حضرت امام حسینؓ اور اتحادِ امت

سیدنا حضرت امام حسینؓ کی شخصیت اور ان کی شہادت کے مقصدِ عظیم کو امت کے درمیان اتحاد واتفاق اور یک جہتی کے ساتھ غلبۂ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کا ذریعہ بنایا جاسکتا تھا۔لیکن آج امت کا المیہ یہ ہے کہ حضرت امامؓ کی شخصیت اور مقصدِ شہادت کو افراط وتفریط کا شکار بنا کر امت کے درمیان اختلاف وانتشار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ایک طرف حضرت امامؓ کی شہادت کے مقصدِ عظیم کو بھلا کر اُن کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے، تو دوسری طرف حضرت امام حسینؓ کی شان میں بعض نادان گستاخی  کرتے ہیں۔کچھ نام نہاد سنی  یزید کو تو ’’حضرت یزید رحمۃ اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں،لیکن حضرت امام حسینؓ کے ساتھ امام کا لقب لگانے میں بھی ان کو شیعیت نظر آنے لگتی ہے۔امت کی موجودہ صورتِ حال میں اس طرح کا ایک عجیب ماحول ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی شخصیت کے متعلق  زبان کھولتے ہی یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی۔

علماء کا موقف:

درحقیقت موجودہ دور یا صدی میں امتِ مسلمہ کی یہ صورتِ حال  نادان اشخاص کی پیداکردہ ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں شروع سے لے کر آج تک اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے  علمائے کبار کے درمیان حضرت امام حسینؓ کے مشن اور مقصدِ شہادت کے برحق ہونے میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کے ائمۂ مجتہدین،ائمۂ محدثین اور ان کے بعد کے ادوار کے ائمۂ تفسیر وحدیث وفقہ نے حضرت حسین کی جدوجہد کے مقصد کودرست قرار دیا ہے۔ مثلاً علامہ ابن کثیرؒ،  ابن حجرؒ،  ابن تیمیہؒ، ابن قیم، اور برِ صغیرِ ہند میں شیخ احمدؒ سرہندی ،خواجہ معین الدین چشتیؒ، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، اور قریبی دور میں مولانا محمد قاسمؒ نانوتوی، قاری محمد طیبؒاور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ – یہ سب حضرت امام حسینؓ کے مشن اور مقصدِ شہادت کی حقانیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور حضرت امامؓ کے قاتلین  کے ظلم کی مذمت کرتے رہے ہیں۔

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عالمِ اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ انگریزوں  نے اپنے ایجنٹ عالمِ اسلام کےالگ الگ ممالک میں  ظالم بادشاہ بنا کر مسلط کیے۔  ان کے لیے اسلامی تاریخ میں  یزید ہی کا  نمونہ ہو سکتا تھا۔ اپنی خاندانی بادشاہت کو مطابق اسلام قرار دینے کے لیے یزید کی مدح وتوصیف شروع کر دی گئی۔ لیکن یزید کو اسلامی خلیفۂ برحق ثابت کرنے کے لیے حضرت امام حسینؓ کی شخصیت کی تنقیص اور ان کی شہادت کے مقصدِ عظیم کا بطلان بھی ضروری سمجھا گیا۔اس مشن کو پورا کرنے کے لیے  عالمِ اسلام میں بعض نادان مؤرخین سامنے آئے۔ پاکستان میں محمود عباسی صاحب نے  ’’خلافتِ معاویہ ویزید‘‘ اور ہندوستان میں عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نے  ’’واقعۂ کربلا اور اس کا پسِ منظر‘‘ کتابیں لکھیں۔  ظاہر ہے کہ اس طرح کی تحریروں سے مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی کشمکش میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ ردِ عمل میں شیعہ حضرات کا یہ ذہن بننا لازمی تھا گویا تمام اہلِ سنت والجماعت  یزید  کے   اقدام کے مؤید اور حامی ہیں۔اس بے اعتدالی کی  تردید کے لیے برِ صغیر کے دو نامور اہم علماء؛حضرت قاری محمد طیبؒ صاحب اور حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ صاحب میدان میں آئے اور انہوں نے  ان غلط فہمیوں کو دور کیا۔  ہماری تمام حق پسند حضرات سے گذارش ہے کہ  آپ اہلِ سنت والجماعت کے قدیم علماء کی عربی وفارسی تصانیف کا مطالعہ کریں اور کم از کم قاری محمد طیبؒ صاحب کی کتاب ’’شہیدِ کربلا ویزید‘‘ اور حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی ’’المرتضیٰ‘‘کا مطالعہ ضرور فرمائیں ۔

اسلامی تحریکوں کا ظہور:

