بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں اول و آخر چیز بس خلوص نیت ہی ہے۔ یہ اگر موجود ہو تو اس کے بعد اس بات کی مطلق ضرورت نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ بھی سوچے کہ دعوت و تبلیغ کے کچھ اصول اور ضابطے بھی ہیں یا نہیں اسے بس اللہ کا نام لے کر دعوت کا کام شروع کردینا ، وہ جس طرح بھی یہ کام انجام دے گا، اللہ کی خوشنودی اور اجر ہی کا مستحق ہوگا، بلکہ بعض لوگ تو اس انداز سے سوچنے ہی کو خلوصِ نیت کے منافی سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے کچھ اصول اور ضابطے ہونے چاہئیں اور ان کی پابندی لازم ہے، ہمارے نزدیک یہ طرزِ فکر صحیح نہیں ہے اور اس سے گوناگوں مفسدے پیدا ہوتے ہیں اس لیے اس کے متعلق اپنے ذہن کو صاف کرلینے کی ضرورت ہے۔
اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ خلوصِ نیت، جیسا کہ اس سے پہلے ہم خود دیکھ چکے ہیں ہر کام کی طرح دعوت و تبلیغ کے کام کی بھی روح رواں ہے اور اس کے بغیر نہ اسے کوئی دینی کام سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کسی اجر و ثواب کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن یہ بات کسی طرح خلوص کے منافی نہیں ہے کہ اس کام کو ادا کرنے کے لیے مفید اور مناسب طریقوں کی پابندی کا قصد و اہتمام کیا جائے، ظاہر ہے دعوت و تبلیغ بھی من جملہ ان فرائض کے ہے جن کا حکم قرآن و سنّت میں شدید ترین تاکید کے ساتھ دیا گیا ہے اس لیے جب دیگر واجبات و فرائض کو ادا کرنے کے لیے ان کے مناسب و متعیّن طریقوں کا اہتمام کیاجاتاہے اور اس کو خلوص کے منافی نہیں سمجھا جاتا، تو دعوت و تبلیغ کے فریضہ کو بھی اگر کچھ معروف و متعین طریقوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا قصد کیا جائے تو یہ خلوص نیت کے منافی کس طرح ہوسکتا ہے۔ پھر بات اتنی ہی نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت سے واضح طور سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکا منشا بھی یہ ہے کہ یہ کام بس یوں ہی، جس طرح جی میں آئے کر گذرنے کا نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ مخصوص طریقے ہیں جن کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مشہور آیت ہے:
’’اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّک بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن‘‘۔
اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اور ان سے اس طریقہ سے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔
اس آیت سے صراحۃً معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا کام ایسا نہیں ہے کہ آدمی جس انداز میں چاہے کرنے لگے بلکہ اس کے کچھ معروف طریقے ہیں، چنانچہ خود اس آیت میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ دعوت کی ابتداء کس طرح کی باتوں سے ہونی چاہیے اور جب نتیجۃً مخاطبین دو گروہوںـ،موافقین و مخاطبین، میں تقسیم ہوجائیں تو پھر ہر دو کے ساتھ کیا اندازِ خطاب و عمل اختیار کرنا چاہیےپہلی بات کی طرف اشارہ لفظِ ’’حکمت‘‘ سے کیا گیا ہے اور بعد کے دونوں پہلوئوں پر بالترتیب لفظ ’’مَوْعِظَۃً‘‘جو اُدْعُ سے متعلق ہے اور ’’جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ‘‘سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسی طرح کی اور بھی بے شمار آیتیں ہیں جن میں دعوت کے اور بہت سے طوروطریق کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔
پھر قرآن مجید چونکہ بجائے خود ایک دعوت ہے اس لیے خود اس کی ترتیب نزول اور طریق خطاب وغیرہ پر نگاہ رکھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ اسلوب ہیں اور ان کو خود حکیمِ مطلق نے بھی بندوں کے ساتھ اپنے خطاب میں اختیار فرمایا ہے۔
