حج دین اسلام کا آخری اور پانچواں رکن ہے، جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو مکہ تک جانے آنے کی استطاعت رکھتاہے۔ اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیںہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’حج کی جزا جنت ہے‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ’حج سے انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتاہے گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہے‘۔ اگر یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے ہوتو کون ہے جو اس فریضے کی ادائی میں کوتاہی اور غفلت کی جرأت کرسکے۔
سفر حج سے پہلے
سفر حج کی تیاری میں امت افراط و تفریط کا شکار نظرآتی ہے۔ عام طور سے وہ کام کیے جاتے ہیں، جن کا روح حج سے کوئی تعلق نہیں، دعوتیں ہوتی ہیں، جشن منائے جاتے ہیں، سماج میں چرچا ہوتاہے اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے، ان تمام چیزوں سے بچتے ہوئے جو کام کرنے کے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آدمی سفر حج سے قبل توبہ کرے، اس بات کا پختہ عہدکرے کہ اب معصیت کاارتکاب نہیں ہوگا، جو کچھ ہوا اس پر ندامت کے ساتھ استغفار ہو، اس عہد کے بعد ہی بندہ خدا کے گھر میں حاضر ہونے کے لائق اور اس کی بے کراں رحمت کا حق دار ہوسکتا ہے۔ ایک اور کام جو اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے وہ اخلاص نیت ہے۔ اخلاص ہر کام کے لیے شرط ہے۔سفر پر روانہ ہونے سے پہلے یہ نیت بہت ضروری ہے کہ یہ سفر صرف اللہ کے لیے ہے۔ پھر وہ اِس بات کاپختہ ارادہ کرے کہ وہ ارضِ مقدس پرکسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا، سنت رسول کی سچی توقیر کرے گا، اپنے آپ کو اطاعت و عبادت میں مشغول رکھے گا۔ کسی دنیوی کام میں وقت ضائع نہیں کرے گا اور لڑائی جھگڑے سے دور رہے گا، جب وہ شہر رسولﷺ کی زیارت کو جائے تو دل میں صرف ایک شہر اور ایک مسجد کی زیارت کا شوق نہ ہو بل کہ نیت یہ ہو کہ رسولﷺ سے ملنے جارہاہے۔ اسی طرح مسجد نبویﷺ اور روضہ اطہر کی زیارت صرف زیارت نہ ہو بل کہ درحقیقت آپﷺ سے ملاقات کا شوق ہو۔ وہ شوق جو صحابہ کرامؓ کے اندر تھا۔ سیدنا بلالؓ کے بارے میں آتاہے کہ حالت نزع میں جب ان کی شریک حیات کی زبان سے ہائے مصیبت نکلا تو فرمایا: یہ مت کہو بل کہ خوش ہوجاؤ کہ میں اپنے حبیبﷺ اور ان کے اصحاب سے ملنے جارہاہوں۔ یہ شوق ہر بندۂ مومن کے دل میں ہونا چاہیے۔
ایک صحابی کے بارے میں آتاہے کہ ان کی ماں مدینے سے دورسخت بیمار تھیں، وہ ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے۔ لیکن جب جب اس ارادے سے نکلتے، واپس آجاتے، کئی روز کے بعد بیوی نے پوچھا کہ کیا بات ہے، آپ جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ میں مدینے سے نکلوں اورمدینے سے باہر چشم رسولﷺ سے دورموت کا فرشتہ آجائے۔
ایک شخص مسجد نبویﷺ کی زیارت کے شوق میں نکلتاہے، عمدہ لباس پہنتاہے، اسے خوش بو سے معطرکرتاہے مگر جب درمسجد پر پہنچتاہے تو دروازہ بند ہوچکاہوتاہے، کہنے والا کہتاہے کہ جاؤ جاکر سوجاؤ یا کوئی اور کام کرلو۔ جب مسجد کھل جائے تو آنا۔ وہ بے چین ہوکر چیخ اٹھتاہے کہ کیا میرے لیے یہ جائز و درست ہوسکتاہے کہ میں مدینہ آکر بھی اللہ کے رسولﷺ سے پہلے کسی اور سے ملوں یا کوئی دوسرا کام کروں۔ چناں چہ وہیں بیٹھ جاتاہے، مسجد کے کھلنے کا انتظار کرتاہے۔ اس کی آنکھ لگ جاتی ہے، کافی دیر کے جب اچانک آنکھ کھلتی ہے تو رونے لگتاہے اور سوچتاہے کہ رسول خداﷺ کو اس تاخیر کاکیا جواب دوںگا؟ کیا یہ کہوں کہ نیند آگئی تھی۔ یہ جذبہ اور یہ تڑپ ہرزائر کے اندر ہونی چاہیے۔
روضۂ مبارک پر پہنچ کر سچی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہاں کھڑے ہوکر عہد بندگی کی تجدید ہو، سنت رسولﷺ کی اتباع کا سچا اور پکا عہد ہو، توبہ واستغفار ہو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’ ان الایمان لَیأزر الیٰ المدینۃ کما تاٌزر الحیْ الیٰ حجرۃ‘ ﴿بخاری ومسلم﴾ یعنی ایمان، مدینے کی طرف ایسے ہی بھاگتاہے جیسے سانپ اپنے بل ﴿سوراخ﴾ کی طرف۔
