اسلام

موجودہ دور کے تمام مسائل کا حل

[مولانا سید جلال الدین عمری ، امیر جماعت اسلامی ہندنے مورخہ ۲/مارچ ۲۰۱۳؁ء بعد نماز مغرب جماعت اسلامی ہند پٹنہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں منعقدہ ایک اجلاسِ عام میں جو تقریر فرمائی تھی اسے مولانا کی نظر ثانی کے بعد افادۂ عام کے لیے زندگی نو میں شائع کیا جا رہا ہے۔]

بعد حمد وصلوٰۃ!بزرگو، بھائیو، عزیزو، محترم ماؤ، بہنو اور بیٹیو !۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا جوبنائی ہے اس میں انسان کی آسائش وآرام کا بڑا سامان رکھا ہے، اس سے استفادے کے لیے اسے غیر معمولی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اوراسے اس زمین میں اختیار اور اقتدار عطا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَلَقَدْ مَکَّنّٰاکُمْ فِیْ الاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْن۔ ﴿الاعراف:۱۰﴾

’’اللہ نے تمہیں زمین پر بسایا اور اقتدار دیا، تمہارے کھانے پینے اور تمہاری معیشت کا سامان فراہم کیا، لہٰذا تمہیں اللہ کا شکرگذار ہونا چاہیے ،مگر تم کم ہی اس کا شکر ادا کرتے ہو۔‘‘

بزرگو اور دوستو! اللہ نے زمین کے اندر جو نعمتیں رکھی ہیں اور جو وسائل وذرائع مہیا کیے ہیں، انسان جب سے اس زمین پر آباد ہے ان سے فائدہ اٹھارہا ہے ، زمین مسلسل اپنے خزانے کھول رہی ہے اور انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اگر سو سال قبل کا انسان آج اس دنیا میں آجائے تو حیرت سے کہے گا کہ یہ دنیا کچھ دوسری ہی دنیا ہے، وہ دنیا نہیں ہے جو میں نے چھوڑی تھی۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ آئندہ پچاس ساٹھ سال بعد یہ دنیا بھی نہ رہے۔ جس تیزی سے دنیا بدل رہی ہے اس میں اس طرح سوچنے پر انسان مجبور ہے ۔

دوستو! پوری دنیا ترقی کررہی ہے ، ہمارا ملک بھی ترقی کررہا ہے اور بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ تعلیم، صنعت وحرفت اور مختلف شعبوں میں اس نے اپنا ایک مقام پیدا کرلیا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی اور بڑھتی ہوئی طاقت کا انکار نہیں کرسکتی۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو پانے کے بعد انسان کو اللہ کا شکرگذار ہونا چاہیے، اس کے احکام کی بجاآوری کرنی چاہیے، اس کی اطاعت وعبادت اور اس کی فرماںبرداری کرنی چاہیے۔ مگر اس کے بجائے آدمی اگر یہ سوچنے لگے کہ یہ چیزیں مجھے خود بخود مل گئی ہیں، یہ میری محنت، میرے کسب اور میرے زورِبازو کا نتیجہ ہیں تو ایسا سوچنا اللہ کی ناشکری ہے اور ناشکری کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ آج ساری دنیا کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ کو بھول کر ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے۔ آج ساری دنیا میں انسان کو جو نعمتیں ، آسائشیں اور ترقی کے جو مواقع مل رہے ہیں وہ ماضی کے انسانوں کی سوچ سے بہت آگے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی جگہ پروگرام اور اجتماع ہوگا تو اس طرح کی روشنی ہوگی۔ آدمی بولے گا اور مائک کے ذریعہ ہزاروں انسانوں تک بات پہنچ جائے گی۔ آدمی ایک گھنٹے کے اندرہی اندر دہلی سے پٹنہ پہنچ جائے گا، تین چار گھنٹوںمیں کسی بھی عرب ملک تک اس کی رسائل ہوجائے گی، سات آٹھ گھنٹوں کے اندر یورپ کے ممالک تک پہنچ جائے گا۔ آج دنیا کے کسی گوشہ میں کوئی واقعہ ہو اس کی خبر آپ کو منٹو ں میں مل جاتی ہے۔

ایک طرف انسانی ترقی کا یہ حال ہے اور دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان ہی نہیں ،ساری دنیا کو زبردست بگاڑ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ انسان نے ناشکری کی روش اختیار کی ہے اور خدا کا باغی ہوگیا ہے۔ یہ عظیم کائنات اللہ نے انسانوں کے لیے اس طرح پیدا کی ہے کہ پوری کائنات اس کی حمدمیں لگی ہوئی ہے۔ چاند، سورج، دریا، پہاڑ سب سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے، مگر بھول کر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا غلط رخ پر چلی جارہی ہے اور حرص وہوس نے انسانی ذہن کو اپنے شکنجہ میں لے لیا ہے۔ آج ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دنیا کی ساری دولت اس کے ہاتھ میں آجائے، ہر کسی کی خواہش ہے کہ بادشاہ وقت بن جائے، حالاں کہ یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ہر شخص چاہتا یہی ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کے غلط طریقے اور غلط ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ہر طرف کرپشن ہے تو آخر یہ کرپشن ہے کیا؟ یہی کہ ساری دنیا کی دولت میرے پاس آجائے ،چاہے اس کے لیے کتنا ہی غلط طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو غریب اور مجبور ہیں وہ کرپٹ ہیں۔ شاید ہزاروں لاکھوں انسانوں میں کوئی ایک ہو جو مجبوری کی وجہ سے کرپشن میں مبتلا ہو۔ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جوآسودہ اور خوش حال ہیں، لاکھوں اور کروڑوں روپے ان کے پاس جمع ہیں، لیکن یہ جذبہ کہ سب کچھ میرے پاس آجائے ان کو کرپٹ بنارہا ہے۔

آج ہندوستان میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی ،چاہے وہ حزب اقتدار ہو یا حزب مخالف ،ایسی نہیں ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ یہی لوگ ہندوستان کا سیاسی نظام چلا رہے ہیں، یہی لوگ ملک پر فرماں روائی کررہے ہیں۔ آئندہ جب الیکشن ہوگا توہندوستان مجبور ہوگا کہ انہی کرپٹ لوگوں اور کرپٹ پارٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، اس لیے کہ بعض افراد تو مستثنیٰ ہوسکتے ہیں، لیکن کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ یہ کرپشن سے پاک ہے۔ کرپشن ہمارے سماج میں اور ہمارے ملک کے نظام میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اب لوگ کہنے لگے ہیںکہ موجودہ حالات میں کرپشن کے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی۔ رشوت لینا، دینا اور آگے بڑھنا، ترقی کا یہی ایک راستہ ہے۔ اس راستہ سے آپ انحراف کریں گے تو آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی، آپ کی ترقی کا راستہ رک جائے گا، اس لیے جو جتنا ہوشیار اور چالاک ہے وہ اتنا ہی زیادہ کرپٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم سے انسان کی زندگی سنور تی ہے اور وہ اچھی عادات واخلاق کاحامل شہری بنتا ہے ،مگر آج جولوگ کرپٹ ہیں وہ جاہل اورگنوار نہیں ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کوالی فائڈ (Qualified)لوگ ہیں، ایڈمنسٹریشن اور حکم رانی میں دخل رکھتے ہیں ۔وہ ملک کے دروبست پر قابض ہیں، ایسی صورت میں یہ سوچنا کہ ملک کرپشن سے پاک ہوجائے گا، بہت دور کی بات ہے ،تاوقتیکہ باشندگان ملک کے نظریات اور ملک کے نظام میں بنیادی تبدیلی کی کوئی تحریک نہ چلے۔

کرپشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ جس کے پاس وسائل ہیں وہ زیادہ سمیٹتا ہے اور جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں امیر وغریب کا اتنا بڑا فرق ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وزارت مالیات کے ڈپٹی چیئرمین نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ اگر کسی کی روزانہ آمدنی۳۲روپے کی ہے تو اسے ہم غریب نہیں کہہ سکتے ،لیکن صورت حال یہ ہے کہ ۳۲روپے آپ کی جیب میں ہوں تو چائے پینے کے لیے کسی اوسط درجہ کے ہوٹل میں جانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ پھر آپ خود سوچیے کہ آپ اپنا پیٹ کیسے بھریں گے اور کیسے اپنی فیملی کے لئے وسائل زندگی فراہم کریں گے۔ یہ باتیں وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کی آمدنی ۳۲/لاکھ اور ۳۲/کروڑ روپے ہے۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایک غریب شخص دو وقت کی روٹی بھی اطمینان سے نہیں کھاسکتا اور کچھ دوسرے لوگ عیش وعشرت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ان کے منصوبے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کے ہوتے ہیں، پوری انڈسٹری پر ان کا قبضہ ہے اور یہ قبضہ دن بہ دن اتنا وسیع اور مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ عام لوگوں کے لیے کسب معاش کے ذرائع اور مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں اور لوگ مجبورہیں کہ اپنے صنعتی آقاؤں کے اشاروں پررات دن اپنا خون اور پسینہ بہا تے رہیں۔ یہ ہے آج کی جدید مادی دنیا کا استحصالی نظام۔ اس میں آدمی اپنی دولت اور اپنی طاقت کے ذریعہ دوسروں کو خرید تا ہے،اس کی جسمانی طاقت، اس کا علم، اس کی صلاحیتوں، اس کی جوانی اور اس کے قیمتی اوقات کو خرید تا ہے، تب وہ ترقی کرتا اور اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہتاہے۔ میرے دوستو !یہی exploitationہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور فنی صلاحیت سے مالامال شخص بہت ترقی کرسکتا ہے، مگر اس کے پاس وسائل نہیں ہیں ۔ایک کمپنی اس کو پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے ماہانہ اس وقت دیتی ہے جب وہ شخص کمپنی کو ایک کروڑ روپے ماہانہ فراہم کرے۔ بہت پہلے کی بات ہے ، ایک صنعت کار مجھ سے بات کررہا تھا۔ اس نے کہا: مولانا صاحب !ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کمپنی میں جو آدمی رہے وہ خوش حال اور خوش وضع ہو،وہ بیگ لے کر پیدل چلے گا تو کوئی اس سے بات نہیں کرے گا، موٹر سائیکل پر چلے تو ہوسکتا ہے کوئی اس سے بات کرلے ،اس لیے ہم اسے کار فراہم کرتے ہیں، تاکہ اس کی طرف مخاطب کا attractionبڑھے، اسے اچھا فلیٹ فراہم کرتے ہیں اور ہر وہ چیز فراہم کرتے ہیں جو ہمارے businessکو بڑھانے میں معاون بنے، لیکن ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا بینک بیلنس نہ بڑھے، اس کے پاس سرمایہ جمع ہوگا تو وہ ہمارا حریف بن جائے گا، کیونکہ اس کے پاس تعلیمی صلاحیت، ہنر اور فیلڈ کا تجربہ ہم سے زیادہ ہے، پھر وہ ہم سے زیادہ ترقی کرجائے گا اور ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ دراصل یہی exploitationہے کہ ایک شخص کی جوانی کی بھرپور طاقت اور عمدہ صلاحیتوں کو خرید کر اس کا اس طرح استعمال ہوکہ وہ آگے نہ بڑھنے پائے اور سرما یہ دار اس کے زور پر بڑھتا رہے۔

دوستو!ہر انسان کے کچھ بنیادی حقوق (Fundamental Rights)ہیں۔ یہاں جو انسان پیدا ہوتا ہے اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے غذاملے، دوا ملے،اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو، تعلیم حاصل کرنا چاہے تو تعلیم ملے، انسان اس دنیا میں پیدا ہی اس طرح ہوتا ہے کہ اگر ان حقوق کو تسلیم نہ کیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے دنیا کے تمام جمہوری ممالک ان حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف عملی صورت حال یہ ہے کہ آج جو شخص غریب اور وسائل سے محروم ہے نہ اس کی جان ومال محفوظ ہے اور نہ عزت وآبرو۔ اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ دنیا میں امن ہے، ناقابل یقین بات ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی ممالک اور امریکہ کس طرح بمباری کرکے ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ دنیا میں انسان آتا ہے زندہ رہنے کیلئے ،مگر آپ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس سے اختلافات ہوں ، مگر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ اسے زندہ رہنے نہ دیں۔ آپ نے طے کرلیا کہ فلاں ملک موجودہ پوزیشن میں نہیں رہ سکتااور آپ نے بمباری کرکے اسے ختم کردیا۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو آپ کے دشمن ہیں، وہ لوگ بھی ہیں جن کا آپ سے اور آپ کے عزائم سے کوئی سروکارنہیں ہے، مگر آپ نے انہیں ختم کردیا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انسان کے بنیادی حقوق پامال کر ڈالے۔ جس سوسائٹی کے اندر انسانی حقوق محفوظ نہ ہوں وہ ترقی نہیں کر سکتی، بلکہ اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتی، کیونکہ ایسی سوسائٹی میں ہرشخص اس خوف اورخطر ے کے ساتھ زندگی گذارے گا کہ معلوم نہیں، کل اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آجائے۔ دلی میں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں جوڑے کو ختم کردیا گیا، فلاں قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا گیا، فلاں کی عزت لوٹ لی گئی۔ کہا جارہا ہے کہ آج دلی سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر ہوگیا ہے۔

دوستو اور ساتھیو! یہ صورت حال بدلنی چاہیے۔ اس وقت سارا اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے اور سیاست ہورہی ہے انسانوں کو تقسیم کرکے۔ یہ اونچی ذات کاہے، اسے اوپر آنا چاہیے، یہ نیچی ذات کا ہے، اسے نیچے جانا چاہیے، یادو کا ووٹ یادو کو ملنا چاہیے ، او بی سی کے ووٹ کے ہم حق دار ہیں۔سیاست اس وقت نام ہے اس کا کہ انسانوں کو گروہوں میں بانٹا جائے اوراقتدار پر بیٹھنے کی کوشش کی جائے۔ کسی کو ان کے حقیقی مسائل سے دلچسپی نہیں ہے۔ اگر یہاں کی سیاست کا رخ صحیح ہوتا تو ظلم و زیادتی کہیں بھی ہوتی، کسی انسان کے ساتھ بھی ہوتی اس کے خلاف آواز اٹھتی۔ لیکن یہ صورت حال نہیں ہے، بلکہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ زیادتی کس گروپ کے ساتھ ہوئی ہے۔ یہاں کم زور اور پس ماندہ طبقات کے ساتھ خدا جانے کتنی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کی عورتوں، بچوں اور مردوں پر نہ جانے کتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں ،مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں۔ ظلم چاہے کسی کے ساتھ ہو، مسلمان کے ساتھ ہو، غیر مسلم کے ساتھ ہو، پست طبقات کے ساتھ ہویا اونچے طبقات کے ساتھ ،اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ روز بروز انسانوں کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ آخر اس کا علاج کیا ہے؟

میں اسلام کا ایک طالب علم ہوں،اس کی روشنی میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ اسلام کہتا ہے کہ میرے پاس اس کا علاج ہے، دنیا کے ہر بگاڑ کا علاج ہے۔ اسلام سب سے پہلے اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان جو خدا کو بھول گیا ہے وہ خدا کی طرف پلٹ آئے۔ یہ وسیع وعریض کائنات، جس میں بے شمار ستارے، سیارے اور کہکشائیں ہیں، ان کا خالق ومالک اللہ ہے اور اسی کی اس کائنات پرحکومت ہے۔ اس کا انکار ایک بہت بڑی حقیقت کا انکار ہے اور کسی حقیقت کے انکار کے بعد آدمی جو بھی رویہ اختیار کرے گا وہ غلط رویہ ہوگا۔ اس لیے اس کی پہلی تعلیم یہ ہے کہ انسان خدا کو مانے اور یہ قبول کرے کہ دنیا پر اسی کی حکومت و فرماں روائی ہے، وہی اصل فرماںروا ہے، میں اس کا بندہ ہوں، مجھے اپنا تعلق اس سے جوڑنا چاہیے، اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی کے احکام کی اطاعت اور فرماںبرداری کرنی چاہیے۔ اللہ کے رسول اسی کے لیے دنیا میں آئے ہیں اور اپنے دور اور ماحول کی اصلاح کا فرض انجام دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ کا بندہ بننے کے بعد انسان کو کیسی زندگی گذارنی چاہیے؟ اس کا عقیدہ کیا ہو؟ اللہ کا شکروہ کیسے اداکرے؟ اس کی عبادت کیسے کرے؟،کس طرح اخلاق کا پابند ہو؟، کیا طریقہ گھر میں اختیار کرے؟ گھر سے باہر اس کاکیا رویّہ ہو؟ بازار میں کیسے رہے؟ حکومت وسیاست کیسے کرے؟ یہ ساری باتیں اسلام بڑی تفصیل سے بتاتا ہے۔تیسری بات وہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نگرانی کررہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ وہ کیسے اعمال کررہے ہیں اور کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں؟۔ موت کے بعد ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا حساب لے گا اوران کے اعمال کی جزا اور سزا دے گا۔ میں کبھی کبھی مثال دیتا ہوں کہ آپ ایک ہزار روپے کا کوئی ملازم رکھتے ہیں ،گھر کا سودا سلف لانے کے لیے۔ آپ اس کی نگرانی کرتے ہیں کہ واقعی وہ سودا سلف ٹھیک سے لارہا ہے یا نہیں؟ اور جب تک اعتماد بحال نہیں ہوتا یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پیسے میں خرد برد تو نہیں کرتا اور وقت پہ آتا ہے کہ نہیں؟ کوئی کام ادھورا تو نہیں رہ جاتا۔ آپ سوچیے کہ پوری کائنات جس نے آپ کے حوالے کی ہے کیا وہ آپ کا حساب نہیں لے گا ؟ اتنی بڑی کائنات اس نے آپ کے حوالے کی ہے، اس طرح حوالے کی ہے کہ ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا میری ہے،جس خدانے اتنی بڑی دنیا آپ کے حوالے کی ہے، کیا وہ آپ سے یہ نہ پوچھے گاکہ یہاں کیسے زندگی گزاری؟ اسلام آخرت کے اس عقیدے کو ماننے پر زور دیتا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنے احکام کا پابند بناتا ہے۔

میرے دوستو! اور ساتھیو!اسلام کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس زمین میں فساد نہ ہونے دو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کائنات پیدا کی ہے اس میں کہیں کوئی فساد اور بگاڑ نہیں ہے ،البتہ تمہاری زندگی میں فساد برپا ہے تو اس فساد کو ختم کرو۔ ہر انسان اللہ کو یاد کرکے بیٹھ نہ جائے ،بلکہ زمین میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اللہ کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے تو حشر میں ان سے بازپرس ہوگی۔

اسلام دنیا کی اصلاح کے لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ سب اللہ کے بندے ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالی نے ایک مرد اور ایک عورت سے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کے قبیلے اورخاندان بنادیے۔ ان کی زبانیں بھی مختلف ہیں ،ان کے رنگ روپ بھی مختلف ہیں،لیکن اللہ کے نزدیک بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر تقویٰ ہو۔ جو خدا سے ڈرے وہی بر تراور افضل ہے، باقی کسی چیز کا اعتبار نہیں ہے۔ مشرق کے لوگو، مغرب کے لوگو، شمال کے لوگو، جنوب کے لوگو، اس وقت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے لوگو! سنو! تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو ، تمہارے خاندان بھی ہیں، قبیلے بھی ہیں ، قومیں بھی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ کالا ہے، یہ افریقہ کا رہنے والا ہے۔ یہ گورا ہے، یہ یورپ کا رہنے والا ہے۔ یہ سانولے رنگ کاہے، یہ ایشیا کا رہنے والا ہے۔، کچھ پہچان ہو، ورنہ سب کے رنگ ایک ہوجاتے، سب کے قد وقامت ایک ہو تے، شکل وصورت ایک ہو جاتی تو پہچاننا مشکل ہوجاتا۔ یہ پہچان کے لیے ہے ،یہ انسانوں کے درمیان فرق و امتیازکی بنیاد نہیں ہے۔جو قوم اللہ سے ڈر کے زندگی گزارتی ہے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہے۔ اسلام کو اگر دنیا میں اقتدار ملے گا تو یہی تصور عام کرے گا کہ انسانوں کے درمیان فرق نہیں ہونا چاہیے۔ جب مکہ فتح ہوا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں ہے ، کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے ، کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ہے، البتہ جوخدا ترس ہے وہ سب سے بہتر ہے۔ میں ایسے موقع پر ایک واقعہ سناتا ہوں، آپ بھی سن لیجئے۔ حضرت بلال ؓ  کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ وہ حبش کے رہنے والے تھے ، ان کارنگ سیاہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔ ان کے بھائی نے کہا کہ میری شادی کہیں کرادیجئے ، بلال ؓ  نے مدینہ میں کہا کہ میرا بھائی شادی کرنا چاہتا ہے ، تم مجھے بھی جانتے ہواور اسے بھی۔ میں غلام تھا، مجھے آزاد کردیا گیا ، میرا رنگ بھی تم دیکھ رہے ہو ، میرا بھائی شادی کرنا چاہتا ہے کوئی تیار ہوتو بتائے۔ ہر طرف سے آواز آنے لگی: بلال تم رشتہ چاہتے ہوتو ہم تیار ہیں، تم جس قبیلہ کی جس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہو رشتہ ہو سکتا ہے۔ تو میرے دوستواور ساتھیو !قرآن کہتا ہے کہ تقویٰ کی بنیاد پر تو انسان کو عزت مل سکتی ہے اور کوئی دوسری بنیاد نہیں ہے کہ وہ عزت کا مستحق ہو۔

اسلام سماج میں قیام عدل کا حکم دیتا ہے۔ عدل و انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، بلکہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا ۔ہمارے ملک کے constitutionکی ایک اہم بنیاد سب کے لیے انصاف ہے۔ قرآن مجید نے تاکید کی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہو،یہاں تک کہ دشمن کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے۔ اس نے کہا کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ تم عدل وانصاف کا راستہ چھوڑ دو۔ ہر حال میں انصاف کرو، چاہے معاملہ دشمن ہی کاکیوں نہ ہو اور کہا کہ تقویٰ سے قریب تر بات یہ ہے کہ انصاف سبھی کے ساتھ ہو۔ میرے دوستواور ساتھیو! اس امت کو حکم ہے کہ وہ انصاف کو قائم کرنے کے لیے کھڑی ہوجائے۔ اگر یہ امت طے کرلے کہ دنیا میں انصاف ہوتو قسم خدا کی روئے زمین پر کہیں ظلم نہیں ہوسکتا۔ آپ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک میں بیس کروڑ ہیں ،اللہ تعالیٰ ہماری آبادی کو مزید بڑھائے۔ اگر یہ بیس کروڑکی آبادی طے کرلے کہ ہمارے ملک میں انصاف ہوناچاہیے تو ناممکن ہے کہ ناانصافی ہو۔ آپ بیٹھ گئے تو دنیا میں ظلم ہورہا ہے۔ قرآن نے کہا ہے کہ انصاف کو لے کر کھڑے ہو جاؤ۔ انصاف کی زد اگر تم پرپڑتی ہے تب بھی انصاف کرو ، گھر والوں پر پڑتی ہے تب بھی انصاف کرو، رشتہ داروں پر پڑتی ہے تب بھی انصاف کرو،کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے ، امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا،اقتدار والا ہو یا اقتدار سے محروم، اللہ کا قانون ہر ایک پر یکساں لاگو ہو۔

دوستو! اور ساتھیو! اسلام اس حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے کہ وہ اللہ کا دین ہے اور سب کے لیے ہے۔ افسوس ہے کہ یہ بات ہم اس طرح پیش نہیں کرتے جس طرح پیش کرناچاہیے ۔قرآن میں جہا ں یہ بات کہی گئی ہے کہ لوگو! اپنے رب کی بات مانو ، اس کی بندگی کرو، اس سے ڈرو،اس کے احکام کی پابندی کرو وہیں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یہ دین صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہ بات دنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ یہ بات جب تک دنیا کے سامنے نہیں آئے گی اس وقت تک اسلام کی صحیح تصویراس دنیا کے سامنے نہیں آئے گی۔ جب اسلام کا ذکرہوتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا مذہب ہے ، حالانکہ اسلام کے معنی ہیں اللہ کے سامنے سر جھکانا۔ جو اللہ کے سامنے سر جھکا دے وہ مسلم ہے، جو اللہ کے احکام کا پابند ہوجائے وہ مسلم ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا سے کہو کہ وہ اللہ کے بندے بن جائیں، اس کے فرماںبردار بن جائیں۔

آخری بات میں یہ کہوں گاکہ اسلام ہی میں دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی اوریہ ہمارے مسائل بھی حل کرتا ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر اسلام نے حل نہ کیا ہو۔جو انسان دنیا کو سیدھا راستہ دکھلائے وہ یہاں بھی کامیاب ہوگا اور آخرت میں بھی کامیاب ہوگا۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ جو لوگ آخرت کی بھلائی چاہتے ہیں ہم انھیں دنیا کی بھلائی بھی دیں گے اور آخرت کی بھلائی بھی دیں گے، اور جو لوگ صرف دنیا کمانا چاہتے ہیں انہیں صرف دنیا ہی میں سے تھوڑا بہت دیں گے، لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، قرآن کہتا ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم اللہ کے دین پر عمل کریں گے تو مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ نہیں، بلکہ اس پر عمل کروگے تو تمہارے مسائل حل ہوں گے۔ غربت ہے تو غربت ختم ہوجائے گی، پریشانیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں گی ۔

