بڑی محرومی، تذکر کی نعمت سے محرومی

تکبر اور عبرت پذیری کے نقطۂ نظر سے قرآن مجید میں انسانوں کے دو گروہ قرار دیئے گئے ہیں۔ مختلف اور متفرق انداز میں ان دونوں گروہوں کا ذکر بار بار آیا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کو قرآن مجید نے راسخون فی العلم کا باعزت نام دیا ہے اور دوسرے گروہ کے لوگوں کو الذین فی قلوبھم زیغ سے تعبیر کیا ہے۔ پہلا گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتا ہے اور ان سے تذکر حاصل کرتا ہے اور عبرت پکڑتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے گروہ کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان آیات سے متعلق فضول و لا یعنی بحثوں میں پڑ کر خود بھی تذکر کی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن مجید میں ایک جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جو انسان گم راہی کی روش اختیار کریں گے اور انبیا کو جھٹلائیں گے، انھیں جہنم میں شجرۃ الزقوم سے کھانے کے لیے دیا جائے گا۔ اور اسی سے وہ اپنا پیٹ بھریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس ہول ناک انجام سے ڈریں ، اپنی ضلالت سے باز آئیں ، اور تکذیب کی روش چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس موقع پر جہنم کی علمی تحقیق نہیں کرنی ہے اور اس کی پیداوار نہیں بتانی۔ اب اس آیت کو سن کر دوطرح کا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو اچھے لوگوں کا رویہ ہوتا ہے یعنی وہ یہ سن کر ڈر جاتے ہیں اور اگر ان کے اندر کوئی غلطی ہو تو اس سے باز آتے ہیں۔ لیکن دوسرے قسم کے لوگ اس موقع پر تحقیق شروع کر دیتے ہیں۔ دوزخ کی ماہیت اور حقیقت پر گفتگو چھیڑ دیتے ہیں اور اس موقع پر یہ ساری بحثیں طے کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آیا جہنم میں کوئی درخت اُگ بھی سکتا ہے یا نہیں ، یا اگر اُگے تو باقی بھی رہ سکتا ہے یا نہیں۔ اگر درخت ہو تو اس کی جڑیں کہاں ہوں گی اور اس کی شاخیں کدھر پھیلیں گی۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان چیزوں کی تحقیقات میں پڑنے کے بعد تذکر بالکل ہی نہیں حاصل ہو سکتا۔

اسی طرح مثلاً قرآن مجید میں لوگوں کی یاد دہانی کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کو سچے دین کی دعوت دی۔ قوم کے بیش تر افراد نے آپ کی تکذیب کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب طوفان کی شکل میں آیا، آپ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کشتی بنائی تھی۔ آپ مع اپنے تمام مومن ساتھیوں کے اس میں سوار ہوئے اور طوفان سے نجات پائی اور تمام نافرمان لوگ غرق ہوئے۔

کم سے کم غور وفکر سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس قصے سے مقصود ایک تاریخی واقعہ کی تحقیق نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے اسے بیان کیا گیا ہے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ اس کو پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے بھی انسان کا دو طرح کا رویہ ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے سن کر طبیعت میں خوف پیدا ہو اور انسان اپنی اصلاح کرے اور دوسرا رویہ یہ ہو سکتا ہے کہ آدمی طوفان نوح کی تاریخی تحقیق میں لگ جائے اور کشتی کی ایجاد پر غور کرنا شروع کر دے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی قسم کی یاد دہانی نہیں ہو سکتی۔

قرن اول میں یہ دوسرا گروہ بالکلیہ کافروں اور منافقوں پرمشتمل ہوتا تھا۔ مومنین بحیثیت مجموعی پہلے گروہ میں شامل تھے۔ بعد کے زمانوں میں نام نہاد علم کا چرچا بڑھا اور لوگوں میں تحقیق و اکتشاف کا شوق پیدا ہوا۔ اس کا اثر قرآن مجید پر بھی پڑا۔ ایسی تفسیریں لکھی جانے لگیں جن میں ایک ایک آیت اور ایک ایک واقعہ سے متعلق دور از کار بحثیں ہوتیں۔ جس طرح کی لا یعنی بحثوں پر قرآن مجید میں ملامت کی گئی تھی، بالکل اسی طرح کی بحثوں سے بھری ہوئی کتابیں لکھی جانے لگیں۔ مثلا اسی شجرۃ الزقوم کے ذکر کے سلسلہ میں آگ کی حقیقت اور آگ میں درخت کے باقی رہنے کے امکان، ان تمام باتوں پر بحثیں ہونے لگیں۔ طوفانِ نوح کا جہاں ذکر آیا وہاں اس بات کی تحقیق ہونے لگی کہ سب سے پہلے طوفان کہاں سے شروع ہوا؟ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں کتنے خانے تھے؟ کتنے قسم کے جانور اس پر سوار کیے گئے؟ کشتی کا طول و عرض کیا تھا؟ طوفان کتنے دنوں تک رہا؟ یہ طوفان کسی خاص علاقے میں آیا تھا یا تمام روئے زمین پر ؟اور اس قسم کے بہت سے دوسرے سوالات۔ ان کی وجہ سے اگرچہ فن تفسیر کا چرچا بڑھا لیکن نزول قرآن کا مقصود حقیقی فوت ہونے لگا۔ لوگ غیر متعلق باتوں میں الجھے رہے اور عبرت پذیری کی دولت سے محروم رہے۔

یہ دور علمی ریسرچ کا دور ہے۔ اس میں بھی کمالِ علم یہی سمجھا جاتا ہے کہ تمام چیزوں کے ایک ایک جز کی تحقیق کی جائے۔ چاہے بالفعل اس تحقیق کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ کلکتہ کا نام کلکتہ کیوں پڑا؟ مچھر کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں ؟ اس قسم کی تحقیقیں بڑا علمی کارنامہ سمجھی جاتی ہیں۔

یہی رویہ قرآن مجید کی آیتوں کے ساتھ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں ایسی بیشترتفسیریں آپ کو ملیں گی جن سے انسان کی جغرافیائی اور تاریخی معلومات میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ محفلوں کا رنگ جمانے کے لیے مختلف نکتے اور لطائف مل سکتے ہیں ، مکڑی، مچھر، شہد کی مکھی اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کے سلسلہ میں سائنس کی جدید ترین تحقیقات سے واقفیت ہو سکتی ہے۔ حدیث و فقہ، نحو و بلاغت، فلسفہ و علم کلام کی بے شمار لاطائل بحثوں میں مہارت حاصل ہو سکتی ہے لیکن عبرت و موعظت اور تزکیہ و حکمت جو نزول قرآن کا حقیقی مقصد ہے اس سے یکسر محرومی رہے گی۔

قرآن مجید کی آیات کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے بعینہٖ وہی رویہ انفس و آفاق میں واقع ہونے والے شواہد کے ساتھ بھی برتا جاتا ہے۔ کائنات میں خالقِ کائنات کی صفات حسنہ پر دلالت کرنے والی بے شمار نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔ متفرق حادثے روزانہ ایسے ہوتے رہتے ہیں کہ اگر ریسرچ کے ذوق نے عبرت پذیری کی صلاحیت کو ماؤف نہ کر دیا ہو تو قلب و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ یہ ذوق تحقیق اس لحاظ سے کتنا بڑا فتنہ ہے اس کا اندازہ کرنا ہو تو آپ کسی بھی میڈیکل کالج میں چلے جائیے، آپ دیکھیں گے کہ ریل یا موٹر کے حادثے میں کوئی نہایت تندرست نوجوان سخت زخمی ہو گیا ہے۔ اس کا بوڑھا باپ، اس کے بے سہارا معصوم بچے، ضعیف ماں ، سب غم و اندوہ کے مارے ہوئے اس کے ساتھ اسپتال میں آتے ہیں۔ آپ سوچیں گے اور ہر انسان یہی سوچے گا کہ یہ منظر دیکھ کر تو جذبات پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا اور سخت دل سے سخت دل انسان بھی آبدیدہ ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ لیکن میڈیکل کالج کے طلبا کو اس طرح کے موقعوں پر آپ اس طرح گفتگو کرتے سنیں گے کہ اگر اس شخص کی نعش مل جائے تو چیڑ پھاڑمیں بڑی آسانی ہو اور ہر عضو کے بارے میں واضح اور تفصیلی تحقیق ہو سکے۔

یہ دور انسانی ترقی کے انتہائی عروج کا دور سمجھا جاتا ہے۔ انسان نے شعوری طور پر اپنے آپ کو خدا سے اتنا بے نیاز شاید ہی کبھی سمجھا ہو۔ اسی تناسب سے دنیا میں انسانوں کی بے بسی اور خدا کی عظمت وجلالتِ شان کے واضح شواہد بھی اس زمانہ میں کثرت سے وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کو تحقیق برائے تحقیق کے تباہ کن فتنے سے نکالا جائے اور اس کے انسانی شعور و احساس کو بیدار کیا جائے۔ حال ہی میں ۲۶؍ دسمبر کو آسنسول کے قریب ایک کوئلے کی کان میں جو حادثہ ہوا تھا اس سلسلہ کی جو کچھ تفصیلات بعض اخبارات میں آئی ہیں ان کا اقتباس ہم نقل کرتے ہیں۔ اسے پڑھیے اور غور کیجیے کہ کیا اس کو سننے کے بعد بھی انسان خود پرستی کے نشہ میں بدمست رہ سکتا ہے؟

پچھلے دنوں آسنسول کے قریب کوئلے کی ایک کان پانی سے بھر گئی تھی۔ اس کان میں ۱۹ دن تک روشنی اور غذا کے بغیر پھنسے رہنے کے بعد گیارہ مزدور بچ کر نکل آئے ہیں۔ یہ گیارہ مزدور آسنسول اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کا ہیرو زین العابدین نام کا ایک مزدور ہے۔ ۱۹ دن تک کان میں ان سب مزدوروں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی اسی زین العابدین نے کی ہے۔ اس نے اسپتال میں اخباری نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر کان کے اندر یہ محسوس ہو جاتا کہ ہم اتنے طویل عرصے سے یعنی ۱۹ دن سے بند ہیں تو ہم مایوسی کے صدمے سے مر جاتے۔ ۲۶؍ ستمبر کو جب اس کان میں دو سو مزدور کام کر رہے تھے تب سیلاب کے زور کے باعث کان کا ایک بالائی حصہ ٹوٹ کر کان میں آنے جانے کے راستے پر گر پڑا تھا۔ بھگڈر میں ۱۶۱ مزدور تو باہر نکل آئے مگر ۳۹ مزدور اندر ہی پھنس گئے تھے۔ انھیں بچانے کے لیے ۴ کروڑ گیلن پانی پمپ کے ذریعے کان سے نکالا گیا۔ تب جا کر یہ گیارہ مزدور زندہ نکلے اور آٹھ مزدوروں کی لاشیں بر آمد ہوئیں۔ باقی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔

زین العابدین نے مزید کہا کہ حادثہ کے دن کام کرتے ہوئے میں نے ایک دہشت ناک اور لرزہ خیز آواز سنی۔ آواز سنتے ہی پھاوڑا پھینک کر باہر نکلنے کے لیے بھاگا۔ مگر میں نے دیکھا کہ باہر جانے والے تمام راستوں سے پانی امڈا چلا آ رہا ہے۔ پانی کے اس ہر طرفہ دھارے سے بچنے کے لیے میں ایک تنگ اور تاریک اندرونی گزرگاہ پر بھاگا مگر اندھیرے نے بھاگنے نہیں دیا اور میں ہاتھوں سے راستہ ٹٹول کر آگے بڑھتا گیا۔ آخر میں ایک ایسی ابھری ہوئی چٹان پر چڑھ گیا جو کان کے انتہائی گہرے گڑھے کی تہہ سے ڈیڑھ ہزار فٹ بلند تھی۔ اس بلند چٹان پر میں کلام مجید کی سورتیں پڑھتا ہوا بیٹھا رہا اور اللہ سے رو رو کر گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوسرے پھنسے ہوئے مزدور بھی اندھیرے میں میرے پاس آنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد اس چٹان پر ہم بہت سے مزدور جمع ہو گئے مگر اندھیرے کے باعث ہم اپنے آپ کو شمار نہیں کر سکے۔ ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ کب صبح ہوئی، کب شام اور دن کس وقت نکلا اور رات کب ہوئی۔ وقت ہمارے لیے قطعی اجنبی اور نامعلوم چیز بن گیا تھا۔ لیکن زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ واقعی رحمٰن و رحیم ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد کان میں بھرا ہوا پانی کم ہونے لگا۔ پانی کم ہونے سے ہمیں مایوسی میں پھر امید کی کرن دکھائی دینے لگی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی ہمت بڑھائی۔ انھیں پانی کا کم ہونا اور سانس کا جاری رہنا بتایا اور اللہ کی رحمتوں کے واقعات کی یاد دلا کر ان کے حوصلوں کو زندہ کیا۔ یہاں تک کہ وہ پھر جی اٹھے اور ہمت کر کے میرے پیچھے پیچھے چٹان سے اترتے گئے۔ اندھیرے میں ہاتھ پیر ہماری آنکھوں کا کام کر رہے تھے، ہاتھوں سے پانی کی سطح معلوم کر کے ہم رفتہ رفتہ اترتے گئے، یہاں تک کہ ہم کان کے دہانے کے قریب پہنچ گئے۔ پھر بھی یہ دہانہ ہم سے پچاس فٹ دور تھا۔ کچھ عرصے کے بعد اچانک روشنی کی ایک دھندلی سی کرن کہیں سے نظر آئی۔ اس کرن کو دیکھتے ہی میں زور زور سے دیوانہ وار اللہ اللہ کہہ کر چیخنے لگا۔ پھر میں نے باہر کی دنیا والوں کو آوازیں دینا شروع کیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ میں کتنی دیر یا کتنے دن تک چیختا رہا، کسی نے میری چیخ پکار سن لی تھی۔ ایک پگڑی کا سرا لٹکتا ہوا میری طرف آیا۔ میں نے یہ پگڑی پکڑ کر اسے اپنی کمر سے باندھ لی اور کسی نے مجھے باہر کھینچنا شروع کیا۔ پھر دوسروں کو بھی اسی طرح نکالا گیا۔

یہ تو صرف ایک مزدور کے تاثرات ہیں جنھیں وہ بیان کر سکا ہے۔ اگر ان تمام قلبی احساسات کا تصور کیا جائے جن سے اسے سابقہ پڑا ہوگا اور پھر اگر ہر مزدور اپنے جذبات بیان کر سکے تو خدا کی عظیم الشان قدرت اور انسانی بے بضاعتی کا کتنا زبردست سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے۔ اور یہ واقعہ کوئی نرالا واقعہ نہیں اگر بصیرت کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو روزانہ اس قسم کے بے شمار واقعات ہمارے گرد و نواح میں پیش آتے رہتے ہیں۔

(زندگی، نومبر1956)

 

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223