آج دنیا میں اسلام وکفر کے درمیان کشمکش  برپا ہے۔ باطل اور طاغوتی قوتیں اسلام کی تصویر بگاڑنے کے درپے ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قیامت تک بھی دنیا سے امتِ مسلمہ کو نہیں مٹا سکتے۔ البتہ ان کی پوری کوشش ہے کہ امت کو اس کے اصلی نصب العین اور مشن سے ہٹا کرمسلکی اور باہمی اختلاف وانتشار میں مبتلا کیا جائے۔ ہماری کوتاہی سے وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوتے نظر آرہے ہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ  دینِ اسلام اللہ کا نازل کردہ اصلی اور پسندیدہ دین ہے۔  اللہ کے سچے اور اصولی دین نے بعض جزئیات وفروعات میں ایک سے زائد طریقوں کی گنجائش رکھی ہے۔ اس بنا پر جو لوگ اختلافات پر زور دے کر  مسلکی عصبیت کی دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں وہ کوتاہ فہم ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کے سچے ترجمان اور داعی پیدا فرماکر اپنا کام لیتا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد اللہ تعالیٰ نے عالمِ عرب میں شیخ حسن البناءؒ اور سید قطبؒ کو، اور برِصغیر میں علامہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور ایران میں علامہ خمینی کو پیدا فرمایا۔سب نے  امتِ مسلمہ کوایک ہی پیغام دیا کہ  امتِ مسلمہ اپنے مسلکی اور گروہی اختلافات کو بھلا کرمتحد ہو اور غلبۂ دین کے نصب العین کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔عالمِ عرب میں الاخوان المسلون اور برِ صغیر ہندو پاک میں جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں آیا ۔ ایران میں علامہ خمینی نے اسلامی انقلاب کے لیے کامیاب سعی کی۔ ’’لا سنیہ لا شیعیہ، اسلامیہ اسلامیہ‘‘، ’’لا شرقیہ لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ جیسے نعروں سے امتِ مسلمہ کو روشناس کرایا۔

اللہ کا فضل ہے کہ امام حسن البناء شہیدؒ کو عالمِ عرب میں اور علامہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کو برِ صغیر میں  رفقائے کار کی ایک مخلص ٹیم  دستیاب ہوگئی جو آج تک منزل کی جانب پر گامزن ہے، لیکن علامہ خمینی کے حقیقی مشن کو لے کر آگے بڑھنے والی مخلصین کی  جماعت سرگرم عمل نہیں ہوسکی۔ افسوس ہے کہ آج ایران کی موجودہ حکومت ملک شام کے ظالم وجابر حکمراں بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے،حالانکہ بشار الاسد کا تعلق  نصیری گمراہ فرقے سے ہے ۔ ہمارا حُسنِ ظن ہے کہ آج علامہ خمینی زندہ ہوتے تو اس کی ہرگز تائید وحمایت نہیں کرسکتے تھے ۔ ایران کی موجودہ قیادت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

دو علماء کے بیانات:

آج دنیا کی اسلامی تحریکیں حضرت امام حسینؓ کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا نتیجہ اس دنیا میں کم از کم اتنا ضرور ہوا کہ اس کے اثرات پوری اسلامی تاریخ پر نظر آتے ہیں۔  ہم  ہندوستان کے اہلِ سنت والجماعت کے دو عظیم علماء کی مختصر تحریریں پیش کرتے ہیں:

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب اپنی کتاب ’’شہیدِ کربلا ویزید‘‘ کے صفحہ [۷۶] پر رقم طراز ہیں: ’’ان حالات میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی قلبی شہادت اور اجتہاد کے غیبی اشارے سے اس فتنے کے مقابلے میں اپنی فضیلت واہلیت کا اعلان فرمادیا اور ایک مستحقِ عزل امیر کے مقابلے میں دفعِ فساد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے جس میں وہ فیما بینہ وبین اللہ حق بہ جانب تھے اور حدودِ شرعیہ کے دائرے سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہ تھے۔پھر حضرت ممدوح اتنا ہی حق لے کر کھڑے ہوئے تھے جتنا حق ایسے حالات میں ہر مسلمان صاحبِ عزیمت کو پہنچتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ وہ اس جماعتی حق کو اپنا خاندانی یا ذاتی حق سمجھتے تھے نہایت ہی نامعقول قسم کی تہمت تراشی یا ذرا واضح لفظوں میں حسینؓ دشمنی کی نہایت ہی مکروہ مثال ہے جس کی کسی مدعیِ تحقیق اور ’’بے لاگ تبصرہ کنندہ‘‘ سے توقع نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (شہیدِ کربلا ویزید:ص۷۶)

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اپنی کتاب ’’المرتضیٰ‘‘ کے صفحہ [۳۵۳] پر تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی اور انکارِ بیعت پر مصر رہے۔ وہ اپنے جدِ امجد – علیہ الصلاۃ والسلام- کے شہر میں مقیم تھے لیکن حکومتِ یزید کے کارندوں اور اس کے عمال نے ان کے انکارِ بیعت کو وہ اہمیت دی جو دیگر جلیل القدر صحابہ کے انکار کو اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ وہ حضرت حسینؓ کے مقام اور رسول اللہﷺ سے ان کا جو رشتہ اور نسبت تھی اس کی اہمیت وعظمت اور اس کے دوررس اثرات سے واقف تھے۔مگر ان کی تمام کوششوں کے باوجود حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جھکنا یا نرم پڑنا قبول نہیں فرمایا۔ انہوں نے جو موقف اختیار فرمایا وہ پوری بصیرت اور عزم وارادے کے ساتھ اختیار کیا تھا جس سے وہ سرِمو منحرف نہیں ہوئے۔‘‘ (المرتضیٰ:ص۳۵۳-۳۵۴)

یہ دونوں مختصر اقتباسات ہم نے اس لیے نقل کیے ہیں کہ اہلِ سنت والجماعت کا حضرت حسینؓ کی شہادت سے متعلق صحیح موقف، شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے لوگوں کے سامنے آجائے۔ شیعہ اور سنی دونوں کو، گمراہ کرنے والے مصنّفین سے باخبر رہنا چاہیے اور اتحاد ویگانگت کے ساتھ اسلامی نصب العین (اقامتِ دین اور اعلائے کلمۃ اللہ) کے لیے مسلسل جدوجہد اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau