حکومت و سیاست اور قرآن

حدیث اور علماء سلف محدثین اور اسلام کا سیاسی نظام (2)

مولانا محمد جرجیس کریمی

محدثین کرام نے اسلام کوایک مکمل نظامِ حیات کے طورپر سمجھا ہے اوراسے متعارف بھی کرایا ہے چنانچہ انہوں نے کتاب الایمان سے لے کر کتاب الآداب تک زندگی میں پیش آنے والے تمام امور سے متعلق احادیثِ نبویؐ جمع کی ہیں اورامت کی رہنمائی کا سامان فراہم کیا ہے ۔ محدثین نے سیاسی نظام اور اس کے اصول مختلف عنوان کے تحت بیان کیا ہے ۔ صحیح بخاری میں کتاب الاحکام اورصحیح مسلم میں کتاب الامارۃ کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیا گیا ہے ۔ جس میں اجتماعیت کی اہمیت اور امر و مامور کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی گئی ہے اورایک ریاست کے استحکام اورعوام کے فلاح وبہبود سے متعلق احادیث نبویؐ جمع کی گئی ہیں ۔ کتاب الاحکام میں۵۳ابواب کے تحت اس کی تفصیلات مذکور ہیںمگر کتاب الامارۃ کے تحت ۵۶ابواب اور۱۹۵روایات منقول ہیں۔اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے اس میں افراد کومعاشی و معاشرتی آزادیاں اورضمانتیں فراہم کی گئی ہیں ۔ چنانچہ اسلامی ریاست نے کارروبار کو اپنی نگرانی میں انجام دینے کی ہدایت دی ہیں تاکہ کوئی کسی کا مالی و معاشی استحصال نہ کرے ، اس طرح اس نے معاشی طور پر کمزور اوردبے کچلے طبقات کی فلاح وبہبود کے لئے نظام زکوٰۃ کواپنے کنٹرول میں رکھا ہے تاکہ صحیح طریقے سے اس کی تنظیم ، تحصیل اور تقسیم کا کام انجام پاسکے ۔ محدثین نے کتاب البیوع اورکتاب الزکوٰۃ کے تحت اس کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔

اسلامی ریاست کا ایک بنیادی مقصد عدل وانصاف کا قیام ہے اس کے بغیر کوئی بھی انسانی اجتماعیت وجود پذیر ہوسکتی ہے نہ دیر تک باقی رہ سکتی ہے ۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ میںاس کی انتہائی اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ محدثین نے کتاب القضا کے تحت ان احادیث کوجمع کیا ہے جن میں عدل وانصاف کی تعلیمات دی گئی ہیں، صحیح بخاری میں عدل وانصاف سے متعلق مباحث کتاب الاحکام ، کتاب الحدود، کتاب القصاص ، کتاب الحضرات، کتاب المظالم اورکتاب الشہادات وغیر ہ موجود ہیں ، صحیح مسلم میں کتاب الاقضیہ کے عنوان سے ایک مستقل بحث ہے اس طرح ابوداؤد‘ ترمذی اورنسائی میں کتاب القضا کے عنوان سے بحث کی گئی ہے ۔ اس باب میں عدالتی اصول وآداب ، قاضی و جج کی مطلوبہ صفات اور فیصلوں میں ظلم وناانصافی کے عواقب سے بحث کی گئی ہے ۔

عدل وانصاف قائم کرنے کا ایک شعبہ حدود کا اجراء اوران کا نفاذ ہے اور یہ کام حکومت واقتدار کے بغیر انجا م نہیں دیا جاسکتا ، دنیا میں پیشہ ور مجرمین کی بھی بڑی تعداد موجود ہے ۔ جرائم اور مجرموں کے قلع قمع کے لئے ان پر حدود قائم کرناو اجب ہے۔ اسی صورت میں جرائم کی بیخ کنی ہوسکتی ہے ؟  سوال یہ ہے کہ کس جرم پر کون سی سزا دی جائے؟ جرائم کے اثبات کے کیا طریقے ہیں؟ جرائم سے متاثر ہونے والوں کی تالیفِ قلب کے لیے کیا کیا جائے؟ محدثین نے کتاب الحدود، کتاب القصاص، کتاب الشہادات اور کتاب الدیات میں ان روایات کو جمع کیا ہے جن میں ان مسائل کی توضیح وتشریح کی گئی ہے ۔

اسلام کے نظام سیاسی کا ایک مقصد دنیا میں امن وامان کا قیام بھی ہے ، چنانچہ اس کے لئے حدود کے نفاذ کے ساتھ محاربین ، ڈاکوؤں ، باغیوں اورمرتدوں کے استیصال کے احکام بیان ہوئے ہیں اوران کی سزائیں متعین کی گئی ہیں، محدثین نے ان مباحث کوکتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ میں بیان کئےہیں ، عصر حاضر میں جہاد کودہشت گردی سے جوڑ کر دیکھنے کی وجہ سے اسلامی ریاست اوراسلام کے سیاسی نظام پرطرح طرح کے اعتراضات کیے جارہے ہیں اوریہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی نظام حکومت قائم ہوجائے تواس کا بنیادی نصب العین جہاد کوفروغ دینا ہوگا۔جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دنیا میں جنگ و جدال کا ماحول قائم ہوا اورامن وامان کا کہیں نام و نشان نہ رہے ، خون خرابہ، دہشت گردی اوربد امنی اسلامی جہاد کا بنیادی مقصد ہے ۔چنانچہ معترضـین اسلامی ریاست اور جہاد کولازم وملزوم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے جہاد کا مقصد ملک گیری اور کشورکشائی ہرگز نہیں ہے ۔ لیکن اتنی بات طے ہے کہ جہاد کے حکم پر عمل ایک منظم اسلامی ریاست کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔محدثین و فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جہاد حکومت کی سرپرستی ہی میں ہوگا ۔ محدثین کتاب الجہاد ، السیر اورکتاب المغازی میں جس مباحث کوزیر بحث لائے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاد کا معاملہ ایک منظم حکومت کے ذمہ ہے ۔ اقتدار سے عاری کسی گروپ یا تنظیم کومسلح جدو جہد کرنے کا کوئی حق نہیںہے ۔ امام بخاری نے کتاب میں  ایک باب اس طرح قائم کیا ہے’’ باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ‘‘ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ قتال وجہاد کا معاملہ امام پر منحصر ہے ۔

جہاد جنگی امور سے متعلق ریاستی معاملہ ہے جس کا انتظام و انصرام ، اس کی تیاری ، فوجیوں کی تربیت ، تنظیم ، کس ملک سے جہاد ہوگا ؟ جنگ میں مقتول اورزخمیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ فتح کی صورت میں مالِ غنیمت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ صلح کا موقع آئے تواس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ سارے معاملات حکومتی پیمانے پر انجام دینے کے ہیں اورحکومت ہی انجام دے گی ، انفرادی طورپر ان میں مداخلت قطعی نہیں کی جاسکتی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے حکم پرعمل اس کی اپنی تمام فضیلتوں کے باوجود ایک منظم حکومت کی نگرانی ہی میں ہوگا ۔ محدثین نے ان تمام نکات پر احادیث رسولؐ  جمع کی ہیں۔

یہ دنیا اوراس کے معاملات باہمی معاہدوں کی بنیاد پر چل رہے ہیں ملکوں کے درمیان معاہدے نہ ہوںتو ان کے بہت سے معاملات انجام نہیں پا سکتے حتیٰ کہ ان کے درمیان امن وامان کا ماحول بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ وہ آپس میں معاہدے کریں۔ ملکوں کے درمیان معاہدے ملک کے سربراہ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر اسلامی ریاست میں کوئی منظم سیاسی نظام نہ ہو تو معاہدے انجام پذیر نہیں ہوسکتے ۔ چنانچہ محدثین نے اس تعلق سے کتاب الشروط، کتاب الوکالۃ، کتاب الصلح اور کتاب الجہاد وغیرہ میں ان کی تفصیلات جمع کی ہیں۔ محدثین خصوصاً امام بخاری نے کتاب المغازی میں دنیا کے مختلف بادشاہوں اورحکمرانوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراسلت کی تفصیلات نقل کی ہیں ۔ مختلف وفود کا استقبال کیا ہے اورمختلف قبائل و سرداروں کے پاس وفودبھیجے ہیں۔ یہ سب آج کی اصطلاح میں ملکی سفارت کار ی کے معاملات کہے جاتے ہیں۔

اسلام ایک عملی مذہب ہے۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق احکام ہیںجن پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسلام  ایک سیاسی نظام رکھتا ہے اگراس کے قیام واستحکام کے لئے جدوجہد نہ کیا جائے تویہ نظام قائم ہوسکتا ہے نہ باقی رہ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلام ایک نظام بھی ہے اور ایک عقیدہ بھی،محدثین نے اپنی کتابوں کی جو ترتیب قائم کی ہے ان میں اس کا کافی لحاظ کیا ہے ۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے ایما نیات کی بحث لائی گئی ہے ‘ پھر عبادات کی، پھر معاشرتی اصول و آداب بیان ہوئے ہیں اور اس دوران میں سیاسی نظام کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں اوّلیت ایمان و عقیدے اورعبادات کوحاصل ہے ان کے بعد دیگر احکام ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ دوسرے احکام کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ بھی دین کا حصہ ہیں اور ان پر بھی ایسے ہی عمل ہوگا جیسے دوسرے احکام پر عمل ہوتا ہے ۔ اس پہلو سے اس کے بعض امتیازات ہیں جو دوسرے مذاہب میں یا دوسرے نظام ہائے زندگی میں نہیں پائے جاتے جیسے اس کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ نظام اللہ تعالیٰ کاعطا کردہ ہے کسی انسانی ذہن کا مرتب کردہ نہیں ہے ۔ اس لئے اس پر عمل کرنے والا عنداللہ اجر کا مستحق ہوگا ۔اس کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ اس پر   رسول اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم اورصحابہ کرام ؓ کا  عملی نمونہ موجود ہے ۔ اس لئے اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تعلیمات قابلِ عمل نہیں ہیں ۔ اس کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ معقول اورمتوازن ہے اس میں افراط وتفریط نہیں ہے ۔ اسلام میں اعتدال وتوازن زندگی کے تمام شعبوں میں موجود ہے ۔ اسلام کے نظریہ حکومت اور خلافت میں بھی اعتدال وتوازن موجود ہے اس میں فرد اوراجتماعیت کے فرائض اورحقوق کی پوری وضاحت کی گئی ہے ۔

قرآن اورحدیث کے بعد اسلامی مآخذ میں خلفاء راشدین کے طریقہ خلافت کا سرمایہ ہے ۔ خاص کرسیاسی امور مسائل میں ان کے اجتہادات اوراجماع کی خصوصی اہمیت ہے ۔ انہی کے زمانے میںنظام خلافت قائم ہوا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد سلسلۂ وحی منقطع ہوگیا چنانچہ مختلف امور میں انہوںنے اجتہاد کئے اورصحابۂ کرام سے مشورے کئے ، ایک خلیفہ کے بعد دوسرے کے انتخاب کی ضرورت پڑی ، خلیفہ نے اپنے اختیارات کوشرعی احکام سے کس طرح تطبیق دی، نظم ونسق کے معاملات میں قانون سازی کی گئی ، عدل وانصاف میں کن اصولوں کوپیش نظر رکھاگیا ، حکومت کے مالی ، عسکری اورعدالتی اختیارات کے دائرہ کا تعین، خلفاء ،عمال کے فرائض اورحقوق کی توضیح اورتشریح کی ضرورت پیش آئی لہٰذا انہوںنے ان مسائل کوحتیٰ المقدور علی منہاج النبوۃ حل کرنے کی کوشش کی ۔ محدثین ،مؤرخین اورسیرت نگاروں نے ان کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں اوران کے طریقۂ حکومت اوراصولِ خلافت کی وضاحت کی ہے ۔

خلفاء راشدین اور اکابر صحابۂ کرام کے عہد  کے بعد نظامِ حکومت میں بعض تبدیلیاں واقع ہوئیں اور بعض اصول پر اس طرح عمل نہیں ہوا جیسا کہ خلفاء راشدین کے عہد میں ہوتا تھا مگر اس کے باوجودفی الجملہ وہ بھی اسلامی اصول سیاست وطریقہ حکومت کو اختیار کئے رہے۔اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر یوروپ، اسپین ، افریقہ اورایشیاکے مختلف خطوں میں پھیلا اور مسلمانوں نے وہاں اپنا  نظامِ حکومت قائم کیا اور صد یو ں تک ان خطوں پر ان کی حکومت قائم رہی  جہاں اسلامی تعلیمات پرعمل ،ملکوں کی تعمیر اور تمدن کی ترقی میں مسلم حکمرانوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ جن کی روداد کتب تاریخ میں بکھری پڑی ہیں۔

سیاست وحکومت اورعلماء سلف:

علماء اسلام نے جہاں علوم وفنون کے مختلف شعبوں میں اپنی علمی یاد گاریں چھوڑی ہیں وہیں انہو ں نے علمِ سیاسیات میںبھی مفید علمی لٹریچر تیار کیا ہے ۔ بعض علماء نے اسلام سے متعلق مبسوط کتاب میں سیاسی نظام کاایک باب یا بحث کے طور پر تذکر کیا ہے جبکہ بعض علماء نے صرف سیاست یاریاست کے موضوع پر پوری کتاب تصنیف کی ہے اوربعض نے اس کے کسی ایک پہلوکوموضـوع بحث بنایا ہے ۔ بعض نے سیاست کے صرف تاریخی پہلوکو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے ۔چنانچہ انہوںنے مختلف عہدمثلاً عہد نبوت خلافت راشدہ، عہد اموی ، عہد عباسی اور عہد عثمانی میں اسلامی ریاست کے سیاسی ارتقاء کا مطالعہ پیش کیا ہے ۔ بعض مصنفین نے صرف ان اصول و مبادی سے بحث کی ہے جنہیں اسلام نے سیاسی پہلو سے پیش کیا ہے مثلاً حکمراں سے عوام کا تعلق کیا ہو؟ ان کے حقوق اورفرائض کیا ہیں؟ وہ کیا قواعد  و ضـوابط ہیں جن پر اسلام میں نظام حکومت مبنی ہے ؟وغیرہ بعض اہل قلم نے دونوں طریقوں اورمنہجوں کوملا کر زیادہ جامعیت کے ساتھ کتابیں تیار کی ہیں۔ انہوںنے اسلامی سیاسی نظریات اورمسلم ممالک کی حقیقی صورتحال کا موازنہ کیا ہے اورقرآن وسنت کے بیان کردہ ان اصول و مبادی کومسلم حکمرانوں کے طریقہ حکمرانی پر تطبیق دینے کی کوشش کی ہے ۔ ذیل میں ایسی کچھ منتخب کتابوں کی فہرست درج کی جارہی ہے جومختلف پہلوؤں سے اسلام کے اصول وسیاست و ریاست پرروشنی ڈالتی ہیں۔

۱۔  رسالۃ  فی نصیحۃ ولی العہد ، عبدالحمید الکاتب(متوفی ۱۳۲ھ؁) مشہور النشاء پرواز ، قیاریہ (فلسطین)کے رہنے والے تھے ۔ آخری خلیفہ اموی مروان بن محمد سے خصوصی تعلقات تھے ، یہ کتاب عبدالرزاق الحصان نے اپنی کتاب نظرۃ عابرۃ فی شمال العراق، کے ساتھ بغداد سے ۱۹۴۰ء؁ میں شائع کیا ہے ۔

۲۔  نصیحۃ الکتاب وما یلزم ان یکونوا علیہ من الاخلاق والآداب ۔ عبدالحمید الکاتب۔ اس کا تذکرہ خطیب بغدادی نے ایضاح المکنون ۲/۶۵۴میں کیا ہے ۔ یہ دونوں کتابیں سیاسی نصائح پرمشتمل ہیں۔

۳۔کتاب الخراج،قاضی ابویوسف (۱۱۳ھ ۱۹۲ھ ) ممتاز فقیہ، تلمیذرشید امام اعظم ابوحنیفہ خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس ) تھے۔ یہ کتاب مالیات عامہ، لگان، عدالت، جنایات اوراس قسم کے دوسر ے مسائل پرمشتمل ہے جسے مصنف نے خلیفہ وقت کی فرمائش پر لکھی ہے ۔ یہ کتاب متعدد بار شائع ہوچکی ہے ۔ الرجی نے اس کی شرح ’’فقہ الملوک ومفتاح الرتاج المرصد علی خزانۃ الخراج ‘‘ کے نام سے لکھی ہے جوبغداد میں ڈاکٹر احمد الکبسی کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔       (جاری )

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau