت میں کو ئی کوتاہی روا رکھی گئی ہے۔بلکہ نبی اور غیر نبی انسان کے بیچ ایک نمایاں لکیر کھینچ کر عصمت انبیا کی حفاظت کی فصیل کھڑی کردی گئی ہےجو شخصیت پرستی اور آبا پرستی کی لعنت سے بچانے میں ایک میزان ہے۔ تحریکی فکر کی اساسیات میں ان دونوں نکتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دستور جماعت اسلامی ہند کی دفعہ 3 اور 4 کے یہ نکات تحریک کے فکری اساس ہیں۔ اسی کے ساتھ اقامت دین کی تشریح میں دین کا تصور دستور جماعت میں بہت صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے دستور کی دفعہ 4 کی عبارت جو دین کی تشریح کرتی ہے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دین کو تحریک بنانے میں اس تصور دین اور اقامت دین کی تشریح کا کلیدی رول ہے۔ تحریکی فکر کی پوری روح دفعہ 4 کے اس متن میں سمٹ آئی ہے۔
تحریکی فکر کا تیسرا نکتہ طریقہ کار ہے جس کو دفعہ 5 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں قرآن وسنت کو اصل اساس کار بتایا گیا ہے۔ تحریک اسلامی کے طریقہ کار میں یہ فقر ہ تحریک کی اساسیات کا ایک جزو لا ینفک ہے۔یہی امت مسلمہ کے فکری اتحاد اور اس کی شیرازہ بندی کی اساس ہے۔ قرآن و سنت دو منارہ نور ہیں جن کی روشنی میں طریقہ کار کے دیگر نکات کی عبارت بھی لکھی گئی ہے جن میں اخلاقی حدود کی پابندی سب سے پہلا جزء ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کیوں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے مشن کو اخلاقیات کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘۔ چناں چہ طریقہ کار میں اخلاقی حدود کی پابندی کے علاوہ صداقت ودیانت کی خلاف ورزی سے اجتناب اور فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض سے دور رہنا بھی شامل ہے۔ یہ اصول تحریک اسلامی کو دنیا کی دوسری تحریکوں سے طریقہ کار کے اعتبار سے ممیز کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ نمبر 3 میں ’’تعمیری، پرامن، تبلیغ و اشاعت افکار کے ذریعے ذہن اور سیرت کی اصلاح نیز رائے عامہ کی تربیت ’’سماج میں تبدیلی لانےکے طریقہ کو واضح کرتا ہے۔ یہ انبیا علیھم السلام کے طریقہ کار کا حصہ ہے۔
طریقہ کار کے حوالے سے ایک اہم نکتہ کا ذکر یہاں پر ضروری ہے جس پر ہم سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ اس دفعہ میں امت کے چودہ سو سالہ دینی لٹریچر اور اکابر امت سے استفادہ بھی شامل ہے۔ البتہ اس میں قرآن وسنت کے علاوہ اس دینی لٹریچر کی ثانوی حیثیت اور مشروط استفادہ یعنی جس حد تک قرآن وسنت کی رو سے اس کی گنجائش ہے، کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، اس اصول سے یقیناً تحریکی مفکرین بھی مستثنی نہیں ہیں۔ دستور جماعت میں یہ نکتہ ارکان جماعت کو تحریکی فکر کا مجاور بننے سے بچاتا ہے اور فکری نشو و نما کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
یہاں پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کبھی کبھی ہم بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کے تحت فکری ارتقا یا پالیسی کی تبدیلی اور حکمت عملی کو بھی اساسیات سے انحراف سمجھنے کی غلطی کرجاتے ہیں۔ یقیناً جماعت اسلامی ہند نے بہت سارے نئے فیصلے کیے ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ انسانی فیصلے صحیح بھی ہوسکتےہیں اور غلط بھی۔ ان پر قرآن وسنت اور انسانی علوم اور تجربے کی روشنی میں دوبارہ گفتگو بھی ہوسکتی ہے، فیصلے بدلے بھی جاسکتےہیں لیکن حالات کے تحت فیصلے پر نظر ثانی کرنا اور قرآن و سنت کی روشنی میں فکر کے ارتقا کو جاری رکھنا صحت مند علامت ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں توفیق دی اور فکری جمود سے بچائے رکھا۔ البتہ ہم کو اصل اور فرع میں ہمیشہ فرق کرنا چاہیے۔اساسی اصول اورحکمت عملی و پالیسی کا فرق بھی واضح رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ملک کے موجودہ دستوری نظام کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ خدا کی حاکمیت سے انکار اور وحی الہی سے بے نیاز ہو کر جو نظام بھی وضع کیا جائے گا وہ باطل اور غلط ہوگا۔
لیکن اس کو کب کن الفاظ میں بیان کریں؛ اس کے ساتھ ہمارا عملی رویہ کب کیا ہو؛ اس کی مختلف حکمت عملی تحریکی مفاد میں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ ساری باتیں تحریکی مصالح کے گہرے فہم کا تقاضا کرتی ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں چودہ سو برس کِی علمی تاریخ اور اہل علم و تحقیق کے اجتہادات اور صلحائے امت کی فکر کی حسین روایت کے بھی ہم وارث ہیں اور اس کاتقاضا ہے کہ ہم قران و سنت کی روشنی میں اس علمی و فکری سرمائے کو ثانوی حیثیت سے ہی لیکن ضرور سامنے رکھیں جس میں امام غزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ سے لے کرمولانا مودودی، مولانا امین احسن اور مولانا صدر الدین اصلاحی سب کا لٹریچر شامل ہے۔
دستور جماعت کا دوسرا اور تیسرا حصہ رکنیت اور نظام جماعت پر مشتمل ہے۔نظم جماعت کی شورائیت اور اجتماعیت کے اصول کی حد تک ان دفعات کے اہم نکات کاتعلق تحریکی فکر کی اساسیات سے ہے جن کا اہتما م اسی انداز سے ہونا چاہیے۔
تحریکی فکر کی اساسیات میں پانچ نکات کے تحت جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی اہمیت آپ بھی جانتے ہیں، میں نے فقط یاد دہانی کرادی ہے۔ البتہ آخر میں یہ نکتہ یاد رہے کہ ہم اپنی فکری اساسیات سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اپنے ہر فیصلے اور کام کو اسوۂ محمدیﷺ سے جوڑ کر دیکھتے رہیں کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ سند صرف آپ ﷺ کی ذات ہے۔
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
اپنے آپ کو اسوۂ مصطفیٰ سے پیوستہ رکھو کہ آپؐ کا اسوہ ہی مکمل دین ہے۔ اگر کسی فکریا عمل کا تعلق آپ کی ذات تک نہیں پہنچتا ہے تو وہ بولہبی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2025