اب مناسک کی ادائی کامرحلہ آتاہے، جس کی اولین علامت احرام ہے۔ احرام کیاہے؟ فقط دو ﴿۲﴾کپڑے، وہ بھی بلا سلے۔ یہ لباس یاد دلاتاہے کہ دنیا اور عیش دنیا کچھ نہیں۔ اس لیے انسان کو ہرتکبر اور بڑائی کو بھول کر خدا کے سامنے جھک جانا چاہیے۔ یہی اسلام ہے۔ موت کو یاد کرنا چاہیے کہ یہ لباس کفن سے بہت مشابہ ہے اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوجائیں:
اللَّہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَن تَشَائ وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَائ وَتُعِزُّ مَن تَشَائ وَتُذِلُّ مَن تَشَائ بِیَدِکَ الْخَیْرُ انَّکَ عَلَیَ کُلِّ شَیْئ ٍ قَدِیْر ﴿اٰل عمران: ۲۶﴾
’اے اللہ ! اقتدار کے مالک، تو جسے چاہتاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت کے حوالے کردیتاہے۔ ملک تیرا ہے، عزت تیرے ہاتھ میں ہے، ذلت کامالک تو ہے۔‘‘
اللہ سے ملاقات کی سچی تڑپ ہو، دور سے جوں ہی کعبے پر نظر پڑے یہ آیت نگاہوں کے سامنے آجائے :
انَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً﴿اٰل عمران:۹۶﴾
برکتوں کا گھر، انسانیت کا مرکز اور توحید کی بے مال علامت کودیکھتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں، مسجد حرام میں داخل ہو، اللہ کا قول :
وَاذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً ﴿البقرہ:۱۲۵﴾
کو یاد کرے ، محسوس ہو کہ واقعی خانہ کعبہ پر پڑنے والی ہر نظر، شوق میں اضافہ کررہی ہے۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز کی نیت باندھ کر اس فرمان الٰہی کا پیکر بن جائے’ واتخذو من مقام ابراھیم مصلی‘ کہ عبادت کا اصل مقام یہی ہے اور دعا کرے :
اللہم زھذا البیت تشریفا و تعظیماً و تکمریماً و مہابۃ وأمنا و زدمن زارہ ومن حجہ اواعتمرہ تشریفاً وتعظیماً وتکریماً ومہابۃ وذکراً‘
’پروردگار! اس گھر کے شرف ، تعظیم وتکریم اور امن ووقار میں اضافہ کر اور جو اس کی زیارت کرے یا حج وعمرہ کرے اسے بھی عزت و تکریم اور شرف وبلندی عطا کر۔‘
اسی فداکاری وجاں نثاری کے عالم میں تکبیر و تہلیل میں مست صفا ومروہ کی سعی کرے۔ آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہوجائے، قیام شب کے بعد اگلے روز عرفہ کا رخ کرے۔ وہاں امام کا خطبہ سنے اور اللہ کے حضور زار و قطار روئے۔ گڑگڑاکر دعائیں مانگے اور گزشتہ زندگی کے گناہوں کی معافی مانگے، قیامت کے منظر اور اس کی ہولناکی کو یاد کرے کہ عرفات کا یہ منظر قیامت کی یاد دلاتاہے اور اتنی دیر کے لیے انسان کو آخرت کی یاد میں محوکردیتا ہے۔ یہ وہ دن ہوتاہے جب اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے کہتاہے:
’دیکھو میرے بندوں کو، ہر طرف سے آکر میرے لیے جمع ہوئے ہیں، گواہ رہو میں نے ان کی مغفرت کردی۔‘
پھر تکبیر و تلبیہ کے ساتھ مزدلفہ میں ذکرو دعا میں مصروف ہوجائے۔ اگلے دن صبح سویرے رمی جمرات سے فارغ ہوکر کعبہ کا رخ کرے۔ طواف کرے، پروانہ وار خانۂ خدا کے گرد گھومے اور شمع وپروانہ کے شاعرانہ تخیل کو حقیقت کا پیرہن دے، اس کے بعد قربانی کرے، سرکے بال منڈوائے اور اپنے عجزوانکسار کا اظہار کرے۔
حج کے ذریعے جہاد، مصائب و شدائد کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے گویا حج ایک جہادی عسکری تربیت ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے ایک موقعے پر پوچھا: جب جہاد سب افضل عمل ہے تو کیوں نہ ہم بھی میں اس میں شریک ہوں؟ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’افضل ترین جہاد حج مبرور ہے‘﴿بخاری﴾
حج امت کی وحدت کا ضامن ہے کہ اس کا ہر رکن شہادت دیتاہے کہ خدا ایک ہے۔ کعبہ ایک ، رسول ایک، دین ایک اور لباس ایک ہے، اس کے ماننے والوں کو بھی ایک ہونا چاہیے۔ یہ اخلاقی و تربیتی کورس بھی ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2012