عَنْ اَبِیْ یَعْلَی شَدَّادِبْنِ أوْسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہٗ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَالَ: إِنَّ اللہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ، وَإذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحِسِنُوْا الذِّبْحِۃَ، وَلِیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَغَرَتَہٗ وَلِیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔ (رواہ مسلم(
’’حضرت ابویعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ نے ہر کام کو خوش اسلوبی، اور بطریق کمال انجام دینے کو واجب کردیاہے۔ لہٰذا جب تم کسی کو (کسی جائز سبب سے) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب جانور کو ذبح کرو تواچھی طرح سے ذبح کرو، تمہیں چھری کو اچھی طرح تیز کرلینی چاہئے۔ اور ذبح ہونے والے جانور کو راحت پہنچانی چاہئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے: اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ (البقرہ:۳۰)’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ (الانعام:۱۶۵)’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایاہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات کامل اور ستودہ صفات ہے ۔ وہ ہر نقص اور ہر عیب سے پاک ہے، اس کے اندر کسی طرح کی ادنیٰ کمی بھی نہیںپائی جاتی ہے، جس طرح اللہ کی ذات حسن کامل کی مظہر اور ہر نقص اور عیب سے پاک ہے اسی طرح اس کے کام بھی کمال اور حسن کے مظہر ہیں۔ اپنے کاموں کا تعارف خود کراتا ہے۔
وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۴۷ وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰہَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ۴۸ (الذاریات:۴۸،۴۷(
’’آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں (یعنی پورے اہتمام اور حسن کے ساتھ) بنایا ہے اور اس کی قدرت ہم ہی رکھتے ہیں اور زمین کو ہم نے بچھایا اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔‘‘
صُنْعَ اللہِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ اِنَّہٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۸۸ (النمل:۸۸(
’’اللہ کی کاری گری کا کرشمہ ہے جس نے ہر چیز کو کمال اور حسن کے ساتھ پیدا کیا۔‘‘
آسمان، زمین، ستارے اور سیارے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حسن تخلیق کے مظہر ہیں، کہیں بھی کوئی کمی ، بے ترتیبی اور بدنظمی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کرکے فرمایا:
الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۰ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۳ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِيْرٌ۴ (الملک۳،۴(
’’وہی ہے جس نے یہ بتہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے، پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تم کو کوئی خلل اور کمی نظر آتی ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔‘‘
انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ اس کا ارشاد ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۴ۡ (التین:۴(
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیداکرکے اسے زمین پر اپنا خلیفہ اورنائب بنایا۔ اور اسے دنیا کے نظم وانصرام اس کی ترقی وتمدن کا ذمہ دار بھی بنایا۔ اس لئے اس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ حسن وکمال دیکھناچاہتاہے، خلافت کے منصب پر فائز کرکے اس نے انسان کو جوعزت وشرف بخشا ہے، اس کاتقاضا ہے کہ انسان اپنے فکر وعمل اور اخلاق ومعاملات میںحسن وکمال کااظہار کرے۔
تخلیقِ انسانی کا مقصد
انسان کی تخلیق کی غرض حسن عمل کی جانچ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭ (الملک:۲(
’’وہ اللہ ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ دیکھے کون شخص حسن عمل کے اعتبار سے اچھاہے۔‘‘
اس دنیا کے بعد جو دوسری دنیا قائم ہونے والی ہے اور وہی اصل زندگی ہے وہاں کی کامیابی اور ناکامی کا معیار ’’حسن عمل‘‘ کو بنایاگیا ہے جس شخص کے عمل میں حُسن ہوگا وہ کامیاب ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے:
وَھُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُہٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۰ۭ (ہود:۷(
’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا جب کہ اس سے پہلے اس کاعرش پانی پر تھا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔
اِنَّ اللہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ فِیْ کُلِّ شَیْءٍ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کو اچھی طرح، پورے حسن وکمال کے ساتھ کرنے کو واجب کردیا ہے۔ حدیث کے اس ٹکراؤ میں اسلام کی ایک اصولی بات بتائی گئی ہے کہ مسلمان جو بھی کام کرے اس کو، خوبی وبہتری، پورے اہتمام کے ساتھ اور سلیقے سے کرے۔ یہ ہدایت زندگی کے جملہ امور سے تعلق رکھتی ہے۔ خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، امور تعبدی سے ہو یا معاملات سے، مسجد ومدرسہ سے ہویا گھر اور خاندان سے ۔ معیشت معاشرت اور سیاست سے ہو،انسان پر لازم ہے کہ ہر جگہ اور ہرلمحہ اپنے کاموں میں حسن وکمال کا خیال رکھے۔
فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوْا الْقِتْلَہَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوْا الذِبْحَۃَ۔
اگر کسی جائز سبب سے کسی انسان کو قتل کرنا ہو تو اچھی طرح سے قتل کرو، اور اگر جائز مقاصد کے لئے جانور کو ذبح کرنا ہو تو اچھی طرح ذبح کرو، یعنی انہیں تڑپا کر نہ مارو۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم ومحترم پیداکیاہے، اس لئے انسانی جانوں کے احترام کاحکم دیاہے۔ کسی بھی انسان کا قتل جائز نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۰ۭ (بنی اسرائیل:۳۳(
’’کسی جان کے قتل کاارتکاب نہ کرو جیسے اللہ نے حرام کیاہے مگر حق کے ساتھ‘‘
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۰ۭ
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا، کسی اور وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔‘‘(المائدہ: ۳۲)
کسی انسان کا قتل کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے لیکن انسانیت کی بقا وتحفظ اور سماج کو فساد اور ظلم سے محفوظ رکھنے کے لئے کبھی اس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ ارشاد ربانی:
اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۰ۭ (مائدہ:۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے لڑتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرنے کے لئے تگ ودو کرتےہیں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کئے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں۔‘‘
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۷۹ (البقرہ:۱۷۹)
’’عقل وخرد رکھنے والو، تمہارے لئے قصاص (بدلہ لینے) میں زندگی ہے تاکہ اس قا نون کی خلاف ورزی سے بچ جاؤ۔‘‘
اس طرح اگر قانوناً اور شرعاً کسی انسان کوقتل کرنے کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قساوت قلبی اور سنگ دلی سے کام نہ لیا جائے کہ اس کو تڑپا کر مارا جائے، حالانکہ اس سے مقتول کے اوپر بہت زیادہ فرق نہیں پڑنے والاہے، اس کی زندگی تو ختم ہونی ہے، اسے تو مرنا ہی ہے لیکن اس میں اصل امتحان انسان کے دل کاہے، انسان کے حسن عمل اور احسان کا ہے، کہ اپنے دل میں رحم اورشفقت کا جذبہ رکھتا ہے یا نہیں؟
دوسری مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے ذبح کرنے کی دی ہے کہ جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو۔
اسلام نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے، اور اس پر اجر وثواب کا وعدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
’’……قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ وَاِنَّ لَنَا فِیْ ھٰذِہٖ البَھَائِمِ لَأَجْرًا، فَقَال: فِیْ کُلِّ کَبِدٍ رَطَبَۃٍ اَجْرٌ۔ (بخاری مسلم)
’’……صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیاجانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ہمارے لئے اجر وثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہر (ذی روح) کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں تمہارے لئے اجر وثواب ہے۔‘‘
عَنْ ابْنِ عُمَرَ لَعَنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ مَّثَلَ بِالْحَیْوَانِ۔ (بخاری)
’’ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے اس شخص پرلعنت کی ہے جو جانوروں کو مثلہ کرے۔‘‘
یعنی زندہ ہی اس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔
نَھَیَ رَسُوْلُ اللہُ عَنِ الضَرْبِ فِی الْوَجْہِ وَعَنِ الْوَسْمِ فِی الْوَجْہِ۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے منہ پر مارنے اور ان کے منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا۔
وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَتَّخِذُوْا شَیْئًا فِیْہِ الرُوْح غَرَضًا۔ (مسلم)
’’آپ ؐ نے فرمایا کسی جاندار کو نشانہ مت بناؤ‘‘یعنی نشانہ بازی کی مشق کے لئے جانور کو مت مارو۔‘‘
ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا رویہ اختیار کرناچاہئے وہ بھی قابل احترام اور قابل رحم ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ اگرجائز مقاصد کے لئے اگر جانور ذبح کرناہو تو اس کو اچھی طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کرلیاکرو۔ تاکہ جانور تڑپ تڑپ کر نہ مرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مواقع پر ’’احسان‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے جبکہ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں سے پہلو اوجھل رہتا ہے۔ جن مواقع پر حسن عمل کا تصور بھی نہ ہو وہاں اس کی تعلیم دے کر زندگی کے تمام امور میں، انسان کو حسن عمل کا پابند بنایا گیا ہے۔
ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کو بہتر طریقہ سے انجام دینے (’’احسان‘‘ اور اتقان‘‘) کو اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی کا سبب بیان فرمایا:
’’اِنَّ اللہَ یُحِبُّ اِذَا عَمِلَ اَحَدَکُمْ عَمَلًا اَنْ یُتْقِنَہٗ۔(البیہقی شعب الایمان)
یقیناً اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ تم میں جو کوئی شخص کسی کام کو انجام دے تو اسے پوری مہارت اور کمال یکسوئی کے ساتھ انجام دے۔
اس حدیث کا پس منظر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس تھے قبر کو برابر کیا جارہا تھا، اینٹوں کے درمیان کہیں کوئی شگاف تھا آپ نے فرمایا ’’سَوَّوْ لَحْدَھَذَا‘‘ اس کو برابر کردو۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’صَنَعُوْا لشَّریَ فِیْ ذَلِکَ الْمَکَانٍ‘‘ اس جگہ مٹی رکھو، اس جگہ مٹی رکھو، حَتّٰی ظَنَّ النَّاسُ اَنَّہٗ سُنَّۃٌ یہاں تک لوگوں نے یہ گمان کیا کہ یہ سنت ہے۔ آپ لوگوں سے مخاطب ہوئے ’’اِنَّ ھَذَا لَایَنْفَعُ الْمَیِّتَ وَلَا یَضُرُّہٗ‘‘۔ یہ چیز میت کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (یعنی میت کو اس کا عمل ہی فائدہ پہنچائے گا) وَلَکِنَّ تَعَالٰی یُحِبُّ مِنَ الْعَامِلِ إذَا عَمِلَ عَمَلًا اَنْ یُتْقِنَہٗ‘‘ اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتاہے کہ جب کوئی شخص کوئی کام کرے تو اچھی طرح سے کرے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کفن پہنانے کے سلسلے میں بھی فرمایا کہ اس کام کو بھی اچھی طرح سے انجام دیاجائے۔
عَنْ جَابِرٍ بْنَ عَبْدِ اللہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’إِذَا کَفَّنَ اَحْدُکُمْاأخَاہُ فَلِیُحْسِنْ کَفَنَہٗ۔ (مسلم)
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کفن پہنائے تو اچھی طرح سے پہنائے۔
ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی کام کو اچھی طرح انجام دینا اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہے گویا، بہتر طریقہ سے کام کرنے سے تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ایک مومن کے نزدیک کسی بھی کام کو اچھی طرح انجام دینا عبادت ہے اس کام میں بھی اتقاق محض اس وجہ سے یہی مطلوب ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں گے، یا اس سے اس کی آمدنی بڑھ جائے گی یا اس کے گراہک اور اس کے پروڈکٹ (Product) کی مارکیٹ میں مانگ میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس سے کام کرنے والے کی صرف ذاتی مصلحت اور منفعت پیش نظر نہیں ہے بلکہ کام میں بہتری اس سے اللہ کی خوشنودی اوررضا کاحصول بھی پیش نظر رہناچاہئے مومن سے مطالبہ ہے کہ ہر کام اچھی طرح سے کرے، بہت سارے مواقعے سے آتے ہیں کہ اگر عملاً اور کمال کامظاہرہ کیاجاتا ہے تو مقصود اور مطلوب نہیں حاصل ہوتا ہے یا پھر جزوی طور پر اس کافائدہ ہوتاہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اس کے آداب وشرائط کے ساتھ نہ پڑھنے والے کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کامطلب ہے کہ اس کے نماز پڑھنے کا قصد اور مطلوب نما حاصل ہوا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوااور نماز ادا کی۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام کیا، آپ نے جواب دیا اور کہہ دیا کہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس شخص نے دوبارہ جاکر پہلے کی طرح نماز اداکی ہو، آپؐ کے پاس آکر سلام کیا آپ نے جواب دینے کے بعد فرمایا واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ اس نے دوبارہ نماز ادا کی اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ نے جواب دینے کے بعد تیسری بار کہا کہ واپس جاکر نماز کو دہراؤ، تمہاری نماز نہیں ہوئی اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ میں اس سے بہتر نماز نبی ادا کرناچاہتا ہوں۔ آپ مجھے سکھائیں، آپؐ نے فرمایا جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہوپھر جو کچھ قرآن پڑھنا چاہتے ہو پڑھو، اس کے بعد رکوع کرو، خوب اطمینان کے ساتھ، پھر سراٹھاؤ یہاں تک کہ اچھی طرح سے کھڑے ہوجاؤ، پھرسجدہ کرو، اطمینان کے ساتھ پھر بیٹھو پورے اطمینان کےساتھ۔ پھر سجدہ کرو، اطمینان کے ساتھ ، پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھو، اسی طرح اپنی نمازپوری کرو۔
ایک دوسری حدیث میں نماز کو اچھی طرح نہیںادا کرنے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری سے تعبیر کیا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! أَسْوَأُ النَّا سَرْقَۃً الذَّیْ یَسْرِقَ صَلَاتَہٗ قَالُوا: یَارَسُوْلُ اللہِ کَیْفَ یَسْرِقُ صَلَاتَہٗ قَالَ: لَا یَتِمُّ رُکُوْعُھَا وَلَا سُجُوْدُھَا۔ (احمد)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بری چوری نماز کی چوری ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول نماز کی چوری کیسی ہوتی ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا رکوع، اور سجدہ پورے اطمینان سے نہ کرنانماز کی چوری ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں:
’’لَاتَجْزِیْ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتّٰی یُقِیْمَ ظَہْرَہ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ(ابوداؤد)
’’جب تک کہ روکوع اور سجدے میں آدمی کی پیٹھ سیدھے نہ ہو اس کی نماز کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
روزے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمْلَ بِہٖ وَالْجَھْلَ فَلَیْسَ لِلہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدْعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ ۔ (بخاری)
’’جوشخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنانہ چھوڑے اس کا کھانا پینا چھوڑ کر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیںہے۔‘‘
روزے کو اس کے آداب یعنی اچھی طرح نہیں رکھنے سے اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ وُرُبَّ قَائِمِ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامَہِ اِلَّا السَّھْرً۔ (رواہ ابن ماجہ)
’’کتنے ہی ایسے روزے دار ہیں (جو روزے کو اچھی طرح نہیں رکھتے ہیں) جن کوبھوک کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے اس طرح کتنے ہی قیام اللیل کرنے والے ہیں۔ (جو قیام اللیل کو اچھی طرح نہیں کرتے) جو رات جگنے کے علاوہ اس سے کچھ نہیں حاصل ہوتاہے۔
ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کام کو اچھی طرح سے نہ انجام دیاجائے تو اس کامقصود نہیں حاصل ہوتا ہے۔ اور اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔
اس وقت ملت اسلامیہ میں اپنے کاموں میں حسن وکمال مفقود نظر آتا ہے صنعت وحرفت کامیدان ہو یا سائنسی وٹکنالوجی کا درس تدریس کا میدان ہو یا تجارت وزراعت سنجیدگی اور بہتر طریقہ سے انجام دینے کاجذبہ مسلم ملت سے بہتر انداز سے پایاجاتاہے۔ وہ اپنے کاموں میں زیادہ سنجیدہ اور وفادار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس کا پروڈکٹ زیادہ بہتر اور مفید تر ہے۔
قوموں کے عروج وزوال میں اس کی ذہنی ساخت اور طرز فکر کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ ملت جس کی شریعت نے ہر کام کو حسن اور خوبی کی طرح کرنے کو واجب کیا ہے اگر اس میں وہ پیچھے ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی شریعت سے غافل ہے۔ سخت کوشی اور محنت سے اس کے افراد جی چراتے ہیں، ضرورت ہے کہ ہم اپنابھولا ہوا سبق یاد کریں ، بالخصوص ملک وملت کے موجودہ حالات میں اس حدیث کے تقاضوں کو سمجھیں۔ اور اس پر عمل کرنے کے لئے خود کو تیار کریں۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2015