دوستو اور ساتھیو! یہ دنیا اس وقت عجیب اضطراب کی کیفیت میں ہے۔ پوری دنیا میں ایک طرح کا بھونچال ہے ، چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیراور پس ماندہ ممالک، سب پریشان ہیں اور دنیا ایک طرح کی کش مکش میں ہے۔ طاقت ور ممالک ترقی پذیر اور کم زور ممالک کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ہر شخص گھبرایا ہوا ہے اور دنیا امن وسکون سے محروم ہے۔ دنیا میں اس وقت بہت سے نظریات کی کارفرمائی ہے۔ ان نظریات کے باوجود دنیا اضطراب میں مبتلا ہے۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ دیکھوتمہارے دکھ درد کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ دنیا جن مسائل میں گھری ہے انہیں اسلام بہتر طریقہ سے حل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے یہاں انصاف قائم ہوگا، زمین فساد سے پاک ہوگی، انسان کی دنیا بھی سنورے گی اور آخرت بھی سنورے گی۔ میرے دوستو اور ساتھیو! جماعت اسلامی یہی بات کہتی ہے کہ اسلام تمہارے سامنے ہے، اس پر غور کرو، یہ نہ کہو کہ یہ مذہب کی بات ہے، اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔ اگر کوئی مذہب تمہارے دکھ درد کا علاج بن سکتا ہے تو عقل کہتی ہے کہ تمہیں اس پر غور کرنا چاہیے ۔یہ نادانی ہوگی کہ تم یہ کہو کہ چاہے اس میں ہمارے دکھ درد کا علاج ہو، مگر ہم نہیں مانیں گے۔ آج کے علمی دور میں ایسی بات کوئی عقل مند آدمی نہیں کہہ سکتا۔ ہم اسلام کے مخالفین سے بھی اورغیر جانب دار لوگوں سے بھی کہتے ہیں:آپ کے مسائل اور دکھ درد کا ایک نسخہ اسلام بھی پیش کرتا ہے ، اس پر غور کیجئے۔ قرآن کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں زبردستی اپنی بات منواؤں گا۔ قرآن تو اپنے پیغمبر سے بھی کہتا ہے کہ آپ جسے چاہیں سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتے ،اللہ جسے چاہتا ہے راستہ دکھاتا ہے ۔آپﷺ  داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے، آپ تو بس یاددہانی کرنے والے ہیں۔ اس لیے میرے دوستو اور ساتھیو! ہم دنیا سے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو، یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں تمہارے دکھ درد کا علاج ہے ، تمہارے ہی دکھ درد کا نہیں ،پوری دنیا کے دکھ درد کا علاج ہے۔ اگر تمہاری سمجھ میں آئے اورتم محسوس کرو کہ اس سے تمہارے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور تمہارے دکھ درد کا علاج ہو سکتاہے تو اسے بند کرکے نہ رکھو، بلکہ اس پر غور کرو ، یہ عقل کا تقاضا ہے ۔آج کی دنیا کا یہ رویہ کس قدر حیرت ناک ہے کہ وہ ہر بات سننے کے لیے تیار ہے، لیکن اسلام کے نام پر کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ کو اور ہمیں اور ہر اس شخص کو جو اسلام کو اللہ کا نازل کردہ دین مانتا ہے، کھڑا ہونا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ رویہ غلط ہے۔یہ Democracy کے خلاف ہے ،عقل اور ہوش مندی کے خلاف ہے۔ اگر آپ کے سامنے ایک شخص سنجیدگی اوردلائل کے ساتھ کوئی بات کہہ رہا ہے تو اسے سنئے اور غور کیجئے ،سمجھ میں نہ آئے تو رد کردیجئے ، لیکن اگروہ سمجھ میں آرہی ہے تو آپ کو مزید اس پر غور کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں نے جو باتیں آپ کے سامنے عرض کی ہیں وہ ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہیں ، ہم اس پر غور بھی کریں اور اپنی بساط بھر اس پر عمل بھی کریں۔ا نہی چند باتوں پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنی دیر تک یہ باتیں سنیں۔میں جماعت اسلامی پٹنہ کے ذمہ داروں کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ اللہ جزائے خیر دے۔ وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

مشمولہ: شمارہ جون 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau