عالمی حالات اور تحریکات اسلامی

ایس امین الحسن

مصر

فوجی حکومت کے مسلط ہونے کے ساتھ انقلاب ِمصرایک مخالف انقلاب کی نذر ہو چکا ہے ۔جو انقلاب عوام کے ہاتھوں برپا ہوا فوج کے ہاتھوں اُس کا خاتمہ ہوا ۔بہارِ عرب خزاں میں یوں بدل گئی جیسے کلی کھلنے سے پہلے مرجھا گئی ہو۔مصر اب ایک ’’پولیس اسٹیٹ ‘‘بن چکا ہے اور دور السیسی کی کارستانیوں کے مقابلے میں حسنی مبارک کا دور بہترمعلوم ہونے لگتا ہے ۔

فوج نے عوام کی منتخب شدہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر ۳؍جولائی ۲۰۱۳ء کوصدر مرسی کو بر طرف کر دیا ،پارلیامنٹ کو تحلیل کر دیا اور عوام کی اکثریت سے منظور شدہ دستور مملکت کو کالعدم قرار دے دیا ۔عبوری حکومت کیلئے دورِ حسنی مبارک کے اُن مفسدین کو اقتدار سونپ دیا گیا جو اسلام دشمن ،اسرائیل نواز اور امریکی باج گزاررہے ہیں ۔ایمر جنسی کا کالا قانون نافذ کر دیا گیا جس کی آڑ میں ہر جائز احتجاج کا گلہ گھونٹہ جا رہا ہے ،پریس کے ہاتھ جکڑ کر حق کی آواز بلند کرنے والوں کی زبان بند کی جا رہی ہے ۔کرفیو سختی سے نافذ ہے ۔اخوان اور اس کے ملحق اداروں پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ان قائیدین کو ذلت آمیز طریقے سے زیر ِ حراست لے کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے ۔جو اس دہشت گردی کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں خود دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے جیسے ’’الٹا چورکتوال کو ڈانٹے ‘‘۔سرزمین ِ مصر اخوانیوں کے خون سے لال ہو چکی ہے۔ عوام کا برپا کیا گیا انقلاب ایک مخالف انقلاب کی نذر ہو گیا ہے ۔یہ عظیم حادثہ تحریکات اسلامی کے لیے سبق ہے۔

اسلامی تبدیلی کے چمنستان کو اجاڑنے میں تین دشمنوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

(۱)تحتی ریاست یا Deep State

حسنی مبارک کے دورِ منحوس کے حکومتی عہدیداران،مغربی افکار کے نمائندہ میڈیا اور محکمہ عدلیہ کے قاتلانِ انصاف نے ایک گہری سازش کے تحت مرسی حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون کیا۔

lمحکمہ پولیس کے کارندے اپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتے رہے چنانچہ ٹریفک کی صورتحال ابتر ہوتی گئی۔lگیس کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی تھیں اس لیے کہ گیس کا مصنوعی قحط اس شعبہ کے کارندوں نے پیدا کردیا تھا۔lپٹرول کے ٹینکرس کا رُخ مصر کی بندرگاہوں پر پہنچنے سے پہلے ہی کسی اور طرف موڑ دیا جاتا تاکہ پٹرول کی قلت پیدا کرکے صدر مرسی پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا جائے۔lمرسی کے وزیر برائے بجلی کا کہنا ہے کہ ان کے احکامات جاری کرنے کے باوجود محکمہ کے لوگوں نے عدمِ تعاون کے سازشی رویہ کو بدستور جاری رکھا۔lامن وقانونLaw and order کی صورتحال بھی بگاڑی گئی ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں اخوان دشمنی اور اسلام پسندوں کی مخالفت کی تربیت دی جاتی تھی۔اس صورتحال کو ہم یوں تعبیر کرسکتے ہیں کہ مرسی حکومت کے اندر عین مخالف سمت میں حسنی مبارک دور کی ایک گہری پیوست ریاست کام کررہی تھی۔ اس آگ پر تیل چھڑکنے کا کام حسبِ دستور اسلام دشمن مغربی طاقتوں نے کیا۔

(۲)NGOs(غیرسرکاری تنظیموں) کا منفی کردار

یہ باتیں اب طشت ازبام ہوچکی ہیں کہ امریکہ اپنے حلیفوں کے تعائون سے ڈالر کا دریا بہا کر مختلف NGO’s کو کھڑا کرتا رہا۔ امریکہ کے یہ سازشی ادارے حسب ذیل ہیں:

(۱)مشرق وسطیٰ میں بحالی جمہوریت کا منصوبہPOMED – project on middle east democracy یہ ادارہ سالانہ تقریباً 65ملین ڈالر کا تعاون ان اداروں کو کرتا رہا جو اسلام دشمن اور مرسی مخالف تھے۔(۲) امریکی امدادUSAID – (u.s.Aid) یہ ادارہ سالانہ 1.4بلین ڈالر مصر کی مختلف اخوان مخالف اداروں پر نثار کرتا رہا۔(۳) مشرق وسطیٰ میں تعاونِ باہمیMEPI – middle east partnership initiative یہ ادارہ راست امریکی حکومت کے ماتحتی میں کام کرتا ہے اور بالخصوص NGO’s کو اخوان کے خلاف کھڑا کرتا ہے۔(۴)قومی ادارہ برائے جمہوریت،NED – Natianal endowment for democracy یہ ایک خطرناک اور سازشی ادارہ ہے جو بڑی معصومیت کے ساتھ بحالی جمہوریت کی دہائی دے کر مختلف حکومتوں کا تختہ الٹتارہا ہے۔

(۳)Corporatesکاروباری دنیا

مصر کی پہلی جمہوری حکومت کے خلاف حکومت کے مختلف محکمات اور شعبہ جات کے مارِ آستین رہے تھے۔ دوسری طرف NGO’sمورچے سنبھالے اس نو خیزاخوانی ریاست کے خلاف سرگرم تھے۔ تیسری طرف تمرّد نام کی ’’تحریک بغاوت‘‘ میں مصر کے ملحد سرمایہ کار روح پھونک رہے تھے۔ مثلاً سائورس مصر کا امیرترین سرمایہ دار ہے اس نے ملک کے طول و عرض میں پھیلے اپنے آفس فراہم کئے۔ اپنے اخبارات میں اخوانی حکومت کے خلاف مستقل الزام تراشی کرتا رہا مصری جمہوریت کے خلاف موسیقی کے ساتھ گانوں کو تیار کیا اور اس کی خصوصی پیش کش اپنے چینلس کے ذریعے کی۔ان مذموم کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملحدین، اشتراکیت پسند، لبرل اور مغرب زدہ عناصرنے صدر مرسی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ یہ مظاہرے پرتشدد تھے۔ اخوان کے دفتروں پر حملے کئے گئے۔ اخوانی کارکنوں کو شہید کیا گیا اور حیرت کی انتہایہ ہے کہ حکمراں پارٹی کے صدر دفتر کو آگ لگادی گئی۔ حکمراں پارٹی ہوتے ہوئے بھی پولیس نے ان کے دفاتر کو سکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کردیا۔

بنگلہ دیش :پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ملحدانہ ذہنیت کی حامل اسلام دشمن حکومت،اسلام پسندوں کی بڑھتی قوت سے خائف ہے۔چنانچہ وہ جماعتِ اسلامی کے قائدین پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انہیں سزائے موت کے فیصلے سنائے جا رہی ہے۔ حفاظت اسلام کی خاطر کھڑے ہونے والے سوائےاحتجاج بلند کرتے ہیں تو انہیں گولیوں کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔

عوامی لیگ نے گزشتہ انتخابات کے دوران اپنے منشور میں نئی نسل کو یہ یقین دلایا تھا کہ جنگی جرائم کے سلسلے میں انصاف کے مطالبے کو پورا کیا جائے گا ۔لہذا نئی نسل کے جذبات کی تسکین کے لیے انٹر نیشنل کرائم ٹریبونل قائم کئے گئے یہ عدالتیں دستور بنگلہ دیش کی دفعہ International Crime (tribunal) act 1973کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ دراصل یہ قانون بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے فوجی افسران کے خلاف مقدمات چلائے جانے کیلئے بنایا گیا تھا اور اس قانون کے تحت نسل کشی جیسے جرائم پر مقدمہ چلایا جانا مقصود تھا ۔مگر عوامی لیگ نے اُس کا غلط فائدہ اٹھایا اورحزب اختلاف کا گلہ گھونٹنے کے لیے دروغ گوئی اور بے شرمی کے ساتھ اسے استعمال کیا۔اس قانون کے غلط استعمال کی مثالیں یہ ہیں:

٭Intarnational Crime tribunalکے نام سے فریب دیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی عالمی سطح کی عدالت ہے جبکہ نہ اسے UNکی حمایت حاصل ہے نہ عالمی عدالت کی ۔

٭نئی نسل کے سامنے تاریخ آزادی پیش کرکے اُن کےذہن کو مسموم کیاجارہاہے۔

٭یہ قانون مغربی پاکستان کے فوجی افسران کے خلاف بنایا گیا تھا ۔سماج کی خدمت گزار جماعت کو اس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

lیہ قانون نسل کشی کے خلاف بنا جب کہ یہ نام نہاد عدالتیں جماعت اسلامی کے خلاف یہ چارج کبھی ثابت نہیں کر سکیں جماعت اسلامی کسی نسل یا مذہبی گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے جُرم میں کبھی ملوث نہیں ہوئی ۔یہ عدالتیں کھلم کھلا دھاندلی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔اس لیے کہ عدالت کا قیام اور مقدمہ چلائے جانے کے طور طریقے مسلمہ عالمی اصولوں ،قوانین ،انسانی حقوق کے چارٹر میں سے کسی کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ انصاف پسند عالمی شہرت یافتہ ماہرین قوانین یورپین پارلیمنٹ اور انٹر نیشنل بار اسوسی ایشن نے اِن کی سخت مذمت کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود یہ مقدمات بنگلہ دیش کے قانون کے معیار پر بھی پورے نہیں اُتر تے ۔اسے عوامی لیگ کی غنڈہ گردی ،سینہ زوری اور اسلام دشمنی ہی پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔ان سب معاندانہ کارروائیوں کے پیچھے یہ سبب بھی ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی معیشت اور bankingمیں گہرے اثرات و نفوذ رکھتی ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت چاہتی ہے کہ ان کا رروائیوں کے ذریعہ انہیں معاشی شعبےEconomic Sectorسے بے دخل کر کے لیگ نواز ممالک اور عالمی بینکوں کو موقع فراہم کیا جائے ۔

تجزیہ :عالم اسلام روئے زمین کے جس خطہ پر واقع ہے وہ دنیا کا سر سبز و شاداب خطہ ہے زرخیز ترین علاقے اس کی گود میں ہیں۔ اناج،پھل ،میوے اور نوبہ نو اقسام کی زراعتی پیدا وار یہاں ہوتی ہے ۔بھیڑ ،بکریوں ،مچھلیوں اور اونٹوں کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ یہیں سے ملتا ہے۔ دنیا کا 60%سے زیادہ پٹرول یہیں سے نکالا جاتا ہے اور تیل کے زیرِ زمین ذخائر عالمی ذخائر کے مقابلے میں 80%سے زیادہ ہے ۔معدنیات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس علاقے میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بحرابیض ،نہر سویز ،بحر حمر جیسی اہم ترین بحری گزرگاہیں اسی علاقہ میں واقع ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذہب و تمدن کا قدیم ترین گہوارہ ہے ۔دشمن کی نگاہ ِبد گزشتہ 200سال سے اس علاقہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہی ہے موجودہ دور میں یہ کوششیں تیز سے تیز تر ہو گئی ہیں اس کے پیچھے جو نظر یاتی عوامل کار فرما رہے ہیں ان کا ایک جائزہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

l    1980      کے دہے کے اختتام پر صفحہ ہستی سے کمیونزم کا تسلط ختم ہوا اور اس کے زیرِ دست ریاستیں منتشر ہونے لگیں امریکی سابق صدر رچراج نکسن نے اپنے ملک کو یہ مشورہ دیا کہ اب وہ اکیلا عالمی Super powerہے لہٰذا عالمی سطح پر اب قائدانہ رول ہم ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ آزادی اور جمہوریت کے مبلغ اور علمبردار کی حیثیت سے جب ہم ایک مسابقتی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کریں گے تو مفادات کا ٹکرائو اور قومی تصادم ایک ناگزیر امر ہوگا ۔

اسی دور کے ایک ماہر سیاست دان امورِ خارجہ کے سکریٹری (ہنری کسنگر) Henry kissingerنے اپنے حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا کہ قوموں پر تسلّط حاصل کرنے کے لیے تیل پر قبضہ کرو۔

تیل کے ذخائر پر قبضہ جمانے کیلئے اور سابقہ عالمی قوت روس کو کمزور یا بے دخل کرنے کیلئے ایک نئے منصوبے projectکی ضرورت محسوس ہوئی ۔

