حضرت مولانا صدرالدین اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ مضمون ماہ نامہ زندگی رام پور کے نومبر دسمبر ۱۵۹۱ اور جنوری ۲۵۹۱کے شماروں میں شائع ہواتھا۔ اس کی افادیت کے پیشِ نظراِسے دوبارہ زندگیِ نو میں شائع کیاجارہا ہے۔ ﴿ادارہ﴾
اسلام اور جاہلیت کافطری تضاد
ہرشئے اپنی ضد کی دشمن ہوتی ہے۔ اس کا موجود ہونا اس بات کو لازم ہے کہ اس کی ضد معدوم ہو۔ روشنی وہاں نہیں پائی جاسکتی جہاں تاریکی مسلط ہو۔ اس کے پائے جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس جگہ سے تاریکی کافور ہوجائے۔ یہ عقل اور منطق کے بدیہات میں سے ہے۔ اسلام بھی ایک مثبت حقیقت ہے اور وہ بھی اپنی ایک ضد رکھتاہے، جس کو اس کی زبان میں جاہلیت، طاغوت اور باطل وغیرہ کے ناموں سے یادکیاجاتا ہے۔ جب ہر شئے اپنی ضد کی دشمن ہوتی ہے تو عقل کہتی ہے کہ اسلام بھی اپنی ضد کو گوارا نہیں کرسکتا اور اگر دنیا میں ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ضد کے ساتھ ہم سازی کرسکے، اس سے گلے مل جائے اور اس کی موجودگی میں خود موجود رہے تو اسلام کے بارے میں یہ کلّیہ ٹوٹ نہیں جائے گا۔ لازماً جہاں اسلام ہوگا وہاں جاہلیت نہ ہوگی اور جس گوشے میں جاہلیت ہوگی وہاں اسلام نہ ہوگا۔ جبر کی بات دوسری ہے۔ معذوریوںکی بحث کو ابھی نہ چھیڑیے، اپنی ذمے داریوں کاسوال بھی ابھی خارج ازگفتگو رکھیے۔ اس وقت کہنا صرف یہ ہے کہ اصولی طورپر اسلام وہیں ہوگا جہاں غیراسلام نہ ہوگا، جہاں کفر نہ ہوگا، جہاںشرک نہ ہوگا، جہاں الحاد نہ ہوگا، جہاں طاغوت کی پوجا نہ ہوگی اور جہاں جاہلیت کی کارفرمائی نہ ہوگی۔ دونوں کاایک ساتھ پایاجانا بداہتاً غلط اور ناممکن ہے۔ تضاد ان کی عین فطرت میں ہے اور تصادم اس فطرت کا عین مقتضاہے۔
تضاد کی حدیں
کیا اس تضاد اورتصادم کی کچھ حدیں بھی ہیں؟ کیا کچھ خاص دوائر ہیں کہ صرف انھی کے اندر یہ دونوں باہم نبردآزما ہوتے ہیںاور اپنے حریف کو نیست ونابود کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور باہر کی دنیا میں ایک دوسرے کے وجود یا عدم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا؟ کیا ہماری زندگی کے چند گوشے ایسے ہیں جہاں یہ ضدّین، یا دونوں حریفِ ازل اپنی اپنی ہستی کے لیے کشمکش کرتے ہیں اور باقی ساری زندگی اس کشاکش پیہم سے محفوظ ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں اس سوال کا نہایت واضح جواب معلوم کرنا چاہیے ، کیوں کہ بڑی حد تک اس جواب پر نتیجے کی نوعیت موقوف ہے۔ اگر یہ جواب اثبات میں ہے تو فیصلے کی نوعیت بالکل دوسری ہوگی۔ یعنی ہمیں بلاکسی دلیل و برہان کے یہ مان لینا پڑے گاکہ اسلام اور جاہلیت میں تو افق کے کافی امکانات ہیں۔ زندگی کے چند مخصوص شعبے اگر مسلسل اور ناقابل مصالحت تصادم کے میدان ہیں تو کیاہوا؟ متعدد شعبے ایسے بھی ہیں، جہاں ان میں کوئی ٹکرائو نہیں، ایک دوسرے سے نہ کوئی تعرض ہے، نہ اس کی ذات سے کوئی پرخاش۔ لیکن اگر جواب نفی میں ہوتو صورت حال یکسر پلٹ جاتی ہے اور دونوں کا تصادم مقامی اور محدود نہیں رہ جاتا، بل کہ عام اور ہمہ گیر اور حدود ناآشنا ہوجاتا ہے۔
اس ‘نفی یا اثبات’ کافیصلہ صرف ایک بات پر، بل کہ یوں کہیے کہ ایک اور سوال کے جواب پر موقوف ہے اور وہ یہ کہ خود اسلام کیاہے؟ اس کے حدودِ اثر و عمل کیا ہیں؟ انسانی زندگی کے کتنے گوشوں سے وہ تعلق رکھتااور بحث کرتاہے؟ اگر بات یوں ہوکہ اسلام ہماری زندگی کے صرف بعض ہی پہلوئوں سے تعلق رکھتاہے اور اس کو محض ہمارے تھوڑے سے عقایدمابعد الطبیعی اورچند رسومِ مذہبی سے واسطہ ہے تو مذکورہ بالا بحث کافیصلہ یقینا اثبات میں ہے اور ہمیں ماننا ہوگا کہ اسلام اور جاہلیت میں تعاون یا کم از کم پرسکون عدمِ تعرض کاایک بڑا وسیع میدان موجود ہے۔ لیکن اگر امرِ واقعہ یوں ہوکہ اسلام ہماری زندگی کاایک مکمل رہنما اور نگراں ہے اور وہ ہمیںایک جامع دستورِ حیات دے کر اس کی مکمل پیروی کا مطالبہ کرتا ہے تو فیصلہ بھی نفی میں ہوگا اور ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام اور جاہلیت کی معاندانہ کش مکش نہ کبھی ختم ہونے والی ہے، نہ کسی خاص دائرے تک محدود ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اسلام کے حدودِ اثر و عمل کیا ہیں؟ تو جس شخص کی بھی نظر اسلام کے اصل مآخذ، کتاب اور سنت پر ہوگی، وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگاکہ اسلام صرف عقاید و عبادات کا نام نہیں ، بل کہ اس کی وسعتوں میں پوری حیاتِ انسانی، بل کہ ساری کائنات سمائی ہوئی ہے۔ وہ ایک جامع دستور اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسانی زندگی کے جملہ اطراف کو اس کے عقاید و نظریات کو، اس کے رسوم و عبادات کو، اس کے تمدنی اور معاشرتی معاملات کو، غرض سارے ہی انفرادی و اجتماعی مسائل کو محیط ہے۔ اس کے پاس اپنا ایک نظام تمدن اور ایک نظام حکومت ہے۔ وہ دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ حیاتِ انسانی کاپورا نقشہ اسی کے اصول اور خاکے پر مرتب ہو اور اگر لوگ نہ صرف اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر خدا کی پرستش ہی کریں بلکہ اسی کے دیئے ہوئے دستور کے مطابق اپنی پوری کی پوری زندگی بسر بھی کریں۔ گھریلو معاملات اس نہج پر انجام پاجائیں جو اس نے بتایاہے، لین دین ان حدود کے اندر ہو جو اس نے قائم کیے ہیں، بستیوں اور مملکتوں کانظمِ سیاست وہ ہو جو اس کے آئین میں موجود ہے، حکومت اس طرح کی جائے جس طرح اس کی ہدایت کاتقاضا ہے، معاملات کے فیصلے ان قوانین کے مطابق کیے جائیں جو اس کی کتاب میں درج ہیں۔ وہاں کٹ جائو جہاں وہ کٹ جانے کاحکم دیتا ہو اور وہاں جڑجائو جہاں اس کا منشائ ہو کہ جڑجایاجائے۔ اسلام کو برحق ماننا یا نہ ماننا ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام اپنے منہ سے ایسا ہی کچھ ہے۔ وہ فی الواقع انسان کی پوری زندگی پر بلاشرکتِ غیرے فرماں روائی کرناچاہتا ہے۔ اس کی اس کلیت پسندی پر کوئی جمہوریت کا دلدادہ اگر احتجاج کرنا چاہے تو کرلے، مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتاکہ حقیقتِ اسلام کی یہ ترجمانی صحیح نہیں ہے۔ ہمیں جس طرح اسلام کی حقانیت پر یقین ہے اسی طرح اس کی جامعیت کابھی اِذعان ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مسلمان اس اِذعان میں ہمارا برابر کا شریک ہے۔ اسی لیے خاص اس نظریے نہیں، بلکہ عقیدے پر کوئی ثبوت پیش کیے بغیر ہم آگے بڑھیں گے۔ کیوں کہ ہمارے خیال میںکم از کم ہر مسلمان کے نزدیک یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اس پر ثبوت مہیا کرنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے۔ تاہم اگر کچھ لوگ اس کے خلاف گمان رکھنے والے ہوں توہم ان سے معذرت کریں گے کہ وہ اس وقت سرے سے ہمارے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ بل کہ ہمارا یہ تخاطب تمام تر صرف ان لوگوں سے ہے جو کم از کم اس مسئلے پر ہمارے ساتھ ہیں۔
جب یہ بات معلوم ہے کہ اسلام ہماری پوری زندگی پر حاوی ہے تو اس کامطلب یہ ہواکہ اسلام اور جاہلیت کافطری تضاد ہرچہار طرف کارفرماہوگا۔ کوئی سمت نہ ہوگی جہاں ان میں تصادم اور مسلسل کشمکش نہ ہو۔ جہاں اس تضاد و تصادم کے لازمی نتائج نمودار نہ ہوں اور جہاں ایک کا وجود یہ معنی نہ رکھتا ہو کہ ازروے حقیقت دوسرا معدوم ہے۔ غرض جب اسلام زندگی کے سارے شعبے اپنے زیرنگیں رکھناچاہتاہے تو کسی شعبے میں اس کے سکّے کا نہ چلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کفر و جاہلیت کامحروسہ ہے اور ایسا نہ ہونا اسلام کے لیے فطری طورپر ناقابلِ برداشت ہے، ہمیشہ کے لیے ناقابل برداشت ، خواہ اس کے پست ہمت پیرو مرورِ زمانہ سے اپنے احساس کی لطافت کیوں نہ کھوبیٹھیں اور رفتہ رفتہ اس نادیدنی صورتِ حال کو معمولی اور قابلِ برداشت ہی کیوں نہ سمجھ لیں۔
جاہلیت کے ساتھ اسلام کی پالیسی
یہی وجہ ہے کہ اسلام کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی جاتی جب تک جاہلیت سے کلی علاحدگی اور بے زاری نہ ہوجائے۔ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ اس عقیدۂ توحید کااظہار جن لفظوںمیں کیاجاتاہے وہ لَآاِلٰہ اِلّاَاللّٰہ ﴿اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں﴾کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کاجائزہ لیجیے اور ان کے معانی پر غور کیجیے۔ بات یوں نہیں فرمائی گئی کہ ’’اللہ ایک ہے‘‘ ﴿اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ بل کہ اس طرح کہی گئی ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوا اللہ کے‘‘ معلوم ہواکہ قرآن حکیم اسلام کی بنیاد رکھنے سے پہلے جاہلیت کی بیخ کنی ضروری سمجھتاہے اور اللہ تعالیٰ کی معبودیت کے اثبات پر ہرغیراللہ کی نفی کو مقدم ٹھہراتا ہے۔ ٹھیک یہی بات ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ:
فَمَنْ یَّکفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ بِاللّہِ ﴿البقرہ: ۲۵۶﴾
’’جو شخص طاغوت سے کفرکرتاہے اور اللہ پرایمان رکھتاہے۔‘‘
حقیقتِ توحید کی ان قرآنی تعبیرات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بنائے اسلام و ایمان میں ’’طاغوت سے کفر‘‘ یعنی جاہلیت سے کنارہ کشی کی کیا اہمیت ہے۔ اگر کوئی منفی حقیقت کسی مثبت شئے کی بنیاد ہوسکتی تو بلا خوفِ تردید کہاجاسکتاتھا کہ اسلام کی خشتِ اوّل جہل وطاغوت کایہی انکارہے۔ کیوں کہ ایمان باللہ کاذکر بھی قرآن مجید کفر بالطاغوت کے بعد کرتاہے اور یہ ٹھیک اس کلی ضابطے کے مطابق ہے، جس کاہم نے اوپر حوالہ دیاہے۔ یعنی یہ کہ کسی شئے کے وجود کے لیے اس کی ضد کامعدوم ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ایمان باللہ کا وجود اس امر کو مستلزم ہے کہ ذہن ایمان بالطاغوت کی نجاستوں سے آگاہ ہوچکاہو۔
یہ تو ہوا اسلام اور جاہلیت کے مکمل تضادِ فطری کااجمالی بیان، اسی پر تفصیلات کو بھی قیاس کرلیجیے۔ یہ ایک نہایت موٹی سی بات ہے کہ جن دو چیزوں میںبنیادی اختلاف اور فطری تضاد ہو ان کے لوازم، تفصیلات اور جزئیات کے اندر بھی ہم آہنگی نہیں ہوسکتی۔ بنیاد کااختلاف جتنا گہرا اور سنگین ہوگا، فروع میں ہم آہنگی اتنی ہی زیادہ ناممکن ہوگی۔ اسلام اور جاہلیت میں جو زبردست فطری تضاد ہے وہ آپ پر روشن ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیوں کر باور کیاجاسکتاہے کہ اسلام جاہلیت کی مختلف صورتوں میں سے کسی صورت کو اور اس کے بے شمار لوازم میں سے کسی لازمے کو اپنی مرضی سے زندہ رہنے کااذن دے گا۔ چنانچہ اس نے نہ صرف یہ کہاہے کہ ان کے قریب نہ جائو بل کہ یہ بھی فرمایاکہ ان کے ارتکاب میں معاونت تک نہ کرو، کہ جبینِ ایمانی پر یہ ایک شرمناک داغ ہوگا:
وَلاَ تَعاَوَنُوْا عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴿المائدہ: ۲﴾
’’اورگناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘
گناہ اور ظلم وزیادتی کے کام اور جاہلیت کے کام، دونوں ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ بقول امام بخاری اَلْمَعَاصِیْ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلیَّۃِ ’’معصیتیں جاہلیت کے کام ہیں‘‘ ﴿بخاری کتاب الایمان﴾ اس لیے اگر اس آیت کامطلب اس طرح بیان کیاجائے تو کوئی فرق نہ واقع ہوجائے گا ’’جاہلیت کے کاموں میں سکی کے ساتھ تعاون نہ کرو۔‘‘
