جماعتِ اسلامی نے اوّل روز سے اجتماعات کی اہمیت پر زور دیا اور اجتماعات کے اندر مقصدیت و معنویت پیدا کرنے کے لیے بہتر سے بہتر کلچر اور اچھی سے اچھی روایات کے فروغ پر بہت خاص توجہ دی۔
جماعتِ اسلامی (پنجاب، سندھ، کشمیر و بلوچستان) کے ارکان کا اجتماع دارالاسلام پٹھان کوٹ میں ۲۶، ۲۷ مارچ ۱۹۴۴ میں ہوا۔ اس اجتماع کے آغاز میں ہی مولانا مودودیؒ نے جماعتِ اسلامی کے ’اجتماعات‘ اور زمانے میں رائج ’جلسوں‘ کے درمیان فرق کو واضح کردیا ۔انھوں نے کہا:
جلسے اور اجتماع میں فرق
’’حضرات!جیسا کہ آپ نے خود بھی اندازہ کیا ہوگا، ہمارے اجتماع کی نوعیت ’’جلسوں‘‘ سے بالکل مختلف ہے ۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں زیادہ تر تقریریں ہوتی ہیں، جلوس نکلتے ہیں، نعرے بلند کیے جاتے ہیں، لیکن اس نوعیت کی کوئی چیز یہاں نہ ہوئی نہ کبھی ہوگی۔ہمارے ان اجتماعات کے انعقاد کی اصل غرض ہنگامہ آرائی نہیں ہے اور نہ توجہاتِ عوام کو اپنی طرف کھینچنا مقصود ہے۔‘‘
مولانا نے جماعت کے اجتماعات کا مقصد نکات کی صورت میں واضح کردیا:
اجتماع کے مقاصد
‘‘ ہمارے اجتماعات کی غرض صرف یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے واقف ہوں، باہم قریب تر ہوجائیں، آپس میں تعاون کی سبیلیں نکالیں۔ صاحب امر آپ سے اور آپ صاحب امر سے شخصاًواقف ہوں اور اسے آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا کہ وہ آپ سے منظم کام لینے کی کوشش کرے۔ وقتاً فوقتاً ہم اپنا اور اپنے کام کا جائزہ لیتے رہیں، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو سمجھیں اور انھیں دور کرنے کی فکر کریں۔ اور باہمی مشوروں سے اپنے کام کو آگے بڑھانے کی تدبیریں سوچیں۔ غرض ہمارے یہ اجتماعات اپنے اندر عملی روح رکھتے ہیں، ان میں جلسوں کی نوعیت کی کوئی چیز نہ آپ پاسکتے ہیں اور نہ آپ کو پانے کی خواہش کرنی چاہیے۔ اگر ابھی تک جلسہ بازی کی پرانی عادتوں کا کچھ اثر آپ میں موجود ہو، اور ان چیزوں کی کوئی تشنگی آپ اپنے اندر پاتے ہوں تو اسے بھی نکالنے کی کوشش کیجیے۔ ان ہنگاموں میں فی الواقع کچھ نہیں رکھا ہے۔’’
مولانا نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ایسے اہم موقع کو فضول باتوں میں ضائع نہ کیا جائے۔
فضول کاموں سے پرہیز
‘‘فضول کاموں میں ذرہ برابر وقت ضائع نہ کیجیے۔ بس کام کی بات کیجیے اور پھر اپنا فرض ادا کرنے میں لگ جائیے۔ آج صبح سے میں مختلف مقامات کی جماعتوں اور اشخاص کے ساتھ تبادلہ ٔخیال کرتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کبھی کبھی غیر ضروری باتیں کرنے کی خواہش لوگوں میں عود کر آتی ہے اور بسا اوقات بیان مطابقِ حقیقت نہیں رہتا۔ یہ ایک کمزوری ہے جسے دور کرنا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ جو عادتیں مدتِ دراز سے جڑ پکڑے ہوئے ہیں وہ چھوٹتے چھوٹتے ہی چھوٹیں گی ۔ مگر انھیں چھوڑنے کی طرف آپ کی توجہ اور سعی ضروری ہے۔’’ (روداد جماعتِ اسلامی دوم، ص ۷ تا ۹)
غرض پہلے اجتماع کے شروع میں ہی اجتماعات کے لیے بہترین ضابطوں اور اعلی روایات کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
اس اجتماع میں شریک ہونے والوں نے جس قربانی کا ثبوت دیا اس کی ستائش بھی کی گئی:
‘‘جہاں تک اجتماع کے مصارف کا تعلق ہے ہمارے یہاں آرائش وتکلفات کے سلسلہ کے فضول مصارف سرے سے ہوئے ہی نہیں۔ رہیں ضروریاتِ قیام و طعام سو اُن پر بھی ناگزیرحد تک خرچ کیا گیا۔ ڈیڑھ سو افراد کے قیام اور شش وقتہ طعام و ناشتہ پر اس گرانی کے زمانہ میں ہماری لاگت چار سو روپیہ کے لگ بھگ رہی۔ یہ سارا بار جماعت کے محدود بیت المال پر ڈالا گیا تھا کیونکہ چندہ کی اپیلیں کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ مگر بغیر کسی اپیل کے شرکائے اجتماع نے محض اپنی فرض شناسی اور احساس ذمے داری کے ماتحت اجتماع کے دنوں میں جو رقم بیت المال میں داخل کرائیں ان کا مجموعہ مصارفِ اجتماع سے بہت زیادہ تھا۔’’ (روداد جماعتِ اسلامی، دوم ص: ۵۵)
اس کے بعد پہلا کل ہند اجتماع عام جماعت کی تاسیس کے پونے چار سال بعد ہوا ۔ اس موقع پر مولانا مودودیؒ نے جماعت کے اجتماعات کو دو خصوصیات سے آراستہ کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
اجتماعات سلیقہ مندی کا نمونہ بن جائیں
‘‘آپ کے اجتماعات میں خواہ کتناہی بڑا مجمع ہو مگر خیال رکھیے کہ بھیڑ اور ہڑبونگ اور شور و ہنگامہ کی کیفیت کبھی رونما نہ ہونی چاہئے ۔ اگر چہ اس طرح کی کوئی چیز ابھی تک میں نے محسوس نہیں کی ہے مگر پھر بھی آپ کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ جو کام ہم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے یعنی اخلاقی اصولوں پر دنیا کی اصلاح کرنا اور دنیا کے نظام کو درست کرنا ، اس کا تقاضا ہے کہ اخلاقی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو دنیا کا صالح ترین گروه ثابت کر دکھائیں جس طرح انھیں دنیا کے موجودہ بگاڑ پر تنقید کرنے کا حق ہے اسی طرح دنیا کو بھی یہ دیکھنے کا حق ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کیسے رہتے ہیں ، کیا برتاؤ کرتے ہیں ، کسی طرح جمع ہوتے ہیں اور کس طرح اپنے اجتماعات کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر دنیا نے دیکھا کہ ہمارے اجتماعات میں بد نظمی ہے ، ہمارے مجمعوں میں انتشار اور شور وغل ہوتا ہے ، ہمارے رہنے اور بیٹھنے کی جگہیں بدسلیقگی کا منظر پیش کرتی ہیں ، جہاں ہم کھانے بیٹھتے ہیں وہاں آس پاس کا سارا ما حول غلیظ اور گندہ ہو جاتا ہے اور جہاں ہم مشورے کے لیے جمع ہوتے ہیں وہاں ٹھٹھے ، مذاق ، قہقہے اور جھگڑے بر پا ہوتے ہیں اور بے قاعدہ حرکات کی نمائش ہوتی ہے تو دنیا ہم سےلینے اور ہمارے ہاتھوں ہونے والی ’’اصلاح “ سے خدا کی پناہ مانگے گی اور یہ محسوس کرے گی کہ اگر کہیں زمین کا انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا تو یہ ساری زمین کو ویسا ہی کر کے چھوڑیں گے جیسے یہ خود ہیں ۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اجتماعات کے دوران میں نظم ، باقاعدگی، سنجیدگی و وقار، صفائی و طہارت اور حسنِ اخلاق اور خوش سلیقگی کا ایسا مکمل مظاہرہ کریں جو دنیا میں نمونہ بن سکے ۔ آپ کے ہاں خواہ ہزاروں آدمی جمع ہوں لیکن کوئی شور و غل بر پا نہ ہونے پائے، کسی طرف غلاظت اور گندگی نہ پھیلے، کسی قسم کے نزاعات اور جھگڑے بر پانہ ہوں ، کہیں بھیڑاور ہلڑ کی کیفیت نظر نہ آئے ، ایک منظم گروہ کی طرح اٹھیے اور بیٹھے اور کھائیے اور جمع ہوجائیے اور منتشر ہو جائیے ۔’’ (روداد سوم، ص 11-7)
اجتماع گاہ دیانت و امانت کی جلوہ گاہ بن جائے
’’ دوسری بات جو میں آپ کے اجتماعات کی خصوصیت دیکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں آپ جمع ہوں وہاں دیانت و امانت بالکل ایک محسوس و مشہود شکل میں نظر آنی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں کسی شخص کو اپنے سامان کی حفاظت کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جس کا مال اور سامان جہاں رکھا ہو وہاں بغیر کسی نگراں اور محافظ اور قفل اور کنجی کے محفوظ پڑا رہے۔ کسی کی چیز جہاں گری ہو وہیں اس کو آکر پالے۔ اور اگر کہیں کوئی دوکان اور اسٹال ہو تو فروخت کنندہ کے بغیر اس کا مال ٹھیک ٹھاک فروخت ہو ۔ جو شخص کوئی چیز لے وہ ٹھیک حساب سے اس کی قیمت وہیں رکھ دے، خواہ بیچنے والا وہاں موجود ہو یا نہ ہو۔’’ (روداد سوم، ص 11)
جماعتِ اسلامی کا دوسرے کل ہند اجتماع عام بمقام ہروارہ ،الہ آباد ۷،۶،۵ اپریل 1946بروز جمعہ، ہفتہ اتوار منعقد ہوا۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے امیر جماعت کی نیابت کرتے ہوئے افتتاحی تقریر کی اور اس میں نظم کی پابندی پر زور دیا۔
نظم و ڈسپلن اور جماعتی اخلاق
‘‘نظم کی پوری پابندی کا خیال رکھیے، مختلف شعبوں کے منتظمین کی طرف سے آپ کو جو ہدایات ملیں ان کی سرموخلاف ورزی نہ ہو۔ نماز کی جگہ، کھانا کھانے کی جگہ، اجتماع کی جگہ، آپ کی نقل وحرکت ایک منظم اور باوقار جماعت کی سی ہو۔ کہیں ہڑبونگ اور ہلّڑ کی صورت نہ پیدا ہونے پائے۔ اس سلسلہ میں یہ حقیقت پیش نظر رکھیے کہ ڈسپلن کے تقاضوں کو پورا کرنا دوسروں کے نزدیک صرف ایک اجتماعی اخلاق ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والا صرف سوسائٹی میں نکّو بنتا ہے مگر ایک مسلمان کے نزدیک اس کی حیثیت ایک مذہبی فریضے کی ہے جس کی خلاف ورزی سے آخرت میں خدا اور رسول کی ناخوشی بھی متصوّر ہے اور دنیا میں بھی انسان ذلیل ہوتا ہے۔ ۔۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکارم اخلاق کی جو تعلیم دی اور اس کا اثر عربوں جیسی جاہل اور اُجڈ قوم پر جو کچھ پڑا اس کا کچھ اندازه ایرانی سپہ سالار رستم کے اس فقرہ سے کیا جا سکتا ہے جو اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فوجوں کی نمازوں کی صفیں دیکھ کر کہا تھا کہ أکل عمر کبدى یعلم الكلاب الآداب (عمر تو میرا کلیجہ کھا گیا۔ یہ تو کتوں کو ڈسپلن کی تعلیم دے رہا ہے) جس جماعت کے ڈسپلن پر ایران ایسی متمدن قوم کے سپہ سالار کو رشک آئے، اس جماعت کی جماعتی سیرت کا تصور کیجئے اور پھر اس سے اپنا موازہ نہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کا اجتماعی اخلاق اس سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ بلکہ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آپ اسی مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ یہاں تک کہ ایک معمولی سا اجتماع آپ کی اجتماعی سیرت کی تمام کمزوریوں کو نمایاں کر دیتا ہے۔ آپ کے مستقبل کی طرف سے کچھ مایوسی سی ہونے لگتی ہے کہ جو لوگ اتنی چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں پورے نہیں اترتے وہ بڑے بڑے امتحانوں میں کسی مضبوط اجتماعی کیریکٹر کا کیا ثبوت دے سکیں گے؟’’ (حصہ چہارم، ص ۱۳)
سفر میں اجتماعی اخلاق کا مظاہرہ
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے کہا:
‘‘میں نے ایک لمبا سفر ابھی ابھی آپ کے ساتھ کیا ہے اس سفر میں آپ کی سیرت کا جو مظاہرہ میں نے دیکھا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ اگر سچ پوچھیے تو تھوڑی سی تکلیف ہوئی ہے۔ سفر میں جس ایثار، جس تحمل، جس وقار کی ضرورت ہے اس کا ابھی بہت تھوڑا حصہ آپ میں نظر آیا۔ مختلف مواقع پر آپ نے جس بے صبری اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ریل کے عام مسافروں سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگوں کو تکلیفیں بھی پہنچائی ہیں، جن سے معافی مانگنے کا بھی اب آپ کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہا ۔ سفر میں آپ کا وقت بیشتر اسی قسم کی باتوں میں گزرا جن میں ریل کے عام مسافر گزارتے ہیں۔میں نے کبھی کبھی یہ بات بھی محسوس کی کہ جماعت کے ارکان نے آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا جو صحیح اسلامی اخلاق کا تقاضا تھا بلکہ سفر میں آزمائش کے مواقع پر ایک دوسرے سے بیگانہ ہو گئے۔ یہ علامتیں اچھی نہیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اندر سچّی اسلامی سیرت کی تعمیر بڑی سست رفتاری سے ہو رہی ہے۔ مجھے ان باتوں کا ذکر کرتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن حقِ نصیحت کا تقاضا ہے کہ میں اس شرم کی پروا کیے بغیر آپ کی کوتاہیوں پر آپ کو ملامت کروں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس اعلی مقصد کو یاد رکھیں گے جس کے لیے آپ اٹھے ہیں اوراس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے جس انفرادی اور اجتماعی سیرت کی ضرورت ہے آپ اس کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لیں گے اور جس جگہ ہوں گے- بازار ہو یا اسٹیشن، ریل ہو یا سڑک- ہر جگہ اسی سیرت کا مظاہرہ کریں گے۔’’ (حصہ چہارم، ص ۱۴)
ملک کی تقسیم کے بعد جماعتِ اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی اور اس کا پہلا اجتماع عام بتاریخ ۲۰تا ۲۲ اپریل ۱۹۵۱ء رام پور میں منعقد ہوا، اس موقع پر مخالفین کی طرف سے کسی ناشائستہ حرکت کے جواب میں شرکائے اجتماع بطور خاص رفقائے جماعت کا رویہ کیا ہو اس سلسلے میں زریں ہدایات دی گئیں۔
ناشائستہ حرکات کے جواب میں
امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا:
‘‘آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا اور افسوس بھی کہ اس سال بھی جب کل ہند اجتماع کا اعلان کیا گیا تو ہمیں مقامی طور سے طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حکام کو طرح طرح کی بدگمانیاں ہوئیں اور رکاوٹیں ڈالی گئیں اور اسی طرح خود مسلمانوں کے ایک طبقہ کو بھی چند اندیشوں کے تحت یہاں رامپور میں اجتماع منعقد کیے جانے پر اعتراض ہوا لیکن خدا کا بڑا فضل ہے کہ یہ بد گمانیاں اور اندیشے بڑی حد تک رفع ہو چکے ہیں تاہم اب بھی کچھ حضرات ایسے موجود ہیں جو دیگر وجوہ کے ماتحت ہماری مخالفت پر آمادہ ہیں۔ مجھے توقع تو یہی ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کو خود سمجھ بوجھ عطا فرمائے گا کہ وہ ہماری مخالفت میں کسی نا شائستہ حرکت کا ارتکاب نہ کریں، لیکن یہ نا ممکن نہیں ہے کہ وہ اس اجتماع میں خلل ڈالنے کی کوشش کریں ۔ اگر ایسا ہوا تو بلاشبہ ہمیں اس پر افسوس ہو گا لیکن چونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیش آتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے پیش آتا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی پہلو خیر ہی کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس صورت حال کے استقبال کے لیے بھی آپ کو تیار رہنا چاہیے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین کے دلوں میں اس طرح کا خیال ڈال کر ہماری سیرت و کردار کی جانچ کے لیے ایک موقع فراہم کرنا چاہتا ہوتا کہ لوگ دیکھ سکیں کہ جب ہم پر ظلم وستم ڈھایا جا رہا ہو تو اس وقت ہم کیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور اس طرح اس شر سے بھی خیر کا پہلو شکل آسکتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا رویہ ایسے مواقع پر غصہ اور جھنجھلاہٹ کا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کی بجائے آپ کو صبر و ضبط، عفو درگزر اور بردباری سے کام لینا چاہئے ۔ مخالفین کی طرف سے جو کچھ بھی پیش آئے اُسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیجیے اور ان کا شکوہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے اپنی عفو و مغفرت اور استقامت و ثابت قدمی کی دعا کیجیے۔ آپ کا یہ رویہ خود مخالفین کے لیے تازیانہ عبرت ثابت ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے اس کے بعد ان پر راہِ صواب واضح ہو جائے اور وہ خود بخود اپنی مخالفتوں سے باز آجائیں۔ آپ دین کا کام کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں اور اس کام میں اس طرح کی مخالفتوں کا پیش آنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کےسلسلہ میں دین کے حقیقی خادموں اور علم برداروں کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھا جائے ۔’’ (روداد اجتماع رام پور ص ۱۷ تا۳۳)
اجتماع کے مقاصد اور ان کے تقاضے
امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے اجتماع کے اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھنے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا:
‘‘میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ اس موقع پر آپ کو توجہ دلاؤں کہ ہر چند ہم خیال اور ہم مقصد لوگوں سے ملنا ایک مسرت بخش موقع ہوتا ہےاور اس موقع پر مسرت محسوس کرنا ایک بالکل فطری بات ہے لیکن ہر چیز کی طرح اس کی بھی ایک حد ہے ۔ اگر یہ اس حد سے تجاوز کر جائے تو یہی چیز بجائے محمود ہونے کے مذموم بن سکتی ہے ۔ عرصہ کے بچھڑے ہوئے لوگ آج مل رہے ہیں اس لیے دل کھول کر ملیے اور مل کر جس قدر بھی خوش ہو سکتے ہوں خوش ہو جیے۔ لیکن اس مسرت اور خوشی میں اس بات کو بھول نہ جائیے کہ آپ کا طول طویل سفر کر کے یہاں جمع ہونا اور ملنا جلنا کسی غرض اور مقصد کے لیے ہے ۔ آپ کے یہاں جمع ہونے کی سب سے پہلی غرض یہ ہے کہ رفقا ایک دوسرے سے متعارف ہوں تاکہ ان میں محبت، یک جہتی اور باہمی تعاون و اشتراک کے جذبات پیدا ہو سکیں جو اس کام کے لیے ضروری ہے۔ اس غرض کے لیے آپ کو ایک دوسرے سے ضرور ملاقاتیں کرنی چاہئیں۔ بلکہ اجتماعات کے پروگرام سے جو فارغ لمحات آپ کو میسر آئیں ان کو اسی کام میں صرف کرنا چاہئے۔ لیکن مقصود یہ غرض ہونی چاہیے کہ محض گپ شپ اور لایعنی گفتگوئیں جو نہ صرف یہ کہ مفید نہیں ہو سکتیں بلکہ الٹی مضر اور ضیاعِ وقت کا باعث ہوں گی۔ دوسری غرض اس اجتماع کی یہ ہے کہ آپ اس بات کا جائزہ لے سکیں کہ مختلف مواقع پر آپ کے رفقا کیا اور کس طرح کام کر رہے ہیں اور ان کے موانع و مشکلات کیا ہیں تا کہ آپ تمام صورتِ حالات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کر سکیں کہ آپ کو آئندہ کیا اور کس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس غرض کے لیے دو باتوں کا آپ کو خاص طور سے اہتمام کرنا ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ اوقات کی آپ کو آپ پوری پوری پابندی کریں ، کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور نماز اور اجتماع کے لیے جو اوقات مقرر کیے گئے ہیں ان کی شدت سے پابندی ہونی چاہیے ورنہ لامحالہ اس کا اثر آپ کے عام پرو گرام پر پڑے گا ۔ اور جو بہت سے ضروری کام ان چند دنوں میں آپ کو انجام دینا ہیں وہ وقت پر انجام نہیں پا سکیں گے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ ہر کارروائی میں پورے ذوق و شوق اور توجہ و انہماک کے ساتھ حصہ لیں ، خاص طور پر دوسری غرض کے تحت جو پروگرام ہوگا اس میں صرف ہمارے رفقائے کار کو دل چسپی ہو سکتی ہے دوسرے لوگوں کے لیے جن کا جماعت کے کاموں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے ان کو وہ پروگرام بڑا خشک اور بدمزا معلوم ہوگا۔ اگر خدانخواستہ آپ لوگوں کی دلچسپی بھی اس کے ساتھ ویسی نہیں ہوئی جیسی ہونی چاہیے تو اس کا مطلب صرف یہی ہوگا کہ ابھی کام کے ساتھ آپ کو پورا پورا لگا ؤ پیدا نہیں ہوا ہے ۔
تیسری غرض اس اجتماع کی یہ ہے کہ آپ اپنی دعوت دوسرے لوگوں تک پہنچا سکیں۔ اسی غرض کے لیے خصوصی اجتماعات کے ساتھ اجتماع عام بھی کیا جاتا ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم ہر طرح کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور اس سال اس غرض کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو دن خطاب عام کے لیے رکھے گئے ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ان دو دنوں کے پروگرام کے ذریعہ ہم اپنی دعوت بہت کچھ نئے لوگوں تک پہنچا سکیں گے۔ لیکن یہ بات آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اجتماع عام کے پروگرام ہی کافی نہیں ہیں ۔ آپ کی دعوت کے بے شمار اور نہایت وسیع گوشے ہیں جن کی توضیح و تفصیل کے لیے دو دن کے اجتماعات کافی نہیں ہو سکتے ۔ جو باتیں ان میں پیش ہوں گی ان کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کے پیش کرنے کی ضرورت ہو اور آپ کے اس اجتماع میں بہت سے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو کچھ خاص طرح کے اشکالات یا شکوک و شبہات رکھتے ہوں جن سے تعرض کا ممکن ہے اجتماعات کی تقریروں میں موقع نہ مل سکے ۔ اس لیے آپ لوگ صرف اجتماع عام کے پروگرام پر اعتماد کر کے اپنے تبلیغ و دعوت کے فریضہ میں کوتاہی نہ کریں ۔ آپ لوگ ایسے لوگوں کی تلاش کر کرکے ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کریں اور ان کو پوری توجہ اور نرمی و دل سوزی کے ساتھ اپنی باتیں سمجھانے کی کوشش کریں ہو سکتا ہے کہ اس کوشش کے دوران میں آپ لوگوں کا سابقہ ایسے لوگوں سے پیش آئے جو ان میں ناواقفیت یا کسی بدگمانی کی وجہ سے آپ کے ساتھ کوئی دل آزاری کا رویہ اختیار کریں ۔ ایسے لوگوں کے طرز عمل سے آپ لوگوں کو متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ ان کی پوری باتیں سننی چاہئیں اور پھر پوری ملاطفت کے ساتھ ان کے شکوک واعتراضات کو رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ محض آپ کو چھیڑنے کے لیے کچھ سوالات کریں۔ ایسے لوگوں کی اس نیت کا اندازہ کر لینے کے بعد ان کے ساتھ در گذر سے کام لیں اور خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں نہ الجھیں۔ بہر حال یہ موقع اپنی دعوت سے لوگوں کو روشناس کرنے، جو پہلے سے کچھ واقف ہیں ان کی واقفیت کو زیادہ کرنے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں ، ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے ایک نہایت عمدہ موقع ہے ، اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں میں آپ کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعوت بلاشبہ زبانی بھی دی جا سکتی ہے لیکن حقیقی اور مؤثر دعوت عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے ۔ آج جو نئے لوگ یہاں تحقیق کی غرض سے آئے ہوئے ہیں، وہ اس لیے نہیں آئے ہیں کہ وہ آپ کی زبانی کچھ نئی باتیں سنیں گے۔ آپ جو باتیں پیش کرتے ہیں وہ نئی باتیں نہیں ہیں اور ممکن ہے ان میں سے کتنے ایسے ہوں جو ان باتوں سے آپ سے بہتر طور سے خود واقف ہوں یا آپ سے بہتر بیان کرنے والوں کی زبانی انھوں نے سنی ہوں ۔ ان کے یہاں آنے کا زیادہ تر مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کے اجتماع میں شریک ہو کر یہ دیکھیں کہ آپ جو اونچی اونچی باتیں کرتے ہیں آپ اپنے انفرادی یا اجتماعی عمل کا کیا نمونہ رکھتے ہیں۔ اور وہ کہاں تک آپ کی باتوں کے مطابق ہے ۔ اچھی اور اونچی باتیں اس زمانہ میں کوئی نایاب چیز نہیں ہیں۔ البتہ حسن عمل ایک ضرور کمیاب اور نایاب چیز ہے۔ اور دنیا کو حقیقتًا اس کی تلاش ہے۔ اگر آپ نے سب کچھ کر لیا لیکن اپنے عمل کا کوئی اچھا نمونہ آپ پیش نہ کر سکے تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی دعوت مؤثر نہیں ہوسکے گی بلکہ اندیشہ ہے آپ لوگوں کے لیے دین اور دینی کام سےتنفر کا باعث نہ بن جائیں اور یقیناً یہ معاملہ بڑا ہی سخت اور قابلِ توجہ ہے ۔’’ (روداد اجتماع رام پور ص ۱۷ تا۳۳)
