اُمّتِ مسلمہ کانصب العین اقامت دین ہے۔ اقامت دین کا مطلب یہ ے کہ ہماری پوری زندگی اللہ کے دین پر قائم ہو۔ اللہ کی مرضی اور اس کی شریعت کی پابند ہو۔ ہمارا ہرکام اس کی خوش نودی کے لیے ہو، ہمارا ہر قدم اس کی اطاعت میں اٹھ رہاہو۔اس دین کو ہم سارے انسانوں تک پہنچائیں۔ بلاامتیاز نسل و قوم ہر ایک کو اس دین کی دعوت دیں ۔ یہ اقامت دین کی جدوجہد ہی جماعت اسلامی ہند کا نصب العین ہے۔ اور یہی نصب العین ہر اس شخض کاہوناچاہیے،جو اپنے آپ کو اس سے وابستہ کرلے، اور اس کی تائید و حمایت کاعہد کرے۔
نصب العین کے تقاضے
- ضروری ہے جو دین ہم قایم کرناچاہتے ہیں ، اس کا ہمیں صحیح فہم حاصل ہو اور اپنی ذمہ داریوں کا پورا شعور ہو۔
- اس دین پر ہمارا ایمان، اور گہرا اطمینان ہو۔
- اسلام کی محبت اور اسلام کی عظمت دل میں سمائی ہوئی ہو اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا نظام ، یا کوئی بھی دوسری تہذیب ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو۔
- اسلام نے زندگی کے جو اصول دیے ہیں،ان پر ہم سختی سے کاربند ہوں۔
- جوچیز خلاف شرع ہوں، ان سے بہت دور رہیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی دینی پڑے۔
- دین کی سربلندی کے لیے جینا، اور اسی راہ میں کام آجانا، زندگی کی سب سے بڑی آرزو بن جاے۔
- ہماری صفیں پوری طرح درست اور منظم ہوں ہمارے باہمی تعلقات نہایت مستحکم ہوں، ہم ایک دوسرے کے لیے اخلاص و مودّت کاپیکر ہوں۔
- ہم ایک دوسرے کے دل سے خیرخواہ ہوں اور سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ سب آپس میں مل کر ایک دوسرے کی اصلاح و تربیت میں مصروف ہوں۔
سیدنا حضرت عمرؓ کاایک مشہور قول ہے:
’’اللہ کی رحمت ہو اس شخض پر جو مجھے میرے عیوب کا تحفہ پیش کرے‘‘
٭ ہمارے درمیان ایسا اعتماداور ایسا اخلاص ہو، کہ کوئی رکن یا کارکن کبھی اپنے آپ کو تنہانہ محسوس کرے۔
٭ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملے تو اسے محبت سے سلام کرے۔
٭ وہ اپنے گھر بلائے تو خوشی خوشی اس کی دعوت قبول کرے۔
٭ پریشانی کاشکار یا گھریلو مسائل سے دوچار ہے، تو دوسرا رفیق اس کی پریشانی کو دور کرنا، اور اس کے مسائل کو حل کرنا
اپنافرض سمجھے۔
٭ وہ بیمار ہوتو اس کی عیادت کے لیے جائے۔ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہ ہوں تو پیسوں کا انتظام کرے۔
٭ اس کا انتقال ہوجاے تو جنازے میں شریک ہو۔
٭ ہم اللہ کی پناہ مانگیں اس بات سے کہ ہمارے تعلقات میں نفاق یا دورنگی کا کوئی شائبہ ہو۔ ہم اپنے ساتھی کے لیے وہی پسند
کریں، جو خود اپنے لیے پسند کریں۔
٭ ہمارے اوقات غیرضروری مشاغل سے پاک ہوں۔ ہم ایسی باتوں اور ایسی دلچسپیوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، جس کا
ہمارے اس عظیم نصب العین سے کوئی تعلق نہ ہو۔
ذاتی تربیت
جہاں تک ذاتی تربیت کا تعلق ہے، تو اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ ظاہر ہے آدمی اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو جتنا جانتاہے، کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، لہٰذا وہ جس طرح اپنی تربیت کرسکتا ہے، کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ مناسب ہوگااپنے اندر جو کم زوریاں یا جو غلط عادتیں وہ پاتاہے، ان کی فہرست بنالے، پھر روز رات میں سونے سے پہلے اپنا احتساب کرے، کہ آج کے دن وہ اپنی کم زوریوںپرقابو پانے میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہا۔ اگرسوئے اتفاق سے اسے بیڑی سگریٹ یا پان پراگ کی لت ہے، تو اپنی اس بُری لت پر قابو پانے کی کوشش کرے، کہ یہ لت اس کے لیے مہلک ، اور دوسروں کے لیے باعث اذیّت ہے۔ اگر اس کا دینی مطالعہ محدود ہے تواپنی علمی سطح بلند کرنے کی کوشش کرے۔اگر وہ جسمانی لحاظ سے کم زور ہے، تو کم زوری کے اسباب کو دور کرے۔ اور جسم کو صحت مند بنانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ عبادات میں کوتاہ ہے، تو پہلی فرصت میں اپنی یہ کوتاہی دور کرے۔ وہ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کابھی اہتمام کرے،
عبادات کااہتمام
اپنی کم زوریوں پرقابو پانے ، اور اقامت دین کا کام صحیح طور سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے ، کہ ہم عبادات کا اہتمام کریں۔
پنج وقتہ نمازیں باجماعت ادا کریں، اذان کی آواز کانوں میں آتے ہی سارے کام کاج چھوڑدیں۔ اور نماز کی تیاری میں لگ جائیں۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: اذان کے بعد اللہ کے رسولﷺ کی ایسی کیفیت ہوجاتی تھی، گویا آپﷺ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔
نماز بے خیالی یا بے شعوری کے ساتھ ادا کرنے سے پرہیز کریں۔ نماز نہایت سکون اور خشوع کے ساتھ ادا کریں۔
ذکر الٰہی کاہتمام
ایک داعی حق کے لیے ذکر الٰہی کااہتمام بھی ضروری ہے۔ ذکر الٰہی کامطلب یہ ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں، کسی بھی حال میں ہوں، اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ کوئی کام کرنے چلیں تو اللہ کے نام سے شروع کیجیے ۔ اور اس سے مدد طلب کیجیے۔کوئی کامیابی یاکوئی خوشی حاصل ہوتو اللہ کا شکر ادا کیجیے، اور دوگانہ نفل پڑھیے۔کوئی رنج یا کوئی صدمہ پہنچے تو اسے مشیت الٰہی سمجھ کر صبر کیجیے اور اپنے رب سے لو لگائیے۔ اپنے گردو پیش بکھری ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھیے، توان پر غور کیجیے، کہ یہ عظیم کائنات کس طرح اللہ کی اطاعت میں سرگرم ہے۔
آپ کوئی بھی کام کررہے ہوں، اپنے رب سے غافل مت ہویے۔ اس کام کو ہاتھ لگانے سے پہلے اطمینان کرلیجیے، کہ اس کام سے آپ کا رب ناخوش تو نہیں ہوگا؟ ذکر الٰہی کی روح یہ ہے کہ آپ کسی حال میں بھی ہوں، اللہ کو یاد رکھیے۔ کوئی بھی کام کررہے ہوں ، اس کی باز پرس سے غافل مت ہوئیے۔ ذکر الٰہی کی یہ کیفیت پیداہوجاتی ہے، تو ہر کام اللہ کی عبادت بن جاتا ہے۔
قرآن سے تعلق
ذکرِ الٰہی کی یہ کیفیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب الٰہی سے خاص تعلق ہو۔ قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کیجیے۔ اس سے انسیت اور محبت پیدا کیجیے۔ زندگی کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کیجیے۔ قرآن کا جو حکم بھی سامنے آئے، سرتسلیم خم کردیجیے۔ اسی کو اپنی قوت کا راز اور زندگی کا سرچشمہ سمجھیے۔
قرآن پاک کا سب سے بڑا عطیّہ ہے ایمان میں اضافہ۔ سورۂ انفال میں ہے:
واذا تلیت علیہم آیاتہ زاد تہم ایماناً
﴿جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں، تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کرتی ہیں۔﴾
قرآن پاک کی تلاوت کے وقت آپ بھی اپنے دل کو ٹٹولیے ۔ اور دیکھیے، آپ کے ایمان میںاضافہ ہورہاہے یا نہیں؟ قرآن پاک کاایک او بڑا عطیّہ ہے دل کی رقّت اور آنکھوں کی طہارت ، یا آنکھوں کا غسل۔ سورۂ مائدہ میںمومنین کا حال اس طرح بیان کیاگیاہے:
وذاسمعو ماأنزل الی الرسول تری أعینہم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق۔
’’رسول پر جو قرآن نازل ہواہے، اسے جب وہ سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں کو دیکھوگے کہ وہ بہی پڑتی ہیں آنسووں سے، اس معرفت حق کی خوشی میں جو انہیں حاصل ہوئی ہے‘‘
اگر آنکھیں خشک ہیں ، اور دل میں کوئی رقّت نہیں، تو یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔
اجتماعی تربیت
ضروری ہے اس ذاتی تربیت کے پہلو بہ پہلو اجتماعی تربیت کابھی اہتمام کیاجائے۔ اجتماعی تربیت کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔ بچوّں کی تربیت۔
۲۔بیوی کی تربیت۔
۳۔ کارکنوں کی تربیت۔
ذیل میں ہم ترتیب وار ان تینوں پہلووں پر گفتگو کریںگے۔
بچوں کی تربیت
ضروری ہے کہ ہر رکن یا کارکن اپنی تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت کے لیے بھی فکرمند رہے۔ بچے اللہ کی امانت ہیں۔ ہرشخص سے اس امانت کے بارے میں سوال ہوگا۔
ہر رکن جماعت کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے لیے بے چین رہے۔ وہ بچوں کی تربیت سے کبھی غافل نہ ہو۔ وہ ایسے تمام وسائل اختیار کرے جو اس مقصد میں معاون ہوسکتے ہوں۔ مثال کے طورپر :
ہم شروع سے ان کے اندر اللہ سے اور اللہ کی کتاب سے محبت پیدا کریں۔ شوق و دلچسپی کے ماحول میں انہیں قرآنی دعائیں اور قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرائیں۔ سیرت و تاریخ کے سچے واقعات سناکر بچپن سے ہی ان کے اندر اسلام اور پیغمبراسلام سے محبت پیدا کریں۔پیغمبراسلام کی اتنی محبت اور آپﷺ کی عظمت کااتنا زبردست احساس ان کے اندر پیدا کردیں، کہ وہ آپﷺ کی ہی ذات گرامی کو اپنی زندگی کاآئیڈیل (Ideal)سمجھنے لگیں۔
ہم ان کے سامنے رہن سہن کا اچھا اسلامی نمونہ پیش کریں، جس سے اسلام کی عظمت ان کے دل میں بیٹھتی چلی جائے۔ انھیں شروع سے مسجد جانے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ڈالیں۔ انھیں اچھی مجلسوں میں لے جائیں۔ اچھے ساتھیوں سے روشناس کرائیں۔ غلط صحبتوں میں انھیں بیٹھنے کا کبھی موقع نہ دیں۔ جس حد تک ممکن ہو، گھر میں ان کے لیے خالص اسلامی ماحول فراہم کریں۔ اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے، بولنے چالنے، کھانے، پینے، ملنے جلنے ہرچیز میںانھیں شروع سے اسلامی آداب اور اسلامی طور طریقوں کا عادی بنائیں۔ رات سویرے سونے، صبح سویرے اٹھنے، سویرے اٹھ کر نماز پڑھنے ، اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں۔
اگر ان تمام باتوں کا ہم شروع سے اہتمام کریں۔ ساتھ ہی بزرگان دین اور صالحین امّت کی طرح اپنی دعاہائے نیم بشی اور آہ سحر گاہی میں اپنے بچوں کو یاد رکھیں ۔ اپنے رب سے ان کے لیے نیکیوں کی توفیق طلب کریں، تو بہت امید ہے بچوں کی اٹھان اچھی ہوگی۔ ان کی عادتیں اچھی ہوںگی۔ ان کے خیالات اچھے اور ان کے جذبات اسلامی ہوں گے۔
بیوی کی تربیت
بیوی کی تربیت کس طرح کی جائے؟ اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طورپر:
حکمت کے ساتھ اس کی دینی حس بیدارکی جاے۔ اس کی اخلاقی حس کو مہمیزلگائی جائے۔ موقع موقع سے بزرگ صحابیات کے یا تاریخ کی جن نامور مسلم خواتین نے اسلام کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیاہے، ان کے سبق آموز اور ایمان افروز واقعات سنائے جائیں۔ اچھی، دین دار، اور باکردار خواتین سے اس کی ملاقات کرائی جائے۔ اور اس طرح کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے۔ خواتین کے ہفتہ واری اجتماعات کانظم کیاجاے۔ اگر یہ نظم پہلے سے قائم ہو، تو اسے اور فعّال بنایاجاے ۔ اور بیوی کو شوق دلاکر ان اجتماعات میں لے جایاجاے۔ گھر میں اچھے میگزین اور کردار ساز کتابیں مہیا کی جائیں۔ بیوی کو وہ کتابیں اور وہ میگزین پڑھنے کا شوق دلایاجاے۔ اگر وہ خود نہ پڑھ سکتی ہو، تو وقتاً فوقتاً اسے خود پڑھ کر سنایاجاے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتائو کیاجاے۔ اسلامی اخلاق اور اسلامی کردار سے اسے اس حد تک متأثر کرلیاجاے کہ وہ بھی اقامت دین کی جدوجہد میں شامل ہوجاے،
سورۂ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایاہے:
یاایھاالذین آمنوا قواأنفسکم وأھلیکم ناراً
﴿اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو آگ سے بچائو﴾
کارکنوں کی تربیت
کارکنوں کی تربیت جماعت اسلامی ۔ہند کی سب سے اہم ضرورت ، اور سب سے بنیادی کام ہے۔ اس کے لیے جماعت سال میں متعدد بار تربیتی کیمپ لگاتی ہے۔ کبھی مرکزی سطح پر، کبھی علاقائی سطح پر، اور کبھی حلقہ کی سطح پر۔ان کیمپوں کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، کہ کارکنوں کی اچھی سے اچھی تربیت کی جاے۔ تاکہ وہ اقامت دین کی جدوجہد میں بھرپور حصّہ لے سکیں، اور تحریکی ذمہ داریوں کا حق ادا کرسکیں۔ تربیت کا اصل اور مستقل ذریعہ وہ ہفتہ وار ی اجتماعات ہیں، جو جگہ جگہ مقامی جماعتوں کے زیراہتمام پابندی سے ہوتے ہیں۔
ضرورت ہے ان اجتماعات کو زیادہ سے زیادہ فعّال اور نتیجہ خیز بنایاجاے۔ ان میں ارکان اور کارکنان کی ذہنی، فکری، علمی اور روحانی نشوونما کے پروگرام چلاے جائیں۔ جماعت میں جہاں پڑھے لکھے تعلیم یافتہ کارکن ہوتے ہیں، وہیں بہت سے غیرتعلیم یافتہ اور ناخواندہ بھی ہوتے ہیں۔
ان اجتماعات میں ایسے پروگرام چلاے جائیں ،جس سے تعلیم یافتہ کارکنوں کی علمی و فکری سطح مزید بلند ہو، اور جو ناخواندہ یا غیرتعلیم یافتہ ہیں، وہ پڑھنالکھنا سیکھ جائیں۔ بہترہوگاغیرتعلیم یافتہ کارکن، تعلیم یافتہ کارکنوں پر تقسیم کردیے جائیں اور انہیں گروپوں کی شکل میں چھوڑدیاجاے، کہ وہ گھنٹہ پون گھنٹہ ایک دوسرے کے ساتھ پڑھیں پڑھائیں۔ جورکن یا کارکن ناخواندہ ہوں، انھیں کم سے کم اتنی اردو سکھادی جاے، کہ وہ بآسانی جماعت کالٹریچر پڑھ سکیں۔ اور اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ جو رکن یا کارکن صحیح طورسے قرآن پاک نہ پڑھ سکتے ہوں، انھیں صحیح صحیح قرآن پڑھنا سکھایاجاے۔
کارکنان کی ذہن سازی کے لیے جماعت کے بنیادی لٹریچر سے مدد لی جاے۔ مختلف کتابیں شرکائ اجتماع پر پہلے سے تقسیم کردی جائیں۔ وہ یہ کتابیںاچھی طرح پڑھ کر آئیں۔ اور اجتماع میں ان کاخلاصہ پیش کریں۔ کوشش کی جاے کہ ان کے اندر مطالعہ کاذوق ابھرے ۔ اور جماعت کے بنیادی لٹریچر سے وہ بھرپور استفادہ کریں۔ اہم جماعتی مسائل اور تحریکی ضروریات پر مذاکرے رکھے جائیں اور شرکائ پوری تیاری کے ساتھ ان مذاکروں میں حصّہ لیں۔ مذاکرے کے آداب کاپورا لحاظ رکھاجاے۔
کارکنوں میں بسااوقات ایسے لوگ ہوتے ہیں ، جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، درس دینے، تقریر کرنے، جمعہ یا عیدین کا خطبہ دینے، لوگوں کے درمیان تحریک اسلامی کاتعارف کرانے، لوگوں کے سوالات یا اعتراضات کاجواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس کا سبب یہ ہوتاہے کہ انھیں ان صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع نہیں ملتا۔ ضرورت ہے کہ ان کی دبی ہوئی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع دیاجاے۔ مستقل رہنے والے شرکائ اجتماع میں کوئی بھی ایسا شخص نہ رہے، جس کی حیثیت محض سامع کی ہو۔ ہرایک کو موقع فراہم کیاجائے، کہ اپنی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق پروگراموں میں حصّہ لے۔
رفقائ کی تربیت کے لیے ہفتہ واری اجتماعات میں متنوع پروگرام رکھے جائیں، مثلاً :
۱۔ مطالعۂ قرآن
۲۔ مطالعۂ حدیث
۳۔ مطالعۂ سیرت
۴۔ جماعت اسلامی اور دیگر عالمی اسلامی تحریکات کی تاریخ دعوت و عزیمت
۵۔ مختلف ادوار کے داعیان حق کے تذکرے، اور ان کے دعوتی تجربے،
۶۔ حالات حاضرہ اور ہماری ذمہ داریاں۔
یہ اوراس طرح کے دوسرے مفید پروگرام ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے سارے پروگرام رکھے جائیں۔ اور ان کے لیے جتنا وقت درکار ہو، خوشی خوشی اتنا وقت دیاجاے۔ کوشش کی جاے کہ ہر رکن نیا کارکن ان اجتماعات سے آسودہ ہوکر اُٹھے۔ کام کرنے اور کام کو آگے بڑھانے کانیا عزم اور نیا حوصلہ لے کر اُٹھے۔
ان اجتماعات میں جن کو جو پروگرام چلانا ہو، کم از کم ایک ہفتہ پہلے انھیں بتادیاجاے۔ جس کو جو پروگرام دیاجاے، اس کے لیے وہ پوری طرح تیار ہوکر آئے۔ پہلے سے خاطر خواہ تیاری کرکے نہ آنا، اور بلاتیاری کے پروگرام چلانا ، یا عین وقت پر معذرت کردینا، یہ ہمارے اجتماعات کے وقار کے خلاف ہے۔ ان اجتماعات کو اس قدر پُرکشش اور مفید بنایاجاے ، کہ ایک اجتماع ختم نہ ہونے پاے ، کہ آنے والے اجتماع کا انتظار شروع ہوجاے۔ امرائ مقامی کی ماہانہ رپورٹوں میں بسا اوقات یہ شکوہ سننے میں آتا ہے کہ رفقائ ہفتہ واری اجتماعات کی پابندی نہیں کرتے۔ غالباً اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان پروگراموں میں وہ دلچسپی کی کوئی چیز نہیں پاتے۔ ضروری ہے کہ ان اجتماعات کو پُرکشش اور مفید سے مفید تر بنایاجائے۔ اس کے لیے بہتر ہوگاکہ ہر اجتماع کے اختتام پر شرکائ کو موقع دیاجاے۔ وہ بے تکلف اس اجتماع کی کارروائی پر تبصرہ کریں۔ اگر تاثرات اطمینان بخش ہوں، تو اللہ کا شکر ادا کیاجاے۔ کچھ کمیاں سامنے آئیں تو آیندہ ان کا تدارک کیاجاے۔ ہر مہینے کے آخری اجتماع میں احتساب کابھی پروگرام رکھاجاے۔ معمول کے پروگراموں سے فارغ ہونے کے بعد ، ہر رفیق مہینے بھر کی کارگزاریوں اور دعوتی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کرے۔ پھر حسب ضرورت امیرمقامی یااس کی اجازت سے کوئی اور رفیق اس رپورٹ پر تبصرہ کرے۔ اورکام کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں مفید مشورے دے۔
برادران وطن میں کام
یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی ہندکی دعوت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، غیرمسلموں کے لیے بھی ہے۔ جماعت کے مخاطب جہاں فرزندان ملت ہیں، وہیں غیرمسلم برادران وطن بھی ہیں۔ غیرمسلموں سے روابط پیدا کرنا، ان تک اللہ کاپیغام پہنچانا، انھیں روزحساب سے آگاہ کرنا، انھیں عقیدۂ توحید کی دعوت دینا، یہ سب تحریک اقامت دین کے بنیادی کام ہیں۔ یہ کوئی نفلی کام نہیں۔ بل کہ دینی فریضہ ہے۔ اس سے غفلت و بے اعتنائی انتہائی سنگین جرم ہے، جس کا نتیجہ دنیا کی ذلّت اور آخرت کی رسوائی ہے۔
ضروری ہے ہمارا ہر رکن اور ہر کارکن اس کام کی اہمیت کو محسوس کرے۔ اور اس میں اپنی تمام صلاحیتیں اور بھرپور توانائیاں لگادے۔ اس مقصد میں کامیابی کے لیے جو جو ضروری شرطیں ہیں، وہ شرطیں پوری کرے۔ اس کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جس دین کی انھیں دعوت دینے جائیں، خود ہماری زندگی اس کی سچی مثال ہو۔ ایسا نہ ہوکہ ہم زبان سے جو کچھ کہیں، ہمارا عمل اس کے خلاف ہو۔ جن لوگوں کو ہم دین کی دعوت دینی چاہتے ہیں، ضروری ہے کہ پہلے ہم ان کا اعتماد حاصل کریں۔ اپنی ہمدردیوں اور دلسوزیوں سے ان کا دل جیتیں۔ اپنے مخلصانہ رویے سے انھیں یہ باور کرادیں، کہ ہم سچ مچ ان کے خیرخواہ ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ دعوت، گفتگو یا تقریر کا نام نہیں۔ دعوت نام ہے اس چیز کا جو ذہنوں کو جھنجھوڑدے، اور دلوں کو فتح کرلے۔ اور وہ ہے اخلاص و محبت، پاکیزہ کردار اور عمدہ اخلاق۔ان چیزوں کے ساتھ جب کوئی گفتگو یا کوئی تقریرہوتی ہے، تو و ہ صحیح معنوں میں دعوت ہوتی ہے۔ اور وہ تیر کی طرح دل میں پیوست ہوجاتی ہے۔
آج کا غیرمسلم آج کے مسلم سماج کو دیکھتا ہے۔ اور اسی سے اسلام کے بارے میں راے قایم کرتا ہے۔ لہذا غیرمسلموں کو اسلام کی طرف لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلم سماج کو اونچا اٹھائیں۔ اسے اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات سے قریب کریں، تاکہ اجتماعی طورپر اسلام کی سچی تصویر پیش کرسکیں۔ اور محسوس طورپر دنیا کو اسلامی نظام اور اس کی برکتوں کا مشاہد کراسکیں۔
خاتمہ کلام
اقامت دین کاعزم لے کراٹھنے والوں کے لیے یہ تربیت کے کچھ رہ نما اصول ہیں۔ یہ اصول اگر سامنے رہیں، تو بہت حد تک ان سے تربیت کے کام میں مدد مل سکتی ہے۔ تربیت کے باب میں سب سے اہم چیز ضمیر کی بیداری ہے۔ اگر ضمیر بیدار ہو، نیت صادق اور عزم محکم ہو، توبرسوں کے فاصلے لمحوں میں طے ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر ضمیر بیدار نہ ہو ، تو اجتماعات ہوتے رہتے ہیں، تربیتی کیمپ لگتے رہتے ہیں۔مگر بات جہاں کی تہاں رہتی ہے۔
ضرورت ہے، ہم نہایت سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کریں اور ایمانداری سے اپنی پوشیدہ بیماریوں کاسراغ لگائیں۔یہ کام ایسا نہیں ہے، کہ جی چاہاتو کرلیا، نہیں جی چاہا تونہیںکیا۔ کچھ کرلیا تو ثواب ملے گا ، نہیں کیا تو کوئی گناہ نہیں۔ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہ کام تو ہم پر فرض ہے۔ ویسے ہی فرض ہے ، جیسے نماز فرض ہے۔ اس کے کرنے پر ہی ہماری نجات کاانحصار ہے۔ نہ کرنے میں دنیا وآخرت کی رسوائی ہے۔ یہ امت مسلمہ اس دنیا میں کس لیے برپا کی گئی ہے؟ قرآن پاک بار بار کہتاہے:
شہادت حق کے لیے ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ، دعوت خیر اور اقامت دین کے لیے ۔
اب اگریہ پوری امت اس کام سے غافل ہوجاتی ہے۔ کوئی ایک گروہ بھی اس کام کے لیے کمربستہ نہیں ہوتا، تو اس کاکیا مطلب ہوا؟ اس کامطلب یہ ہواکہ پوری امت اپنے مقصد وجود سے غافل ہوگئی!
توپھراس پوری دنیا کی گمرہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم معاملے کی نزاکت محسوس کریں اور آخرت کی رسوائی سے بچنے کی فکر کریں۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2010