اس پالیسی کی عملی مثالیں
گناہ یا زیادتی کے کاموں میں یا جاہلیت کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کی عملی شرح کیاہے؟ اسے مثالوں کے ذریعے اور خود ارشاداتِ رسول ﷺکی روشنی میں دیکھیے۔
سود خوری، جو ایک گناہ کاکام ہے اور جاہلیت کالازمہ، اس کے بارے میں حضرت جابرؓ فرماتے ہیں :
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰک ِلَ الرِّبٰوا وَمُوکِلَہ’ وَکَاتِبَہ’ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَائٌ ﴿صحیح مسلم کتاب الساقاۃ والمزارعتہ، باب الربا﴾
’’اللہ کے رسول ﷺنے لعنت کی ہے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سودی دستاویز لکھنے والے پر اور سودی معاملے کے گواہوں پر اور فرمایاکہ یہ سب اس گناہ میں یکساں شریک ہیں۔‘‘
ایک دوسرے گناہ شراب خوری کے متعلق آنحضرت ﷺکا ارشاد ہے:
لَعَنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ وَشَارِبَھَاوَسَاقِیَہَا وَبَائِعَہَاوَمُبْتَاعَہَاوَعَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَھَاوَحَامِلَہَاوَالْمَحْمُوْلَۃَ اِلَیْہِ۔ ﴿صحیح مسلم، کتاب الاشربتہ باب العنب بعصر الخمر﴾
’’اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے نچڑوانے والے پر، اس کے اٹھاکر لے جانے والے پر اور اس شخص کے اوپر جس کے یہاں لے جاکر رکھی جائے۔
ان الفاظ سے اندازہ کیجیے کہ گناہ توگناہ ، اعانتِ گناہ بھی کتنی مہلک چیز ہے اور اعانت بھی کیسی اعانت؟ بس کسی شرابی کو شراب کاپیالہ تھمادیجیے یا بازار سے خریدکر لادیجیے، یا کشید کردیجیے، کسی سودی دستاویز کو لکھ کر دیجیے یا اس پر گواہی کادستخط بل کہ انگوٹھے کا نشان ہی دے دیجیے۔ کیا معاذ اللہ، ْْخاکم بدہن یہ رسول خدا ﷺکانرا جوشِ خطابت تھا، جو آپ نے شراب اور سود کے بارے میں ایسے تیز وتند کلمات ارشاد فرمائے ہیں؟ حاشاو کلّا، کہ کسی ایسی بدگمانی کاکوئی مسلمان تصور بھی کرسکے۔ یقینا آپ نے ان کلمات میں دین کی وہی اصولی حقیقت بے نقاب فرمائی ہے، جس کا آیت مذکور بالا سے اجمالی تعارف ہوتاہے۔ درحقیقت ان دونوں حدیثوں کی حیثیت اسی آیت وَلَاتَعَاوَنُوْاعَلَی الِاثْمِ وَالْعُدْوَان کی مثال کی سی ہے اور انھی پر دوسرے امورِ معصیت کو قیاس کرناچاہیے۔
یہ گمان نہ ہو کہ چوں کہ دوسرے معاصی کاآپ نے اس طرح دکر نہیں فرمایاہے، اس لیے کیا عجب، جو یہ وعید انھی دوچیزوں کے حق میں مخصوص ہو۔ کیوں کہ یہ گمان اسی وقت کیاجاسکتا ہے جب یہ مان لیاجائے کہ احکامِ شرح اور ہدایاتِ رسول میں نیکی ، بدی یانفع و نقصان کاکوئی بنیادی فلسفہ کام نہیں کررہاہوتا ہے اور وہ اپنی تہہ میں نہ کوئی سِرّ رکھتے ہیں نہ کوئی علّت۔ مگر کون مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں اس گستاخی اور دریدہ دہنی کی تاب لاسکتا ہے۔ پس یہ حقیقت سے بہت بعید ہے یہ شدت وعید صرف انھی دو چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ یہ کسی متعین اصول کے تحت ہے نہ کسی خاص علّت کی بناپر۔ بل کہ واقعہ یہ ہے کہ ایسا جو فرمایاگیاتو اسی وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلَی اْلِاثْمِ وَالْعُدْوَانِ کے اصول کے تحت فرمایاگیا، اور سودی معاملات کی دستاویز نویسی اور گواہی جیسی بظاہر بالکل معصوم باتوں کو اگر سزاوارِ لعنت بنایاگیاتو اسی لیے کہ اگر چہ وہ بہ جائے خود معصیت نہیں مگر ان میں ارتکابِ معصیت کی معاونت پائی جاتی ہے اور جب حقیقت نفس الامری یہ ہے تو کھلی بات ہے، جہاں بھی یہ علّت پائی جائے گی اور جس جگہ بھی یہ اصولِ تعاون منطبق ہوتانظرآئے گا، وہاں لازماً یہی حکم لگایاجائے گا جو سود و شراب کے سلسلے میں لگایاگیا ہے۔ یہی خفی نہیں بل کہ نہایت جلی قیاس ہوگا۔ ہاں نہ سارے گناہ ہی ایک درجے کے گناہ ہیں نہ ان کی اعانت ہی یکساں درجے کی معصیت ہے، حتیٰ کہ خود ایک گناہ کی اعانت کی جو مختلف شکلیں ہوتی ہیں، ان سب کی شناعت بھی ہم مرتبہ نہیں۔ شراب پینے والے کے حصے میں جو لعنت آئے گی وہ پلانے والے کے حصے میں نہیں ہوسکتی، سود خوار جس غضبِ الٰہی کامستحق ہے گواہ اس کاسزاوار نہیں بن سکتا۔ اس طرح جو گناہ شراب نوشی اور سود خواری سے نسبتاً ہلکے گناہ ہیں ان کی سزا بھی ان کے ارتکاب کاتعاون ہے۔ مگر بہ ایں ہمہ یہ بات اپنی جگہ ناقابل انکار ہے کہ گناہ خواہ کوئی ہو اس کے ارتکاب میں معمولی سے معمولی تعاون بھی بجائے خود ایک گناہ ہے، جاہلی حرکت ہے، جرم ہے اور اسلام کے خلاف جرم ہے۔
امثلۂ مذکورہ کاسببِ انتخاب
لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ ضرورقابلِ غور ہے کہ وہ کیا خاص بات تھی ، جس کی بنا پر آنحضرت ﷺے تعاون علی الاثم کی تفصیل بیان کرنے کے لیے بطور مثال انھی دو امورِ معصیت کو منتخب فرمایا؟ تو بات دراصل یہ تھی یہ وہ جرائم ہیں جو اہل عرب کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، نسلوں سے لوگ ان کے رسیا چلے آرہے تھے، ان کے نظام معاش و تمدن میں یہ ریڑھ کی ہڈی بن چکے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ ان کی بابت فسق ومعصیت ہونے کا تصور بھی ذہنوں سے محو ہوچکاتھا۔ سود کے بارے میں ان کا یہ معاشی تبصرہ قرآن میں اب تک محفوظ ہے کہ اِنّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَوا ’’بیع و شرا تو سود ہی کے ہم مثل ہیں‘‘ ﴿البقرہ:۵۷۲﴾۔
رہا شراب کامعاملہ، تو کچھ نہ پوچھیے کہ یہ اُمُّ الخبائث ان کی نگاہ میں کتنے بے شمار اخلاقی اور مادی محاسن کاپیکر تھی۔ ربا تو خیر حَد اباحت کے اندر ہی تھا اور اسے صرف ایک ناگزیر تمدنی و معاشی ضرورت کا نام دے کر مقبول عام بنادیاگیاتھا۔ مگراس جام وساغر نے تودینی تقدس پر بھی چھاپے مار رکھے تھے۔ شراب خوری عربی اخلاقیات میں اباحت کے مقام سے اٹھ کر استحسان کے مقام تک جاپہنچی تھی۔ بل کہ اس سے بھی آگے کسی اور بلند درجے پر فائز تھی۔ یعنی وہ ان کے خیال میں مکارمِ اخلاق کاسرچشمہ تھی، اس سے سخاوت، دریادلی اور غربا پروری کے سوتے پھوٹتے تھے، وہ جسم میں شہامت اور جاں بازی کی بجلیاں بھردیتی تھی۔ بھلا ایسی مقوّیِ بدن ہی نہیں، بل کہ ‘مقوی اخلاق’ شئے بھی قابل نفرت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ جب قرآن نے ابتداً اس کے مفاسد کی طرف اشاروں ہی اشاروں میں کچھ کہاتو اہل جاہلیت کو نہیں، خود اہل اسلام کو ایک تعجب سا ہوا اور جنابِ رسالت ﷺمیں یہ سوال پیش کرہی دیاگیاکہ ‘شراب کے بارے میں آخر شریعت کیا کہتی ہے۔’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالمَیْسِرِ‘‘ ﴿البقرہ:۲۱۹﴾ مطلب یہ تھاکہ شراب صفات عالیہ کاایک زبردست ذریعہ ہے، خالص دینی نقطۂ نگاہ سے بھی اس میں غیرمعمولی فائدے ہیں، پھر سمجھ میں نہیں آتاکہ اس کے حق میں وحی کے تیور بدلے ہوئے کیوں نظرآتے ہیں۔ ارشادہواکہ ’’اس میں بلاشبہ بہت سے خیرو منفعت کے پہلو ہیں، دنیوی اورمادی حیثیت ہی سے نہیں، بل کہ خالص اخلاقی اور دینی حیثیت سے بھی، مگر ان وجوہِ خیر کے مقابلے میں ان کے اندر جو وجوہِ شر ہیں، وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘ اس لیے اس کو ایک مستحسن فعل اور عادت سمجھنے کے فریب میں نہ رہو۔ اسے آج نہیں تو کل چھوڑنا ہی پڑے گا۔
قُلْ فِیْہِمَآَ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وََّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَاط﴿البقرہ:۲۱۹﴾
