اسرائیل کے خلاف نسل کشى کا مقدمہ

ان دنوں ساری دنیا کی عدل جو ٗ نگاہیں نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ پر مرکوز ہیں، جہاں بین الاقوامی عدالتِ انصاف (International Court of Justice) میں 12 جنوری 2024کو اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کی دو روزہ عوامی سماعت اختتام پذیرہوئی۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے عدالتی ادارے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (بین الاقوامی عدالت انصاف) میں ایک اہم مقدمہ دائر کیا ہے جس میں اسے غزہ میں نسل کشی کا ملزم ٹھہرایا ہے۔[1] جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر کو دائر کردہ اپنی اس درخواست [2] میں اسرائیل پر 1948 کے اقوام متحدہ کی نسل کشی کنونشن (Genocide Convention, 1948)کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ ا س کنونشن میں جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں فریق ہیں۔ معاہدے میں فریق ممالک نسل کشی کے سدباب اور اس کی روک تھام کا اجتماعی حق رکھتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر یہ مقدمہ غزہ سے متعلق عالمی عدالتِ انصاف میں پہلی نظیر ہے، جہاں اسرائیل نے 7 اکتوبر سے اب تک 23 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کردیا ہے، جن میں تقریبا ً10 ہزار بچے بھی شامل ہیں، جب کہ خدشہ ہے کہ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہیں اور مزید دسیوں ہزار شدید زخمی ہیں۔[3] یہ مقدمہ نہ صرف اپنے الزامات کی سنگینی کی بنا پر،بلکہ بین الاقوامی قانونی ڈھانچے میں نسل کشی کو ثابت کرنے کی پیچیدہ نوعیت کی بنا پر بھی، ایک تاریخ ساز مقدمہ ہے۔

جنوبی افریقہ نے 84 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز پیش کی ہے جس میں نسل کشی کنونشن ، 1948 کی شق 2 کے تحت اسرائیلی عسکری کارروائی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ مذکورہ کنونشن میں نسل کشی کی تعریف ایسی کارروائی کے طور پر کی گئی ہے جو کسی قومی، نسلی، یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر ہلاک کرنے کے ارادے سے کی جاتی ہے۔ اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے جنوبی افریقہ نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات براہ راست اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ فلسطین حامی جہدکاروں کو امید ہے کہ عالمی عدالت غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن فوجی مہم کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

بڑی تعداد میں شہریوں، خاص طور پر بچوں کا قتل، فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر نقل مکانی پر مجبور کرنا اور ان کے گھروں کو تباہ کرنا، متعدد اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینیوں کو ‘‘وحشی جانور’’قرار دیے جانے کے اشتعال انگیز بیانات ، یہ تمام باتیں نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں اور اسرائیل کے ارادے کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس مقدمے میں خوراک و رسد کی بندش اور حاملہ خواتین اور بچوں کے شفاخانو ں اور اسپتالوں کی تباہی اسرائیل کے اس ارادے کو ظاہر کرتی ہے کہ ‘‘ایک گروہ کے طور پر وہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔’’ جنوبی افریقہ کے وکیلوں نے اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کو ثابت کرنے کے لیے جو ثبوت پیش کیے ہیں ان میں غزہ میں شہری ہلاکتوں کی بڑی تعداد، شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور غزہ کو ضروری سامان کی فراہمی کو محدود کرنے والی ناکہ بندی شامل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والی وکیل عدیلہ ہاشم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘اسرائیل ہر ہفتے 6 ہزار بم گراتا ہے۔ اس کارروائی میں کوئی شہری محفوظ نہیں ، یہاں تک کہ نوزائیدہ بچے بھی نہیں۔’’ [4]جنوبی افریقہ کی قانونی ٹیم نے عدالت کو مزید بتایا کہ اسرائیلی کارروائی نے غزہ کو ‘‘بچوں کے قبرستان’’ میں بدل کر رکھ دیا ۔ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے 85 فیصد سے زیادہ 7 اکتوبر کے بعد سےبے گھر ہو چکے ہیں۔ راحتی ایجنسیوں نے بڑھتی ہوئی بھکمری کی وجہ سے قحط کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ 365 مربع کلومیٹر کا یہ خطہ پہلے ہی 2007 سے اسرائیلی کی بدترین ناکہ بندی کا شکار رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کے وکیلوں نے 11 جنوری کو عدالت انصاف میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی لیڈروں، بشمول نیتن یاہو، اسحاق ہرزوگ اور کئی موجودہ اور سابق اسرائیلی کمانڈروں کے مخصوص بیانات کو نسل کشی کے عزائم کے ثبوت کے طور پر اجاگر کیا۔ مثال کے طور پر انھوں نے نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینیوں کا موازنہ ‘‘عمالیق’’ سے کرنے کا حوالہ دیا ، جو عہدنامہ عتیق کی رو سے ایک ایسی قوم ہے جسے نیست و نابود کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ نے اس بیان کو نسل کشی کا ارادہ قرار دیا ہے۔ عہدنامہ عتیق کی مذکورہ آیت کا ترجمہ یوں ہے: ‘‘اب جاؤ اورعمالیق کو ہلاک کردو ……حتی کہ مردوں، عورتوں اور شیرخواروں بچوں کو بھی مت بخشو۔ ’’ اس دلیل کا مقصد اسرائیل کے رویے اور بیانات کا ایک ایسا پیٹرن دکھانا تھا جو غزہ میں فلسطینی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کرنے کے دانستہ ارادے کی نشان دہی کرتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی کو ثابت کرنے کے لیے یہ ایک اہم دلیل ہے۔ نسل کشی کنونشن کی شقوں میں سے ایک،  ‘‘نسل کشی پر اکسانے پر پابندی ’’بھی ہے۔ اسرائیل کے سینئر سیاستدانوں اور فوجی کمانڈروں نے کنونشن کے اس حصے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے کی تردید کرنا اسرائیل کے لیے ممکن نہیں۔

وکلا نےمزید دلیل دی کہ اندھا دھند بمباری اور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی ناکہ بندی نے غزہ کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور یہ اقدامات فلسطینی آبادی کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنے کے ارادے کی نشان دہی کرتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے پانچ بنیادی الزامات

جنوبی افریقہ کے پانچ بنیادی الزامات اس طرح ہیں:[5]

۱۔ فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی

عدیلہ ہاشم نے عدالت کو اجتماعی قبروں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ ‘‘نسل کشی کی پہلی دلیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔’’ انھوں نے بتایا کہ اسرائیل نے غزہ کے ان علاقوں پر بھی 2000 پاؤنڈ والے انتہائی تباہ کن بم گرائے ہیں جنھیں اس نے خود محفوظ قرار دیا تھا۔ عدیلہ نے بتایا کہ 1800 سے زیادہ خاندان اپنے اہلِ خانہ کے متعدد افراد کو کھو چکے ہیں، جب کہ بعض خاندانوں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی کارروائی میں بچے، عورتیں، بیمار، بزرگ ، کوئی محفوظ نہیں رہا ۔

۲۔ جسمانی اور ذہنی اذیتیں

جنوبی افریقہ کی وکیل نے بتایا کہ نسل کشی کا دوسرا ثبوت غزہ کے لوگوں پر اسرائیل کی جانب سے شدید ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایک ایسی جگہ پر جہاں صحت کا نظام تباہ ہو چکا ہے، وہاں تقریبا 60 ہزار افراد زخمی اور معذور ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ عدیلہ نے بچوں سمیت بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی گرفتاری کا حوالہ دیا، جو بے لباس تھے اور نامعلوم مقامات پر لے جانے کے لیے ٹرکوں پر لادے گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ فلسطینی عوام کے جسمانی اور ذہنی مصائب سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

۳۔ جبری نقل مکانی اور خوراک کی بندش

عدیلہ نے بتایا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایسی شرائط عائد کیں جو زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتیں اور جن کا مقصد غزہ کی زیادہ تر آبادی کی جبری نقل مکانی کرواکے تباہی پیدا کرنا ہے۔عدیلہ ہاشم کے بقول ہزاروں خاندان متعدد بار بے گھر ہوئے ہیں اور پانچ لاکھ خاندانوں کے پاس لوٹ کر جانے کے لیے کوئی گھر نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح اسرائیل نے تمام اسپتالوں کو 24 گھنٹوں کے اندر خالی کرنے کا حکم دیا اور زخمیوں کو منتقل کرنے یا طبی سامان کی منتقلی میں کسی طرح کی مدد نہیں کی ۔ اس نے شمالی غزہ کے بڑے حصوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا، جہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد کو مختصر نوٹس پر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ عدیلہ نے بتایا، ‘‘یہ حکم خود نسل کشی کے مترادف تھا۔’’

فاضل وکیل نے بتایا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے خوراک اور پانی کی فراہمی بھی بند کر رکھی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھکمری ہے اور اس پر مستزاد اسرائیل نے امدادی کارکنوں کی نقل و حرکت کو محدود کرکے جو کچھ دستیاب تھا اسے بھی تقسیم کرنے کی صلاحیت ختم کر دی ۔ عدیلہ نے ایک ویڈیو کلپ دکھایا جس میں سینکڑوں فلسطینیوں کو غزہ میں امدادی سامان بردار ٹرک کے پیچھے بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

عدیلہ نے مزید بتایا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کو مناسب پناہ گاہیں، کپڑے، بستر اور دیگر اہم غیر غذائی اشیا سے محروم رکھنے کے حالات پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پیاس بجھانے، صفائی کرنے اور کھانا پکانے کے لیے محفوظ پانی نہیں ہے، اور اسہال سمیت متعدد بیماریوں کے معاملات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مزید فلسطینی بھوک اور بیماری کی وجہ سے مر سکتے ہیں، لیکن محاصرہ ہنوز جاری ہے۔

۴۔ صحت عامہ کے نظام کی تباہی

عدیلہ نے بتایا کہ نسل کشی کی چوتھی دلیل غزہ میں صحت عامہ کے نظام پر اسرائیل کا فوجی حملہ ہے جس سے وہاں زندگیاں بچانا ممکن نہیں رہا۔ انھوں نے بتایا کہ اسرائیل کے برسوں کے حملوں کی وجہ سے غزہ کا صحت عامہ کا ڈھانچہ پہلے ہی مفلوج تھا، اور اب تو اس کے لیے زخمیوں کی بڑی تعداد کو بچانا ناممکن ہوچکا ہے جنھیں علاج کی ضرورت ہے۔

۵۔ فلسطینیوں میں زچگی پر پابندیاں

عدیلہ ہاشم نے اپنی آخری دلیل یہ دی کہ اسرائیل زچگی کے لیے درکار زندگی بچانے والے ضروری علاج کو روک رہا ہے۔ یہ غزہ میں بچوں کی ولادت کو روکنے کے مترادف ہے اور تشدد بر تولید (reproductive violence )ہے جو اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلیم کے بقول ‘‘نسل کشی’’ ہے۔

مقدمے کی اہم تاریخیں

اسرائیل کے خلاف مقدمے کا پہلا حصہ 11 جنوری 2024 سے شروع ہوا، جس میں جنوبی افریقہ کی خصوصی ہنگامی درخواست پر توجہ مرکوز کی گئی۔ عالمی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کو فوری طور پر غزہ سے انخلا کا حکم دے اور اسرائیل کو شہریوں پر اندھا دھند بمباری روکنے کا حکم جاری کرے۔اگر کسی فریق کو یقین ہو کہ اس کی درخواست کی بنیاد بننے والی خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں، جیسا کہ غزہ میں ہورہا ہے، اس صورت میں عالمی عدالتِ انصاف قوانین کے تحت ممالک سے کہہ سکتی ہے کہ مقدمے کے مناسب آغاز سے قبل عبوری اقدامات کیے جائیں ۔ اگر اس کی منظوری مل جاتی ہے تو عالمی عدالتِ انصاف چند ہفتوں میں حکم جاری کر سکتی ہے۔ یوکرین بنام روس مقدمے میں عالمی عدالتِ انصاف نے یوکرین کی جانب سے روس کے حملے کے خلاف ہنگامی حکم نامے کی درخواستوں کا جواب تین ہفتوں سے بھی کم وقت میں دے دیا تھا۔ عدالت نے 16 مارچ 2022 کو روس کو حکم دیا تھا کہ وہ فوری طور پر فوجی کارروائیاں معطل کرے۔

تاہم ڈبلن کے ٹرینٹی کالج کے پروفیسر مائیکل بیکر جنوبی افریقی مقدمے کی پیچیدگی کے بارے کہتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالت کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یوکرین کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ دونوں فریق بھی اس تنازعے میں شامل تھے۔ حماس اس مقدمے میں فریق نہیں ہے اور عالمی عدالتِ انصاف یہ کہنے سے ہچکچا سکتی ہے کہ اسرائیل کو اپنی کارروائی روک دینی چاہیے، جب کہ وہ حماس کو بھی ایسا کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتی۔ البتہ عدالت اسرائیل کو زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہہ سکتی ہے۔

عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ کرنے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں گے کہ آیا اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے یا نہیں۔ 2019 میں گیمبیا نے میانمار کے خلاف روہنگیا پناہ گزینوں پر فوجی کارروائی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے پر چار سال گزر چکے ہیں، لیکن ہنوز اس پر سماعت جاری ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں فرق

‏بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) بین الاقوامی قانونی نظام کے اندر دو الگ الگ ادارے ہیں۔ دونوں کے مختلف افعال ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے متعلق مقدمات اور ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کے ساتھ ساتھ قانونی سوالات پر مشاورتی رائے کی درخواستیں شامل ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی اور وہ اپنے فیصلوں کو نافذ کروانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر منحصر ہے، البتہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار ہے، جو عدالتِ انصاف کے فیصلوں کو کالعدم بھی کرسکتے ہیں۔‏  ‏دوسری جانب بین الاقوامی فوجداری عدالت دی ہیگ میں واقع ہے، تاہم اس کا دائرہ اختیار ریاستوں کے بجائے افراد پر ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت روم کے قانون کے مطابق انتہائی سنگین جرائم کے لیے افراد پر مقدمہ چلاتی ہے، جن میں نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور پرتشدد جارحیت شامل ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے البتہ اس کے پاس  بھی نفاذ کا اختیار نہیں ہے۔ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے یہ رکن ممالک کے تعاون پر منحصر ہے۔

عالمی عدالتِ انصاف کا طریقہ کار

عالمی عدالتِ انصاف 15 ججوں پر مشتمل ہے جن کا تقرر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انتخابات کے ذریعے نو سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک امیدواروں کے نام تجویز کر سکتا ہے لیکن ایک ملک سے دو جج نہیں آسکتے۔ اس وقت بنچ میں فرانس، سلوواکیا، صومالیہ اور بھارت سمیت دنیا کے تمام حصوں کے جج شامل ہیں۔[6] صدر اور نائب صدر کے تقرر کے لیے جج خفیہ رائے شماری کرتے ہیں۔ عدالت کے صدر امریکہ کے جون ای ڈونوگو عدالت کے نائب صدر روس کے کریل گیورگیان کے ساتھ اس وقت عالمی عدالتِ انصاف کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ان دونوں کی مدت کار اسی سال فروری میں ختم ہو رہی ہے۔

عالمی عدالتِ انصاف کے ججوں کو غیر جانب دار ہونا چاہیے اور اپنے ممالک کی توسیع کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ماضی میں ججوں نے اپنے ممالک کی سیاست کے مطابق ووٹ دیا ہے۔ 2022 میں جب بنچ نے روس کو یوکرین سے نکالنے کے فیصلے کے حق میں ووٹ دیا تھا تب روس اور چین کے ججوں نے اس فیصلے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

