ذاتی تربیت کے لیے مطالعہ کی اہمیت

مفکر تحریک اسلامی مولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب ’دین کا مطالعہ‘ کاایک مختصر اقتباس درجِ ذیل ہے:

’’ قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ بنیادی طو رپر اور عام دینی کتابوں کا مطالعہ ذیلی طور پر ایک مسلمان کے اسلام کیلئے بھی ضروری ہے اور اس کے ایمان کے لئے بھی ۔ اس مطالعہ کے بغیر اسے نہ صحیح معنوں میں اسلام میسر آسکتا ہے اور نہ صحیح نوعیت کا زندہ و توانا قسم کا ایمان حاصل ہو سکتا ہے ۔  (صفحہ ۳)

’ذکر ‘ مطالعہ و مشاہدہ (سیر باطن بہ الفاظ علامہ حمید الدین فراہیؒ) اور اس سے آگے  یتفکرون فی خلق السمٰوات والارض کے مسلسل عمل کی طرف اقبال نے اشارہ کیاہے:

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق!

ذکر  محض زبان کی گردش اور الفاظ کے دہرادینے اور مطالعہ کسی تحریر (کتاب) کو آنکھوں سے دیکھ لینے ‘ رٹ لینے ‘ یا بغیر سمجھے اس سے گزر جانے کا نام نہیں ہے ۔ اگر ان سرگرمیوں (ذکر اور مطالعہ) سے دل کے دریچے نہ کھلیں‘ ذہن کی الجھنیں دور نہ ہوں ‘ ذہن اپنی بساط بھر معنی کی گہرائیوں میں نہ اترے باطن کا دست طلب علم و ہدایت کے حصول کے لئے نہ اُٹھے قلب کا زنگ صاف نہ ہو تو ایسے مطالعہ اور ذکر کا کیاحاصل

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحب کشاف

مطالعہ کیا ہے ؟

جناب سید سعادت اللہ حسینی لکھتےہیں:

’’ مطالعہ کا مادہ طلع ہے جس کا مطلب ہے کسی غائب چیز کا وجود میں آنا یا ظاہر ہو نا۔ اسی سے لفظ طلوع بنا ہے ۔ چنانچہ طلوع آفتاب کے معنی ہیں غائب سورج کا ظاہر ہونا اور مطلع کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں سورج ظاہر ہو تا ہے ۔ مطالعہ کا باب مفاعلہ ہے ۔ اور اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آنے والے افعال میں دو یا دو سے زیادہ لوگ باہم مل کر کوئی کام کر تے ہیں ۔ معانقہ ‘ مصافحہ ‘ مباحثہ ‘ مکالمہ ‘ مشارکہ مضاربہ ‘ محاسبہ ‘ یہ سب وہ کام ہیں جو دو یا زیادہ لوگ مل کر کر تے ہیں ۔ اسی طرح مطالعہ کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایسا باہمی تعامل جس سے کوئی غائب چیز وجود میں آئے ۔ غائب چیز علم یا ادراک ہے جو مطالعہ سے وجود میں آتی ہے ‘‘ ۔

بالعموم مطالعہ کتب خاموش مصروفیت (Passive Activity)  میں شمار ہو تا ہے اس کا متبادل اجتماعی مطالعہ ہے جہاں ایک سے زائد افراد شریک مطالعہ ہو کر علم و ادراک کے حصول کی سعی کر تے ہیں ۔ لیکن ایک فرد اگر شعوری مطالعہ کی عادت ڈالے (تربیت حاصل کر ے) اور کتاب بھی فکر انگیز ہو تو ’’ فرد‘‘ اور ’’ کتاب‘‘ ملکر مطالعہ کو تخلیقی بنا سکتے ہیں جسے جدید اصطلاح میں تخلیقی مطالعہ (Creative Reading) کہا جاتا ہے اس میں فرداور کتاب کے کردار کی فعالیت کو بڑا دخل ہو تا ہے۔

“Creative Reading is a dialogue between the reader and the text in which the reader contributes as much as the text”.

(ماہنامہ رفیق منزل فروری2013؁ء)

مطالعہ کی لفظی تحقیق

طمطالعہ حصول علم کا ایک مکمل ذریعہ ہے اور یہ محض ورق گردانی‘ اور سرسری واقفیت نہیں ہے ۔عمیق غور وفکر اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔ مطالعہ کتب کیلئے محض پڑھنا ‘ لکھنا آنا کافی نہیں ہے  بلکہ دلچسپی و ا نہماک اور یکسوئی ضروری ہے ۔

طمطالعہ کتب کے مفہوم میں مشاہدہ بھی شامل ہے جو بصارت کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے خالق کائنات نے انسانوں کو سماعت اور دوسرے حواس خمسہ بھی دیے ہیں ۔ جو حصول علم میں مدد گار ہیں یعنی دیکھنا (Seeing) ‘ سننا(Hearing) سونگھنا(Smel) ‘ محسوس کرنا(Touching) اور چکھنا(Tasting) اِن کے ذریعہ انسان اپنی معلومات میں اضافہ کر تا ہے ۔ خاص انسانوں کو چھٹی حس (Sixth sense) بھی دی ہے ۔(بعض جانوروں میں بھی یہ حس دریافت کی گئی ہے ۔)