’’پروجیکٹ تخریب کاری برائے تعمیر‘‘ کے مناظر آئے دن مسلم خون کی ارزانی کی شکل میں پاکستان سے مراقش تک دیکھے جاسکتے ہیں۔پاکستان میں ڈرون حملوں کا معمول اورافغانستان میں طالبان کے اڈوں پر وقفے وقفے سے NATOکی جارحانہ بمباری ، اس کے مثالیں ہیں۔ ایران کی معاشی ناکہ بندی ،عراق میں کار بم دھماکے شام میں باغیوں اور حکومتی فوج کے مابین خانہ جنگی ،بحرین میں احتجاجیوں پر فائرنگ ،یمن میں ’’اسلامی دہشت گردوں ‘‘کے خلاف کارروائی اس منصوبے کے نتائج ہیں۔لیبیا کی مستحکم حکومت کا خاتمہ ہزاروں بے گناہوں کی سوڈان کی ’’بندر بانٹ ‘‘سے لے کر مصر میں اخوانیوں کی حکومت سے بے دخلی اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والوں پر ٹینکوں اور ہیلی کاپٹر س کے ذریعے بمباری ،پروجکٹ تخریب کاری برائے تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔اس پوری کارروائی کو وہ ’’وسیع تر مشرقِ وسطی پروجیکٹ ‘‘اس لیے قرار دیتے ہیں کہ اس میں وہ اہم ترین مسلم ممالک بھی شامل کر لیے گئے ہیں جو مشرق وسطی سے متصل پائے جاتے ہیں امریکی مفاد یہ ہے کہ ٭ وہاں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ جمایا جا سکے ۔ ٭امریکی مصنوعات کے لیے ایک بہت ہی بڑا marketبازارمیسر آسکے۔٭ اسلامی متبادل کو منصئہ شہود پر آنے سے روکا جا سکے ۔

اس مذموم منصوبے کو مغربی دانشورایک شطرنج کے کھیل سے تمثیل دیتے ہیں امورِ خارجہ کا ماہربرؤنسکی Zbigniew brezinskiاپنی کتاب The grend chess bordمیں کہتا ہے کہ شطرنج کے اس کھیل کیلئے عالمی منظر نامہ امریکہ کے حق میں متعین ہے اگر امریکہ کو عالمی قائد بننا ہے تو یوریشیا Eurasiaپر اس کا اقتدار اور تسلط لازم ہے ۔اس کھیل میں امریکہ کو چاہئے کہ کچھ ہم خیال و ہمنوا حلقوں کو اپنے ساتھ لے ۔اس پورے کھیل میں اصل ہدف تحریکات اسلامی ہی ہیں جو امریکہ کے ناجائز قبضہ و تسلط کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔امریکی دانشوروں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ مسلم سماج کا مطالعہ کیا اور امت کے چار گروپس کی نشاندہی کی ہے ۔

(الف) بنیاد پرست Fundamentalist   (ب)روایت پسند Traditionalist

(ج)لادینی جمہوریت پسند Secularist      (د)جدیدیت پسند Modernist

ان دانشوروں کے نزدیک بنیاد پرستوں کا جرم یہ ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں تعمیر جہانِ نو کی بات کرتے ہیں اور ستم یہ کرتے ہیں کہ اسلام کو معیشت و سیاست جیسے میدانوں میں بھی کھینچ لاتے ہیں ۔ان کی قوت کو توڑنے کیلئے مسلم سماج ہی کے کچھ اور طبقوں کے ساتھ اشتراک کرناچاہئے۔ مصر،ترکی،بنگلہ دیش وغیرہ کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ کس مہارت کے ساتھ وہ اپنے اس منصوبے کو روبہ عمل لا رہے ہیں ۔

1990ء میں جب یہ پروجیکٹ روبہ عمل لایا جا رہا تھا تو اس وقت کا امریکی صدر سینئر بش اُسے ’’نیا عالمی نظام ‘‘کے نام سے موسوم کر رہا تھا ۔20سال کے بعد اس کے خدوخال ابھرکر سامنے آئے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ اس پروجیکٹ کے سلسلے میں عالمی سطح پر شعورکی بیداری ہو،دانشوروں کو اس سلسلے میں حساس بنایا جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے اس تخریب کاری کی لہر پر روک لگائی جاسکے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau