امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک اصولی اصطلاح ہے۔ یہ ایک وسیع کام ہے۔ اس کے متنوع تقاضوں میں سے بہت سے تقاضے حالات کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً امت مسلمہ جب کسی نئی برائی کی زد میں آ رہی ہو تو اس سے روکنے اور بچانے کا کام زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔ اسی طرح جب لوگ معروفات پر عمل کر رہے ہوں اور کسی خاص معروف کو بھول جائیں تو اسے یاد دلانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ کو فرض منصبی ادا کرنے کے راستے بتائے جائیں، اسے بتایا جائے کہ معروف پر عمل کیسے کرے اور منکرات سے چھٹکارا کیسے پائے۔ یہ کام اجتہاد بھی چاہتا ہے اور عملی کوشش بھی۔ مثال کے طور پر سود حرام ہے اور سود سے بچنا لازم ہے۔ لیکن کیسے بچیں اس کے لیے بہت کچھ کرنے سوچنے اور راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔ عموماً سوچنے کا جو انداز رائج ہے وہ یہ ہے کہ لوگ علمائے کرام اور مفتی حضرات سے جائز اور ناجائز کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ یعنی فلاں کام جائز ہے یا نا جائز، یہ پوچھنا بہت اچھی بات ہے اور اسلامی شعور کی علامت ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سوال میں جو مفروضہ پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ کاموں کے کرنے کے جو طریقے دنیا میں موجود اور رائج ہیں، انھیں میں سے انتخاب کرنا ہے کہ کیا جائز ہے اور کیا نا جائز۔ لیکن اہم تر سوال جو امت کے سامنے ہونا چاہیے وہ نئے طریقے دریافت کرنے کا سوال ہے۔ اسلام ہم سے جو مطالبہ کرتا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ نئے طریقے تخلیق کیے جائیں۔ رسائل و مسائل میں مولانا مودودیؒ نے بہت سے سوالات کے جواب میں یہ انداز اختیار کیا ہے کہ سائل نے پوچھا تو جائز نا جائز کے سلسلے میں ہے، لیکن مولانا نے کچھ نئے راستے بتائے ہیں کہ آپ رائج طریقوں کے علاوہ یہ کر سکتے ہیں۔ یہ Creative Action ہے یعنی اپنی تخلیقی صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے حالات کو بدلنے کے لیے نئے متبادل دریافت کرنا اور نئے راستے تلاش کرنا، یہ کام معروفات پر عمل اور منکرات سے بچنے کو عملاً ممکن بناتا ہے۔ نئی راہیں تلاش کرنے کا یہ کام کتاب و سنت کے دائرے میں ہوگا، اور حدود اللہ کے دائرے میں ہوگا،لیکن یہ کام بہرحال ناگزیر ہے۔
(روداد اجتماع ارکان، جماعت اسلامی ہند، 2010، ص 81)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024