اور انبیاء کو وحی و الہام ‘ علم لَدُنّی سے بھی نوازا گیا ہے ۔ وحی  (Divine Revelation, Inspiration) اور الہام (Inspiration, Revelation)  کے لئے انگریزی میں یکساں الفاظ مستعمل ہیں ۔

انبیاء اور خصوصاً حضوراکرمﷺ کے واسطے سے ہمیں کلام الٰہی (قرآن) کا علم حاصل ہوا ۔ سلف صالحین (صحابہ و بزرگان دین) کے اقوال و اعمال (Words and Deeds) بھی ثانوی ذریعہ علم ہیں۔ ہدایت کے لئے ہم ان ذرائع کی طرف بھی رجوع کر تے ہیں لیکن مستند ترین ذرائع علم میں اول قرآن حکیم اور دوم احادیث و سیرت نبویؐ ہیں اور ان کے بعد سلف صالحین کا ورثہ علمی و عملی ہے۔

علم کے برعکس جہالت کا ذکر کیا گیا ہے جو گمراہی کا موجب ہے اور شیطان کا آلہ کاروہ شخص باآسانی بن جاتا ہے جو جہالت کا پیکر ہو ۔ ایسے اشخاص کیلئے کہا گیا ہے۔

صمٌ ‘ بکمٌ ‘ عمیٌ فھم لا یرجعون   (البقرہ۔۱۸)

صمٌ ‘ بکمٌ ‘ عمیٌ فھم لا یعقلون  (البقرہ ۔۱۷۱)

صمٌ (بہرہ Deaf) ‘ بکمٌ (گونگا Dumb )اور عمیٌ (اندھاBlind) جاہل کی صفات ہیں جبکہ قرآن حکیم نے آنکھ ‘ کان اور دل کو نعمتوں میں شمار کیا ہے ۔ اور ان نعمتوں کا ذکر ’’ علم ‘‘ کے پس منظر میں ہے ۔ (کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جسکا تمہیں علم نہ ہو )

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصْروالْفُوادَ کُلُّ اُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئوُلاً (بنی اسرائیل ۔۳۶)

یقینا آنکھ ‘ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہو نی ہے۔

’’مطالعہ ‘‘مشاہدہ حق کے قابل بناتا ہے اِس سلسلے میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کا مقولہ اس لائق ہے کہ اسے توجہ سے سناجائے:۔

آدمی دیداست باقی لحم وپوست

یعنی آدمی صرف صلاحیت بصارت سے عبارت ہے بقیہ جو کچھ ہے وہ صرف گوشت و کھال ہے ۔ اس بصیرت افروز مقولہ کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں صاحب فرماتے ہیں ’’یہ کیفیت زندگی کی مصروفیت ومعمولات (گھما گھمی) میں آدمی کو گم ہو جانے سے بچاتی ہے ۔‘‘

قرآن حکیم بذریعہ وحی (بواسطہ جبریلؑ) حضور اکرم پر نازل ہوا۔ ابتدائی وحی کا آغاز ’اقراء کے لفظ سے ہوا جس کا مادّہ قرَاء ہے جو کسی لکھی ہوئی تحریر یا کتاب کو پڑھنے کے معنی میں آتاہے ۔ قیامت میں جو نامہ اعمال دیا جائیگا اسکو پڑھنے کا حکم بھی اسی لفظ سے دیاگیاہے ۔ قرآن بار بار پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔

قرآن حکیم کو پڑھنے کے لئے تلاوۃ کالفظ آیا ہے۔ تِلَاوَۃ کے معنی بھی کتاب پڑھنے یا لحن / ترنم سے پڑھنا (To recite) کے ہیں لیکن اس کامادّہ تَلاَّ  ۔ تَلَّوْ ‘  کافی معنی خیز ہے پیروی کرنا کے علاوہ کسی کام کو انجام دینا (To accompolish)  بھی اسکا مفہوم ہے بلکہ دعا ختم القرآن میں وَاَرْزُقْنِیْ تِلَاوَتَہْ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ قرآن کا پڑھنا علمی وعملی اور روحانی تقویت کا اسی طرح موجب ہے جس طرح مقوی غذا ہماری جسمانی نشوونما میں اہم کر دار ادا کر تی ہے ۔

