نکاح انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت زندگی ادھوری رہتی ہے۔ جب تک کہ وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں۔ یہ بڑا پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیداکیا اور انھی سے اُن کا جوڑا حضرت حوا کو بنایا۔ اس طرح شوہر اور بیوی کا یہ پہلا انسانی رشتہ وجود میں آیا۔ باقی سارے رشتے ماں باپ، بیٹابیٹی، بھائی بہن و دیگر رشتے داریاں بعد میں وجود میں آئی ہیں۔
قرآن میں نکاح کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: وَانْکِحُوالاَیَامیٰ مِنکُم تم سے جن کے نکاح نہیں ہوئے ہیں، ان کے نکاح کردو۔ عام طورپر ہر زمانے میں رہبانیت سے متاثر لوگوں نے شادی بیاہ کے ذریعے سے بھی عورتوں سے تعلق کو اللہ سے قریب ہونے میں رکاوٹ اور تقویٰ کے خلاف سمجھا۔ آپﷺ نے اس کی تردید فرمائی۔ اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی نکاح میری سنت کہہ کر اسے عبادت کادرجہ دیا۔
عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیمؓ کے ذریعے سے جب یہ بات نبی کریمﷺ کے علم میں آئی کہ ان کے شوہردن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات کو جاگ جاگ کر نمازپڑھتے ہیں اور ان کا اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہیں ہے تو نبی کریمﷺ نے انھیں بلابھیجا اور فرمایا: عثمان! کیا تم میرے طریقے کو چھوڑرہے ہو؟ عثمانؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیﷺاللہ گواہ ہے کہ میں تو آپ ہی کے طریقے کی تلاش میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں سوتاہوں رات کے ایک حصّے میں اور نماز تہجد پڑھتاہوںرات کے ایک حصّے میں، روزے ﴿نفل﴾ رکھتاہوں اور نہیں بھی رکھتا، میں عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں ۔ اے عثمان! اللہ سے ڈر، تیرے بیوی بچوں کا تجھ پر حق ہے۔ تیرے مہمان کاتجھ پر حق ہے، تیرے جسم کاتجھ پر حق ہے پس تو روزے رکھ اور افطار بھی کر ، رات کو نفل پڑھ اور سو بھی۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: علی ! تین چیزوںمیں تاخیر نہ کر، ان میں سے ایک یہ کہ جب تم غیرشادی شدہ کا ہمسر پاؤ ﴿تو اس سے اس کا نکاح کردو﴾۔ غرض قرآن وحدیث میں نکاح سے متعلق بڑی اہم رہ نمائی ہمیں ملتی ہے۔ درج ذیل چار اہم مقاصد قابل غور ہیں:
۱- اخلاق کی حفاظت
نکاح کا اوّلین مقصد ایک ایک مرد اورعورت کے اخلاق کی حفاظت اور پورے معاشرے کو بگاڑ و فساد سے بچانا ہے۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا: ’’نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمّے داریوں کو ادا کرسکتاہو اُسے شادی کرلینی چاہیے، اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن ہوجاتاہے۔ ہاں جوشخص نکاح کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتاہو وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘
غیرشادی شدہ آدمی ہر وقت شیطان کے نرغے میں رہتاہے۔جوانی کا فطری تقاضا ، خیالات اور جذبات کو غلط راہوں پر ڈال سکتاہے۔ خصوصاً بے حیائی کے اِس ماحول میں، جب کہ جذبات کو بہکانے اور بھڑکانے کا سامان ہر طرف موجود ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو زیادہ عرصے تک ازدواجی زندگی سے محروم رکھنے سے معاشرے میں بڑی گھناؤنی اخلاقی بیماریاں نشوونما پاتی ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: وَلاتَقربُوالزِّنیٰ اِنَّہ‘ کَانِ فاحِشہ ط وَسَآئَ سَبِیلاً اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کاکام ہے، بڑا ہی بُرا راستہ ہے۔ اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے کے لیے جہاں یہ تدبیر بتائی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہوں کو بچاکر رکھیں وہیں نکاح کو عملی ذریعہ بتایاگیا۔ سورۂ المؤمنون میں کامیاب اہل ایمان جو آخرت میں جنت کے وارث بنیں گے، کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ عملی ذریعہ کیا ہے۔ اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کااَلَاعْلٰی اَزْوَاجِھِمْ سوائے اپنی بیویوں/شوہروںکے۔ زوج سے تعلق ہی شرم گاہوں کی حفاظت کا عملی ذریعہ ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے امت کو یہ ہدایت دی کہ نکاح کو آسان بناؤ تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔ یہ بھی فرمایاکہ برکت کے لحاظ سے بہترین نکاح وہ ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو۔
آج امت نے نبی کریمﷺ کی ان ہدایات کو نظرانداز کرکے اپنی بداعمالیوں کے ذریعے نکاح کو مشکل بنادیا ہے۔ حال یہ ہے کہ چاہے بال بال قرض میں ڈوب جائے ، مکان جائیداد بک جائے یا گروی رکھنے کی نوبت آئے، اولاد کے لیے ترکہ میں چھوڑنے کے لیے کچھ نہ بچے، مگر رسموں، بدعتوں، نمود ونمائش کے ہنگاموں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے حیائی کے اس بُرے راستے کی طرف جارہے ہیں۔ یہ راستہ ان کے لیے آسان ہوگیاہے، بالخصوص بڑے شہروں میں۔ اللہ تعالیٰ ملّت کے نوجوانوں کی حفاظت فرمائے۔
ابوہریرہؓ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین طرح کے لوگوں کی مدد اللہ نے اپنے ذمّے لے لی ہے۔ اس میں سے ایک وہ آدمی ہے جو عفت اور پاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کے لیے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ ﴿مگر غریبی رکاوٹ ہے﴾۔‘‘
سورۂ البقرہ، آیت: ۱۸۶ روزوں سے متعلق مسائل کاذکر کرتے ہوئے فرمایاگیاکہ تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیاگیاہے۔ ھُنّ لِباسٌ لَکُمْ وَ اَنْتُم لِباسٌ لَہُنَّ ط وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس۔ جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا باہمی تعلق ہے۔ لباس کا نمایاں پہلو آدمی کے جسم کے لیے ساترہونا ہے جس سے عیوب کی پردہ پوشی ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے جنسی جذبات کے لیے پردہ فراہم کرتے ہیں۔
بہرحال نکاح کا پہلا اور اہم مقصد ہر مومن مرد اور عورت کے اخلاق کی حفاظت اور اس کے ذریعے سے پورے معاشرے کو فتنہ و فساد اور اخلاقی بگاڑ سے محفوظ رکھنا ہے۔
۲-سکون و راحت کا حصول
نکاح کا دوسرا اہم مقصد سکون و راحت کاحصول ہے۔ زندگی نام ہے سخت محنت و مشقت کاآدمی دن بھر محنت کرتا ہے رزق حلال کے حصول کی کوشش میں ملازمت ،کاروبار ،تجارت، محنت ومزدوری کرتے ہوئے وہ تھک جاتاہے۔ اسی طرح عورت گھر کی ذمّے داریوں کو ادا کرتے ہوئے تھک جاتی ہے۔ دونوں کو آرام کی، سکون و راحت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں نیند کو تھکان دور کرنے کا ذریعہ بنایا، تاکہ وہ دوسرے دن کے لیے تازہ دم ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکے، وہیں اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنایا۔ سورۂ الاعراف، آیت ۱۸۹ میں فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْْہَا ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنت سے اس کاجوڑا بنایا۔ تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔‘‘
اور یہ راحت و سکون صرف جنس تعلق ہی کو نہیں بلکہ آپس کی محبت اور رحمت کو قرار دیا۔ وجعل بینکم مودہ و رحمہ ط اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی اور اس رحمت ومحبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قرار دیا۔ان فی ذلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر سے کام لیتے ہیں۔ دو اجنبی رِشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیںتو ان کے درمیان جو محبت اور الفت پیداہوتی ہے وہ غیرمعمولی ہوتی ہے۔ یہ ہے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی۔
۳-نسل انسانی کو پھیلانے کا ذریعہ
پہلے انسان حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی حواؑ کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنی قدرت کاملہ سے پیداکیا۔ سورہ النساء کی پہلی آیت میں فرمایا: یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ عورت مرد کے جائز تعلق و پاکیزہ مقدس رشتے کے ذریعے بہت مرد اور عورت دنیا میں پھیلادیے۔ سورہ فاطر میں فرمایا: وَاللّٰہ خلقکم من تراب ثم من نظفت ثم جعلکم ازواجاًط اللہ نے تم کو مٹی سے پیداکیا۔ پھر نطفہ سے پھر تمہارے جوڑے بنادیے۔ سورہ الدھر میں فرمایا: اناخلقناالانسان من نطفۃ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیداکیا۔ بیوی اور شوہر کے باہمی تعلق سے خانہ آبادی کے نظام کی تکمیل ہوتی ہے۔ نسل انسانی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہے۔ حضورﷺ نے اولاد کی کثرت کو پسند فرمایا: اس کی ترغیب دلائی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم بہت زیادہ پیارکرنے والی، زیادہ بچے جننے والی سے شادی کرو، تمہاری کثرت کی وجہ سے میں کہہ سکوںگا کہ میرے پیروکاروں کی تعداد دوسری امتوں سے زیادہ ہے۔ مگر افسوس آج مسلمان پروپیگنڈے سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی جیسی خوبصورت اصطلاحوں کے فریب کا شکارہوگئے ہیں۔
نبی کریمﷺ کے زمانے میں افلاس کے ڈر سے بچوں کو قتل کردیاجاتاتھای، کہاں سے لائیںگے، کیاکھلائیں گے۔ قرآن نے رہ نمائی دی: ولاتقتلوا اولادکم خشیہ املاق ط اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ پھر ہمت بندھائی اور فرمایا۔ نحن نرزقھمہ م وایاکمط انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی بتایاکہ ان قتلہم کان خطاکبیراً ﴿بنی اسرائیل:۲۱﴾ درحقیقت انکا قتل ایک بڑی خطا ہے، بڑے گناہوں میں سے ہے۔
آج جہاں یہ فریب دیاجارہاہے کہ معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کرو۔ اولاد کم سے کم بہت چھوٹا خاندان ہو تاکہ ان کی ضروریات زندگی آسانی سے فراہم کی جاسکے۔ وہیں یہ دیکھاجارہاہے مسئلہ صرف اِفلاس کا نہیں ہے ۔ بلکہ آرام و آسائش کاہے۔ یہ خطرناک رجحان پروان چڑھاہے کہ زیادہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیںگے۔ Luxury Lifeگزارنے کا جو کلچر پیدا ہواہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور خوش حال ہے، اتنی ہی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی درجے میں متوسط طبقے میں پائی جاتی ہے۔ آج بھی غریب طبقے میںاولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش وعشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
حضرت عمرؓ کے بارے میں آیاہے کہ وہ کہاکرتے تھے کہ میں شادی کرتاہوں حالاں کہ اب مجھے اس کی خاص ضرورت نہیں۔ میں عورتوں ﴿بیویوں﴾ سے تعلق قائم کرتاہوں حالاں اس کا شوق نہیں ہے۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا۔ امیرالمومنین پھر آپ کو کون سی چیزآمادہ کرتی ہے؟ فرمایا: مجھے اس چیز کا شوق ہے کہ میری اولاد کثرت سے ہو، نبی کریمﷺ قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر باقی امتوں کے مقابلے میں خوشی اور فخر کااظہار کریں گے۔ اس میں میرابھی حصہ ہو۔ کتنا بلند اور کتنا پاکیزہ ہے حضرت عمرؓ کا نقطۂ نظر۔
اس طور کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے۔ یہ زحمت نہیں اللہ کی رحمت ہے۔ نکاح کے اس اہم مقصد کا شعور مسلمانوں میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
شریک زندگی شریک مقصد
نکاح کا چوتھا اور سب سے اہم مقصد زندگی میں ایک دوسرے کی شرکت و مدد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کا مقصد اپنی بندگی بتایا: وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون
مرد کی زندگی کا مقصد بھی اللہ کی بندگی ہے اور عورت کی زندگی کا بھی۔ اب وہ دونوں شریک زندگی بنے ہیں تو وہ اب شریک مقصد بھی ہیں۔ بندگی کے مقصد کو پورا کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار۔ سورہ توبہ ، آیت :۷۱ میں فرمایا: والمؤمنون والمومنٰت بعضھم اولیائ بعض مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی رفیق، و مددگار ہیں۔ یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر و یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃ و یطیعون اللہ رسولہ ط
بھلائیوں کا حکم دینے اور بُرائیوں سے روکنے کے معاملے میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار نماز کو قائم کرنے اور زکوٰۃ کی ادائی کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور اللہ سے رسول کی اطاعت کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے ولی۔ اس آیت میں مومن مردوں اور عورتوں کی جو مشترکہ خصوصیات بتائی گئی ہیں وہ ایک اسلامی معاشرے کی عمومی کیفیت ہے۔ ایک بھائی اور ایک بہن ایک دوسرے کے معاون، ماں باپ اور اولاد اور قریبی رشتے دار ایک دوسرے کے معاون ومددگار اسی طرح ایک اسلامی تحریک سے وابستہ مرد اور عورتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں ذمے داریوں کو ادا کرتے ہوئے حسب ضرورت ایک دوسرے کے معاون۔ ان عمومی کیفیات میں جو پہلو خصوصیت کاحامل ہے وہ ہے شوہر اور بیوی کے درمیان تعاون۔
نبی کریمﷺ کی ایک حدیث میں اس کی بڑی عمدہ مثال سامنے آتی ہے۔ حدیث کامفہوم یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتاہے، اس بندے پر جو راتوں کو اٹھتاہے اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہوتاہے، محض خود کھڑا نہیں ہوتا، اپنی بیوی کو جگاتاہے اور اگر وہ تھکان کی وجہ سے گہری نیند سورہی ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتاہے اور کہتاہے کہ اے اللہ کی بندی اٹھ اور تو بھی اللہ کی بارگاہ میں کھڑی ہوجا۔ آپﷺ نے فرمایا: اس طرح اللہ رحمت نازل فرماتا ہے۔ اس بندی پر جو راتوں کو اٹھتی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑی ہوتی ہے اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے اور اگر وہ گہری نیند میں ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے اور کہتی ہے کہ اے اللہ کے بندے اٹھ اور کھڑے ہوجا اللہ کی بارگاہ میں۔
نوافل کے سلسلے میں یہ اہتمام ہوتو فرائض میں یہ تعاون عروج پر ہوگا اور ہوناچاہیے یہ تعاون پہلے انسانی رشتے کے آغاز ہی سے ہمیں نظرآتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بنایا، انھیں سے ان کا جوڑا بنایا۔ جنت میں آدمؑ کو اپنی بیوی حوا کے ساتھ داخل کیاگیا۔ جنت کی نعمتوں سے استفادے کا موقع دونوں کو ملا۔ ایک درخت کے قریب نہ جانے اور اس کا پھل نہ کھانے کی ہدایت دونوں کی دی گئی۔ قصور دونوں سے ہوا۔ شیطان کے بہکاوے میں دونوں آگئے اور درخت کا پھل کھالیا۔ شرمندگی و ندامت کا احساس دونوں میں پیداہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر رحم آیا۔ اس نے ان کو توبہ کے کلمات سکھائے اور ان دعائیہ کلمات کو ادا کرکے دونوں نے اپنے رب سے مغفرت و رحم کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی دعا قبول فرمائی۔ پھر جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجاگیاتو دنیا میں زندگی کے آگے کے مراحل دونوں نے مل کر طے کیے۔
اسی طرح انبیائ کی سیرتوں کے ذریعے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی ازواج کا﴿بہ استثنا نوحؑ و لوطؑ ﴾ اُنھیں بھرپور تعاون ملا۔ نمایاں مثال تو حضرت ابراہیمؑ اور ان کی ازواج سارہ وہاجرہ کی ہے کہ راہِ دین کی ہرجدوجہد و آزمائش میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات میں نمایاںا مثال حضرت خدیجہؓ کی ہے، جنھوںنے دکھ درد ہر آزمائش میں نبی کریمﷺ کا بھرپور ساتھ دیا۔ آپﷺ کو حوصلہ دیا، اپنا مال دیا، ہر طرح سے مدد کی۔ اس طرح صحابہ کی پرتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بحیثیت شوہر اور بیوی کے دین کے جملہ فرائض و ذمے داریوں کی ادائی میں اہلِ ایمان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ حضرت عثمانؓ و رقیہؓ ، ام سلمائ ابوسلماء، ام سلیمہ و ابوطلحہ۔ فہرست طویل ہے۔
زندگی کے مقصد کی تکمیل میں۔ تعاون و مدد بہت ضروری ہے اس لیے نبی کریمﷺ نے رشتوں کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت دین اور اخلاق کو دینے کی ترغیب دلائی۔ آپﷺ نے فرمایا: عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیاجاتاہے، مال کی وجہ سے، خاندانی شرافت کے باعث، اس کے حسن وجمال کے سبب اور اس کی دینداری کی بنیاد پر۔ تم دیندار عورت کو حاصل کرو۔ دیندار عورت سے مراد پاک دامن، سنجیدہ مزاج، نیک سیرت اور دین کے کام میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے والی۔ اور یہی اصول شوہر کے انتخاب کے سکسلے میں بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ جتنا مرد کے لیے ایک دیندار عورت ضروری ہے، اتنا ہی ایک عورت کے لیے دیندار مرد ضروری ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس وہ آدمی نکاح کاپیغام لائے، جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کردو اور اگر تم ایسا نہ کروگے تو ملک میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
غرض شادی بیاہ صرف لطف لذت کے حصول کاذریعہ نہیں ، بلکہ اخلاق کی حفاظت کا، مرد اور عورت کے لیے راحت و سکون کے حصول کا، نسل انسانی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا اور ایک دوسرے کی مدد و تعاون کے ذریعے مقصد زندگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
آخر میں یہ کہناہے کہ نکاح کی کارروائی انجام دینے میں عموماً تاخیر ہوتی ہے۔ لوگ دلہا کا بعض اوقات قاضی صاحب کا گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوگا کہ کارروائی وقت پر ہو، خطبہ نکاح سے پہلے یا بعد پندرہ بیس منٹ کے وقت میں شوہر بیوی کے حقوق فرائض، ذمّے داریاں، مہر کی اہمیت، وغیرہ پر اظہار خیال کیاجائے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2010