یہ خطہ زمین جس پر ہم سب رہتے ہیں بہت سی قوموں کا گہوارہ رہا ہے ، جہاں صرف آریائی نسل کے ہندو ہی نہیں بستے ہیں۔ اب تو مواصلات کی ترقیوں کی بدولت دنیا گھر آنگن بن گئی ہے ۔ پہلے ایک ملک کے رہنے والے دوسرے ملک سے واقف نہیں ہوتے تھے ۔ ہندوستان سے بہت دور جزیرة العرب سے لے کر شام وعراق اور فلسطین تک رومن امپائرکے جوار میں کئی دوسری تہذیبیں نشو ونماپاچکی ہیں۔ عاد وثمود کی قومیں بہت متمدن قومیں تھیں، عالی شان محلات تھے، پہاڑوں پر فلک نما عمارتیں تھیں، جہاں تمدن کی جلوہ گری تھی، صنعت اور تجارت کی ترقیاں تھیں۔ لیکن آسمان کے نیچے اورزمین کے اوپر ہر طرح کی سہولتوں سے بہرہ ور ہونے کے باوجود انھیں حقیقتوں کا علم نہیں تھا ۔وہ جانتے نہیں تھے کہ د نیا کا خالق اور مالک کون ہے ۔وہ بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ہدایت کی راہ بتانے کے لیے اللہ نے ان کے پاس پیغمبر بھیجا۔ہود علیہ السلام، جو نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل میں تھے۔ لیکن دولت اور آسائش کے غرور نے پیغمبر کی بات ماننے سے انکار کردیا ۔اللہ نے ان پر سخت آندھی کا عذاب نازل کردیااور پوری قوم اس طرح برباد کر دی گئی جیسے پروانے کی خاک۔ دنیا کے کسی خطے میں اور تاریخ کے کسی دور میں اہل ایمان اگر ستائے جائیں گے تو آزمائش کے بھنور سے نکلنے کا راستہ وہی دعوت ہے جسے پیغمبروں نے اختیار کیا تھا۔قوم عاد کے بعد قوم ثمود نے تہذیب وتمدن کے اسٹیج پر اپنی جگہ بنائی اور پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کرعالی شان گھر بنائے۔ لیکن روش وہی انکار خدا کی اور شرک کی رہی۔ صالح علیہ السلام پیغمبر بنا کر ان کے پاس بھیجے گئے تھے۔ ان پر عذاب آیا ۔ جزیرة العرب کی سر زمین پر ان کے آثارقدیمہ موجود ہیں، جو ان کی شان وشوکت کی داستان بیان کرتے ہیں۔ اور پتھروں کی زبان سے کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر ترقی ہیچ ہے اگر حق کا دامن ہاتھ میں نہیں ہے۔
قدیم ہندو تہذیب اور قدیم عادو ثمود کی تہذیب اور اسلام کے عروج واستحکام کے زمانے کے درمیان ایک اورمذہب اور تہذیب سے واسطہ پیش آتا ہے، اور وہ عیسائیت کے عروج کا زمانہ ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کے وقت دنیا بہت بدل چکی تھی۔ انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کا تصور اور سماج کی طبقاتی تقسیم وہ برائیاں تھیں جن کے برا ہونے کا احسا س بھی سب کو ہونے لگا تھا۔ بری چیز تو بری ہوتی ہے، وقتی طور پر اسے اچھا کہنے والے سامنے آسکتے ہیں ، لیکن انسان کی سلیم فطرت کو ہمیشہ پردے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے آج دنیا میں بت پرستی کے ساتھ ساتھ اونچ نیچ کے طبقاتی نظام کو کہیں کی بھی عقل قبول نہیں کرتی ہے، اور اس کی دعوت نہیں دی جاسکتی ہے۔ آج کوئی بت پرستی کی کھلم کھلادعوت دے تو لوگ اس کی عقل پر شبہ کریں گے۔حضرت عیسی علیہ السلام اس وقت تشریف لائے جب انسان کی عقل طبقاتی تقسیم کی خرافات کو، ظلم و استحصال کو اورہر مورت کو بت بنا لینے کوشک اور شبہ کی نظر سے دیکھنے لگی تھی۔ عقل انسانی نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ اسکندریہ میں دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ تیار ہو گیا تھا ، جو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے ایک سال پہلے نذر آتش کردیا گیا تھا ۔ ہندو مذہب کی تعلیمات میں کوئی عقیدہ ایسا نہیں تھا جو عالم گیر ہوسکتا ہو، اسی لیے ہندو مت اپنے حدود کے اندرمحدودتھا۔ بودھ مذہب میں البتہ وسعت فکر ونظر تھی اور اس نے ہندوستان کے باہر بھی خود کو مرکز توجہ بنایا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی مذہبی دعوت کی تاریخ بنی اسرائیل سے ملتی ہے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام خود بھی بنی اسرائیل سے یعنی یہودی نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس نسل میں اللہ تعالی نے ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ اس نسل کے بار ے میں قرآن میں ہے إِذْ جَعَلَ فِیكُمْ أَنْبِیاءَ وَ جَعَلَكُمْ مُلُوكاً ۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس اعزاز کی اور بزرگی کی قدر نہیں کی اور نافرمانی ان کا مزاج بن گئی تھی۔ یہ بنی اسرائیل رہنے والے تو فلسطین کے تھے لیکن مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کی حکم رانی کے زمانہ میں کئی سو کی تعداد میں مصر پہنچ گئے تھے۔ بعدمیں ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی جن میں کچھ تو مصر آنے والے لوگوں کی نسل سے تھے اورکچھ وہ تھے جنھوں نے بنی اسرائیل کا مذہب قبول کرلیا تھا۔ یہ بالکل اسی طرح ہوا تھا جس طرح ہندوستان میں صرف باہر سے آنے والے مسلمانوں کو نہیں بلکہ اسلام قبول کرنے والوں کو بھی ہندو بدیسی قرار دیتے ہیں اور ان کو دیس سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے انتقال کے سو دوسو برس کے بعد مصر میں ایسا انقلاب آیا کہ اقتدار بنی اسرائیل کے ہاتھ سے نکل کر قبطی نسل کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ، جو بنی اسرائیل کے دشمن تھے۔ موسی علیہ السلام فرعون کے مظالم سے تنگ آکر اللہ کی اجازت اور حکم سے بنی اسرائیل کو فلسطین لے جاتے ہیں اور جب وہاں ان کی مردم شماری ہوتی ہے تو ان کی تعداد دو لاکھ سے اوپر ہوتی ہے ۔ بعد میں مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد عمالقہ کا خاندان حکم ران ہوا اور ان کے بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔ یہ بڑے جابر اورظالم تھے اور انھوں نے بنو اسرائیل کو سخت اذیت پہنچائی تھی۔نرینہ اولاد کو مار ڈالتے اوران کی بچیوں کو زندہ رکھتے۔ فرعون نے ایسا حکم نامہ اس لیے جاری کیا تھا کہ کسی نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فرعون کے اقتدار کا خاتمہ کردے گا اور قبطیوں کے بجائے حکومت دوبارہ اسرائیلیوں کے ہاتھ میں آجائے گی۔ فرعون خود کو سب کا رب اور پروردگار سمجھتا تھا اور خدائی کا دعوی کرتاتھا۔ اس نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت کا انکار کیا تھا ۔ اللہ تعالی نے بحر قلزم میں یعنی بحراحمر میں اسے غرق کردیا۔ اور اس کی لاش آج بھی مصر کے میوزیم میں موجود ہے۔ اور مصر کا تاج و تخت ان لوگوں کے پاس ہے جو حضرت موسی کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور فرعون پر لعنت بھیجتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے اور قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ کام یابی کا راستہ دعوت کا راستہ ہے لیکن یہ اکثر دار ورسن سے ہوکر گزرتا ہے۔ اور خطرات سے پر ہوتا ہے۔ اور اکثر بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ جن کے چہرے پر جھریاں ہوتی ہیں اور ہاتھ میں رعشہ اس کی ہمت نہیں کرتے ہیں ۔ اکابر اور بزرگ قائدین اس سے گریز کرتے ہیں کہ یہ ان کے آرام کرنے کی عمر ہوتی ہے ، نہ کہ کمرکسنے کی اور ہمت آزمانے کی۔ کون اپنے آپ کوضعف اور نا طاقتی کے زمانہ میں سخت گیری برداشت کرنے کے لیے اور پابہ زنجیرہو جانے کے لیے آمادہ کرلے گا۔ انقلاب کی ہمت کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی رگوں میں جوان خون گردش کرتا ہے۔طویل عرصے کی غلامی انسان کو خاص طور پر عمر رسیدہ لوگوں کو پست ہمت بنادیتی ہے۔
مصر کی تہذیب مشرکانہ تہذیب تھی۔ بن دیکھے خدا کو ماننا اور غیر مرئی ہستی کے سامنے سجدہ ریزہونا مشکل ہوتا ہے ۔ اسی لیے عبادت کے لیے پیکر محسوس اور مجسمہ ملموس کی تلاش قدیم قوموں کا مرض رہا ہے اور شرک کی قسموں میں گوسالہ پرستی وہ قسم ہے جو مصر سے لے کر ہندوستان تک پھلتی پھولتی رہی ہے۔ بنی اسرائیل برسوں مصر میں عمالقہ اور قبطیوں کی خدمت کرتے کرتے کچھ صنعت وحرفت میں طاق بھی ہوگئے تھے ، چناں چہ بنی اسرائیل نے وادی سینا میں حضرت موسی کی چالیس دن کی غیر موجودگی میں سونے کے زیورات کو ڈھال کر ایسا بچھڑا بناڈالاجو آواز بھی نکالتا تھا۔ ایسا جانور جو بقیمت اور بقامت بہتر خوش شکل اور خوش منظر تھا ۔ سامری کی یہ صنعت اورحرفت انھیں بہت بھائی اور ہزاروں سجدے ان کی جبین نیاز میں تڑپنے لگے۔ انھوں نے ایک بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ وہ اس مرض کے جراثیم کا شکار مصر میں ہوگئے تھے۔ انھوں نے اللہ تعالی کی قدرت اور مدد کا بار بارمشاہدہ کیا ، لیکن جو مرض ان کو لگ گیا وہ بس لگ گیا ، وہ اس سے آزاد نہیں ہوسکے۔ وہ بچھڑے کی چشم غزال جیسی آنکھوں کو دیکھتے اور دیدہ ودل اس پر نثار کردیتے ، اور اس کی پوجا شروع کردیتے۔ اس فریب خانہ ہستی میں سیکڑوں دل فریب اشیا نے اپنے معبود ہونے کا فریب دیا ہے ۔ کبھی اجرام سماوی نے ، کبھی مخلوقات ارضی نے ، کبھی انسان نے ، اورکبھی حیوان نے۔انسانی عقل کبھی اتنی کامل نہیں رہی ہے کہ تلاش حق میں پورے طور پر اس پر بھروسا کیا جاسکے اور انسان ہدایت ربانی کا محتاج نہ رہے۔
جب قوم یہود میں تواتر کے ساتھ بے دینی اور بداخلاقی پھیلی اور لگاتار انھوں نے خدا فراموشی اور خدا بے زاری کارویہ اختیار کرلیا اور پیغمبروں کی جان بھی ان کی زیادتیوں سے محفوظ نہ رہ سکی ، تو پھر اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مبعوث کیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ‘بھیڑوں ‘ کو آوارہ اور بے قید ہونے سے بچائیں اور ان کی گلہ بانی کریں۔حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ایک معجزہ تھی۔ اور معجزے پیغمبروں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ان کی پیدائش کے وقت یہودی فلسطین میں ان مقامات پر آباد تھے، جہاں رومیوں کی حکومت تھی اور یہویوں کو ظلم وستم کا نشانہ بناتی تھی۔ رومیوں نے بہت سے ملکوں کو فتح کیا تھا اور وہاں ظلم کی چکی چلائی تھی ۔ لاکھوں غریبوں کو خاک وخون میں لٹایا تھا ، لیکن فلسطین میں جو یہودی تھے وہ حضرت موسی اور دوسرے پیغمبروں کی تعلیم کے نتیجے میں ایک خدا کو مانتے تھے ، اور اپنے مذہب کا پرچار بھی کرتے تھے ۔ لیکن ان کی دنیوی زندگی ظلم وجو رکا شکار رہی اور کبھی چین کی زندگی نصیب نہ ہوسکی ۔ وہ عزت اور آسودگی کی زندگی کی آرزو کرتے رہے اور انتظارکرتے رہے کوئی مسیحا آئے جو دین بھی پھیلائے اورظلم کے کابوس کو بھی ہٹائے اور دنیا کی حکومت کی زمام بھی ان کے ہاتھ میں دے اور ان وعدوں کو پورا کرے جو پیغمبروں نے ان سے کیے تھے۔ لیکن یہ یہودی حضرت مسیح پر پورے طور پر ایمان نہیں لائے اور انھوں نے ان کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردنوں میں نہیں ڈالا ۔ جب دنیوی شوکت کے وعدے کوپورا ہونے میں دیر ہوئی توحضرت عیسی کے ایک چیلے نے بغاوت کی اور چیلہ بنے رہنے سے انکار کردیا ۔ حضرت عیسی کا پیغام جن لوگوں نے پہلے سنا اور مانا وہ غریب اور مسکین لوگ تھے ۔ عیسائی مذہب ہر جگہ نیچے سے اوپر کی طرف پھیلا ، اس لیے اس مذہب پر غریبی اور مسکینی کارنگ چڑھ گیا تھا ۔ اس لیے محتاج اور غریب لوگ حضرت عیسی کے دین کا پرچار کرنے والے تھے ۔ ایسے ہی لوگوں کی زندگی سچی عیسائیت کا نمونہ سمجھی گئی۔ یعنی ایسی نبوت جس میں عزت وشوکت کا پیام نہیں تھا۔ حضرت عیسی نے ایسے لوگوں کو پناہ دی ، جن کو دنیا نے بے یار ومددگار چھوڑ دیا تھا۔لیکن ان یہودیوں کے دل میں لاچاری اور مسکنت کا غصہ تھا۔ اعتدال سے وہ خالی ہوگئے تھے اور بہت سے لوگ ایسے لکیر کے فقیر ہوگئے تھے کہ ایک مرتبہ انھوں نے بیت المقدس کو فتح ہوجانے دیا ، صرف اس لیے کہ دشمن نے ہفتہ کے دن حملہ کیا تھا اور اس روز کاروبار بند رکھنے اور عبادت میں مصروف رہنے کا حکم تھا۔
حضرت عیسیٰ کے بعد سینٹ پال عیسائیت کا مجدد اور اس کے نظام کا بانی بنا، اگر چہ اس نے حضرت عیسیٰ کا دیدار بھی نہیں کیا تھا، لیکن اس نے عیسائیت کا رنگ و روغن بدل دیا بلکہ اسے اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ جب یہ نیا مذہب تمدن و تہذیب کے نئے مرکزوں تک پہنچا تو وہ ایسی وضع اور ایسے لباس میں تھا کہ پہچاننا مشکل ہوگیا کہ کیا واقعی یہی حضرت عیسیٰ کی تعلیمات ہیں۔ دیوتاؤں نے انسانوں کے روپ میں جنم لیا، حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنادیا گیا یا اوتار۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیم میں ان عقائد کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن زبر دستی گنجائش پیدا کی گئی۔ حضرت مسیح اور ان کے انجام کو تمام گناہوں کا کفارہ مانا گیا۔ یہ بھی حضرت عیسی کی تعلیمات سے کھلا ہوا انحراف تھا۔اسی طرح سے تثلیث کا عقیدہ گھڑ لیا گیا یعنی خدا اور بیٹا اور روح القدس۔ یہ تین مل کر ایک ہوتے ہیں۔یہ ایسا حساب تھا جس سے حساب کاعلم نا آشنا تھا۔ حضرت عیسیٰ کی زندگی اور اس کے انجام کو بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا۔ ان عقیدوں نے بڑی بحثیں پیداکیں بڑے اختلافات ہوئے اور عیسائیوں میں بہت سے فرقے پیدا ہوگئے اور حقیقت خرافات میں گم ہوگئی۔
عیسائیت وارث تھی یہودیت کی، حضرت عیسیٰ نے کہا تھا کہ ہم بنی اسرائیل کی بھیڑوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بھیجے گئے ہیں اس لیے عیسائیت کے دنیا میں پھیلنے کے ذکر میں یہودیت کا اور اسرائیل کا ذکر ضروری ہے۔ وادی سینا پہنچنے کے بعد جو اعزازات حضرت موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل کو حاصل ہوئے وہ دنیا میں شاید ہی کسی قوم کو حاصل ہوئے ہوں۔ وادی سینا چٹیل میدان تھا ۔ نہ مکانات تھے ،نہ سایہ دار درخت۔ قدرت نے ان پر ابر کو سایہ فگن کردیا—کوئی اسرائیلی زمین پر چلے تو اس کے اعزاز میں سر پر ایک ابر بہار چلے ، وہ رکے تو ابر انتظار کرے۔ اللہ تعالیٰ کی صریح نشانیاں تھیں جن کا ہرشخص مشاہدہ کرسکتا تھا۔ اس وادی بے آب وگیاہ میں نہ صرف یہ کہ سایہ دار مکان نہیں تھے بلکہ سامان خورد ونوش بھی نہیں تھا ۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ نازل کیا—ایک دعو ت شیراز ایک لذت کام ودہن۔ وہ بھی دو چار دن نہیں چالیس سال تک۔ من ایک بیج تھا دھنیا کے مانند لیکن شیریں اورخوش ذائقہ جو درخت کے پتوں پر یا فرش زمین پر اور دوسری جگہوں پر جم جاتا تھا ، اور سلویٰ بٹیر کی طرح پرندے تھے جو ہزاروں کی تعداد میں منڈلاتے تھے اور زمین پر اترتے تھے اور شکاریوں کی دست رس میں ہوتے تھے۔’’بہ امید آں کہ روزے بشکار خواہی آمد‘‘ ان بد توفیق اسرائیلیوں نے سمجھا ہی نہیں کہ قدرت خداوندی نے ان کے لیے خوردو نوش کا کیسا انتظام کیا ہے۔ وہ خدائی دعوتِ شیراز کے قائل اس وقت ہوتے جب وہ یہ دیکھتے کہ آسمان سے کسی قاب میں چاندی کے ورق میں لپٹا ہوا کھانا ان کے لیے فرشتوں کے ہاتھ سے اتر رہا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کو نہ پہچاننے میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی سب کا حال یکساں ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں ان کے پاس وہ چشم ِحیراں ہوتی ہےجس کی حیرانی کبھی نہیں جاتی ہے۔اسرائیلیوں میں ایسی دیدہ دلیری اور شوخی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اپنی آنکھوں سے خدا کے دیدار کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ اور بے صبری ایسی کہ شہری غذائیں ، لہسن پیاز ، مانگنے لگے ۔
ہر اعتبار سے اس انحطاط پذیر قوم یہود کو سزائیں بھی خوب ملیں ۔ ان کی گردن میں مختلف قوموں کی غلامی کا جوا ڈال دیا گیا ۔ حضر ت عیسی علیہ السلام کے نزول تک دنیا کی کئی طاقت ور قوموں نے ان کو غلام بنایا اور جب حضرت عیسی کا زمانہ آیا تو اسرائیلی رومیوں کے غلام بن چکے تھے اور ایمان وعمل اور پاکیزگی اخلاق ان سے رخصت ہوچکی تھی۔ چوری اور حرام خوری ان کا شیوہ بن گئی تھی۔ قرآن میں اسے ’’یاکلون اموال الناس بالباطل‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وہ کلام الہی میں تحریف کے بھی مرتکب ہوئے تھے۔قتل انبیا کا جرم بھی ان سے سرزد ہوتا تھا۔بنی اسرائیل کی تاریخ بہت طویل بھی ہے اور اس میں بہت سے نشیب وفراز آتے ہیں بنی اسرائیل آج بھی ہیں اسرائیل میں ان کی حکومت ہے اور دنیوی اعتبار سے وہ بہت طاقت ور ہیں اور مغربی طاقتیں پنجہ یہود میں ہیں۔ سائنس صنعت اور تجارت پر ان کی گویااجارہ داری ہے۔ یہودی 13 سوبر س قبل مسیح فاتحانہ فلسطین میں داخل ہوئے تھے وہ ان کا آبائی وطن نہیں تھا اب ان کا دعوی ہے کہ وہ آبائی وطن ہے اور یہ سرزمین ان کی میراث ہے۔دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی اور مددگار ہیں۔
آج دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں عیسائی ہیں ۔ دنیا کے زیادہ تر حصے پر ان کا قبضہ ہے ۔ ترکی کی خلافت کا خاتمہ کرکے انھوں نے کئی مسلم ملکوں پر قبضہ بھی کرلیا ۔ حضرت مسیح کی شخصیت ویسی ہی عالم گیر ہوگئی جیسی مہا بودھ کی شخصیت تھی۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا۔لاکھوں افراد جنھوں نے عیسائی مذہب اختیار کیاتھا ، ان کی پرورش دوسرے مذہب میں ہوئی تھی، عیسائیت قبول کرنے والے سابقہ مذہب کے اثرات سے آزاد نہ ہوسکے ۔ اس لیے عیسائیت قبول کرنے والے کچھ نئے عقیدے کے ساتھ کچھ پرانے مذہبی افکار کے بھی وارث بنے۔ ان کے تخیلات اور ان کی عادتیں نہ بدل سکیں اس لیے عیسائیت کچھ نئے کچھ پرانے افکار کا ملغوبہ بن کر رہ گئی۔مختلف قوموں کی عادتیں اس مذہب میں شامل ہو گئیں ۔ توحید بھی ملے گی ،شرک بھی ملے گا ۔ مجسمے بھی ملیں گے ۔ حضرت عیسی کی تعلیم خالص نہ رہ سکی وہ وقت اور ماحول کے سانچے میں ڈھل گئی۔حضرت عیسی کے ماننے والوں نے ان کو خدا کا بیٹا اور اوتار بنا ڈالا۔ یہ وہ باتیں تھیں جنھیں حضرت عیسی نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا ، نہ ایسی کوئی تعلیم انھوں نے اپنے ماننے والوں کو دی نہ وہ دے سکتے تھے ۔ وہ تو پیغمبر تھے اور وہی توحید کا پیغام دیتے تھے جو تمام پیغمبر دیتے آئے تھے ۔ ان کے ماننے والوں نے نہ صرف ان کی تعلیمات کو مسخ کردیا ، بلکہ ان پر نازل کردہ کتاب میں بھی تحریف کردی۔خود ان کے معتقدین پہچان نہ سکے کہ اصل بائبل کون سی ہے ۔ بے شمار سچی اور نقلی بائبلوں میں چار کا انتخاب کیا گیا ، وہ بھی اس طرح کہ رات کے اندھیرے میں سارے مسودوں کو میز پر رکھ دیا گیا ، دن طلوع ہوااور لوگ اندرداخل ہوئے تو دیکھا کہ چارمسودے میز پر ہیں اور باقی زمین پر گرے پڑے ہیں ۔ انھی چاروں کو اصل مان لیا گیا، جو آج کی چار انجیلیں کہلاتی ہیں۔ جس مذہب کی تاریخ اپنے آغاز میں اس قدر مشتبہ ہو اس سے ہدایت کا دروازہ کیسے کھل سکتا ہے۔ سینٹ پال نے شر ک اور بت پرستی کا مسالہ مسیحیت کی عمارت میں لگا ڈالا، اس طرح توحید کا جومرکز تھا اس میں بت پرستی در آئی اور مشرکانہ رسمیں داخل ہوگئیں۔ ’’یاروں نے بت شکن کو بت گر بنا کے چھوڑا‘‘۔ عیسائیت ساری دنیا میں پھیل ضرور گئی لیکن اس نے توحید کو کم زور کیا اور بت پرستی کو مضبوط۔ جضرت عیسی نے دینی اور معاشرتی انقلاب لانے کی جو کوشش کی تھی وہ انقلاب سراب ثابت ہوا۔ حضرت عیسی کے نزدیک سب سے بڑا مذہبی حکم یہ تھا کہ ’’خدا سے محبت رکھنے کے بعد اپنے پڑوسی سے محبت رکھو‘‘ حضر ت عیسی کے ماننے والے تو تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے، لیکن صاف ستھرا عقیدہ جو وہ لے کر آئے تھے اور جس کی انھوں نے تلقین کی تھی، وہ حجاب میں اور نقاب میں چلا گیا۔ یہودی بھی ان کے مخالف بن گئے تھے اور خود ان کی تعلیمات بھی پس پردہ چلی گئی تھیں ۔ ان کی تعلیمات میں آمیزش بھی ہوئی، دنیا اور تہذیب وتمدن سے قطع تعلق کی دعوت دی گئی ۔ تذلل اور انفعال کوآئیڈیل بناکر پیش کیا گیا۔ بعدکے دور میں حضرت عیسی کی تعلیمات میں تحریف بھی کی گئی ۔ رہبانیت کی ہمت افزائی کی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شیطان کا دام ہم رنگ زمیں انسان کے لیے کتنا خطرناک ہے۔اس کے دام فریب میں بڑ ے بڑے مذہب اور تمدن آجاتے ہیں۔ابلیس کا جو کارنامہ ہے اس کے مقابلے میں انسانوں کے کارنامے بھی ماند پڑجاتے ہیں۔اگر خدا کی توفیق نہ ہو تو انسان حوصلہ اور ہمت ہار بیٹھے ۔
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضانِ محبت عام سہی، عرفانِ محبت عام نہیں
عیسائیت میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن وہ ایسا درخت تھا جو خزاں رسیدہ ہوگیا تھا ۔ جب عیسائیت کی ا صل تعلیمات میں آمیزش ہوجائے ، جب ایک خدا کاعقیدہ تین خداؤں کے عقیدے سے بدل جائے، جب خدا کا پیغمبر خدا کابیٹا بن جائے ، تووہ مذہب انسانیت کے لیے باعث ہدایت نہیں رہ جاتا ہے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے چھ سو سال کے بعد اس آخر ی نبی کا نزول ہوا جس کی بشارت گذشتہ صحف آسمانی میں موجود تھی۔ اسلام نے بھی خدا کو ایک ماننے کا حکم دیا۔ عیسائیت میں بھی خدا ایک ہے ،لیکن وہ تین مل کر ایک ہے ۔ یہودی بھی خدا کو ایک مانتے تھے ، لیکن وہ اسے خاص اپنا خدا مانتے تھے ، جیسے کوئی اپنے باپ کو اپنا ہی باپ سمجھتا ہے ، اسلام نے خدا کو رب العالمین قرار دیا ، اس کے اوصاف بیان کیے ، لیکن اس طرح نہیں کہ خداکی الگ الگ شکلیں ہوں ، یعنی و ہ غلطی نہیں ہوئی جو ہندو مذہب کے شارحین نے کرڈالی۔ یہ دولت کی دیوی ہے، یہ طاقت کا دیوتا ہے، وغیرہ۔ اسلام میں ایک ہی خدا کا تصور ہے جو اگر چہ دوسرے مذاہب میں بھی ہے لیکن شرک کی آمیزش کے ساتھ ہے۔ اسلام نے مساوات انسانی کابے آمیز نظریہ پیش کیا۔ دنیا کے تمام انسان برابرہیں، کسی رنگ ونسل کو برتری حاصل نہیں ہے، جو پر وردگار عالم سے زیادہ ڈرنے والا اور ان کے حکموں کی بجاآوری کرنے والا ہے وہ زیادہ بہتر اور برتر ہے۔ اس عقیدے نے اسلام میں مظلوم اور ستم رسیدہ طبقات کے درمیان بہت دل کشی پیدا کردی ۔ انھیں محسوس ہوا کہ مذاہب کے خارزار میں ایک پھول کھلا ہے جو خوش شکل بھی ہے اور خوشبودار بھی ہے ، نویدبہاربھی ہے ۔ توحید کے بعد اسلام کا اہم عقیدہ حضرت محمد کے رسول ہونے کا اقرار ہے۔ہر قوم میں صحیح راستہ بتانے کے لیے رہ نما بھیجے گئے تھے ۔ اس عقیدہ میں بھی عقل کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔قرآن کا نزول ہوا ۔ اسلام میں اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ اس عقیدے میں بھی عجوبہ زائی نہیں۔ پچھلی امتوں پر بھی کتاب نازل ہوئی اب انھوں نے اس کی حفاظت نہیں کی اور قطع وبرید اور ترمیم وتنسیخ سے نہیں بچایا تو یہ ان کا قصور ہے۔ قدرت نے اس آخری آسمانی کتاب کی حفاظت کا انتظام کیا ، کیوں کہ اب سلسلہ نبوت کے بند کیے جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ توحید اور رسالت کے بعد اسلام کا اہم عقیدہ آخرت کا عقیدہ ہے ۔ اگر آخرت کا عقیدہ نہیں ہوگا توکسی کو بھی اس کے اچھے یابرے عمل کی پوری جزا یا پوری سزا نہیں مل سکتی ہے۔ ایک انسان نے سو انسانوں کو قتل کردیا۔ اس قتل عام کے جرم میں اگر قاتل کو قتل کردیا جائے تویہ ایک شخص کے قتل کی سزا ہوئی ، باقی 99 اشخاص کے قتل کا انتقام کیسے لیا جاسکے گا۔اسی طرح سے نیک عمل کا پورا انعام بھی اس دنیا میں نہیں دیا جاسکتا ہے ، ایک شخص کے نیک اعمال کی وجہ سے ایک صدی دو صدی تک پوری انسانیت سرسبز اور سرخ رو ہوئی ، اس دنیا کی محدود زندگی میں اسے پورا انعام دینے کے لیے انصاف کا کوئی ترازو موجود نہیں ہے۔ آخرت کا عقیدہ عقل اور انصاف کے پیمانہ پر پورا اترتا ہے ۔ تمام پیغمبروں نے پوری طاقت کے ساتھ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ نماز اللہ کے حضور میں سر افگندگی ہے ۔ زکاة بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنا مال خرچ کرنا ہے۔یہی سب اسلامی تہذیب کی اساسیات میں ہیں۔ اسلام میں عورت کو جو حیثیت دی گئی ہے شایدہی کسی مذہب میں اسے ایسی بلند حیثیت دی گی ہو۔ اسلام سے پہلے عورت اور پالتو جانور کے درمیان زیادہ فرق نہیں تھا ۔ عرب میں لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں بیواؤں کو ستی کردیا جاتا تھا۔مرد کو چار شادیوں کی اجازت ضرور دی گئی ، وہ دراصل خاندان کی سلامتی کے لیے ہے ۔ یہ اجازت نہیں ہوگی تو خاندان کے ٹوٹنے کا خطرہ زیادہ ہوگا ۔ اور اس اجازت میں بہت سی بے سہارا عورتوں کے مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ اسلامی تہذیب کا امتیازی پہلو نظام عدل پر زور ہے اور ظلم کے خاتمے کی سعی مسلسل ہے ۔ ظلم اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہدکی تلقین قرآن وحدیث میں بہت زیادہ ملتی ہے ۔ اقامت دین کا دوسرا نام اقامت عدل ہے۔ اسلام میں حصول علم اور کائنات میں تفکر اور تدبر پربھی بہت زور دیا گیا ہے ۔ اسی لیے مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک قافلہ علم کی سالاری کی ہے۔ دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اسلام کا مابہ الامتیاز پہلو اس کا خلا فت ارضی کا نظریہ ہے ، یعنی انسان کو اللہ تعالی نے خلیفہ بنایا ہے ۔ کرہ زمین کو انسان کے فائدے کے لیے استعمال کرنا اور انسان کی راحت رسانی کا پورا انتظام کرنا اور زمین کے ہر خطہ کو خدا بے زار انسان کے باغیانہ تیور سے محفوظ رکھنا اور زمین پراللہ کے احکام کو نافذ کرنا اور اس کے لیے افہام وتفہیم کا اوردعوت کا اور ضرورت پیش آئے تو جہادکا طریقہ اختیار کرنا ، اسلام کے نزدیک مسلمان کا مقصد حیات ہے۔ یہ دین بھکشوؤں کا دین نہیں ہے کہ انسان غار میں، گپھا میں بیٹھ کر چلہ کرے اور عبادت میں غرق ہوجائے ۔ ایسا سوچنا اور سمجھنا اسلام کی متصوفانہ تعبیر ہے۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو سوچتے ہیں کہ امریکہ میں چین جاپان میں اور اپنے ملک میں خدا کے ساتھ جو بھی بغاوت ہو وہ ہوا کرے، اپنا کام بس چلہ کشی اور سبحہ گردانی ہے، اور بس۔ اسی سے میری نجات ہے۔ ہمیں دوسروں سے کیا مطلب۔ سیاست اور حکومت اور معاشیات میں ظلم سے ، اور دوسروں کے طریق عبادت سے ہمارا کیا واسطہ۔ اسلام نے تبدیلی کا جوراستہ بتایا ہے وہ دعوت کا اور دلیل کا اور فکر کی تبدیلی کا راستہ ہے۔ تمام انبیا نے اپنے اپنے زمانہ میں انسانوں کے فکر کو ہی بدلنے کی کوشش کی تھی۔جب قوم نے عناد اور سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور پرامن دعوت کو بھی روکنے کی کوشش کی تب تلوار اٹھائی گئی ہے ۔ اوراق سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام جنگیں مدینہ کے قرب وجوار میں لڑی گئیں۔ یعنی حملہ آور مکہ کے لوگ تھے۔ مدینہ کے مسلمان حملہ آور نہیں تھے ۔ مدینہ والوں نے دعوت ضرور پیش کی اور اسلام کی دعوت دینااور شرک سے اورظلم سے روکنا واجب ہے ۔ یہ کافی نہیں کہ انسان تنہا خود اسلام پر عمل کرے اور گردوپیش کے لوگوں کو دعوت نہ دے۔ دین اوردعوت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اسلام نے حسن اخلاق پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے اور اس کی بہت تاکید کی ہے۔ اسلام کے یہی نظریات تھے اور ہیں جن کی وجہ سے اسلام تھوڑے عرصے میں دنیا کے بڑے حصے میں پھیل گیا۔ فاران کی چوٹیوں سے جو نور بلند ہوا اس کی شعاعیں ایک دو صدیوں میں ایشیا ، افریقہ اور یورپ کے ملکوں تک پھیل گئیں۔انگریز مصنف مائکل واچ ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred میں پیغمبر اسلام حضرت محمد کو دنیا کا کام یاب ترین پیغمبر اور کام یاب ترین انسان قرار دیا ہے۔ جرمن شاعر گوئٹے نے پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک نظم کہی ہے اس میں وہ کہتا ہے ’’نیچے وادی میں جہاں اس کا قدم پڑتا ہے پھول کھلنے لگتے ہیں اور اس کے دم سے سبزہ زار میں جان پڑجاتی ہے۔‘‘ یہی بات ہمارے اردو کے شاعر نے اس طرح کہی ہے:
سرسبز سبزہ ہو جو ترا پائمال ہو
ٹھہرے تو جس شجر کے تلے وہ نہال ہو
اسلام بحیثیت مذہب اور بحیثیت تہذیب ، اس کے مصادر اور مراجع سب آج بھی موجود ہیں اور مستند ہیں ، لیکن مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں مذہب سے روگردانی بھی کی ہے ، غلطیاں بھی کی ہیں۔ اسلام کے معیار سے دور بھی ہٹے ہیں۔ یہ انسانوں کی جماعت رہی ہے، فرشتوں کی نہیں۔ لیکن اس کا اسلام کے سرچشمہ فیضان پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ آسمان پر سورج نکلا ہوا ہو تو بادلوں سے بھی اس کی روشنی چھن چھن کر نکلتی رہتی ہے اور بادل کے ہٹتے ہی سورج کی روشنی زمین پر پھیل جاتی ہے ۔ خلافت راشدہ کے بعداسلام کا سیاسی اور شورائی نظام موروثی ملوکیت کے نظام سے تبدیل ہوگیا۔ یہ غلطی ہوئی تھی لیکن علما اسے آج تک درست اور قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ میں بہت سے باتیں خلاف اسلام بھی پیش آتی رہی ہیں ، لیکن کیا صحیح ہے اور کیا غلط اس کے لیے پیمانہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اسلام پورا نظام زندگی ہے، اس میں غیر مسلموں کے بھی تمام ضروری حقوق موجود ہیں۔خلافت ارضی کے تقاضے میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ کی مرضیات زمین پر نافذ کی جائیں ، صرف حجر ے میں بیٹھ کر عبادت نہ کی جائے ، بلکہ پورے تمدن کو اور تہذیب کو اللہ کے فرمان کے مطابق بنایا جائے۔ اس کے لیے تاریخ میں بارہا تحریکیں اٹھی ہیں ۔ انقلابات نے دستک دی ہے، ملک فتح کیے گئے ہیں ، دنیا میں حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ لوگوں نے پسینہ بھی بہایا ہے ، اور خون بھی دیا ہے۔ کام یاب بھی ہوئے ہیں اور ناکام بھی ہوئے ہیں ، اور جب تک آئیڈیل موجود ہوگا ، کام یابی اور نا کامی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور انسانیت آزمائش اور امتحان سے گزرتی رہے گی۔ اور اصل کام یابی اور نا کامی کا فیصلہ روز آخرت میں ہونا ہے۔ والعاقبۃ للمتقین۔
ہر عروج کے لیے زوال مقدر ہے۔ جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو ایک ہزار سال تک پور ی دنیاپر ضو فشانی کرتا رہا ۔ اس کے بعد اس کی روشنی ماند پڑنا شروع ہوئی ۔ مسلمان حکومتوں پر زوال اور اضمحلال کے آثار نظر آنے لگے ۔ علم اور تحقیق کی قوتیں مفلوج ہونے لگیں۔ تجارت صنعت اور سائنس ہر میدان میں ٹھہراواور جمود شروع ہوگیا۔ یہ مغربی طاقتوں کے آگے بڑھنے کا زمانہ ہے ۔ علم اور سائنس اور ٹکنالوجی کی ہر شاخ پر ان کا قبضہ ہونے لگا ۔ انھوں نے اسپین (اندلس) اور سسلی (صقلیہ) کی ان دانش گاہوں سے علم حاصل کیا تھا جو مسلمانوں کی قائم کردہ تھیں۔ مغربی قوموں کا جو عیسائی تھیں سامراج اتنا پھیلا کہ وہ مسلم ملکوں کی زمینوں پربھی قابض ہوگئے۔ ہوا الٹی سمت میں چلنے لگی۔ مسلمان اس خرگوش کے مانند تھے جو دوڑتے دوڑتے اب تھک کر سوگیا تھا ، اور مغربی قومیں اس کچھوے کے مانند تھیں جس کی رفتار تیز بھی تھی اور جو سوتا بھی نہیں تھا۔ اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ کچھوا خرگوش سے زیادہ تیزرفتار بن چکا ہے ۔ اور خرگوش اپنے خواب سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تہذیب بن چکی ہے اور اس کا جو پھیلاؤ ہے وہ پچھلی کسی تہذیب کو نصیب نہیں ہوا ۔ اس نے چاند اور ستاروں پر بھی اپنی گزرگاہ بنالی ہے۔ اس تہذیب میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں ۔
اور ابھی اس تہذیب کا سفر جاری ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2022