’’تو کہہ ، ان میں گناہ بڑا ہے، اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو اور ان کا گناہ فائدے سے بڑاہے۔‘‘
جو بُرائیاں بھلائیوں کا روپ اختیارکرلیتی ہیںاور سوسائٹی میں ان کو بہ نظرِ استحسان دیکھاجانے لگتاہے، ان کا رشتہ جذبات سے کتنا گہرا اور مستحکم ہوتاہے اور وہ کس طرح لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کرجاتی ہیں۔ اس لیے ایسی بُرائیوں کا مٹانا بڑا ہی دشوار کام ہے اور بڑی حکمتوں سے انجام پاتا ہے۔ چنانچہ شراب اور سود کے بارے میں جو یہ خاص رویہ شارعِ حکیم نے اختیارفرمایاکہ بتدریج اسے حرام کیا، وہ دراصل اسی وجہ سے تھا اور جب پوری سوسائٹی کی اچھی طرح ذہنی تربیت کرلینے کے بعد ان اشیا کی قطعی حرمت کاآخری فرمان جاری ہوگیا توضروری تھاکہ آیندہ کے لیے ان خیر نما مفاسد کی طرف جانے کے سارے دروازے انتہائی مضبوطی کے ساتھ بند کردیے جائیں۔ اس لیے نبی کریم ﷺنے ، جو معلّم حکمت بھی تھے اور مزکی نفوس بھی، وہ الفاظ فرمائے جن کاذکر اوپر آچکا ہے اور اس طرح کی وعیدیں سنائیں، جن کی نظیر نہیں ملتی۔
ایک اصولی نکتہ
مخصوص طورپر شراب اور سود کے بارے میں شارع علیہ السلام کی یہ شدتِ نکیر اصولِ تشریع کے ایک اہم نکتے کا پتادیتی ہے اور وہ یہ کہ بعض گناہوں کی شناعت اگرچہ بہ جاے خود بہت زیادہ نہ ہو، مگر بعض خارجی مصالح اور عوارض ایسے ہوسکتے ہیں، جن کی بنا پر شناعت المضاعف ہوجائے، یہاں تک کہ وہ ضرب المثل بن جائے۔ مخصوص مصالح سے قطعِ نظرشراب اور سودکا اپنا ذاتی مفسدہ قتل اور زنا جیسے گناہوں سے بہت ہلکا ہے۔ لیکن ان خاص اسباب و عوارض کی وجہ سے، جن کااوپر ذکر ابھی گزرا، شراب نوشی اور سود خوری کو ایسے مسلّم گناہوں سے بھی بدتر معصیت قرار دیاگیا۔ حتیٰ کہ ایک درہم سود کھانا چھتیس بار زنا کرنے سے بھی زیادہ قبیح فعل ٹھہرایاگیا۔﴿۱﴾ عادی مے نوش کی موت کو اگر اس نے توبہ نہ کی ہو، بت پرست کی موت سے تشبیہ دی گئی۔﴿۲﴾ ایسا کیوں ہوا؟محض اس بنا پر کہ ان چیزوں کی بابت یہ تصور ہی بھلادیاگیاتھاکہ وہ کوئی گناہ کے کام ہیں اور ایک مدت سے ان کے بارے میں یہ گمان کیاجارہاتھا کہ یہ تو ناگزیر تمدنی اور معاشی ضرورتیں ہیں اور فی الواقع دین و دیانت کے دائرۂ بحث میں ہیںبھی نہیں، یا پھر یہ مکارم اخلاق کاذریعہ ہیں۔
گویا اصول یہ ٹھہراکہ خواہ کوئی اپنی جگہ کم وزن ہی کیوں نہ ہو مگر جب اس کوقبول عام حاصل ہوجائے، اس کو معاشرت اور معاش کی ناگزیر ضڑورت کی حیثیت دے دی جائے، اس کو اخلاقی فضائل کاموجب قرار دے دیاجائے تو اس کاوزن اپنی فطری مقدار سے کہیں زیادہ ہوجائے گا۔ یہی حال نیکیوں کابھی ہے، ایک چھوٹی سی نیکی بھی بسااوقات مدارِ ایمان نظرآنے لگتی ہے۔ جب اس کو عام طور سے عملاً بے وقار سمجھ لیاجائے۔ ایک مٹی ہوئی سنتِ رسول ﷺکا ازسرنو زندہ کرنے والا سوشہیدوں کاثواب پاتے اگرسنا گیاہے تو اسی بنیاد پر اور اگر کبھی مسح علی الخفین تک کو ایمانیات کے بیان میں شامل فہرست کیاگیا ہے، تو اسی اصول کے تحت۔ ورنہ بہ جاے خود کہاں راہِ حق میں جانِ عزیز کاسو بار نثار کرنا اور کہاں کسی ایک جزوی سنت کااتباع، کہاں ایمان اورکہاں موزوں کامسح۔
نظام جاہلیت کے محکوم مسلمان
ان چند اصولی مقدمات کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اگر شامتِ اعمال سے کوئی مسلم گروہ کسی نظامِ جاہلی کامحکوم بن جائے تو اسے کیا کرناچاہیے؟ وہ اس نظام کو کس نگاہ سے دیکھے؟ اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے؟ تعاون کایا عدمِ تعاون کا؟
مناسب ہوگا کہ اس مہتم بالشان مسئلے پر غور کرنے سے پہلے نظامِ جاہلیت یا نظامِ غیراسلامی کامفہوم ذہن میں تازہ کرلیں اور جس وقت ہم کوئی رائے قائم کرنے جارہے ہوں، اس وقت یہ حقیقت ہماری نگاہوں کے سامنے اپنی پوری اہمیت کے ساتھ موجود ہو کہ کسی غیراسلامی نظام میں حکومت و سیاست کی بنیاد وہ نہ ہوگی جو اسلام نے مقرر کی ہے۔ حق حاکمیت اللہ تعالیٰ کا تسلیم نہ ہوگا، منبعِ قانون کتاب و سنت نہ ہوگی، دیوانی اور فوج داری ک قانون اسلام کے نہ ہوںگے ﴿اور اگر بعض کی شکل اسلامی ہوئی بھی تو اس کی بنا ہرگز اسلام کی نہ ہوگی﴾ آئینی اور غیرآئینی امور ، یعنی حلال وحرام کی تعیین شریعتِ محمدی سے بے نیاز ہوگی۔ مختلف مسائل زندگی میں ارباب اقتدار کافیصلہ ہی فیصلہ ہوگا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکو اس میں مشورہ دینے تک کابھی کوئی اختیار نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ خود مسلمانوں کے نجی اور اندرونی معاملات ﴿پرسنل لاز﴾ میں بھی انھیں ‘اسلام’ پر عمل کرنے کی جو آزادی ہوگی وہ حقیقتاً اس بنیادپر نہ ہوگی کہ یہ ان کے ‘حقوق’ ہیں ۔ بلکہ اس لیے ہوگی کہ اس نظامِ جاہلیت نے اپنے مغلوب حریف ﴿اسلام﴾ کو ازراہِ شفقت اس حد تک سانس لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔
جس نظام جاہلی کاہیولیٰ یہ ہو، اس کی صورت کو خواہ کتنا ہی دل کش بناکر کیوں نہ پیش کیاجائے، ایک مردِ مومن، مومن ہوتے ہوئے اس پر ریجھ جانے کے لیے آخر اپنے آپ کو کتنا فریب دے؟ جس نظام کے اندر دستوریہ، انتظامیہ، عدلیہ، سارے ہی کلیدی ادارے خدافراموش انسان کے خودساختہ اصولوں پر قائم ہوں، اسے ایک پیروِ اسلام کس نگاہ سے دیکھے؟ اگر چہ اس کاجواب طبعاً کچھ خوش گوار نہیں، مگر اس کے سوا اور کوئی جواب ممکن بھی نہیں۔
ظاہر ہے کہ جس اسلام کا تعاون علی الاثم کے بارے میں وہ رویہ ہو، جس کی ایک جھلک بعض لوازِم جاہلیت کے سلسلے میں ابھی آپ نے دیکھی، وہ اس مجسم جاہلیت کے ساتھ تعاون کانام بھی سننا کب گوارا کرے گا؟ ہاں اگر زندگی کے ان دائروں میں اس کے اپنے کچھ اصول و قوانین نہ ہوتے تو بلاشبہ اس ناگواری کی کوئی وجہ نہ تھی، مگر جب یہ ایک مسلم بات ہے کہ زندگی کاکوئی گوشہ نہیں جہاں اسلام ’’حاضر و ناظر‘‘ نہ ہو تو اس ناگواری کاہونا ہرحال میں لازمی ہے۔ غرض یہ ممکن نہیں کہ ایک مومن کسی بھی نظام جاہلی سے سکونِ قلب کے ساتھ تعاون کرسکے۔ ایک ہی سانس میں وہ اسلام کانمایندہ اور علم بردار بھی ہو اور اس کے حریف کا خیمہ بردار بھی۔ یہ ایک ناقابل تصوربات ہے۔ یا کم از کم یہ کہ ایک نادیدنی صورت حال ہے۔ ہمیں بتایاگیا ہے کہ منکر سے رکنا ہی نہیں، بلکہ روکنا بھی ایمان کالازمہ ہے۔﴿التوبہ رکوع:۱۰﴾ اور اس کے مٹادینے کے جذبۂ بے قرار سے خالی ہوجانا مرگِ ایمان کانشان ﴿مسلم﴾ اور اس کی طرف بلانا منافقین کاخاصا ہے۔ ﴿التوبہ رکوع:۱۰﴾ اور اس ‘منکر’ کی تعریف ہمارے علمائ نے یہ کی ہے کہ ‘ہر وہ چیز منکر ہے جس کو شرع رد کردے یا عقل سلیم ٹھکرادے’ ﴿۳﴾ تو کیا شرع ان سیاسی ، معاشرتی، انتظامی، عدالتی اصول و ضوابط کو رد نہیں کرتی جو کسی بھی نظامِ جاہلیت میں برسرِپیکار ہوتے ہیں؟ اگر کسی کاذہن صرف قتل، زنا، چوری اور جھوٹ جیسے امور ہی کو منکر محسوس کرتاہے تو اس کی بات ہی اور ہے۔ مگر جو شخص منکر سے مراد وہ لیتاہے جو جوواقعتا ہے، وہ تو ان باتوں کو منکر ہی نہیں منکرِ مبین سمجھنے پر مجبور ہوگا اور اگر وہ کسی سودی معاملے میں گواہ بننے سے سوبار اللہ کی پناہ مانگے گا تو یقین فرمایے کہ ایسے منکرات کے اجرا و استحکام میں سازگاری کرنے سے ہزار بارپناہ چاہے گا۔
تعاون کے مختلف مراتب
لیکن جو شخص یا گروہ ایسے نظام کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہو وہ اس سے یکسر بے تعلق تو ہو نہیں سکتا۔ پھر ایسی حالت میں واقعی اس کی ذمے داریاں کیاہیں اور اس کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ ایک زبردست سوال ہے جس کاصحیح حل ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ تلاش کرنا ہے۔
اس نظام کے ساتھ اس کا تعلق دو طرح کاہوسکتا ہے ایک تو اختیاری دوسرا غیراختیاری، ظاہر ہے جن تمدنی اور انتظامی تعلقات کے رکھنے پر وہ بالکل مجبور ہے،اور اپنی خواہش اور پسند کے علی الرغم مجبور ہے، ان کے سلسلے میں اس پر کوئی دارو گیر نہیں۔ البتہ تعلق کی پہلی نوعیت ضرور قابل غور ہے اور ہمیں دراصل اسی تعلق کے بارے میں شرع شریف کانقطۂ نگاہ معلوم کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس اختیاری تعلق کی مختلف صورتیں جان لینی چاہییں۔ کیوں کہ جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ اس سراپا جاہلیت ﴿نظام غیراسلامی﴾ سے تعاون ﴿اختیاری تعلق﴾ کی شکلیں کیا کیا ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا درجہ کیاہے، اس وقت تک صحیح نتیجے پر پہنچنابسادشوار ہے۔
جہاں تک اصول تقسیم کا تعلق ہے، ہم اختیاری تعلق یعنی فعلِ تعاون کی دوموٹی قسمیں قرار دے سکتے ہیں۔ ایک اساسی دوسری فروعی۔ اساسی سے مراد یہ ہے کہ اس نظام کے قیام وبقا میں براہ راست شرکت کی جائے، جسے آپ اس نظام کی پیشوائی اور علم برداری کہہ سکتے ہیں، اس قسم میں نظام حکومت کی دوبنیادی باتیں شامل ہیں، دستوریہ کی کہ شرکت اور مقننہ کی رکنیت۔فروعی قسم میں اس نظام کی عام ملازمتیں شامل ہیں، جن کی حیثیت اس نظام کے پیکر میں اعضا و جوارح کی ہے، جب کہ قسمِ اساسی کی مثال اعضائے رئیسہ اور قوائے مدرِ کہ کی سی ہے۔
پھر اس قسمِ فروعی کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک تو وہ ملازمتیں جن کے فرائضِ منصبی بہ جاے خود معصیت ہیںاور ان میں ایسے امور سرانجام دینے پڑتے ہیں جو براہِ راست شرع کے خلاف ہیں۔ مثلاً محکمۂ آبکاری کی ملازمتیں، سودی اداروں ﴿بینکنگ وغیرہ﴾ کی ملازمتیں ، ججی اور منصفی جیسی ملازمتیں، قتال فی غیرسبیل اللہ کی ملازمتیں وغیرہ۔ دوسری قسم ان ملازمتوں کی ہے جو بہ جاے خود تومعصوم معلوم ہوتی ہیں اور بہ ظاہر ان میں کوئی امِر منکر انجام دینا نہیں پڑتا، لیکن چوں کہ وہ ایک غیر اسلامی نظام کاجزو ہیں اور ان سے جاہلیت کے وسیع کاروبار میں اعانت ہوتی ہے، اس لیے وہ گناہ کاکام بن جاتی ہیں۔ مثلاً محکمہ رسل و رسائل کی ملازمتیں، محکمہ ٔ نقل و حرکت کی ملازمتیں،محکمۂ تعلیم کی ملازمتیں ﴿بعض شرطوں کے ساتھ﴾ محکمۂ صحت کی ملازمتیں وغیرہ
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اختیاری تعلق کی یہ تینوں اقسام تعاون علی الاثم کی حدود میں شامل تو ہیں، لیکن ان سب کاحکم یکساں نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک کارِناکردنی ہونے کاسوال ہے یہ ناپاک داغ موجود تو سب ہی کی پیشانیوں پر ہے۔ مگر ان کے مدارج میں فرق بھی ایک مسلّم بات ہے۔ ہر داغ کی ناپاکی یکساں گھناونی قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہم یہاں ان تینوں ہی اقسام کے ضمن میں علاحدہ علاحدہ گفتگوکرتے ہیں۔
حواشی:
۱- قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَمُ رِبوًایَاکُلُہ’ الرَّجُلُ وَہُوَ یُعَلَّمُ اَشَدُّ مِنْ سّتَّۃٍ وَثَلٰثِیْنَ زِیْنَۃً ﴿مسند احمد، المجلد الخامس، صفحہ :۵۲۲، سنن الدارقطنی، کتاب البیوع، حدیث نمبر ۴۵﴾
۲- قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُدْمِنُ الْخَمَرِاِنْ مَّاتَ لَقِی اللّٰہ تَعَالیٰ کَعَابِدِ وَثَنٍ ﴿مسنداحمد بن حنبل، المجلد الثانی، ص ۲۷۲﴾
۳- الْمُنْکَرُمَایُنْکَرُبِھَا ﴿منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو شرع یا عقل کے نزدیک ناپسندیدہ ہو﴾ ﴿مفرادت راغب اصفہانی﴾
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ جولائی 2010