غزہ جنگ بندی معاہدہ

غرورِ ستمگراں یہاں پہ خاک ہوا

غزہ جنگ بندی معاہد ہ کوئی عام سا معاہدہ نہیں ہے۔ تاریخ میں شاذ و نادر ہی ایسی مثال ملتی ہے جہاں عظیم عالمی قوتوں کی مدد اور پشت پناہی کے ساتھ آگ اور خون کا کھیل کھیلنے والی کوئی بڑی علاقائی طاقت گھٹنے ٹیک کر اپنے کسی ایسے دشمن کی شرطوں کو قبول کرنے پر تیار ہو جائے جسے وہ بہت چھوٹاسمجھتی ہو اور دنیا بھی جسے مادی اسباب و وسائل کی میزان پر کم زور، نڈھال، مار کھایا ہوا، مفلوک الحال اور محصور دیکھتی ہو۔

جب اسرائیلی فوج نے غزہ پر خونی جارحیت کا آغاز کیا تو یہ مانا جا رہا تھا کہ صہیونی فوج چند دنوں میں ہی غزہ پر قبضہ کر لے گی۔ ایسا مفروضہ اس لیے بھی قائم کیا گیا تھاکہ 1956 میں اور پھر 1967 میں اسرائیلی فوج نے غزہ پر صرف ایک دو دنوں کے اندر ایسے وقت میں اپنا تسلط قائم کر لیا تھا جب کہ یہ خطہ سب سے طاقتور عرب ملک کے زیرِ انتظام تھا۔ گذشتہ دہائیوں میں صہیونی فوج نے اپنی فوجی قوت اور جنگی وسائل میں بے پناہ اضافہ کیا جب کہ غزہ گذشتہ 17 برسوں سے اپنوں کی طوطا چشمی اور دشمن کے محاصرے کا درد جھیلتا رہا۔ صہیونیوں نے غزہ میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جبر، خون ریزی اور حیوانیت کے سارے ہتھکنڈے اور ہنر استعمال کیے لیکن غزہ کاجوان 471 دنوں تک عزم و ارادے کی چٹان بن کر مزاحمت کرتا رہا۔ جذبۂ قربانی سے سرشار قوم صبر و رضا کا پیکر بن کر جانبازوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ سرفروشی کی تمنا لے کر میدان میں اترنے والے اولیا ءاللہ نے جرأت وپامردی کی وہ افسانوی تاریخ رقم کی جس کے سامنے انسانی پیمانے حیرت زدہ رہ جائیں۔ بے سروسامانی کے باوجود عزم واستقلال اور صبر و ثبات کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے ان جیالوں نے ہر طرح کے ہلاکت خیز ہتھیاروں اور جدید ترین وسائل سے لیس دشمن کو نہ صرف میدان میں تھکایا بلکہ اس کی حکومت کو مجبور کیا کہ مزاحمتی قوت کی شرطوں کو قبول کرے۔

معاہدہ کے پہلے مرحلے میں طے پایا کہ 1904 فلسطینیوں کو اسرئیلی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔ ان میں 296 وہ ہیں جنھیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ یہ بھی طے پایا کہ دشمن افواج کا غزہ سے مکمل انخلاء ہوگا۔ دورانِ جنگ جو لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے تھے وہ شمالی غزہ میں اپنے علاقوں کی طرف لوٹ سکیں گے۔ غزہ میں داخل ہونے والی راہداریوں کو کھول دیا جائے گا۔ روزانہ امدادی سامان کے 600 ٹرک داخل ہوں گے۔ 60 ہزار عارضی مکانات اور دو لاکھ خیمے غزہ پہنچائے جائیں گے۔ دشمن نے معاہدہ پر دستخط تو کردیے لیکن اپنی شاطرانہ روش کے مطابق معاہدے کی کئی شقوں کی مسلسل خلاف ورزی بھی کرتا رہا۔ اب تک ایک بھی عارضی گھر نہیں داخل ہوا ہے اور نہ ہی ملبوں کی صفائی کے لیے ضروری مشینری اور آلات ہی وہاں پہنچ رہے ہیں۔ چناں چہ 10 فروری کو کتائب القسام کے ترجمان ابو عبیدہ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ دشمن کی طرف سے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی وجہ سے طے شدہ شیڈول کے مطابق 15 فروری بروز سنیچرکو تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے عمل کو آئندہ اعلان تک موقوف کیا جا رہا ہے۔ ثالثوں کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کے بعد کہ معاہدہ کی پابندی کے لیے دشمن پر دباو جاری ہے اور یہ دباو کام یاب رہے گا حماس کی طرف سے 15 فروری کو قیدیوں کی رہائی تو عمل میں آئی لیکن ہنوز دشمن کی طرف سے مختلف شقوں کی خلاف ورزی جاری ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا معاہدہ ختم ہو جائے گا اور دوبارہ جنگ شروع ہونے کا امکان ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مزاحمتی تحریکوں نے معاہدہ کی مکمل پابندی کی ہے تاکہ مستقل جنگ بندی کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو کا آغاز ہو۔ اسرائیلی قیدیوں کے اہلِ خانہ کی طرف سے نتنیاہو سے شدت کے ساتھ یہ مطالبہ ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ مکمل نافذ ہو اور ان کے لوگوں کو رہا کرایا جائے، لیکن نتنیاہو مکمل جنگ بندی کا اعلان کر کے اپنی سیاسی موت کو دعوت نہیں دینا چاہتا۔ ایسی صورت میں عرب دنیا اور حریت پسند دنیا کے لیے ایک امتحان ہے کہ سرکشوں کے ٹولے کو لگام دینے میں وہ کتنا کام یاب ہوتی ہے۔ بطورِ خاص ایک ایسے وقت میں جب کہ امریکی صدر نے بھی غزہ کے سلسلے میں اپنے احمقانہ عزائم کا اظہار کردیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اس بدنیتی میں گرفتار ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو نہ ہونے دی جائے اور امدادی سامان کی ترسیل کو وہ غزہ کے جیالوں کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرتا رہے۔ ایسی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قوانین کی رو سے جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ معاہدہ طے شدہ شرائط کے ساتھ آگے بڑھے اور پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد آئندہ مراحل کا نفاذ اور مکمل جنگ بندی ہو اس کی بڑی ذمہ داری مشرقِ وسطیٰ کے با اثر اور ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک کی ہے۔ انھیں چاہیے کہ فوری متحرک ہوں اور غاصب ریاست کو معاہدہ کی پابندی پر مجبور کریں۔ عرب اور اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے غزہ سے متعلق صہیونی عزائم کو ناکام بنانے میں صرف بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے متحرک کردار ادا رکریں۔

حماس کا خاتمہ اور قیدیوں کی رہائی غاصب ریاست کا جنگی ہدف تھا۔ لیکن غزہ کے جیالوں کی پامردی نے اسے اسی حماس سے معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جسے ختم کرنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتوں کی کمک کے ساتھ وہ میدان میں اترا تھا۔ 15 ماہ تک غزہ کے دلدل میں پھنسے رہنے کے باوجود کسی منزل تک پہنچنے میں ناکام صہیونی فوج کو کسی سہارے کی ضرورت تھی، امریکی مداخلت نے اس فوج کے لیے آبرو بچا کر وہاں سے نکلنے کی راہ ہم وار کی۔ اسرائیل کے عسکری اور سیکوریٹی اداروں اور حزبِ اختلاف نے بھی حماس سے معاہدہ کرنے اور کسی سیاسی حل تک پہنچنے پر زور دیا۔ استصوابِ رائے کے مطابق صہیونی سماج کی اکثریت کی رائے معاہدہ کے حق میں تھی۔ چناں چہ نتنیاہو کو معاہدہ کے لیے تیارہ ہونا پڑا۔

اسرائیل کی موجودہ حکومت میں شامل دائیں بازو کی شدت پسند پارٹیاں ابھی بھی غزہ سے سبق لینے کے لیے تیار نہیں، چناں چہ وہ اپنے اہداف سے دستبردار ہوتی نظر نہیں آتیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاہدہ ہنوز ناپائیدار ہے۔ صہیونی انتہا پسند پارٹیاں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ شاید غزہ کے جانبازوں کو اکھاڑ پھینکنے کا کوئی موقع مل جائے۔ ان پارٹیوں کو بار بار یہ خلش ستا رہی ہے کہ غزہ کی شرائط پر مجبور ہو کر معاہدہ کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی منصوبے کی بساط سمیٹے جانے اور اس کی نظریاتی شکست اور سیاسی موت کے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔

یہ معاہد ہ انتہائی اہم ہے اور نزاکتوں سے خالی نہیں ہے۔ وزیر برائے قومی امن ایتمار بن گویر اور اس کی یہودی عظمت پارٹی نے اس معاہدہ کی تفصیلات طے ہونے کے بعد یہ کہہ کر حکومتی اتحاد سے علاحدگی کا اعلان کیا تھا کہ یہ ہمارے لیے تباہ کن اور حماس کے سامنے خود سپردگی کے مترادف ہے۔ اس سے مقبوضہ فلسطین میں موجود انتہا پسند مذہبی دائیں بازو کی جماعتوں اور ان کے وابستگان کے غیظ و غضب اور بے چینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق صہیونی دینی پارٹی چیف اور وزیرِ مالیات اسموتریچ کو حکومتی اتحاد میں باقی رکھنے کے لیے نتنیاہو نے اس سے زبانی عہد کر رکھا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل دوبارہ جنگ کا آغاز کرے گا۔ نتنیاہو کی پوری کوشش ہے کہ حکومتی اتحاد کسی بھی صورت برقرار رہے تاکہ وہ عدالتی محاسبہ سے محفوظ رہے اور سیاسی میدان سے باہر کا راستہ اسے نہ دیکھنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدہ پر تین ہفتے گزر جانے کے باوجود حماس کو ختم کرنے اور غزہ سے اس کے تسلط کو ختم کرنے کی رعونت بھری دھمکیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔

اسرائیلیوں کے درمیان یہ عمومی احساس پایا جاتا ہے کہ غزہ میں انھیں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔ لیکن ان کی غالب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ معاہدہ پر عمل جاری رہے۔ ایک سروے کے مطابق ان میں 60 فیصد کی یہ رائے ہے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کے بعد معاہدہ کے باقی مراحل بھی پورے کیے جائیں۔ 61 فیصد اسرائیلی غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے نتنیاہو کے وعدوں کو فریب سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ عجب تضاد نہیں کہ معاہدہ کی پابندی کے حق میں رائے دینے والے بھی ٹرمپ کے غزہ منصوبہ کے پرجوش مؤید ہیں۔

حماس اور مزاحمتی قوتوں نے عزم و ارادےاورثابت قدمی کے میدان میں دشمن پر اپنی بھر پور برتری ثابت کی ہے۔ حماس کاخاتمہ، غزہ پر قبضہ، زورِ بازو سے قیدیوں کی رہائی، غزہ کے مستقبل کے فیصلے اور غزہ سے متصل صہیونی کالونیوں میں امن و امان کی بحالی جیسے تمام صہیونی منصوبے خاک میں مل گئے۔ اسی طرح مزاحمتی قوت نے شمالی غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے، غزہ کے باشندوں کو ہجرت پر مجبور کرنے اور وہاں یہودی بستیاں بسانے جیسے اسرائیلی ارادوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ حماس نے اپنی شرطوں پر قیدیوں کے تبادلے کا ایک باوقار معاہدہ کرنے میں کام یابی حاصل کی جس کی رو سے غزہ سے صہیونی فوج کا مکمل انخلا ہوگا اور جنگ پورے طور پر ختم ہوگی۔

مزید یہ کہ حماس نے اسرائیل کے نظریہ امن اور ’’اسرائیل ہی صہیونیوں کی پر امن پناہ گاہ ہے‘‘ جیسے تصور کو زمیں بوس کردیاہے۔ مسئلہ فلسطین دنیا کے اہم ترین مسائل کے زمرے میں شامل ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں غاصب ریاست ناپسندیدہ وجود کی حیثیت سے دیکھی جانے لگی ہے۔ عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے منصوبے معطل پڑ چکے ہیں۔ اور امت بلکہ انسانیت کو یہ پیغام ملا ہےکہ کہ صہیونی عزائم و منصوبے ناقابلِ تسخیر نہیں ہیں۔

اب تک اسرائیل کے جنگی نظریہ کی دو بنیادیں تھیں: اول، جنگ کا آغاز ہمیشہ اسرائیل کی طرف سے ہونا چاہیے، کسی میں اتنی جرأت نہ ہو کہ وہ اقدام کرے۔ اور دوسرا جب بھی جنگ ہو اسرائیل کو ہر پہلو سے بہت نمایاں برتری حاصل ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ’’جو ہاتھ اسرائیلی سطوت کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچنے کی جرأت کرے اُس ہاتھ کو حرکت میں آنے سے پہلے ہی لازما کاٹ دیا جائے‘‘۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ کے ذریعے صہیونی عسکری نظریہ کی ساری بنیادیں ہلا کر رکھ دی۔ فلسطینی صفوں میں انسانی پہلو سے بہت زیادہ نقصانات ہوئے۔ سب کچھ تباہ ہوگیا۔ لیکن دشمن کی ریشہ دوانیوں کےخلاف بھرپور کارروائی کا اچانک آغاز فلسطینی فیصلہ تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی عسکری فیصلے صرف اس شخص کی احمقانہ حرکتوں کی طرح تھے جس کے ہاتھ میں اس کے ہاتھ سے بڑا ڈنڈا آگیا ہو لیکن اسے پتہ نہ ہو کہ وار کہاں اور کیسے کرنا ہے۔ چناں چہ عورتیں، بچے، نہتے شہری اس کی دیوانگی کا شکار ہوئے۔ جب جب مزاحمت کے جانبازوں نے صہیونی فوج کو نقصان پہنچایا اس ہسٹریائی مریض نے عام نہتے شہریوں کو اپنے غضب کا شکار بنایا۔

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ صہیونیوں کو ہمیشہ دنیا کے مختلف حصوں سے جو ہمدردی اور تائید حاصل ہوتی تھی وہ کم ہونے لگی۔ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہےکہ جنگ کے بعد کا منصوبہ پیش کیے بغیر جنگ کو طول دیے جانے کی وجہ سے دنیا بھر میں اسرائیل کی تائید و حمایت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور ہر طرف سے اسرائیل کے خلاف دباؤ بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی مرکز Pew Research Center کے استصواب کے مطابق نتنیاہو کی حکومت دنیا بھر میں الگ تھلگ پڑ چکی ہے اور اسرائیل کے ساتھ ہمدردی میں ہر طرف کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس کو اندرون و بیرونِ ملک مقیم فلسطینیوں میں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ دشمن کی ساری بربریت اور عام لوگوں کے خلاف اس کے وحشیانہ جرائم بھی عوام کے دلوں سے حماس کو نکالنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یہ حماس کی مقبولیت ہی تھی کہ دورانِ جنگ بھی ہزاروں نئے جاں نثاروں نے مجاہدین کی صفوں سے وابستہ ہوکرکے اسے طاقت پہنچائی اور حالات کی سنگینی کے باوجود غزہ پر اس کا مکمل کنٹرول برقرار رہا۔ دشمن تمام تر کوششوں کے باوجودغزہ کے انتظامات کے لیے حماس کا کوئی متبادل نہیں تلاش کر سکا۔

معاہدہ کے پہلے مرحلے کو انجام تک لے جانے اور اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد کی صورتِ حال کو سامنے رکھیں تو حماس کو ابھی کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کی نتیاہو کی کوششوں کا توڑ اور دوسرے و تیسرے مرحلے سے متعلق مذاکرات ہیں۔ ٹرمپ کی بدنیتی کے سامنے آنے کے بعد مذاکرات کا یہ مرحلہ اور بھی پیچیدہ ہوتا نظر آتا ہے۔

دوسرا چیلنج جنگ کے بعد غزہ کی انتظامیہ سے متعلق ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بلا شرکتِ غیرے غزہ کا انتظام سنبھالنا چاہتی ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی غاصب ریاست کی وفاداری میں مزاحمت کو ختم کرنے اور اس کے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا اندیشہ ہے کہ حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکات سے فلسطینی اتھارٹی کا راست ٹکراؤ ہو۔ ٹکراؤ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی فلسطین کے اندر صاف شفاف انتخابات کے انعقاد میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ حماس اور مزاحمتی جماعتوں کی کام یابی یقینی ہے۔ اسرائیل، امریکا، مغربی ممالک اور عرب ممالک سب کا یہ اعتراف ہے کہ گذشتہ اٹھارہ برسوں میں وہ حماس پر اپنی مرضی تھوپنے میں ناکام رہے ہیں۔ پھر بھی سب کی یہی چاہت ہے کہ حماس کو غزہ کی حکومت سے معزول کیا جائے اور کسی بھی صورت میں حکومتی معاملات میں اسے شریکِ کار نہ بنایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ حماس کو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ وہ حکومتی چہرہ نہ بنے بلکہ وہ اس کے لیے تیار ہے کہ غزہ کے اتنظامات قومی سطح کی نمائندہ ٹیم کے ذریعے انجام پائیں لیکن مذکورہ ممالک کی دل چسپی غزہ کے انتظامات سے زیادہ اس بات سے ہے کہ سیاسی طور پر حماس کو حاشیہ پر لگا یا جائے، مزاحمتی تحریکات سے اسلحے چھین لیے جائیں اور غزہ کے حکومتی اداروں میں موجود حماس کے کیڈر اور ہمدردان کو کنارے لگا یا جائے۔ یعنی قابض حکومت اور فوج ساری جنگوں اور سالہا سال تک غزہ کا محاصرہ کرنے کے بعد بھی جس ہدف کو پورا نہ کر سکی اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ صہیونی حکومت، امریکا اور خطے میں موجود ان کے حلیف ممالک فلسطینی اتھارٹی کے تعاون سے اس بات کی کوشش کریں گے کہ غزہ کے محاصرہ کو جاری رکھتےہوئے تعمیرِ نو سے متعلق معاملات میں رکاوٹ پیدا کی جائے تاکہ حماس اور مزاحمتی تحریکات پر خود سپردگی کے لیے دباؤ بنایا جا سکے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے اخراجات کا تخمینہ 80بلین ڈالر سے زائد ہے۔

معاملے کا ایک اور پہلو ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ کی مدد سے اس بات کی پوری کوشش کرے گا کہ طوفان الاقصیٰ جن اسباب کی وجہ سے برپا کیا گیا ویسے حالات پھر پیدا کیے جائیں، مسجدِ اقصیٰ میں مسلسل دھاوے اور بے حرمتی، یروشلم اور مغربی کنارے میں صہیونی عزائم کی تکمیل، ٹرمپ کی شہ پر مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی نقلِ مکانی جیسی مکروہ کوششیں جاری رہیں گی۔ مغربی کنارے کے پناہ گزین کیمپوں کے خلاف شروع کی گئی وحشیانہ کارروائیاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

آج وقتی جنگ بندی کے باوجود حالات فکرمند کرنے والے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ غزہ پر کسی نہ کسی صورت اسرائیلی جارحیت پھر شروع ہو جائے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جنگ کا آغاز جب کہ لبنان کی مزاحمتی قوت کو بے اثر کیا جا چکا ہے اور دیگر ممالک کی مزاحمتی جماعتیں غزہ کی بھر پور مدد کی پوزیشن میں نہیں ہیں از سرِ نو جنگ کا آغاز کیا رخ ختیار کر سکتا ہے؟ غزہ کی مزاحمتی تحریکات نے ہزاروں شہادتیں پیش کی ہیں۔ ان مزاحمتی تحریکات نے بڑی تعداد میں اپنے سیاسی، عسکری اور تنظیمی قائدین کو کھویا ہے۔ ان کی صفوں میں زخمیوں کی تعداد بھی دسیوں ہزار ہے۔ اپنی صفوں کو از سرِ نو مضبوط کرنے کے لیے انھیں وقت درکار ہے۔ حماس اور مزاحمتی تحریکوں کو پوری صورت حال کا معروضی جائزہ اور گہرا تجزیہ بھی کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ نئی اٹھان کے لیے اس تجربہ سے پورا فائدہ اٹھایا جاسکے، امکانات میں اضافہ کیا جا سکے اور آئندہ کے لیے سمت و رفتار متعین کیے جا سکیں۔

غزہ کے سلسلے میں ٹرمپ کے مذموم عزائم کا اسرائیلوں کی ایک بڑی اکثریت نے پرجوش استقبال کیا ہے۔17 سال کے محاصرہ اور 15 ماہ کی جنگ سے چور اہل غزہ کوہجرت پر مجبور کرنے کے لیے ایک نئی امنگ پیدا ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیلی سیاسی قیادت کی طرف سے غزہ پر جارحیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جن لوگوں نے بے شمار قربانیاں دیں، سب کچھ لٹا دیا لیکن اپنے وطن کو نہیں چھوڑا، طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا کیا وہ ان ارادوں کو کام یاب ہونے دیں گے۔ جہاں دو ایٹم بم کے مساوی ہزاروں ٹن تباہ کن بم برسائے گئے اور چپہ چپہ تباہ کیا گیا۔ حیوانیت اور بہیمیت کی جو بدترین صورتیں ہو سکتی ہیں وہ سب دشمن نے امریکہ کی مدد سے اہلِ غزہ کے ساتھ آزمالیں، لیکن وہ اپنے اہداف نہیں حاصل کر سکا۔ ایک تھکی فوج نئے سرے سے غزہ میں جنگ چھیڑ کر اور کیا حاصل کر سکے گی۔ کیا اس سرزمین کے جیالے اور حق کے متوالے دشمن کے ارادوں کو کام یاب ہونے دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی امریکی صدر فلسطینیوں کا دوست اور خیر خواہ نہیں رہا ہے۔ ہر ایک کی یہ کوشش رہی ہے کہ فلسطین کی بساط لپیٹ دی جائے لیکن فلسطینی بے انتہا مصائب و آلام، دشمن کی سازشوں اور ملت کی لا پروائی کے باوجود اپنے حق کے لیے ڈٹے رہے۔ ان کی یہ ثابت قدمی ضرور ایک نئی صبح کی آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223