(دینی کاموں کا دینی محرّک دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ دل پر شیطان کی مسلسل یلغار رہتی ہے۔ ہر آن ایک کشمکش کا سماں رہتا ہے۔ مختلف محرّکات اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ باہر تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہے لیکن خانہ دل کسی شیطانی حملے کا نشانہ بن جائے اور دینی محرّک کو بے دخل کر کے دوسرے محرّکات دل کی سلطنت پر قابض ہوجائیں۔ اس لیے محرّک کے بارے میں چوکسی بہت ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ )
اللہ پر ایمان لانے کے بعد ایک بندے کی سب سے بڑی فکر یہ ہوتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ اللہ کو راضی کرنے کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا مطیع و فرماں بردار بن جائے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کا دین غالب کرنے کی خاطر اپنی زندگی لگادے۔ اللہ کے لیے جینے اور اللہ کےلیے مرنے والے اللہ کے مقرب ترین بندے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کے رسولوں کے لائے ہوئے دین کو اختیار کرتے ہیں اور اللہ کے رسولوں کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنالیتے ہیں۔ یہ دین (اطاعت) اور مشن (دعوت) دونوں ہی کے ذریعے اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے دین دار بندے ہی نہیں، اللہ کے انصار و مددگار بندے بھی ہوتے ہیں۔
اسلامی تحریک کا اخلاص یہ ہے کہ اس کے قیام کا محرک رضائے الہی کا حصول قرار پائےاور تحریک سے وابستہ ہونے والوں کا اخلاص یہ ہے کہ وہ رضائے الہی کے حصول کے لیے تحریک میں شامل ہوں۔ اس اخلاص کے ساتھ جب قدم آگے بڑھتے ہیں تو اللہ کی مدد اور توفیق حاصل ہوتی ہے۔ رضائے الہی کے حصول کو اپنا محرّک بنانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس محرّک کا پل پل کا ساتھ رہے گا۔ آخری سانس تک یہ محرّک برقرار رہے گا۔ کیوں یہ محرّک وقتی نہیں دائمی محرّک ہے۔
منزل بھی صحیح اور محرّک بھی درست ہو
کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ منزل اور راستہ تو اللہ کو راضی کرنے والا ہو، لیکن منزل کی سمت جانے والے راستے پر چلنے والے شخص کی نیت اور محرک اللہ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ کسی دنیوی مفاد کا حصول یا کسی نفسانی خواہش کی تکمیل ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی مثال ہجرت سے دی۔ اللہ کو راضی کرنے کی خاطر ہجرت کرنے والوں میں کوئی شخص ایسا بھی شامل ہوسکتا ہے جس کے پیش نظر رضائے الہی کا حصول نہ ہو۔
علامہ ابن قیم نے فتوی دینے والوں کو نیت اور محرک کی اہمیت سمجھائی، وہ لکھتے ہیں:
نیت ہر عمل کا سَر، اس کا ستون، اس کی اساس اور اس کی جَڑ ہے جس پر وہ عمل استوار ہوتا ہے۔ نیت ہی عمل کی روح ہے، وہی پیچھے سے اسے تحریک دیتی (Pushing force) اور آگے سے اس کی قیادت کرتی (Driving force) ہے۔ عمل نیت کا تابع ہوتا ہے، عمل کی بنا نیت پر ہوتی ہے، نیت صحیح ہو تو عمل درست رہتا ہے اور نیت بگڑ جائے تو عمل خراب ہوجاتا ہے۔ اِسی کے سبب سے اللہ کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور یہ نہ ہو تو نصرتِ الہی سے محرومی ہاتھ آتی ہے۔ دنیا و آخرت میں اسی کی بنا پر درجہ بندی کا فرق ہوتا ہے۔
ایک شخص فتوی اس لیے دیتا ہے کہ اللہ کی عنایت اور اس کی رضا حاصل ہو اور اللہ اور اس کے انعامات سے قربت نصیب ہو۔ دوسرا شخص فتوی اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ ملے اور ان سے کچھ فائدہ ہوجائے۔ دونوں ایک ہی فتوی دیتے ہیں مگر فضل و ثواب کے معاملے میں دونوں کے بیچ مشرق و مغرب سے زیادہ فاصلہ ہوتا ہے۔
پہلا شخص فتوی دیتا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، اس کا دین غالب ہو اور اس کے رسول کی بات مانی جائے اور دوسرا شخص فتوی دیتا ہے تاکہ خود اس کی بات سنی جائے، اس کا حوالہ دیا جائے اور اس کی عزت میں اضافہ ہو، خواہ فتوی کتاب و سنت کے مطابق ہو یا خلاف ہو۔
اللہ کی عادت و سنت یہ رہی ہے اور یہ کبھی بدلی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں مخلص بندے کو وقار، نور اور محبت کا لباس پہنا کر دل نشین کرتا ہے، ان کے دلوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاص، نیت اور رب کے ساتھ تعلق کی جیسی کیفیت ہوتی ہے ویسی ہی خلعت و مقبولیت اسے عطا ہوتی ہے۔ جب کہ ریاکار اور جھوٹ کے دوہرے کپڑے میں ملبوس شخص کو نفرت و حقارت اور بغض کا وہ لباس پہنایا جاتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔ غرض مخلص بندے کو وقار و محبت حاصل ہوتی ہے اورجو مخلص نہ ہو اس کے حصے میں بغض و نفرت آتی ہے۔ (اعلام الموقعین)
علامہ ابن قیم نے جو بات اہل فتوی کے بارے میں لکھی ہے وہ حرف بہ حرف اسلامی تحریک کے کارکنوں کی رہ نمائی کرتی ہے۔
تسکینِ نفس نہیں رضائے الہی محرّک بنے
تحریک کی بہت سی سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں نفس کے لیے تسکین کا سامان ہوتا ہے اور اگر دھیان نہ رہے تو نفس کی تسکین دل پر غالب ہوجاتی ہے۔ سامعین کو مسحور کردینے والی تقریر، قارئین کو متاثر کردینے والی تحریر، شیرینی سے بھرپور انداز گفتگو، اپنوں اور غیروں کو مرعوب کردینے والی استدلالی قوت، خاص و عام کو داد دینے پر مجبور کردینے والی انتظامی صلاحیت، دلوں کو جیت لینے والا تعلقات سازی کا ہنر، اعتراف پر مجبور کردینے والا معلومات کا خزانہ، افراد کو تحریک سے جوڑنے کی صلاحیت اور دن رات دوڑ دھوپ کرنے کا ملکہ، یہ اور ایسی دوسری بہت سی صلاحیتیں تحریک کی ضرورت ہیں۔ تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ان تمام صلاحیتوں کو بام عروج پر پہنچادینا عین مطلوب ہے۔ تاہم یہ صلاحیتیں انسان کی مقبولیت بھی بڑھاتی ہیں اور ذرا سی غفلت سے یہی مقبولیت وسیلے کے بجائے مقصود بن سکتی ہے۔ مقبولیت پسندی شیطان کا بہت خطرناک پھندا ہے جس میں وہ بڑے قیمتی انسانوں کو پھنسادیتا ہے۔ مقبولیت پسندی کا فتنہ جس طرح فرد کو لاحق ہوتا ہے اسی طرح پوری تحریک کو لاحق ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہ احتیاط ہمیشہ دامن گیر رہے کہ تحریک کے لیے کام آنے والی تمام صلاحیتوں اور سرگرمیوں کا محرک رضائے الہی کا حصول ہو۔ اگر محرک تبدیل ہوا اور کسی نفسانی جذبے نے دل میں جگہ بنالی تو صلاحیتیں ترقی پاتی رہیں گی، سرگرمیاں زور و شور سے انجام دی جاتی رہیں گی اور تحریک کا سفر بھی جاری رہے گا، لیکن اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کے حضور محرومی ہاتھ آئے گی اور یہ بڑی ناکامی کا سودا ہوگا۔ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِینَ [البقرة: 16] (ان کی تجارت بھی بے نفع رہی اور انھیں راستہ بھی نہیں ملا۔ )
یہ محرّک جوش کو تازہ دم رکھتا ہے
جب ایک فرد کے سر میں اللہ کو راضی کرنے کا سودا سما جاتا ہے تو وہ ہر دم جوش و جذبے سے سرشار رہتا ہے۔ اس کی یہ کیفیت نہیں ہوتی کہ قائد کی ولولہ انگیز تقریر اسے حرکت دے اور کچھ دنوں بعد تقریر کا اثر زائل ہوجائے اور وہ پھر ساکن ہوجائے۔ اس کا جوش کسی ایک مہم کو انجام دینے تک محدود نہیں رہتا ہے۔ اپنی قیادت کے سلسلے میں کسی قسم کی بدگمانی اس کے جوش کو سرد نہیں کرتی ہے۔ ساتھیوں کے جمود کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ موسموں کی تبدیلی اس کے حوصلوں کو تبدیل نہیں کرتی ہے۔
سب اس کے ساتھ چلتے ہیں تو اس کی خوشی بڑھ جاتی ہے لیکن اگر سب ساتھ چھوڑ دیں تب بھی وہ تنہا ہی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ کوئی خوف اور کوئی لالچ اس کا راستہ نہیں بدل سکتی۔ رضائے الہی کا حصول جب محرک بن جائے تو سفر لازوال ہوجاتا ہے۔
یہ محرّک مایوسی سے بچاتا ہے
اقامتِ دین کی منزل کی طرف بڑھنے والوں کی زندگی میں بار بار مایوسی داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ پوری جوانی اس راہ میں لگادینے کے باوجود منزل قریب ہوتی نظر نہیں آتی۔ زندگی کا سورج غروب ہوتے وقت یہ حسرت ستاتی ہے کہ خواب کو حقیقت کے روپ میں نہیں دیکھ سکے۔ لیکن حسرت و مایوسی سے نکالنے والی چیز یہ ہوتی ہے کہ ہماری کوششوں کا محرک تو اللہ کو راضی کرنا ہے۔ ہم تو بس کوششوں کے مکلف ہیں۔ ہم آخری دم تک اپنی کوششوں سے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ رضائے الہی کی طلب وہ جذبہ ہے جو نتائج کے حوالے سے کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا ہے۔
یہ محرک جلد بازی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ انسان اس عزم کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتا ہے کہ اس کی اپنی زندگی میں اقامت دین کی منزل ملے یا نہ ملے، لیکن منزل کی سمت بڑھنے والا اس کا ہر قدم اللہ کی رضا سے قریب کرنے والا ہو۔ اس کے قدم جتنے زیادہ اٹھتے ہیں اس کی خوشی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔
اسے یہ سوال پریشان نہیں کرتا کہ اتنے سال گزر گئے تحریک منزل سے ہم کنار کیوں نہیں ہوئی، اس کو فکرمند کرنے والا سوال یہ ہوتا ہے کہ اتنے سال کی اس کی اپنی کارکردگی کیا رہی۔
منزل دور ہونے کا مایوس کن احساس کبھی جلد بازی اور شارٹ کٹ تلاش کرنے کی شکل اختیار کرتا ہے اور کبھی تھک ہار کر بیٹھ جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ رضائے الہی کا محرک مایوسی کی ان دونوں صورتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
یہ محرّک بددلی سے بچاتا ہے
اجتماعیت میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف حالات پیش آتے ہیں جو اس کے لیے بددلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آپ کے اندر اعلی انتظامی صلاحیت ہوتی ہے لیکن آپ کے بجائے کوئی اور منتظم بن جاتا ہے۔ آپ کے اندر عمدہ تقریری صلاحیت ہوتی ہے لیکن آپ کو تقریر کے مواقع نہیں مل پاتے۔ آپ محنت سے مضمون لکھتے ہیں لیکن وہ قابلِ اشاعت قرار نہیں پاتا۔ آپ اپنی دانست میں بہت اچھا مشورہ دیتے ہیں لیکن اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ آپ بڑی محنت سے ایک منصوبہ بناکر دیتے ہیں لیکن دوسرے اس کی افادیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کے نزدیک کوئی معاملہ اصلاح طلب ہوتا ہے آپ توجہ دلاتے ہیں لیکن لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔ بہت سے مواقع پر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور آپ کی باتوں کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ایسے میں انسان بد دل ہوکر کنارے جا بیٹھتا ہے اور جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بددلی اگر دور ہوسکتی ہے تو صرف اس خیال کو تازہ کرنے سے کہ اسلامی تحریک سے آپ کی وابستگی کا محرّک اللہ کو راضی کرنا ہے۔ اس لیے آپ کو اس راستے پر سرگرم رہنا ہے چاہے لوگ آپ کے پورے وجود کو نظر انداز کردیں۔ جو مواقع نہیں ملے ان کا شکوہ کرنے کے بجائے، نئے مواقع تلاش کرنے ہیں۔ اگر کچھ مواقع سے دور کردیا گیا تو مشیت الہی سمجھ کر راضی ہوجانا ہے اور اللہ کو راضی کرنے کے راستے پر آگے بڑھتے رہنا ہے۔
یہ محرّک عہدہ و منصب سے بے نیاز رکھتا ہے
اسلامی تحریک ہو، اسلامی لشکر ہو یا اسلامی ریاست، عہدے اور مناصب ہر اجتماعیت کی انتظامی ضرورت ہوتے ہیں۔ عہدے کچھ لوگوں کو تفویض ہوتے ہیں باقی تمام کو اپنے اپنے مفوضہ کام انجام دینے ہوتے ہیں۔ یہاں شیطان کو تیر چلانے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ شیطان دلوں میں کارکن کے بجائے قائد بننے کی اکساہٹ پیدا کرتا ہے۔
اللہ کو راضی کرنے کا شوق ہو تو اہمیت منصب کی نہیں کردار کی ہوتی ہے۔ انسان کی فکر ہوتی ہے کہ اسے جو موقع حاصل ہے اس میں اپنی بہترین کوششیں کرڈالے، جو کام اسے تفویض کیا گیا ہے اسے بہترین انداز سے انجام دے ۔
نفس کی تسکین قائد بننے میں زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کو راضی کرنے کے معاملے میں قائد اور کارکن ایک ہی سطح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی کارکردگی اخلاص اور محنت سے زیادہ بھرپور ہوگی وہ زیادہ نمبر حاصل کرے گا اور رضائے الہی کا زیادہ اونچا درجہ پائے گا۔
یہ محرّک ستائش کی طلب سے بے نیاز رکھتا ہے
انسان کی نفسیات یہ ہے کہ اگر اس کے کاموں کی ستائش نہ کی جائے تو اس کا دل ٹوٹنے اور بکھرنے لگتا ہے۔ انسان ستائش چاہتا ہے۔ انسانوں کی کم زوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی دل کھول کر ستائش نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے عام انسانی اداروں اور تنظیموں میں بہت سے لوگ عمر کے کسی مرحلے میں ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو بقدرِ تسکین ستائش نہ مل سکی۔ اس کے علاوہ اداروں اور تنظیموں میں بہت سے کام اور ذمے داریاں ایسی ہوتی ہیں جنھیں انجام دینے والے ستائش سے محروم ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جابجامحرومی کا احساس ستاتا ہے۔
اللہ کی رضا کے لیے کوششیں کرنے والے ستائش کے مسئلے سے آزاد ہوتے ہیں۔ انسانوں کی ستائش کرنے اور نہ کرنے کا ان پر ذرا اثر نہیں پڑتا ہے۔ ان کے سامنے اللہ کا یہ وعدہ رہتا ہے کہ
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْیهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْیهُمْ مَشْكُورًا [الإسراء: 19] (اور جس نے آخرت کو طلب کیا اور اس کے لیے کوشش کی جیسی کرنی چاہیے تو ایسے لوگوں کی کوششوں کی قدر کی جائے گی)
کوششیں کرتے ہوئے ان کے سامنے جنت کا منظر رہتا ہے جب عہد وفا پورا کرنے والوں سے کہا جائے گا:
إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْیكُمْ مَشْكُورًا [الإنسان: 22] (یہ تمھارا صلہ ہے اور تمھاری کوشش کی قدر کی گئی ہے)
یہ محرّک جدوجہد کی سطح کو بلند رکھتا ہے
اللہ کو راضی کرنے کا سودا سر میں سما جائے تو بندے کی کوششوں کا معیار بہت بلند ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کے حضور بہتر سے بہتر کارکردگی پیش کرنا چاہتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو عمل کا ظاہری اور باطنی دونوں حسن مطلوب ہیں۔ وہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ اللہ خوب کاروں کو پسند کرتا ہے اور بہتر ین اعمال اس کی بارگاہ میں اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
قیادت کی طرف سے اسے کم سے کم کچھ کاموں کو ضرور کرلینے ہدایت ملتی ہے، لیکن اللہ کو راضی کرنے کا جذبہ اسے زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر اکساتا ہے۔ اس کے اہداف غیر معمولی ہوجاتے ہیں اور اس کے اطمینان کی چھت بہت اونچی ہوجاتی ہے۔ تھوڑی جدوجہد اور محدود نتائج پر اسے ذرا اطمینان نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ اپنی جدوجہد کا بہت بڑا انعام لینا چاہتا ہے، اپنے رب کو راضی کرنے کا انعام۔
یہ محرّک آزمائشوں کو آسان کردیتا ہے
اسلامی تحریک کا راستہ آزمائشوں سے بھرا ہوتا ہے۔ پاؤں میں کانٹے چبھتے ہیں اور سر پہ پتھر برستے ہیں۔ اگر اللہ کو راضی کرنے کا جذبہ نہ ہو تو آزمائشوں کے ہلکے سے جھونکے میں آدمی کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ اس محرک کے بغیر آدمی اس راستے پر چلنے کی ہمت بھی نہیں کرپاتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے:
عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے
آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے
رضائے الہی کا سودا سر میں سماجائے تو آدمی ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ اپنا بہترین وقت تحریک کو دیتا ہے، وہ اپنے مال کا بڑا حصہ تحریک کی راہ میں خرچ کرتا ہے، وہ مشقت سے بھرپور اسفار میں تکان کے بجائے لطف محسوس کرتا ہے، کہیں لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں، کہیں اس پر فقرے کستے اور کہیں تو جسمانی اذیت بھی دیتے ہیں۔ قید و بند اور دار و رسن کے مراحل بھی دور نہیں ہوتے۔ غرض یہ راستہ ہر طرح کی قربانیاں مانگتا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ سب کچھ آسان معلوم ہوتا ہے۔ محرّک کی بلندی انسان کو صدّیقیت کی صفت سے آراستہ کردیتی ہے، جس کے بعد کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
یہ محرّک کریڈٹ کی فکر سے دور رکھتا ہے
انسانی اداروں اور تنظیموں میں کریڈٹ حاصل کرنے کی ہوڑ مچی ہوتی ہے۔ اس کے لیے دروغ گوئی سے بھی پرہیز نہیں ہوتا ہے۔ کام یابی کا سہرا اپنے سر لینے اور ناکامی کا ٹھیکرا دوسرے کے سر پھوڑنے کی کوشش عام سی بات ہے۔
اللہ کو راضی کرنے کی طلب اس طرح کے نفسیاتی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔ انسان بڑے بڑے کام کرتا ہے اور اللہ کے حوالے کرکے بھول جاتا ہے۔ وہ کام بہت محنت اور لگن سے کرتا ہے اور نام مخفی رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔
حضرت عمر ؓ کا ایمان افروز جملہ اس کے دل کو پاک و صاف رکھنے میں مددگار ہوتاہے، نہاوند کی مہم مکمل ہونے کے بعد سپہ سالار کا قاصد حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا، فتح کی خبر دی اور اس کے بعد مہم میں کام آنے والوں کے نام بتائے اور آخر میں کہا : امیر المومنین کچھ ایسے لوگ بھی کام آگئے جن سے ہم واقف نہیں ہیں۔ حضرت عمرؓ رونے لگےاور روتے ہوئے انھوں نے کہا: اگر عمر انھیں نہیں جانتا ہے تو اس سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا ہے۔ اللہ تو انھیں جانتا ہے۔
مشق کے طور پر انسان کو چاہیے کہ وہ کچھ اچھے کام ایسے ضرور کرتا رہے جن کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہ جانے۔
یہ محرّک ہر لمحہ کو قیمتی بنادیتا ہے
اللہ کو راضی کرنے کی دُھن جب سوار ہوتی ہے تو آدمی اپنے ہر لمحے کو کام میں لانا چاہتا ہے، ایک لمحہ بھی ضائع کرنا اسے گوارا نہیں ہوتا ہے۔ اس کو فکر ہوتی ہے کہ ذرا سی غفلت کہیں بڑی محرومی کا سبب نہ بن جائے۔
مَا رَأَیتُ مِثْلَ الْجَنَّةِ، نَامَ طَالِبُهَا، وَمَا رَأَیتُ مِثْلَ النَّارِ، نَامَ هَارِبُهَا (المعجم الأوسط) (میں نے جنت جیسی چیز نہیں دیکھی جس کا چاہنے والا سوجائے اور دوزخ جیسی چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والے کو نیند آجائے۔ )
یہ محرک ہر کام کو اہم بنادیتا ہے
جب ایک فرد اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے اسلامی تحریک میں شامل ہوتا ہے تو پھر اسے اس سے کوئی غرض نہیں رہتی ہے کہ اسے کیا کام تفویض کیا جارہا ہے۔ اسٹیج کی رونق بن کر تقریر کرنے کا کام ہو یا سامعین کے لیے پنڈال میں کرسیاں لگانے کا کام ہو، کتاب لکھنے کا کام ہو یا لوگوں تک کتاب پہنچانے کا کام ہو، وہ ہر کام اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرتا ہے، اس لیے اس کا ہر کام اونچے رتبے کا ہوتا ہے۔
جب رضائے الہی کا محرک کم زور پڑ جاتا ہے تو شیطان دل میں وسوسے ڈالتا ہے کہ لوگوں کو جوڑنے اور لوگوں تک پیغام پہنچانے کی محنت تم کرتے ہو، شخصیت فلاں صاحب کی نمایاں ہوتی ہے، پوسٹر تم چپکاتے ہو اور پوسٹر پر نام فلاں صاحب کا ہوتا ہے، دن رات محنت کرکے مجمع گاہ تم تیار کرتے ہو اور اسٹیج کی رونق فلاں صاحب بنتے ہیں۔ گھر والے بھی کبھی اسی طرح کی باتیں سناتے ہیں۔ رضائے الہی کی طلب سے سرشار انسان ایسے تمام وسوسوں کو سختی سے دھتکار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں اس کے اپنے کام کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے کہ کیوں کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے وہ سارے کام کرتا ہے۔
یہ محرّک پائے داری عطا کرتا ہے
رضائے الہی کا حصول جب افرادِ تحریک کا حقیقی محرک بن جاتا ہے تو اس سے منسلک ہر چیز میں پائے داری آجاتی ہے۔ تحریک سے تعلق میں پائے داری آجاتی ہے۔ اجتماعیت میں انسان کو بہت سی باتیں ناگوار گزرتی ہیں۔ کبھی ناگواری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اجتماعیت چھوڑ دینے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ لیکن جب مقصود و محرک رضائے الہی کا حصول ہو تو انسان اپنے آپ کو سمجھاتاہے کہ میں تمام ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو گوارا کرلوں گا مگر اس تحریک سے تعلق کو کم زور نہیں ہونے دوں گا جسے اللہ کو راضی کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔
اسی طرح تحریک کا فرد تحریک کے دوسرے افراد سے خدا واسطے کا تعلق قائم کرتا ہے۔ ان کی کم زوریوں سے صرف نظر کرتا ہے، ان کی مزاجی خرابیوں کو برداشت کرتا ہے اور ان سے مضبوط تعلق رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس نے وہ تعلقات اپنے نفس کی تسکین کے لیے قائم نہیں کیے بلکہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے قائم کیے۔ مَن أحبَّ لله، وأبغض لله، وأعطى لله، ومنع لله، فقد استكملَ الإیمان(سنن أبی داود ) (جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے نفرت کی، اور جس نے اللہ کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے منع کردیا، اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔ )
تحریک میں شامل ہونے کے بعد انسان اپنی زندگی کے معاملات میں اسلامی تقاضوں کے مطابق موقف اختیار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ یہ طے کرتا ہے کہ جاہلانہ رسم و رواج سے دوری اختیار کرے گا، وہ یہ طے کرتا ہے کہ اپنے بچوں کی دینی تربیت کرے گا، وہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ حلال کمائی کے ذرائع اختیار کرے گا اور اس کے ذمے دوسروں کے جو بھی حقوق ہیں وہ اداکرے گا۔ ایسے بہت سے فیصلے وہ کرتا ہے اور ان پر تاحیات قائم رہتا ہے۔ ان فیصلوں کا محرک اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے اس لیے آخری عمر تک تمام سرد و گرم حالات میں وہ اپنے تمام فیصلوں پر مضبوطی سے جما رہتا ہے۔ کسی کی ملامت اور کسی کے دباؤ میں آکر وہ اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا ہے۔
تحریک کی حیات محرّک سے ہے
اسلامی تحریک کے لیے مقصد و نصب العین سے وابستہ رہنا بہت ضروری ہے۔ صحیح طریقہ کار اور ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن محرّک کا معاملہ سب سے نازک ہوتا ہے۔ نصب العین ایک بار متعین ہوجائے تو پھر وہ برقرار رہتا ہے، جب تک اسے بدلنے کافیصلہ نہ کیا جائے اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ طریقہ کاراور حکمت عملی اجتماعی فیصلے کے تحت تبدیل ہوتی ہے۔ لیکن محرّک کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اسے بدلتے دیر نہیں لگتی، انسان کو احساس ہی نہیں ہوپاتا ہے کہ کب اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور محرّک کچھ سے کچھ ہو گیا۔ اس لیے سب سے زیادہ توجہ محرّک کی طرف رہنی چاہیے۔ محرّک کی خرابی ساری جدوجہد پر پانی پھیر دیتی ہے اور زندگی بھر کی کمائی کوبرباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ درج ذیل آیتیں محرّک کے سلسلے میں ہمیں بے انتہا حسّاس بناتی ہیں:
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِی ینْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا یقْدِرُونَ عَلَى شَیءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ .وَمَثَلُ الَّذِینَ ینْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِیتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَینِ فَإِنْ لَمْ یصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ . أَیوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِیهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّیةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِیهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ یبَینُ اللَّهُ لَكُمُ الْآیاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ . [البقرة: 264-266]
اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ بخلا ف اِس کے جو لو گ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو اگر زور کی بار ش ہو جائے تو دو گنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اُس کے لیے کافی ہو جائے تم جو کچھ کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اُس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:
جیسے ہی عمل کرنے والے کی نظر اس طرف گئی کہ لوگوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تو سمجھو کہ شرک نے اس کی نیت میں جگہ بنالی، کیوں کہ وہ جس کے لیے عمل کررہا ہے اسی کی توجہ کو اسے کافی سمجھنا چاہیے۔ اخلاص کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دلوں کی توجہ کو مقصود نہ بنائے، وہ تو اس کے قصد کے بغیر بلکہ اس کے ناپسند کرنے کے باوجود متوجہ ہوسکتے ہیں۔ جو یہ نیت رکھتا ہے کہ مخلوق اس کے عمل کو دیکھے تو اس کا عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ وہ نہ خالق کے یہاں قبول ہوتا ہے اور نہ مخلوق کے یہاں۔ کیوں کہ مخلوق کے دل اس کی طرف سے پھیر دیے جاتے ہیں، اس طرح عمل ضائع ہوجاتا ہے اور عمر بے کار گزر جاتی ہے۔ (صید الخاطر)
حضرت عمر بن عبد العزیزؒکے بارے میں ان کے قریبی لوگوں نے گواہی دی کہ انھوں نے زندگی میں جب بھی کوئی قدم بڑھایا تو نیت کے ساتھ بڑھایا۔
ہمارے دل میں پوشیدہ نیت ہمیشہ ہماری نگاہوں کے سامنے رہے یہ بہت ضروری ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2024