اعلی روایات کی جڑ تقوی ہے
مولانا نے اجتماعات میں مطلوب رویوں کو تقوی سے جوڑ دیا اور کہا:
‘‘اس سلسلہ کی بنیادی بات یہ ہے اور یہی در حقیقت آپ کے کام کا اصل الاصول ہے کہ آپ میں تقویٰ اور خشیت الہی اس حد تک ہونی چاہیے کہ اس کا اثر آپ کے ہر قول وعمل سے نمایاں طور سے محسوس کیا جاسکے ۔ اس غرض کے لیے آپ کو ہر ہر قدم پر احتساب کرنا چاہیے کہ آپ اس اصل کو کہاں تک ملحوظ رکھ رہے ہیں اور اس احتساب کا بہتر ذریعہ نماز ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر تقوی وخشیت الہی کی یہ کیفیت حاصل کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے کم از کم نتائج یہ ہوں گے :
۱۔آپ اپنا وقت بے کا ریا لایعنی بات چیت میں صرف کرنے سے احتراز کریں گے کیونکہ وقت بھی اللہ تعالٰی کی ایک نعمت ہے جس کے سلسلہ میں ہر انسان کو جوابدہی کرنی ہوگی کہ اسے اس نے کس کام میں صرف کیا ہے۔
۲۔آپ اپنی زبان کو غیبت اور بدگوئی سے محفوظ رکھیں گے کیونکہ زبان جو کچھ تراشتی ہے اس کا بھی ہمیں لا محالہ حساب دینا ہے۔
۳۔آپ کو شش کریں گے کہ آپ کا کوئی فعل بے وجہ کسی کی ایذا کا باعث نہ بنے بلکہ آپ دوسروں کی خدمت و اعانت کرنا اپنا فرض سمجھیں گے،کیونکہ یہ چیز خدا کی ناراضگی سے بچنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
۴۔آپ دوسروں کی اصلاح میں شوق و دلچسپی سے حصہ لیں گے کیونکہ یہ چیز آخرت کی زندگی میں آپ کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے۔
۵۔اور آپ خود اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں گے اور اس سلسلہ میں دوسروں کی نصیحت کو بغیر کوئی ناگواری محسوس کیے ہوئے دل سے قبول کریں گے اور اس کے شکر گزار ہوں گے۔
بہر حال تقویٰ دین کی جان ہے ، اگر ہم اور آپ اس کو اپنانے میں کامیاب ہوں گے تو یقینًا ہمارے اس اجتماع سے خیرو برکت کا ظہور ہوگا اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ سب کچھ ہوا لیکن تقوی کی اصل روح کو ہم بقد روسعت ملحوظ نہیں رکھ سکے تو آپ کا یہ زحمتیں اور مشقتیں اٹھا کر آنا اور آپ کا یہ سارا نظم و انصرام بالکل بے کار ثابت ہوگا اور اس کا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔’’ (روداد اجتماع رام پور ص ۱۷ تا۳۳)
مرضی اور پسند کے خلاف سمع وطاعت
مولانا نے فرمایا:
‘‘میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر آپ کی جماعتی زندگی کی خصوصیات نمایاں طور سے سامنے آسکیں ۔ آپ نے جب اطاعت امر اور نظم جماعت کی پابندی کا عہد خود اپنی مرضی سے کیا ہے تو آپ کو اپنی ہر چیز میں اس کی پوری پوری پابندی کرنی چاہیے ۔ ویسے سمع وطاعت کے بارے میں میں عام طور سے اپنے رفقا کے بارے میں خوش گمان ہوں لیکن واقعہ یہ ہے کہ عام حالات میں اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، نہ صرف میرے لیے بلکہ خود آپ کے لیے بھی۔ اس کی صحیح حیثیت اس وقت نمایاں ہو سکتی ہے جب انسان کو کوئی مشکل پیش آئے یا اپنی مرضی اور پسند کے خلاف کچھ باتیں کرنی پڑیں ۔ اور یہ اجتماع کا موقع بھی اسی طرح کا ایک موقع ہے۔ اجتماع کے سلسلہ کے یہ تمام انتظامات جو آپ کے سامنے ہیں آپ ہی لوگوں کے اعتماد پر شروع کیے گئے ہیں۔ ان کو قائم کرنا اور برقرار رکھنا یہ آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ ممکن ہے اس کے سلسلہ میں آپ لوگوں کو اپنی ہر طرح کی راحت و آسائش کو قربان کرنا پڑے اور رات دن کے اوقات میں آپ لوگوں کو تھوڑی دیر سونے کا بھی موقع نہ مل سکے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ لوگ اس طرح کی تکلیفیں خوشی کے ساتھ گوارا کریں گے اور جو کام جس شخص کے سپرد کر دیا جائے اسے وہ پورے انہماک اور مستعدی کے ساتھ انجام دے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو انتظامات کے ضمن میں بعض ایسی خدمات بھی انجام دینی پڑیں جن کو عام طور سے حقارت اور ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن عزت وذلت کا عام پیمانہ آپ کے سامنے نہیں ہونا چاہیے ۔ آپ ہر اس کام کو عزّت کا کام سمجھیں جو دین کے اعزاز اور خدا کی خوشنودی کے حصول کے لیے کیا جائے ، خواہ وہ عام نگاہوں میں کتنا ہی ذلیل کام کیوں نہ ہو ، بندے کی عزّت اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ وہ ذلیل سے ذلیل کام کر کے بھی خدا کی خوشنودی حاصل کر سکے۔’’ (روداد اجتماع رام پور ص ۱۷ تا۳۳)
اجتماع کے موقع پر تعلق باللہ پر خاص توجہ
مولانا نے یاد دلایا:
‘‘یہ وقت ملک کے لیے، مسلمانوں کے لیے اور آپ کی جماعت کے لیے بہت نازک وقت ہے ان میں سے ہر ایک کو طرح طرح کی مشکلات اور زحمتیں درپیش ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے سلسلہ میں آپ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا ادا کرنا بہر حال ضروری ہے لیکن یہ ظاہر بات ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آپ کے پاس ظاہری کوئی سہارا نہیں ہے۔ آپ کو کلیةً خدا پر اعتماد کرنا ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ہر موقع پر اور خاص طور سے اجتماع کے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ لگاؤ اپنا اللہ تعالیٰ سے قائم کریں اور اس سے اس سلسلہ میں ہدایت و توفیق کے لیے برابر دعا کرتے رہیں۔ ’’ (روداد اجتماع رام پور ص ۱۷ تا۳۳)
روایتوں کے سلسلے میں حساسیت
رام پور کے بعد دوسرا اجتماع حیدرآباد میں ہوا۔ وہاں سوال وجواب کی مجلسوں میں مختلف حوالوں سے اجتماع کی روایات پر روشنی ڈالی گئی۔
ایک رکن جماعت نے بعض شرکائے اجتماع کے اس احساس کا ذکر کیا کہ امیر جماعت اور شمالی ہند کے رفقا نے بعض اوقات عام دستر خوان پر کھانا نہیں کھایا بلکہ ان کا دستر خوان الگ بچھایا گیا ، جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ کھانے میں شاید کچھ امتیاز برتا گیا۔ امیر جماعت نے جواب دیا کہ
‘‘میں اور شمالی ہند کے رفقا عام طور سے عام دستر خوان ہی پر کھانا کھاتے رہے ہیں۔ صرف دو وقت منتظمین کی خواہش پر انتظامی سہولتوں کی خاطر ان کے کھانے کا علیحدہ انتظام کیا گیا تھا لیکن جو نہی یہ بات میرے علم میں لائی گئی کہ اس کو کچھ لوگ نا پسند کر رہے ہیں منتظمین کو ہدایت کر دی گئی کہ علیحدہ انتظام کی ضرورت نہیں ، چناں چہ اس کے بعد شمالی ہند کے رفقا بھی عام دسترخوان پر کھانا کھاتے رہے، الّا یہ کہ کسی نے کسی وقت کھانا ہی نہ کھایا۔ شمالی اور جنوبی ہند کے رفقا کے کھانوں میں اگر کوئی امتیاز برتا گیا ہے تو وہ صرف کھٹّے اور میٹھے کا ہے اور اس حد تک کے امتیاز میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ تو یک گونہ ضروری تھا، جس کو بسا اوقات نظر انداز کیا گیا مگر اس پر شمالی ہند کے رفقا کو جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی شکایت نہیں ہے۔ گزشتہ اجتماع کے موقع پر بھی جو رام پور میں ہوا تھا جنوبی ہند کے رفقا کے لیے اس امتیاز کوروارکھا گیا تھا۔ در حقیقت اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے، یہ تو صورت حال کی توضیح ہوئی، باقی اصولًا میں اسے غلط نہیں سمجھتا کہ بعض مواقع پرخود جماعتی ضروریات کے تحت کوئی شخص یا چند اشخاص دستر خوان پر نہ بیٹھ سکیں اور ان کے کھانے کا انتظام الگ سے کیا جائے۔’’ ( روداد اجتماع حیدرآباد ص:۲۸، ۲۹)
اس کے بعد ایک رکن جماعت کے بارے میں یہ شکایت پیش کی گئی کہ انہوں نے ناظمِ اجتماع کی اجازت کے بغیر اپنے کھانے اور سونے کا انتظام اجتماع گاہ سے باہر کیا۔ جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کو ٹھہرنے کی ایک ایسی جگہ ملی تھی جہاں ہوا ز یادہ تھی جس کے وہ عادی نہیں ہیں، نیز کھانا بھی ان کے ذوق کے مطابق نہیں تھا اور اس کے سلسلے میں انہوں نے ناظمِ اجتماع کو توجہ بھی دلائی تھی لیکن جب اس کا کوئی ازالہ نہیں کیا گیا تو مجبورًاانہوں نے ایسا کیا۔
امیر جماعت نے اس پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا :
‘‘اس واقعہ کے علم میں آنے سے مجھے بہت زیادہ افسوس ہوا۔ اجتماع کے موقع پر رفقائے جماعت کو یہ سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ ان کی حیثیت مہمان کی ہے، سب کو مل کر اجتماع کے انتظامات کرنے ہیں، ایک دوسرے کے کاموں میں تعاون و اشتراک ہونا چاہیے۔ اور اگر کسی کو کوئی تکلیف بھی پیش آئے تو اسے خوش دلی سے برداشت کرنا چاہیے ، جن تکالیف کا تذکرہ کیا گیا ہے اگر وہ میرے علم میں آتیں تو ان کا فوری ازالہ کیا جاتا، تاہم اگر مجبوری ہی تھی تو کم از کم اتنا تو ضرور ہونا چاہیے تھا کہ وہ اجتماع گاہ کو ناظمِ اجتماع کی اطلاع واجازت کے بعد چھوڑتے۔ نظم کو بہر صورت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔’’ (روداد اجتماع حیدرآباد ص:۲۹)
تنقیداور تنقیدوں پر ردّعمل کے حوالے سے امیر جماعت نے فرمایا:
‘‘اس پروگرام کا منشا جیسا کہ واضح کردیا گیا تھا یہی تھا کہ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں تا کہ آئندہ اپنی اصلاح کر سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں اس پہلو سے بھی یہ پروگرام مفید ہوا ہوگا اور مجھے اس بات پر مسرت ہے کہ عام طور سے شکایت کرنے والوں نے ان باتوں کا لحاظ کیا ہے جن کی طرف شروع ہی میں توجہ دلائی گئی تھی یعنی اگر ایک طرف نصح و خیر خواہی اور مفاد جماعت کا جذبہ غالب رہا ہے تو دوسری طرف تہذیب و شائستگی اور احترام کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اسی طرح جن لوگوں کے کاموں پر تنقیدیں کی گئیں انھوں نے بھی ان تنقیدوں کو بالعموم اسی نظر سے دیکھا ہے جس نظر سے انھیں دیکھنا چاہیے تھا۔ یہ یقیناً ایک اچھی علامت ہے، یہ میرا اپنا تاثر ہے لیکن اگر فی الواقع ان دونوں کے سلسلے میں میرے یہ تاثرات کچھ مبالغہ پر مبنی ہوں تو یہ ایک خطر ناک علامت ہے جس کو دور کرنے کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اجتماعی زندگی کی صحت و صفائی کے لیے تنقید و محاسبہ ناگزیر ہے لیکن تنقید کرنے اور سننے میں اگر مذکورہ باتوں کالحاظ نہ کیا جائے تو یہ چیز بہ جائے مفید ہونے کے مضر ہو سکتی ہے۔’’ (روداد اجتماع حیدرآباد ص:۱۵۰)
منتظمین کو ایک اہم اصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے امیر جماعت نے کہا:
‘‘ہم اپنے رفقا سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ قیام گاہوں میں فرش کی کمی سے جو تکلیف انھیں محسوس ہوئی ہے اس کو انھوں نے بخوشی برداشت کیا ہو گا اور اس طرح کی تکالیف برداشت کرنے کے لیے انھیں تیار ہی رہنا چاہیے لیکن بلا ضرورت تکلیف کے امتحان میں مبتلا کرنا کوئی صحیح بات نہیں ہے اور بالخصوص ایسی حالت میں کہ اس کا اثر اجتماع کی کارروائیوں پر بھی پڑنے والا ہو۔’’ (روداد اجتماع حیدرآباد ص:۱۵۱)
کامیابی کا حقیقی معیار تعداد نہیں ہے۔
مدیر مہ نامہ زندگی سید احمد عروج قادریؒ نے ۱۹۷۴ کے اجتماع عام دہلی کے پیش لفظ میں ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا، اس کا گہرا تعلق اجتماعات کے لیے روایات سازی سے ہے:
‘‘عام طور سے کسی جماعت یا کسی تنظیم کے بڑے اجتماعات کی کام یابی و نا کام یابی کےلیے شرکا کی تعداد کو معیار بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی اجتماع میں زیادہ لوگ شریک ہوئے ، ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا تو اس کو کام یاب قرار دیا جاتا ہے اور اگر کم لوگ شریک ہوئے کوئی بڑا مجمع اکٹھا نہیں ہوا تو اسے نا کام کہا جاتا ہے۔ بے شک یہ بھی ایک معیار ہے لیکن یہ کوئی حقیقی معیار نہیں ہے۔ بعض حالات میں تو یہ ایک بالکل سطحی اور ظاہری معیار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سامعین کی شرکت کے محرکات مختلف ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو کسی مشہور اور نمایاں شخصیت کو دیکھنے اور اس کی تقریر سننے کے اشتیاق میں بہت لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے اس کو دیکھ لیا، اس کی تقریر سن لی، اس کی شخصیت اور تقریر پر اظہار خیال کر لیا۔ بس ان کا کام ختم ہو گیا۔ لیکن یہ معیار اس قدر ذہنوں پر چھا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں ، ایک بھیڑ جمع کر لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں ۔ کسی نظریاتی تحریک و تنظیم کے ذمے داروں کو گہرائی اور بصیرت کے ساتھ یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے کل ہند اجتماعات میں جولوگ بحیثیت مند و بین شریک ہوئے ہیں یا مختلف اجلاسوں میں سامعین کی حیثیت سے جو لوگ شریک ہوئے ہیں وہ کن محرکات کے تحت شریک ہوئے ہیں۔ اگر گہرائی کے ساتھ یہ جائزہ نہ لیا جائے تو اپنی قوت اور اپنے اثرات کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ ’’
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024