مجھے لگتا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عقل کو تقدس کا درجہ دیتے ہیں اس کو استعمال میں لاکر، اور عقل کے اس کردار کو ادا کر کے خوش ہوتے ہیں جو اس وقت مکمل ہوتا ہے جب یہ عقل خالق کی لامحدود قدرت کا اقرار کرلے۔ میں ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو باریک بینی کے ساتھ غور و تدبّر کی مشقت اٹھاکر حقیقت تک رسائی کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اسی لیے میری را ئے یہ ہے کہ عقل اللہ کی عظیم ترین مخلوق ہے، کیوں کہ اس کے توسط سے ہی انسان اللہ کی پیدا کردہ ہر شے میں پوشیدہ اس کی عظمت کو محسوس کر پاتا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ بچپن سے ہی، اور ابھی بھی، میرا رجحان غور و تدبر کی طرف رہا ہے، کیوں کہ یہ غور و تدبر میری پناہ گاہ اور میری خوشیوں کا منبع ہے۔ غور وتدبر ذہنی وعقلی استغراق یا ایسی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو ان افکار ومعانی کے حوالے کر دیتا ہے جو اس کے ذہن و دماغ میں گردش کر ر ہے ہوتے ہیں، یا یہ کسی ایسے موضوع پر گہرے تفکر کا نام ہے جو ذہن و توجہ کا ارتکاز چاہتا ہے۔پختگی کی عمر کو پہنچی تو غور و فکر کے ذریعے سے ہی میں نے اپنے ارد گرد موجود اشیاء کے اندر اللہ کی تدبیر کو جاننے کی کوشش کی، اس کی ذات پر ایمان لائی اور اس پر اپنے رب کی حیثیت سے اور اسلام پر دین کی حیثیت سے راضی ہو گئی۔
جیسا کہ فرانسیسی ماہر نفسیات ‘ژاں فرانسوا مارمیون’ کہتا ہے :
احمق شخص کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ تکلف کے ساتھ بات کرتا ہے اور حد سے متجاوز ہو کربات کرتا ہے، حالاں کہ اس کی گفتگو بے تکی ہوتی ہے، لیکن سمجھتا یہ ہے کہ وہ کائنات کا بہترین انسان ہے اور اس سے غلطیوں کا صدور نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف عقل کو کام میں لانے والےشخص پر احتیاط وتدبر کی صفت غالب رہتی ہے، کیوں کہ وہ معاملات کو مختلف زاویوں اور پہلؤوں سے دیکھنے کے لیے عقل کو حرکت دینے کی کوشش بند نہیں کرتا، اور یہ وہ عادت ہے جسے ‘تنقیدی سوچ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح سے اسے امور ومعاملات کا اندازہ لگانے میں غلطی کر جانے کا اندیشہ رہتا ہے اور غلط رویے سے مجتنب رہتا ہے۔
حضرت علیؓ کے متعلق آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
’’ایسے کسی آدمی کا وجود ہی نہیں ہے جو کسی حماقت میں مبتلا نہ ہوتا ہو۔‘‘
اسی طرح ہالینڈ کا فلسفی ایرسمَس کہتا ہے:
’’ حماقت کے بغیر زندگی کا مطلب سعادت سے محروم زندگی ہے۔‘‘
میرا بھی یہی خیال ہے کہ ایسا کوئی انسان نہیں پایا جاتا جو حماقت سے پاک ہو، البتہ ایک سے دوسرے شخص کے اندر اس حماقت کی سادگی و پیچیدگی مختلف درجات کی ہوتی ہے جس سے ہمارے لیے کسی انسان پر احمق ہونے کا اطلاق کرنا ممکن ہوتا ہے۔ احمق شخص کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں پر بہت جلد اعتماد کر لیتا ہے، اور اکثر اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ احمق شخص کی صفت یہ بھی ہے کہ وہ خود پسندی میں مبتلا ہو کر بات کرتا ہے اور اپنی خوبیوں کا بہت ذکر کرتا ہے، مثلاً کہےگا کہ ’’میں فلاں جگہ پہنچا تو نظریں میری طرف ہی اٹھی ہوئی تھیں اور میں ہی حاضرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔‘‘
علامہ ابن جوزی اپنی کتاب ’’اخبار الحمقیٰ والمغفلین‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’خلیل بن احمد کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی چار قسمیں بیان کرتے ہیں: ‘‘ وہ شخص جو صاحب علم ہو اور یہ جانتا ہو کہ وہ صاحب علم ہے۔ ایسا شخص عالم ہے، چناں چہ اس سے علم حاصل کرو۔ وہ شخص جو صاحب علم ہو لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس کے پاس علم ہے۔ ایسا شخص سویا ہوا ہے، اس لیے اسے بیدار اور متوجہ کر دو۔ ایسا شخص جس کے پاس علم نہ ہو اور یہ جانتا بھی ہو کہ اس کے پاس علم نہیں ہے، تو ایسا شخص جاہل ہے، اسے علم دو۔ ایسا شخص جو علم سے محروم ہے اور اس حقیقت سے بھی بے خبر ہے کہ وہ علم سے محروم ہے۔ ایسا شخص احمق ہے، اس سے دور ہی رہو۔‘‘
بعض حکما کا کہنا ہے :
’’احمق کی پہچان چھے باتوں سے کی جا سکتی ہے: بلا وجہ غصہ کرنا، غیر مستحق کو نوازنا، بے فائدہ گفتگو کرنا، ہر ایک پر اعتماد کر لینا، راز کو راز نہ رہنے دینا، دوست اور دشمن کے درمیان تمیز نہ کر پانا، دماغ میں جو بات آئے اسے سوچے سمجھے بغیر بیان کر دینا، اور اس وہم میں مبتلا رہنا کہ وہ سب سے عقل مند انسان ہے۔‘‘
علامہ ابن جوزی کہتے ہیں:
’’انسان کے لیے دلیل کی پیروی کرنا ضروری ہے، نہ یہ کہ وہ کسی طریقے کو اپنا لے اور پھر اس کی دلیل طلب کرے۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں: ’’یہ تو ممکن ہے فقیر مال کما کر امیر بن جائے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ احمق عقل کما کر دانش ور بن جائے۔‘‘
اصمعی کہتے ہیں:
’’تم کسی شخص کی عقل کو پرکھنا چاہتے ہو تو اس سے کوئی ایسی بات کہو جس کی کوئی اصل و بنیاد نہ ہو۔ اگر تمھیں لگے کہ وہ اس پر کان دھرتا ہے اور اسے قبول کر لیتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ احمق ہے۔ اگر اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ عقل مند ہے۔‘‘
میں دیکھتی ہوں کہ حماقت سے بچنے کے لیے اس تنقیدی سوچ کی ضرورت ہے جسے ایک قابل حصول صلاحیت شمار کیا جاتا ہے یا یہ کہ اس میں مہارت حاصل کرنا ممکن ہے۔ اسی لیے میں اکثر جس بات کو دہراتی رہتی ہوں وہ یہ ہے کہ ابتدائی درجات سے ہی تنقیدی سوچ کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچہ سیکھ سکے کہ معلومات کے مآخذ تک کس طرح رسائی حاصل کی جاتی ہے اور ان کی صحت و ثقاہت کا اندازہ کس طرح لگایا جاتا ہے۔
احمقوں کی نمایاں ترین صفات میں سے ان کا غرور و تکبر ہوتا ہے۔ احمق حضرات صحیح راستہ دریافت کر لینے بعد بھی اپنی رائے کے اندر تبدیلی لانے سے کتراتے ہیں، گویا کہ وہ اپنی اختیار کردہ رائے کو معاذ اللہ پوجتے ہوں۔ اس کے برعکس عقل مند وہ ہوتا ہے جو نئے حقائق وشواہد اور عقلی دلائل کے مطابق اپنی رائے کے اندر تبدیلی لے آتا ہے۔
احمق کا اپنی رائے سے کسی اندھے کی طرح چمٹنے رہنا اسے رطب و یابس کے درمیان، حق و باطل کے درمیان اور مضر و نافع کے درمیان تمیز و فرق کرنے سے روک دیتا ہے۔ اس کی حالت اس گدھے کی سی ہو جاتی ہے جو پیٹھ پر کتابیں لادے رہتا ہے۔ اس لیے اس سے گفتگو کرنے والے کو سوائے تھکن کے احساس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، یا بقول اعشی:
كناطحٍ صخرة یوماً لیفلقها فلمْ یضرها وأوهى قرنهُ الوعل
’’چٹان کو توڑنے کی غرض سے اس پر سینگ مارنے والے پہاڑی بکرے کی طرح کہ چٹان کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتا، اپنے سینگ کو ہی کم زور کر لیتا ہے۔‘‘
اور جیسا کہ متنبی نے کہا ہے کہ ہر مرض کی دوا ہے جس سے وہ مرض ٹھیک ہو جاتا ہے، سوائے حماقت کے۔ یہ حماقت اسی کو تھکا کر چور کر دیتی ہے جو اس کا مداوا کرنے کے لیے اٹھتا ہے۔
احمق ان دریچوں اور کھڑکیوں کو اپنے اوپر بند کر لیتا ہے جو علم کا رشتہ دماغ کے اندر قوائے شعور و ادراک سے جوڑتی ہیں۔ احمق کے اندر سیکھنے کا ارادہ و خواہش مفقود ہوتی ہے۔ دماغ سے علم کا رشتہ جوڑنے والے خارجی و بیرونی اثرات کا اسے کوئی شعور و ادراک نہیں ہوتا۔ علم ایک واقعی و حقیقی نہ کہ خیالی رشتہ ہے جو دلیل سے آراستہ ہوتا ہے۔ احمق شخص وہ ہوتا ہے جودلیل دیکھ لینے کے بعد بھی اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتا، جھوٹی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور دوسروں کے منھ سے اپنی تعظیم سن کر متاثر ہو جاتا ہے، حالاں کہ وہ اس تعریف و تعظیم کا مستحق نہیں ہوتا۔
حافظ ابو حاتم بن حیان کہتے ہیں:
’’حماقت کی علامت ہے: جواب دینے میں جلدی کرنا، کسی بھی بات کو سچ مان لینا، بے اعتدالی کے ساتھ ہنسنا، حد سے زیادہ ادھر اُدھر دیکھنا، بھلے لوگوں کی غیبت و مذمت کرنا، برے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ۔ احمق سے اگر آپ اعراض برتیں گے تو آپ سے لپٹنے کی کوشش کرے گا اور اگر اس کی طرف توجہ دیں گے تو گھمنڈ اور غرور کا اظہار کرے گا۔ آپ نے اس سے بردباری کا مظاہرہ کیا تو وہ آپ سے تجاہل برتے گا اور اگر آپ نے تجاہل برتا تو وہ آپ سے بردباری کا مظاہرہ کرے گا۔ آپ اس کے ساتھ اچھا کریں گے، تو وہ آپ کے ساتھ برا کرے گا، اور اگر آپ برا کریں گے تو آپ کے ساتھ اچھائی سے پیش آئے گا۔ آپ اس پر ظلم کریں گے تو اس سے انصاف پائیں گے اور اگر آپ نے اس کے ساتھ انصاف کیا تو وہ آپ کے ساتھ زیادتی کرے گا۔اگر کسی شخص کو کسی احمق سے پالا پڑ جائے تو اسے چاہیے کہ اللہ نے جس چیز (عقل) سے اسے محروم رکھ کر آپ کو نوازا ہے اس پر کثرت سے اللہ کا شکر ادا کریں۔‘‘
عبداللہ بن حبیق کہتے ہیں: ’’اللہ عز وجل نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ ’’احمقوں سے نالاں نہ ہو ورنہ آپ کے غم میں اضافہ ہوگا۔‘‘حضرت حسنؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے: ’’ احمق سے نہ الجھنا اور اس سے دوری اختیار کرنا اللہ عز وجل سے قریب ہونے میں مددگار ہوتا ہے۔‘‘ سلمان بن موسی کہتے ہیں:’’تین لوگوں کو تین لوگوں سے انصاف نہیں ملتا : بردبار شخص کو احمق سے، شریف النفس انسان کو پست فطرت شخص سے اور نیک و صالح شخص کو فاجر و گناہ گار سے۔‘‘
آخری سوال یہ کہ احمق کے ساتھ پیش کس طرح آیا جائے؟
میری رائے میں احمق کے ساتھ پیش آنے کا آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے والا خود کو پرسکون رکھے، اپنے جذبات و احساسات پر اس قدر قابو رکھے کہ اسے غصہ نہ آجائے، اس لیے کہ احمق کے پاس سامنے والے شخص کو مشتعل کرنے اور اسے تناؤ میں مبتلا کرنے کی زبردست قوت پائی جاتی ہے۔ احمق شخص مشتعل مزاج شخص سے مختلف ہوتا ہے۔ مشتعل مزاج شخص ہو سکتا ہے تھوڑی سی بات پر زیادہ غصے کا اظہار کرے، لیکن احمق شخص تو بسا اوقات بغیر کسی وجہ کے ہی بھڑک جاتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2024