ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی کے بہی خواہان ووابستگان اور علی گڑھ میں رہنے والے سہ ماہی تحقیقات اسلامی کے قلم کاروں کی ایک مشاورتی نشست ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو ادارہ کے صدر اور مجلہ کے مدیر مولانا سید جلال الدین عمری کی صدارت میںادارہ کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔ اس میں علمی میدان میں شہرت کی حامل شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ انہوںنے ادارہ کی ترقی وبہبوداور مجلہ کو معیاری بنانے کے سلسلے میں قیمتی تجاویز اورمشورے پیش کیے۔ آخر میں صدر مجلس مولانا عمری نے اظہارِ خیال کیا ۔ پروگرام کی ابتدا میں ادارہ کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے ادارہ اورمجلہ کا مختصر تعارف کرایا تھا۔ عمومی افادیت کے پیش نظر اسے ذیل میں شائع کیا جارہا ہے ۔ (ادارہ)
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے بہی خواہوں ، کرم فرماؤں، سرپرستوں اور اس کی سرگرمیوں سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب علم و فضل کے درمیان خود کو موجود پاکر میں بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ عرصے سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ متنسبینِ ادارہ کو جمع کیا جائے اور ان سے ادارہ کی ترقی اور فلاح و بہبود کے سلسلے میں مشورے کیے جائیں۔ صدرِ ادارہ مولانا سید جلال الدین عمری نے کئی مرتبہ اس جانب توجہ دلائی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج اس کا موقع مل رہا ہے۔ میں آپ تمام حضرات کا انتہائی شکر گزار اور احسان مند ہوں کہ آپ نے ناچیز کی دعوت کو شرفِ قبولیت بخشا اور اپنا قیمتی وقت نکال کر یہاں تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔
اس وقت اس کی مطلق ضرورت نہیں محسوس ہوتی کہ آپ حضرات کے سامنے ادارہ کا تعارف کرایا جائے۔ ادارہ کا آغاز ، ارتقاء اور اب تک کی پیش رفت آپ کے سامنے ہے۔ اس کی سرگرمیوں میں آپ کی شرکت رہی ہے۔ اس کے ارکان کے علمی کاموں سے آپ بہ خوبی واقف ہیں اور اس کا ترجمان مجلہ تحقیقات اسلامی بھی آپ کی نظر سے گزرتارہا ہے۔ اس لیے اس وقت اختصار کے ساتھ چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
جماعت اسلامی ہند نے اپنی تاسیس کے معاً بعد علمی تقاضوں کی تکمیل کے لیے شعبۂ تصنیف قائم کیا۔ بعد میں اسے ادارۂ تصنیف کا نام دیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں یہ ادارہ علی گڑھ منتقل ہوا۔ ۱۹۸۱ء میں اسے ایک آزاد ادارہ کی حیثیت دی گئی اور ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے نام سے اس کا رجسٹریشن عمل میں آیا۔ ادارہ کی تشکیل نو کو سینتیس(۳۷) برس ہو چکے ہیں۔
ادارہ کی تین سرگرمیاں امتیازی نوعیت کی ہیں:
اس کی پہلی اور اصل خدمت تحقیق و تصنیف کے میدان میں ہے۔ کارکنان ادارہ کی اب تک تقریباً چار درجن تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سلطان احمد اصلاحی، مولانا محمد جرجیس کریمی، ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی، مولانا کمال اختر قاسمی، جناب مجتبیٰ فاروق اور راقم سطور کی کتابیںشامل ہیں۔ بعض کتابیں ادارہ نے دیگر اہل علم کی بھی شائع کی ہیں۔علمی و تصنیفی سرگرمیوں کے ساتھ اشاعتی پروگرام چلانا دشوار تھا، اس لیے اسے ختم کر دیا گیا۔اب کارکنانِ ادارہ کی کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہو رہی ہیں۔ الحمد للہ ان کتابوں کو ملک و بیرون ملک میں اعتبار و استناد حاصل ہے۔ بیش تر کتابیں پڑوسی ملک پاکستان کے متعدد اشاعتی اداروں سے بھی شائع ہو رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے مولانا عمری کی تمام کتابوں کو اپنے یہاں شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
ادارہ کا دوسرا امتیازی کام دینی اور عصری جامعات سے فارغ نوجوان طلبہ کی تحریری و تصنیفی تربیت ہے۔ اس کا دوسالہ کورس ہے۔ اس کے تحت بنیادی اسلامی مصادر کے مطالعہ کے ساتھ مضمون نگاری کی مشق کرائی جاتی ہے۔ طلبہ کو قیام کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے۔ اس کورس سے فائدہ اٹھانے والے متعدد حضرات آج ملک و بیرون ملک میں اہم علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادارہ کی خدمات کا تیسرا میدان سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کی اشاعت ہے۔ یہ ادارہ کے تعارف کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ادارہ کی تشکیل نو کے ساتھ اس مجلہ نے بھی سینتیس( ۳۷) برس مکمل کر لیے ہیں۔ اسے ملک و بیرون ملک کے دینی مدارس اور عصری جامعات کے اصحاب ِ علم و تحقیق کا تعاون حاصل رہاہے۔ اس میں اسلامیات سے متعلق موضوعات پر مقالات شائع ہوتے ہیں۔ دیگر زبانوں کے بعض اہم مضامین کے ترجموں کی بھی اشاعت ہوتی ہے۔ نئی مطبوعات کا تعارف اور ان پر تبصرہ بھی کیا جاتا ہے۔ تحقیقات اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کے رسائل و مجلات میں غالباً سب سے پہلے وہ انٹرنیٹ پر آیا۔
تحقیقات اسلامی کے متعدد اشاریے تیار ہوئے ہیں ۔اس کا پہلا اشاریہ ، جو ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۷ء تک کے شماروں پر مشتمل تھا،راقمِ سطور نے تیار کیا تھا ۔وہ ’تحقیقات اسلامی کے سولہ(۱۶) سال‘ کے عنوان سے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کے جرنل( ۱۹۹۸ء) میں شائع ہواتھا۔ دوسرا اشاریہ راقم نے پچیس سال کے شماروں کا تیار کیا۔یہ تحقیقات اسلامی، اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میںبہ طور ضمیمہ طبع ہوا۔تیسرا اشاریہ جناب شاہد حنیف (لاہور) کا ہے ، جنھوں نے ہند و پاک کے تقریباً چالیس (۴۰)اہم رسائل و مجلات کے اشاریے تیار کیے ہیں۔انھوں نے تحقیقات اسلامی کے اب تک کے تمام شماروں کا اشاریہ تیار کردیا ہے۔ یہ ابھی منتظر ِاشاعت ہے۔ چوتھا اشاریہ جناب روؤف احمد، لائبریرین ،ادارۂ تحقیقات اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد (پاکستان) نے تحقیقات اسلامی کے پینتیس (۳۵)برسوں (۱۹۸۲ء۔ ۲۰۱۶ء) کے ایک سوچالیس (۱۴۰) شماروں کا، ڈیجیٹل کلکشن کی صورت میںتیار کیا ہے۔اس میں عناوین، مصنفین اور موضوعات کے اعتبار سے سرچ کی سہولت موجودہے۔
مقام مسرت ہے کہ ادارۂ تحقیق اور اس کا مجلہ تحقیقات اسلامی دونوںاب اہل علم کے درمیان تحقیق کا موضوع بن گئے ہیں۔چند ماہ قبل جناب اسامہ شعیب فلاحی علیگ،استاذشعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے مولانا آزاد یونی ورسٹی جودھ پور میں منعقدہ ایک سمینار میں ’برِّ صغیر میںفکر اسلامی کی اشاعت: ادارۂ تحقیق کی خدمات کا جائزہ‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر احسان اللہ فہد ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ دینیات، مسلم یونی ورسٹی نے تحقیقات اسلامی میں تصوّف پر شائع ہونے والے مقالات اوررکن ادارہ مولانامحمد جرجیس کریمی نے تحقیقات اسلامی میں سیرتِ نبوی پر شائع ہونے والے مقالات کے تعارف وجائزہ پر مقالات لکھے۔ اس کے علاوہ ملک و بیرونِ ملک میں کئی ایم فل مقالے تحقیقات اسلامی پر لکھے جا چکے ہیں:جناب کاشف رضا ، جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد(پاکستان) نے تحقیقات اسلامی کی عمومی خدمات کا تجزیہ کیا ہے۔جناب مدثر بشیر،شعبۂ اسلامیات، سرگودھا یونی ورسٹی (پاکستان) نے ’تحقیقات اسلامی کے قرآنی مقالات‘ کا جائزہ لیا ہے۔جناب عبد الودود ( شعبۂ السنہ، لسانیات و ہندستانیات،مولانا آزاد یونی ورسٹی، حیدرآباد)نے’ تحقیقات اسلامی میں مطبوعہ تراجم‘ پر تحقیق کی ہے۔جناب سعید الرحمٰن(شعبۂ علوم اسلامیہ ، عبد الولی خاں یونی ورسٹی ، مردان( پاکستان) نے پاک وہند کے منتخب اردو اسلامی جرائد کی نمایاں خصوصیات اور بنیادی مناہج‘ پر تحقیق کی تو ان میں تحقیقات اسلامی کو بھی شامل کیا۔ پاکستان کے ایک اسکالر تحقیقات اسلامی میں شائع ہونے والے مقالاتِ سیرت کو اپنی تحقیق کا موضوع بنانے کے خواہش مند ہیں۔
ادارہ اور مجلہ سے آگے بڑھ کر اب ادارہ سے وابستہ شخصیات پربھی الگ الگ تحقیق ہونے لگی ہے۔ مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی کے نواسے جناب اسامہ شعیب فلاحی نے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے مولانا صدر الدین اصلاحی پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ پاکستان کی ایک طالبہ(میمونہ ارم) مولانا سید جلال الدین عمری کی علمی و دینی خدمات پر اور دوسری طالبہ(رابعہ نوشین)’اسلام میں رفاہ عامہ کے بارے میںمولانا عمری کے افکار‘ پر ایم فل کر رہی ہیں۔ شعبۂ اسلامک اسٹڈیز،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک طالبہ’حقوقِ نسواں پر معاصر علما کے افکار کا تقابلی مطالعہ‘ کے عنوان پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ان میں انھوں نے مولانا عمری کو بھی شامل کیا ہے۔جناب شیخ زاید سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز، پنجاب یونی ورسٹی(لاہور) کی ایک طالبہ نے مولانا سلطان احمد اصلاحی کی علمی و دینی خدمات پر ایم فل کی ہے۔محترمہ آسیہ پروین( نیشنل کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن، ملتان،پاکستان) سیرتِ نبوی سے متعلق راقم( محمدرضی الاسلام ندوی) کی تحریروں پر ایم فل کرر ہی ہیں۔
پاکستان کے کئی علمی مجلات، مثلاً سہ ماہی فکر و نظر اسلام آباد،شش ماہی سیرت اسٹڈیز، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد،شش ماہی العروج کراچی وغیرہ نے راقم سطور کو اپنی مجلس ِ مشاورت میں شامل کر رکھا ہے۔ شعبۂ اسلامی تاریخ، کراچی یونی ورسٹی اور شعبۂ اسلامک اسٹڈیز،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کا ممتحن ہوں،پاکستان کے کئی مجلات کی ریویو کمیٹی میں شامل ہوں ۔ ان کے مدیران موصولہ مقالات پر رائے طلب کرتے ہیں۔وہاں کے کئی سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔یہ ساری قدر افزائی ادارۂ تحقیق سے تعلق کی وجہ سے ہے اور اس کے استناد و اعتبار کی مظہر ہے۔
ادارہ کو اعتبار بخشنے میںاس کی مجلسِ منتظمہ کے ارکان کا بھی قابلِ قدر حصہ ہے۔ شروع سے ادارہ کو ایسے اصحابِ علم کی سرپرستی حاصل رہی جو عالمی شہرت کے حامل تھے اور اب بھی جو حضرات اس کی منتظمہ میں شامل ہیں ان کا شمارملک و بیرونِ ملک میں اسلامیات کے ماہرین میں ہوتا ہے۔فالحمد للہ علی ذلک ۔
آخر میںادارہ کی موجودہ صورت حال پر مختصر روشنی ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت ادارہ کے علمی شعبہ سے دو ارکان وابستہ ہیں :مولانا محمد جرجیس کریمی اور مولانا کمال اختر قاسمی۔تیسرے رکن جناب مجتبیٰ فاروق نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے شعبۂ اِسلامیات، مولانا آزاد اوپن یونی ورسٹی حیدر آباد میں داخلہ لے لیا ہے۔ ادارہ کی طرف سے متعینہ موضوعات پر کام کرنے کے علاوہ وقتاً فوقتاً ان حضرات کے مقالات ہندو پاک کے موقر علمی و تحقیقی مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔سمیناروں میں بھی ان کی شرکت رہتی ہے اور خصوصی لیکچرس کے لیے بھی انھیں مدعو کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ حضرات ادارہ کے تعارف کا ذریعہ ہیں۔
ادارہ کے شعبۂ تصنیفی تربیت میں اس وقت تین اسکالر ہیں۔ چوتھے اسکالر نے ایک سال پورا کرلیا تھا ، لیکن اسی ماہ سے ان کا داخلہ طبیہ کالج مسلم یونی ورسٹی میں ہوگیا ہے۔ان طلبہ کوارکانِ ادارہ کی رہ نمائی حاصل رہتی ہے۔ان کے لیے مطالعہ کا ایک کورس تیار کیا گیا ہے، جس کے مطابق وہ منصوبہ بند طریقے سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ ارکانِ ادارہ کا بھی ایک شیڈول بنایا گیا ہے، جس کے مطابق وہ روزانہ ان کے سامنے ایک لکچر دیتے ہیں ۔ مزید ان کی علمی رہ نمائی کے لیے پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی کی خدمات حاصل ہیں ۔ طلبہ کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولیات بھی فراہم ہیں ۔ان کی انگلش کی تعلیم کا نظم بھی کیا جاتا ہے۔
مجلہ تحقیقاتِ اسلامی الحمد للہ پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہاہے۔اس کاقلمی تعاون کرنے والوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی بھی خاصی تعداد ہے ۔ چنانچہ ہر شمارے میں عموماً دو مضامین پاکستانی محققین کے ہوتے ہیں۔ قلمی معاونین کی خواہش پر مجلے کا ISSN حاصل کر لیا گیا ہے ۔ مجلہ ۱۲۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ آٹھ صفحات کا اضافہ انگریزی میں مضامین کے خلاصے کے لیے کیا گیا ہے۔
ادارہ میںوقتا فوقتاً توسیعی خطبات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، جن میںمسلم یونی ورسٹی کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر اہل علم شریک ہوتے ہیں۔ادارہ کے زیر تربیت اسکالرس کے علمی ارتقا اور تصنیفی تربیت کے لیے ایک انجمن ’رائٹرس فورم‘ کے نام سے قائم ہے۔ اس کے ماہانہ پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ان میں مسلم یونی ورسٹی کے مشرقی علوم کے بعض ریسرچ اسکالرس بھی شرکت کرتے ہیں۔
ادارہ میںقدیم و جدید ، عربی ،اردو اورانگریزی کتابوںاور مجلات کا وافر ذخیرہ موجود ہے ۔ امسال تقریباً ایک ہزار کتابوں کا اضافہ ہواہے ۔ فی الحال چودہ ہزار سے زائد کتب ہیں ۔ لائبریری سے ادارہ کے ارکان اور اسکالرس کے علاوہ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس اور بعض اساتذہ اور دیگراہل علم استفادہ کرتے ہیں ۔ادارہ کے سابق اور موجودہ ارکان کی تصنیفات کو شائقین تک پہنچانے کے لیے محدود پیمانہ پر ایک بک سیل قائم ہے۔
کم عمر طلبہ کے لیے ، جو علی گڑھ کے مختلف اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،چھوٹے سے ہاسٹل کا نظم ہے ۔ اس وقت دس طلبہ مقیم ہیں ۔ ان کی نگرانی کے لیے ایک استاد کی اعزازی خدمات حاصل ہیں۔وہ بھی ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔
ادارہ کے کیمپس میں ایک صاحبِ خیر کے تعاون سے مسجد کی تعمیر تین برس قبل ہوئی تھی۔اس کا ایک حصہ خواتین کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔مسجدمیں نماز جمعہ و عیدین کابھی اہتمام ہوتا ہے۔خطبہ کا ایک حصہ اردو زبان میں ہوتا ہے ۔ الحمد للہ استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔گزشتہ سال سے مسجد کو مقامی جماعت اپنے ہفتہ وار اور خصوصی پروگراموں کے لیے استعمال کرنے لگی ہے۔مسجد میں پروجیکٹر کی سہولت فراہم ہے،جس کی مدد سے خواتین براہ راست خطیب کو دیکھ اور سن سکتی ہیں۔ مسجد میں انگلش میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم محلے کے بچوں اور بچیوں کے لیے ناظرہ قرآن ، دینیات اور اردو زبان کی تدریس کا نظم ہے ۔ دو معلمین (امام و مؤذن ) تدریسی خدمات پر مامور ہیں ۔ انھیں اس کا اعزازیہ دیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور و مسائل کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک کمیٹی قائم ہے ۔
ادارہ کی مالیات کی فراہمی میں ہیومن ویلفیر ٹرسٹ اور مرکز جماعت اسلامی ہند کا کسی قدر تعاون حاصل ہے، باقی کا نظم اصحابِ خیر سے کرنا ہوتا ہے۔
ادارہ نے مولاناسید جلا ل الدین عمری کی سکریٹری شپ میں ترقی کی اور اپنی پہچان بنائی۔ اس دور میں کچھ عرصہ مولانا صدر الدین اصلاحی اور اس کے بعد مولانا محمد فاروق خاں صدر رہے ۔ بعد میں مولانا عمری کو صدر بنایا گیا تو ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی کو سکریٹری شپ تفویض کی گئی ۔پھر مرحوم ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی سکریٹری بنائے گئے ۔گزشتہ برس ان کی حادثاتی وفات کے بعد اس خاک سار کو یہ ذمے داری تفویض کی گئی۔معاون سکریٹری علمی کاموں میں مولانا محمد جرجیس کریمی کو اور انتظامی کاموں میں جناب نسیم احمد خاں کو بنایا گیاہے۔ ان حضرات کا قابلِ قدرتعاون حاصل ہے۔
ادارہ کی بہتری اور ترقی کے لیے یوں تواس کے بہی خواہوں سے ہمیشہ تجاویز اور مشورے طلب کیے جاتے رہے۔ البتہ ۲۰۰۶ء میں تحقیقات اسلامی کی اشاعت کے پچیس برس پورے ہونے پر اس کا ایک خصوصی شمارہ نکالا گیا تھا، جس میں ہندو پاک کی عظیم شخصیات اور معروف اہل قلم سے تاثرات ، تجاویز اور مشورے لیے گئے تھے۔ بعد میں ان مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر اس موقع پرڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی نے مشورہ دیا تھا کہ ادارہ اور مجلہ کی ویب سائٹ تیار کروائی جائے۔ اس پر عمل کیا گیا۔ یہ سائٹ tahqeeqat.net کے نام سے موجود ہے۔ اس پر ادارۂ تحقیق کا تعارف اردو، عربی، انگریزی تینوں زبانوں میں موجود ہے۔ ڈاکٹر اصلاحی نے تو کہا تھا کہ پورے پچیس سالوں کے شماروں کو انٹر نیٹ پر ڈالنا کافی زحمت طلب اور گراں بار ہوگا، اس لیے صرف فہرست ِ مقالات اورا شاریے کو اپ لوڈ کیا جائے، لیکن مقام ِشکرہے کہ اس سائٹ پر مجلہ کی ابتدا سے اب تک کے تمام شمارے اپ لوڈ کر دیے گئے ہیں۔ ہر نیا شمارہ طباعت کے بعد جلد ہی اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فیس بک پر بھی مجلہ کا اکاونٹ ہے، جس پر ہر تازہ شمارہ اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ اسے واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ فیس بک پر ادارۂ تحقیق کا بھی اکاؤنٹ ہے، جس میں وقتاً فوقتاً ادارہ میں منعقد ہونے والے پروگراموں کی رپورٹس نشر کی جاتی ہیں اور کارکنانِ ادارہ کی منظر عام پر آنے والی مطبوعات کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
ابتدا میں مجلے کے قلمی معاونین میں خواتین کی تعداد بہت معمولی تھی ۔ چنانچہ ۲۰۰۶ء تک صرف دو(۲) خواتین کے مقالات شائع ہوئے تھے۔ لیکن۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۸ء تک چودہ (۱۴) خواتین کی تحقیقات مجلہ کی زینت بن چکی ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر میں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس موقع پر آپ تشریف لائے۔ یہ ادارہ اورمجلہ سے آپ کی محبت اور تعلّقِ خاطر کی واضح دلیل ہے۔ اس موقع پر آپ کی جانب سے ادارہ کی بہتری اور ترقی کے لیے جو تجاویز اور مشورے پیش کیے جائیں گے انھیں نوٹ کیا جائے گا اور اسے رو بہ عمل لانے کی کوشش کی جائے گی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018