”حق انتخاب“

خلافتِ اِلٰہی کا سیاسی مظہر

میرا مضمون بعنوان ’’مسلمانوں کے نمائندوں کا انتخاب ، اسلام کے سیاسی نظام کا سنگ اول‘‘ احباب کو سنایا گیا تو ان کے چہروں پر پریشانی کی پرچھائیاںا بھر رہی تھیں جو مجھ سے یہ کہہ رہی تھیں کہ یہ حقِ انتخاب کہاں سے اخذ کیا ہے اور اس کا کوئی ثبوت پایا جاتا ہے؟

حق انتخاب کا ثبوت 

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو زمین پر خلیفہ یعنی اپنا نائب بنایا ۔خلافت کی یہ امانت ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی خواہ ان کو شعور ہو یا نہ ہو۔ انسانوں میں مرد، عورت دونوں خلافت کے امین ہیں۔ ( خیال ر ہے کہ عقبہ کی بیعت میں تین صحابیات بھی شامل تھیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یٰدَاوٗ دُاِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ م بِمَا نَسُوْایَوْمَ الْحِسَابِ (ص:26 )

’’اے دائود، ہم نے تم کو زمین پر ہمارا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ حکومت کرو اور خواہش نفس کی اتباع نہ کرو ورنہ وہ ( یعنی خواہش نفس) تم کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی۔ جو راہ حق کو چھوڑ دیتے ہیں ( خواہش نفس کی اتباع میں) ان کے لئے سخت عذاب ہے، کیونکہ انہوں نے یوم الحساب کو بھلا دیا تھا۔ ‘‘

اس آیت پر غور کرنے سے یہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

۱۔ خلافت سیدنا دائود ؑ تک پہنچی ۔

۲۔ خلافت کا اصلی ہدف انسانی معاشرہ میں قیام عدل ہے۔

۳۔ عدل اور خواہش نفس ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دشمن ہیں۔ جہاں عدل پایا جائے گا وہاں خواہش کا اتباع نہیں ہوسکتا اور جہاں خواہش کا اتباع ہو وہاں عدل معدوم ہوجائے گا۔

۴۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ خواہشات کے اتباع سے عدل، معاشرہ سے غائب ہوجاتا ہے ۔ بسا اوقات مظلومین تنگ آکر ظالموں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس سے معاشرہ میں کشمکش اور انتشار پیدا ہوتا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انتشار خون خرابے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حاکم طبقہ کی اقتدار کیلئے بھاگ دوڑاس صورتِ حال کو بدتر کر دیتی ہے اس لیے امن و چین کی برقراری کے لئے عدل ہی ایک راستہ ہے جس کو قائم کرنا خلافت کا اور خلیفہ کا فرضِ اولین ہے۔

۵۔ غالباًیہی وجہ تھی کہ عدل کے قیام کی صعوبتوںسے گھبرا کر زمین و آسمان اور پہاڑوں نے بارِ امانتِ کو اٹھانے سے انکار کردیا۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَا نَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ، اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًاo لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا o

ترجمہ: ’’ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے اسے قبول کرنے کیلئے پیش کیا تو انہون نے اسکو قبول کرنے سے انکار کر دیا مگر انسان نے ا س کمر توڑنے والے بوجھ کو اٹھا لیا بےشک وہ (اپنے آپ پر) ظلم کرنے والا اور نادان ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ منافق مرد وںاور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی خطائوں کو معاف کردے اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔     (سورہ احزاب نمبر : 72-73 )

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل قائم کرنے کی امانت کا بوجھ اتنا بھاری ہے کہ آسمان و زمین و پہاڑ وں جیسی بڑی بڑی مخلوقات نے گھبرا کر اس کو اٹھانے سے انکار کردیا جبکہ انسان نے اس کو اٹھالیا۔

انسان کی مسئولیت کی بنا پر حساب و کتاب اور عذاب و ثواب کا ظہور ہوا ۔ سید نا دائود کے تذکرے میں جو اوپر گزر چکا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یوم حساب کو بھول جاتے ہیں انہیں سخت عذاب دیا جائے گا۔

۶۔ فرشتوں نے اس اندیشے کا اظہارکیا تھا کہ آدم ؑ کو خلیفہ بنانے سے آدم کی اولاد زمین میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرے گی۔ خونریزی کا بازار اس وقت گرم ہوتا ہے جب عدل انسانی معاشرے سے غائب ہوجاتا ہے۔خواہشاتِ نفس کی حکمرانی ہونے لگتی ہے جو خون خرابے کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ا س لئے قیامِ امن کے لئے قیامِ عدل ایک ناگزیر شرط ہے اور یہ قیامِ عدل خلافت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

۷۔ چنانچہ خلافت، عدل، امن و چین لازم و ملزوم قرار پاتے ہیں۔

انتخابات اور عدل کی ذمہ داری

کسی اہم کام کے لیے نمائندوں کے انتخابات میں دراصل ہر خلیفہ (یعنی عام آدمی) امانت و خلافت (یعنی عدل کے قیام کی ذمہ داری) اپنے نمائندہ کو سونپتا ہے ۔ آج کی ریاستوں میں بالآخر یہ نمائندگی صدر ریاست/ وزیر اعظم کی ذات میں مرکوز ہوکر ریاست کےنظام کے ہر شعبے کو گرفت میں لے لیتی ہے ۔ اس سے خلافت اور اس کے مفہوم کی ہمہ گیریت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔یہ حقیقت ہمیں اس امر پر آمادہ کرتی ہے کہ ہم عدل کے قیام کے لئے خلافت کے قیام میں بھر پور حصہ لیں۔

استبداد و خلافت کا دشمن

غاصبانہ طریقوں سے قائم کردہ نظام خواہ وہ افراد کے تحت ہوں۔ یاجماعت یاخاندان کے تحت۔ وہ سب کے سب انسانوں کے حقِ اختیار اور حق انتخاب اور خلافت کے قیام کے سخت دشمن ہوتے ہیں۔ استبداد، انسانوں سے حق اختیار اور حقِ انتخاب چھین کر انہیں شعور سے محروم کرتا ہے اوربے ضمیر بناتاہے ۔ انہیں سوچنے اور غور و فکر کرنے سے باز رکھتا ہے۔ غوروفکر سے پیدا ہونے والے امکانات (Options ) کا راستہ بند کردیتا ہے۔ اس ماحول میں انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غور و فکر، ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ دار و رسن کی راہ ہے وہ عافیت کوش بن جاتا ہے اور عافیت پسندی میں اپنے جوہر انسانیت کو دفن کردیتا ہے۔ چنانچہ امت نئی تازہ فکر اور تازہ افکار سے محروم ہو کر بانجھ ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت اس کی عسکری، مالی، اقتصادی، اور اجتماعی زوال کا سبب بنتی ہے اور یہ سلسلہ بیرونی طاقتوں کی غلامی پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس سے آزادی اور حریت فکر کا لازم و ملزوم ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223