مثلا یہ ہر شخص جانتا ہے کہ ابتداء عہدِ نبوت میں قرآن کا نزول تھوڑا تھوڑا اور طویل و قصیر وقفوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ ظاہر ہے، یہ محض اتفاقی بات نہیں ہوسکتی بلکہ اس کا تعلق بھی دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ اصول اور طریقوں ہی سے ہے جو بہ ادنیٰ تامّل سمجھ میں بھی آسکتا ہے یعنی ابتداءِ عہدِ نبوت میں اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ لوگوں کی استعدادِ قبول وغیرہ کا لحاظ کرتے ہوئے اتنی ہی مقدار میں اور ایک مناسب وقفہ کے بعد ہی غذا دی جائے جسے وہ بآسانی ہضم کرسکیں ور نہ ہوسکتا تھا کہ شروع ہی میں وہ اپنے خلافِ مزاج باتیں سن کر مزید کچھ سننے ہی سے انکار کر بیٹھتے۔ چنانچہ خود قرآن پاک کی متعدد آیات میں قرآن کے اس طرح تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی مصلحتیں بھی بیان کردی گئی ہیں مثلاً ایک آیت میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے۔
’’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُقْضیٰ اِلَیْکَ وَحْیہٗ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً وَلَقَدْ عَھْدِنَآ اِلیٰ آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً‘‘۔
اور قرآن کے سلسلے میں جلدی نہ کرو قبل اس کے کہ اس کی وحی ختم ہو،ہاں یہ دعا کرتے رہو اے میرے رب! میرا علم زیادہ کر اور بیشک ہم نے اس سے قبل آدم کو ایک بات کی تاکید کی تھی تو ان سے غفلت ہوگئی اور ہم نے ان میں ارادہ کی پختگی نہ پائی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ اس بات کے خواہشمند تھے کہ قرآن مجید اپنی مکمل شکل میں جلد از جلد نازل کردیاجائے اور یہ آپؐ کی ایک بالکل فطری خواہش تھی، اس سے بڑھ کر آپؐ کے لیے اور کیا چیز محبوب ہوسکتی تھی کہ اللہ کی شریعت جلد از جلد مکمل ہوجائے اور اس وقت جن مخالفتوں اور مزاحمتوں کے طوفان میں آپؐ گھرے ہوئے تھے، ان میں آپؐ کا سب سے بڑا سہارا بھی بس یہی تھا کہ ایک طرف آپؐ اللہ سے ہم کلام ہوکر تسلی و تشفّی حاصل کریں اور دوسری طرف اس کے ذریعہ ان شکوک و اعتراضات کا جواب دے سکیں جو مخالفین کی طرف سے پیش کیے جارہے تھے اور جن میں ایک اعتراض خود یہ بھی تھا کہ آپؐ پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کردیا جاتا۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر آپؐ کلامِ الٰہی کے لیے سراپا اشتیاق تھے اور جونہی اس کا کوئی ٹکڑا نازل ہوتا آپؐ ہمہ تن شوق بن کر اس کو جلدی جلدی دہرانا شروع کردیتے، جس کا ایک دل آویز نقشہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا خطاب اور ’’لَا تُحَرِّک بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ‘‘ وغیرہ آیات سے نظروں میں پھرنے لگتا ہے، لیکن باوجود ان سب باتوں کے محض دعوت و تبلیغ کی مصلحتوں کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اس خواہش کا لحاظ نہیں فرمایا اور اس کی مختلف مصلحتیں بیان فرما کر آپؐ کو مطمئن کیا گیا، چنانچہ مذکورہ بالا آیات میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی کہ انسان کم ہمت واقع ہوا ہے اس لیے وہ دفعۃً پوری شریعت کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کی دیگر مصلحتیں دوسری آیتوں میں بیان کی گئی ہیں، جو لوگ اس کی تفصیل سمجھنا چاہیں ان کو مولانا فراہیؒ کی تفسیر سورۂ قیامہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابتداءِ عہدِ نبوّت میں قرآن کی جو آیتیں نازل ہوتی تھیں ان میں عام طور سے اساسی معتقدات پر گفتگو کی جاتی تھی یا ان باتوں پر زیادہ زور دیا جاتا تھا جو خود عربوں میں ان کے لاکھ بگاڑ کے باوجود پسندیدہ سمجھی جاتی تھیں۔ اس بات کا تعلق بھی،ظاہر ہے حکمت و طریق دعوت ہی سے ہے چنانچہ حضرت عائشہؓ نے اپنے اس مشہور قول کے ذریعہ اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
’’انما نزل اول ما نزل سورۃ من المفصل فیھا ذکرا لجنّۃ والنار حتی اذا ثاب الناس الیٰ الاسلام نزل الحلال والحرام ولو نزل اول شی لا تشر بوا الخمر لقالو ا لا ندع الخمر ولو نزل لا تزنوا لقالو الا ندع الزنا‘‘۔(بخاری )
قرآن مجید میں جو سورت پہلے نازل ہوئی وہ مفصل کی ایک سورت تھی جس میں جنت اور دوزخ کا ذکر تھا یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف رجوع ہوگئے تو حلال و حرام کے احکام نازل ہوئے اور اگر شروع ہی میں یہ حکم آتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے ہم شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ حکم آتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم زنا نہ چھوڑیں گے۔
اسی طرح اگر آپ حدیث و سیرت کا مطالعہ فرمائیں تو وہاں بھی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں مخصوص باتوں سے بچنے اور مخصوص طریقوں کے اختیار کرنے کی تعلیم و تلقین ملے گی اور ساتھ ہی اس بات کا بھی پتہ چلے گا کہ آپؐ نے خود اپنی دعوت و تبلیغ میں بہت سے متعین اصولوں اور طریقوں کی پابندی اختیار فرمائی ہے۔ اس وقت تفصیل کا موقع نہیں ہے صرف مثلا ً چند باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
حضرت انسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:
’’یَسِّرُوْا وَلا تُعَسِّرُوْا وَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا‘‘۔
’’اس طرح دعوت دو کہ بہ آسانی لوگوں کی سمجھ میں آجائے، اس طرح دین کو پیش نہ کرو کہ ان کے لیے مشکل بن جائے، اس طرح دعوت دو کہ لوگ دین سے مانوس ہوں، اس طرح دعوت نہ دو کہ لوگ دین سے متنفّر ہوجائیں۔‘‘
یہ ہدایات بلا شبہ دعوت و تبلیغ ہی سے متعلق ہیں اور ظاہر ہے بہت اہم ہدایات ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا تو اس موقع پر ان کو نصیحت فرمائی۔
’’اِنَّکَ سَتَاتِیْ قَوْماً اَھْلَ الْکِتَابِ فَاِذَا جِئتَھُمْ فَادْعُھُمْ اِلیٰ اَنْ یَشْھَدُوْا اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللہِ فَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لَکَ بِذٰلِکَ فَاَخْبِرْھُمْ اَنَّ اللہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ فِاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لَکَ بِذَالِکَ فَاَخْبِرْھُمْ اَنَّ اللہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً تُّوْخَذ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ فَتُرَدّ عَلیٰ فَقَرَاءِھِمْ‘‘۔ (بخاری)
بیشک تم ان لوگوں کے پاس جائو گے جو اہلِ کتاب ہوں گے تو جب تم ان کے پاس جائو تو انھیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں تو اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انھیں بتائو کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں تو اگر وہ اس بات میں بھی تمہاری اطاعت کریں تو انھیں بتائو کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔
یہ چند حدیثیں بطور مثال پیش کردی گئی ہیں جن سے معلوم ہوسکتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے بہر حال کچھ متعین اصول اور طریقے ہیں جن کی پابندی مطلوب ہے اور آپؐ نے لوگوں کو اس کا حکم بھی فرمایا ہے اور جہاں تک خود آپؐ کے عمل کا تعلق ہے، اس کا اندازہ بخاری کی اس روایت سے ہوسکتا ہے۔ حضرت ابووائل فرماتے ہیں:
كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل يوم؟ قال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا(بخاری، کتاب العلم)
عبداللہ بن مسعودؓ ہر جمعرات کے روز لوگوں کی تذکیر کرتے تھے تو ایک شخص نے ان سے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میری تمنا ہے کہ آپ ہر روز ہمیں (دین کے سلسلہ میں) یا د دہانی کرائیں۔ تو انھوں نے کہا میں ایسا صرف اس لیے نہیں کرتا کہ مجھے یہ ناپسند ہے کہ تم میری باتوں سے اکتا جائو۔ میں تمہیں ناغہ کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناغوں کے ساتھ ہمیں نصیحت فرماتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
اسی طرح مشہور بات ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات سے ناگواری ہوتی تو اکثر حالات میں آپؐ براہِ راست شخص ِ متعلق سے تعرض کرنے کے بجائے فہمائش کا یہ عمومی انداز اختیار فرماتے کہ
’’مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَفْعَلُوْنَ کَذا وَ کَذا‘‘۔
’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے ہیں۔‘‘
اور یہ بھی ایک معلوم ہی بات ہے کہ آپؐ کی یہ زبردست خواہش تھی کہ خانۂ کعبہ کا وہ حصہ جو حطیم کہلاتا تھا ور جسے زمانۂ جاہلیت میں خانۂ کعبہ کی تعمیر جدید کے موقع پر سامان وغیرہ کی قلت کی بنا پر علیٰحدہ کردیا گیا تھا اس کو از سرِ نو خانۂ کعبہ میں شامل فرمادیں لیکن آپؐ نے اس سے اس لیے اجتناب فرمایا کہ لوگ کہیں یہ کہنا نہ شروع کردیں کہ آپؐ خانۂ کعبہ میں ترمیم یا تبدیلی فرما رہے ہیں۔
تفصیلات بالاکو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر قرآن و حدیث میں دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ اس کو ہر شخص اپنے من مانے طریقوں سے انجام دینے کے لیے آزاد ہے بلکہ اس کے بھی کچھ متعین طریق و اصول ہیں جن کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عملاً ان کو برتا بھی گیا ہے، پس اگر کوئی شخص دعوت و تبلیغ کے حکم کو بجالانا چاہے لیکن اس کے ان عملی طریقوں کی پابندی نہ کرے جو قرآن و سنت یا حقیقی داعیانِ حق کے اسوۂ حسنہ سے متعین ہوتے ہیں تو صرف یہی نہیں کہ اس قسم کی غیر محتاط دعوت گوناگوں مفاسد دینی و دنیاوی کا موجب ثابت ہوگی بلکہ ایسا شخص در حقیقت اس بات کا ملزم بھی ٹھہرے گا کہ اس نے دعوت و تبلیغ کے باب میں بہت سی قولی و عملی ہدایات کی پابندی نہیں کی ہے اور اس لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دعوت و تبلیغ کا کل کام ہی غلط ہوجائے اور غلطیوں کی بنا پر وہ اجر و ثواب کے بجائے کسی مواخذہ کا مستحق ہوجائے۔ پس اس معاملہ میں صرف خلوص نیت پر تکیہ کرلینا صحیح نہیں ہے بلکہ دعوت و تبلیغ کے صحیح اصولوں اور طریقوں کا بقدرِ ضرورت علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ بے شک جذبۂ مخلصانہ کے ساتھ عملاً آدمی اگر کچھ کرنے لگے تو خود تجربہ بہت سے عملی اصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور یقیناً نئی راہیں اختیار بھی کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ متعین اصولوں سے متصادم نہ ہوتی ہوں لیکن اس کے بارے میں اطمینان اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب وہ کم از کم بنیادی اصولی باتوں سے واقف ہو۔
اصل یہ ہے کہ اس معاملہ میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے،کچھ تو اس طرح کے لوگ ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور جو محض خلوصِ نیت ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور دعوت و تبلیغ میں کسی اصول و ضابطہ کی پابندی کو جو بہرحال حالات و ظروف کی یک گونہ رعایت پر مبنی ہوں گے، منافی خلوص سمجھتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ ہیں جن پر حالات و ظروف کی رعایت کا اس درجہ غلبہ ہوتا ہے کہ اس میں مصلحت کے سوا اور کسی اصول کے پابند رہنا نہیں چاہتے اور اپنے کو تمام تر بس حالات و ظروف ہی کے تابع کردیتے ہیں ۔یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ جیسا کہ اوپر گذرچکا، نہ یہ صحیح ہے کہ آدمی اپنا فریضہ بس اتنا ہی سمجھے کہ اسے حق بات جس طرح بھی ہوپہنچا دینی ہے، اور حالات و ظروف کی کسی درجہ میں رعایت کو بھی نامحمود اور غیر پسندیدہ خیال کیا جانے لگے اور نہ یہ کہ صرف حالات و ظروف ہی پر نگاہ رکھی جائے اور شہادتِ حق کے جو تقاضے ہوسکتے ہیں اور قرآن و سنت میں اس بارے میں جو ہدایات وارد ہوئی ہیں ان کو بالکلیہ نظر انداز کردیا جائے بلکہ صحیح راہ یہ ہے کہ ان دونوں میں صحیح اعتدال و توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، یعنی شہادتِ حق کے تقاضوں اور حالات و ظروف کے مطالبوں میں صحیح تطبیق پیدا کی جائے اور اس بارے میں قرآن و سنت کی ہدایات اور رسول اللہﷺ کے طرزِ عمل کو اپنا حقیقی اسوہ بنایا جائے، اس طرح جو راہِ عمل متعین ہوگی وہی صحیح راہِ عمل ہوگی اور اس پر ہی عمل پیرا ہونے سے اس کام کے صحیح نتائج و ثمرات مرتب ہوسکتے ہیں ورنہ یا تو غیر محتاط تبلیغ، بے جا جوش و خروش کا مظاہرہ بن کر رہ جائے گی اور ظاہر ہے جو جوش و خروش حکمت و بصیرت کے تابع نہ ہو اس کا انجام دین و دنیا دونوں کے پہلووں سے خوش آئند کبھی نہیں ہوسکتا۔ یا حالات و ظروف کی بے قید رعایت تبلیغ حق کے بجائے تبلیغ باطل کا ذریعہ بن جائے گی۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ دعوت کو اس طرح حالات و ظروف کے تابع کردینے کے بعد وہ دعوت اپنی حقیقی شکل میں باقی رہ سکے، ایک معقول حد سے آگے حالات کا جتنا زیادہ اثر قبول کیا جائے گا اسی نسبت سے اس میں باطل کو گھس پڑنے کا موقع مل جائے گا، پس داعیانِ حق کو ان دونوں ہی سے بہ احتیاط اپنا دامن بچا کر چلنے کی ضرورت ہے اور یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اگر تاریخ کے پچھلے ادوار میں اس افراط و تفریط میں بہت سے لوگ مبتلا ہوئے تھے اور اس سے گوناگوں نقصانات دین کو اور امت کو اٹھانے پڑے ہیں تو اس زمانہ میں بھی ان میں مبتلا ہونے کے اسباب کم و بیش بدستور موجود ہیں بلکہ جہاں تک تفریط کا تعلق ہے اس میں مبتلا ہونے کے اسباب تو نسبۃً زیادہ قوت و شدت کے ساتھ موجود ہیں، اس زمانہ میں پہلے سے کہیں زیادہ باطل کا دور دورہ ہے اور باطل کے دور دورہ کے اثرات دونوں ہی طرح کے ہوسکتے ہیں،یہ بھی کہ زیادہ حساس لوگ جو علم و بصیرت کم اور جوش و خروش زیادہ رکھتے ہوں، اپنے جوش و خروش سے مجبور ہوکر ہر قسم کی حکمت و مصلحت سے آنکھیں بند کرکے شہادتِ حق کے میدان میں کود پڑیں،اور یہ بھی کہ بہت سے لوگ اس کے زیر اثر اپنی زمامِ کار مصلحت اندیشی کے ہاتھ میں دے دیں اور شہادتِ حق کے صریح تقاضوں کو بھی نظر انداز کرنے پر آمادہ ہوجائیں،لیکن چونکہ باطل ایک مدت سے ہر چہار سو چھایا ہوا ہے اور اس نے احساسِ حق کو بہ اہتمام شدت سے کچل دینے کی کوشش کی ہے اس لیے رواجِ عام بہرحال مصلحت اندیشی ہی کو حاصل ہوسکا ہے۔
تاہم اس موقع پر ہم تفریط کے بجائے افراط ہی کے پہلو سے بچنے کی طرف زیادہ توجہ مبذول کرانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کیوں کہ تفریط کے فتنہ میں حقیقی علمبردارانِ حق کے مبتلا ہونے کا اندیشہ کم ہی ہوتا ہے، اس کے شکار زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو دین سے زیادہ دنیا عزیز ہو خواہ وہ بہ ظاہر داعیٔ حق ہی کے روپ میں اپنے کو کیوں نہ پیش کرتے ہوں اور اس کے برعکس افراط کے فتنہ میں زیادہ تر وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن میں جوشِ حق ضرورت سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور خلوص کی بھی ان میں کمی نہیں ہوتی بس کمی صرف علم وواقفیت اور حکمت و بصیرت کی ہوتی ہے، جو ان کے جوش و خروش کو قابو میں رکھ سکے۔ اور یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ دولت اس زمانہ میں کتنی کمیاب ہے۔
بہرحال ایک داعیٔ حق کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ خود حق سے آگاہ ہو اسی طرح اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حق کو پیش کرنے کے صحیح طریقوں سے بھی واقف ہو، اس غرض کے لیے اسے کتاب و سنت کے احکام و ہدایات سے پوری طرح واقفیت بہم پہنچانے کے ساتھ حقیقی داعیانِ حق یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کے عملی نمونوں کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ افراط و تفریط دونوں سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی بہتر صلاحیتوں کو زیادہ بہتر طور سے ان کے صحیح مواقع پر استعمال کرسکے گا اور اس کی دعوت و تبلیغ دین و دنیا دونوں میں خیرو برکت کا موجب ثابت ہوگی اور اس سے بھی بڑی چیز یہ ہے کہ اسے صرف اپنے علم و واقفیت اور دانش و حکمت ہی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ہمہ آن خدا کی طرف متوجہ ہوکر اسی سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ لغزشوں اور غلطیوں سے محفوظ رکھے اور اپنی راہ پر چلنے اور اس کی بہتر سے بہتر خدمت انجام دینے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ (زندگی، فروری ۱۹۵۴)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019