اسرائیل اور جنوبی افریقہ عدالت کی بنچ میں شامل ہونے کے لیے ایک ایک عارضی جج مقرر کرسکتے ہیں کیوں کہ دونوں میں سے کسی کی نمائندگی نہیں ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور ہولوکاسٹ سروائیور اہارون براک اسرائیل کا انتخاب ہیں۔ براک وہی جج ہیں جنھوں نے سپریم کورٹ میں اپنے دور کے دوران فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ‘‘جائز’’ قرار دیا تھا۔ جنوبی افریقہ نے سابق ڈپٹی چیف جسٹس ڈیک گانگ موسینیکے کو مقرر کیا ہے۔

اس ہفتے کے ابتدائی اجلاس میں عالمی عدالتِ انصاف اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا اس معاملے میں اس کا دائرہ اختیار ہے یا نہیں۔ عام طور پر دائرہ اختیار اس وقت قائم ہوتا ہے جب متعلقہ ریاستیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ عدالت کی طاقت کو تسلیم کرتی ہیں یا اگر ممالک کسی معاہدے میں فریق ہیں۔ جنوبی افریقہ اور اسرائیل ہولوکاسٹ کے بعد 1948 کی نسل کشی کنونشن کے فریق ہیں اور اس طرح عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اس کی تشریح کے تابع ہیں۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا اسرائیل اس معاملے میں عالمی عدالتِ انصاف کے دائرہ اختیار سے اختلاف کرے گا یا نہیں، جیسا کہ روس نے یوکرین کے معاملے میں کیا تھا، حالاں کہ روس بھی مذکورہ نسل کشی کنونشن کا فریق ہے۔ بیکر کے بقول ہارنے والا فریق اسی دلیل کو آخری حربہ بناتا ہے۔

اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے ان الزامات کے خلاف اپنا دفاع کیا جن میں خوراک اور ادویات پر پابندی سے لے کر جبری نقل مکانی، بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور دیگر کارروائیاں شامل ہیں۔ اسرائیل نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے دفاع کا اعلان کیا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں ایک علیحدہ مقدمہ چل رہا ہے۔ جہاں آئی سی سی فوجداری مقدمات میں افراد پر مقدمہ چلایا جاتا ہے، وہیں عالمی عدالتِ انصاف ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

فریقین کی عدالت میں نمائندگی کیسے ہوگی؟

فریق ممالک ‘‘اسپیشل ایجنٹوں’’ کی ٹیمیں مقرر کرتے ہیں جن میں عام طور پر اعلی قانونی مشیر یا قانون کے معروف پروفیسر شامل ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے برطانوی وکیل میلکم شا کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے پروفیسر جان ڈگرڈ جنوبی افریقہ کی ٹیم کی قیادت کریں گے۔ 11 جنوری سے ہنگامی حکم نامے کی سماعت کے دوران دونوں ٹیمیں فل بنچ کے سامنے اپنے دلائل پیش کریں گی۔ تمام 17 جج عالمی عدالتِ انصاف میں گریٹ ہال آف جسٹس میں بیٹھیں گے اور دونوں فریقوں کے دلائل سنیں گے۔ ایجنٹوں سے پوچھے گئے کسی بھی سوال کا موقع پر جواب دینا ضروری نہیں ہے، جیسا کہ باقاعدہ عدالتی مقدمے میں ہوتا ہے۔ جواب بعد کی تاریخ میں تحریری طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس میں عام کیس کی طرح گواہ بھی نہیں ہوں گے۔

اگرچہ عبوری سماعت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی، لیکن بنیادی مقدمہ، اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا اسرائیل واقعی نسل کشی کا مجرم ہے یا نہیں جیسا کہ جنوبی افریقہ کا دعویٰ ہے۔ اس میں وقت لگے گا۔ عدالت دونوں فریقوں کو مزید تفصیلی دلائل پیش کرنے کے لیے وقت دے گی۔ اس کے بعد متعدد سماعتیں ہوں گی۔ اس کے بعد جج ووٹنگ کریں گے اور حتمی فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔

دوسرے ممالک کی مداخلت

دوسرے ممالک قانونی طور پر اسرائیل یا جنوبی افریقہ کے حق میں مداخلت کرسکتے ہیں، حالاں کہ ابھی تک کسی نے ایسا نہیں کیا ہے۔ یوکرین بنام روس مقدمے میں، تمام یورپی یونین (بہ استثنائے ہنگری) ریکارڈ 32 ممالک نے یوکرین کی حمایت کرنے کے لیے مداخلت کی تھی۔ پروفیسر بیکر کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسے یکجہتی کے سیاسی مظاہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن مداخلت دراصل معاملات کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ ‘‘اگر کوئی ریاست اس لیے مداخلت کرتی ہے کہ وہ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے، تو اس سے قانونی نقطہ نظر سے تو کوئی اضافہ نہیں ہوگا، البتہ وہ کارروائی کو سست کر سکتے ہیں اور عالمی عدالتِ انصاف کے لیے لاجسٹک چیلنج کا سبب بن سکتے ہیں۔ جو بھی حمایت کرنا چاہتا ہے اسے جنوبی افریقہ کے ابتدائی دعوے میں شریک بننا چاہیے تھا۔’’ [7] متعدد ممالک کی طرف سے دائر مقدمات سے یہ کیس سست ہوگا، کیوں کہ عدالت کو ان سب کو دیکھنا پڑے گا۔ اگر کوئی ملک مقدمہ دائر کرنے کے وقت جنوبی افریقہ کا ساتھ دیتا تب یہ ایک واحد مقدمہ ہوتا، الگ الگ مقدمات نہیں۔ اس کے بجائے، ماہرین کے مطابق، ممالک یا تنظیمیں کسی بھی فریق کی حمایت میں سیاسی بیانات دے سکتی ہیں۔ جس طرح ملیشیا، ترکی، بولیویا اور کئی دیگر ممالک پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ وہ جنوبی افریقہ کی حمایت کرتے ہیں۔

اسرائیل کو توقع ہے کہ اس کے حواری مغربی ممالک خصوصاً امریکہ، انگلینڈ اور جرمنی اس مقدمے میں اس کی حمایت کریں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کو اسرائیل کے خلاف فیصلے سے اتنا ہی خوف ہے جتنا کہ خود اسرائیل کو ہے۔ ان ممالک نے قتل و غارت گری کی نہ صرف بھرپور حمایت کی ہے بلکہ بالواسطہ طور پر اس نسل کشی میں شریک بھی رہے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ دیا ہے جس کا استعمال نہتے اہلِ فلسطین کے خلاف کیا جارہا ہے۔

حتمی فیصلے کا کیا امکان ہے؟

عالمی عدالتِ انصاف کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن اس ہفتے کی ابتدائی کارروائی جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جاری ہلاکتوں اور تباہی کے خلاف ہنگامی حکم نامے کی مخصوص درخواست پر مرکوز ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عبوری فیصلہ چند ہفتوں میں سنایا جاسکتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاشم نے بتایا کہ نسل کشی کے الزامات پر عدالت کا سرِ دست حتمی فیصلہ سنانا ضروری نہیں ، البتہ یہ فیصلہ سنایا جا سکتا ہے کہ کم از کم اسرائیل کی کچھ حرکتیں کنونشن کی تعریف میں آتی ہیں اور یوں عدالت ان پر فیصلہ سنانے کی مجاز ہے۔

یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جج کس طرح ووٹنگ کریں گے یا فیصلہ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اکثریت کو لگتا ہے کہ کئی ماہ کی بحث کے اختتام پر اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اسرائیل عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے مطابق کام کرنے کا پابند ہوگا۔ قانونی طور پر عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی پابندی لازمی ہے اور ان کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔ تاہم ایک مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کے پاس فیصلوں کے نفاذ کا کوئی حقیقی اختیار نہیں ہے۔یہ جنوبی افریقہ کے لیے ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ بیکر کے نزدیک اصل خدشہ یہی ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف ہونے والے فیصلے کی تعمیل نہیں کرے گا۔

اگر اسرائیل اس پر عمل نہیں کرتا تو جنوبی افریقہ اس کے نفاذ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن وہاں اسرائیل کے نمبر ایک حواری امریکہ کو مستقل رکن کی حیثیت سے فیصلہ ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ امریکہ اسرائیل کو سزا سے بچا سکتا ہے، جیسا کہ اس نے اس جنگ میں کئی بار کیا ہے۔ 1945 سے لے کر اب تک امریکہ اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 36 قراردادوں میں سے 34 کو ویٹو کر چکا ہے۔

واشنگٹن کے ادارے تحریر انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کی ڈائریکٹر مَی السعدنی (Mai El-Sadany)کے بقول ‘‘یہی وجہ ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی کم اور اس کی تعمیل کے بارے میں زیادہ فکر کرنی چاہیے۔ ’’ان کے نزدیک یہ مقدمہ اپنے آپ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر مزید بین الاقوامی دباؤ ڈالنے میں کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق ‘‘[اس مقدمے کے] مختلف شکلوں میں بڑے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، خواہ متاثرین کے تجربات کو دستاویزی شکل دینا ہو، مجرموں کو برسرِ عام لانا ہویا بین الاقوامی نظیر قائم کرنا ہو۔’’ [8]

جنوبی افریقہ کے حق میں فیصلہ آنا اہلِ غزہ اور وسیع تر فلسطینی برادری کے لیے ایک علامتی فتح ہوگا۔ اس مقدمے کی کامیابی ان کی شکایات اور مصائب کے بین الاقوامی اعتراف کی دستاویزی دلیل بھی ہوگی اور اسے انصاف کا احساس فراہم کرنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس طرح کا فیصلہ غزہ کی صورتِ حال اور فلسطینی کاز کی طرف زیادہ بین الاقوامی توجہ مبذول کرا سکتا ہے۔ اس سے دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر فلسطینیوں کے لیے زیادہ انسانی امداد اور حمایت ملے گی۔مقدمے کافیصلہ قضیہ فلسطین سے متعلق بین الاقوامی سفارت کاری کی حرکیات پر بھی اثر انداز ہوگا۔ ممالک اور بین الاقوامی ادارے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے یا امن مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے پر مائل ہوسکتے ہیں۔ اس فیصلے سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی عالمی ایڈووکیسی اور سرگرمی کو تقویت ملے گی۔ بین الاقوامی سول سوسائٹی گروپ، این جی اوز اور کارکن اس فیصلے کو غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں ناانصافیوں کے خلاف اپنی مہم کو تیز تر کرنے کے لیے ایک بنیاد کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فریقین بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے پابند تو ہیں مگر اس میں قوتِ نفاذ کا فقدان ہے۔ فلسطین میں اس کے فوری عملی اثرات ممکنہ طور پر نظر نہیں آئیں گے۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی پروا نہیں ہے، اور اسرائیل غزہ پر اپنی کارروائی سے باز نہیں آئے گا۔ اس فیصلے کی اہمیت کا انحصار بڑی حد تک بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے رد عمل اور اقدامات پر ہوگا۔ بہرحال، حتمی فیصلہ اور اس کے نتائج خواہ کچھ ہوں، یہ مقدمہ بجائے خود فلسطینی کاز کی فتح اور ایک بڑی اخلاقی کامیابی ہے۔

ماخذ

[1] https://www.icj-cij.org/case/192

[2]https://www.icj-cij.org/sites/default/files/case-related/192/192-20231228-app-01-00-en.pdf

[3]https://www.aljazeera.com/features/longform/2024/1/14/israels-100-days-of-relentless-war-on-gaza

[4] https://www.youtube.com/watch?v=MJzf_52xBJk

[5]https://www.aljazeera.com/news/2024/1/12/icj-genocide-case-south-africas-five-point-argument-against-israel

[6]https://en.wikipedia.org/wiki/South_Africa_v._Israel_(Genocide_Convention)

[7]https://www.aljazeera.com/news/2024/1/12/icj-genocide-case-what-are-israels-main-arguments

[8]https://www.aljazeera.com/news/2024/1/10/south-africas-genocide-case-against-israel-how-will-the-icj-decide

مشمولہ: شمارہ فروری 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223