حصول علم سے متعلق سرگرمیاں متعدد ہیں۔ مطالعہ ‘ مشاہدہ ‘ قرأت ‘ تلاوت ‘ تدبّر و تفکر ‘ فکر و نظر اور حواس خمسہ سے استفادہ تحقیق و تجزیہ ‘ ‘ عرفان حقیقت ‘ تفقہ فی الدین ‘ تذکیر و تواصی بالحق ‘ تنبیہ و نصح (نصیحت) ‘ اِلقاء و حی ‘ اور مافوق الفطرت ذرائع علم سے استفادہ۔ یہ سب انسانی ذہن و قلب اور روح (Soul) کو مخاطب ومتاثر کر تے ہیں ۔ الوہی ترسیل (Divine Communication) کی نوعیت اور اسکی حقیقت ہمارے مقالے کی دسترس سے باہر ہے۔ لیکن بعض الفاظ کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو عیاں ہو گا کہ تحقیق و تجزیہ یعنی صداقت کی جستجو اور صداقتوں کا علمی مشاہدہ ایک فرد کو ایقان کی منزل پر پہنچاتا ہے جو عمل صالح و عمل پیہم کا ہی دوسرا نام ہے اسی طرح بصیرت و عبرت ‘ عرفان حقیقت اور تفقہ فی الدین محض حسن کلام کیلئے استعمال ہونے والے الفاظ نہیں ہیں بلکہ حدیث شریف کے بموجب اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اسے علم کے حصول کے ساتھ تقویٰ کے شعار کی توفیق بخشتا ہے اور تفقّہ فی الدین (یعنی دین میں گہری نظر) عطا کرتا ہے اورنور بصیرت سے نوازتا ہے جو زندگی کے حقائق اس پر کھولتا ہے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ راس الحکمۃ مخافۃ اللہ یعنی حکیمانہ باتوں کی بلندی اللہ سے ڈرنے میں پنہاں ہے ۔ ایسی سماعت سے کیا فائدہ جو محض سنی ان سنی ہواور ایسی بصارت یا بصیرت سے کیا فائدہ جو دیکھتے ہیں مگر پہچانتے نہیں کے مصداق ہو۔ سماعت و بصارت علم کے دو اہم ذرائع ہیں ایسا ہی معاملہ عرفان حقیقت یعنی آنکھوں دیکھی سچائی اور ذہنی و قلبی ایقان کی حالت کا بھی ہے ۔یہ اندھی تقلید یعنی بغیر سونچے سمجھے کسی کی پیروی اور عقیدت کا نام نہیں ہے جس میں محض سن کر ایمان لانا ہو ‘ اور محض نقل سماعت پراپنے عمل کا دارومدار رکھنا ہو اور آدمی تنقیدی شعور سے محروم ہوایسی ہی حالت آجکل عام مسلمانوں کی ہو گئی ہے ۔

ہر انسان کو بالعموم حواس خمسہ کی نعمت سے نوازا گیا ہے۔ دو اضافی حواس تفکر و تدبر  ہیں جن کو عربی میں الفواد کہتے ہیں ۔ یہ دراصل حواس خمسہ کے ذریعہ معلومات کے حصول کے بعد فیصلہ کرنے اور اظہار رائے میں مدد گار بننے کا فعل انجام دیتے ہیں ۔ چھٹی حس دراصل ایک طرح کا روحانی احساس(Spiritual Anticipation) ہے اسی طرح خواب (Vision) بھی روحانی کیفیت ہے جو مافوق الفطری ترسیل (Supernatural communication) کی مثال ہے ۔ بہر حال حواس خمسہ یا دیگر احساسات سے حاصل ہونے والے علم کا درجہ ظنّی ہے حتمی علم صرف الٰہی ذریعہ سے ملتا ہے ۔تفکر و تدبر کی دعوت یعنی آیات الٰہی میں غور و فکر کا مقام اہم ہے ۔ آیات قرآنی میں تدبر سے بتوفیق الٰہی و بطریق نبوی ہدایت ملتی ہے کتاب کائنات اور تخلیق انسان میں تفکر و تدبر ایک امتحانی مرحلہ ہے جبکہ راہ ہدایت پانا توفیق الٰہی پر منحصر ہے :

در چمن برگ و گل با نظر ہوشیار

ہرورق دفتر ایست معرفت کردگار

آفاق وانفس کی نشانیاں بطور سامان عبرت فراہم کی گئی ہیں اس لئے ایک صاحب نظر ہی ان سے نصیحت حاصل کر تا ہے جو کسی کا شخصی کمال نہیں بلکہ بہ توفیق خداوندی ملا ہو ا شرف ہے ۔

ایں سعادت بزوربازو نیست

نا بخشی خدائے بخشندہ

تعمیر شخصیت میں مطالعہ کا حصہ

٭           شخصیت کی تعمیر میں صحیح عقیدہ کا نہایت اہم حصہ ہے اس لئے دستور جماعت میں ’عقیدہ‘ کو شامل کیا گیا ہے یہ گویا ہماری جماعتی زندگی کا بنیادی پتھر (Foundation Stone) ہے ۔

٭           اس کے بعد دستور جماعت میں نصب العین یا مقصد زندگی کا تعین کیا گیا ہے ۔

٭           حصول مقصد کے لئے ذرائع و طریق کار (Methodology) کی نشاندہی بھی دستور جماعت میں کر دی گئی ہے ۔

٭           شخصیت کی تعمیر میں معیار مطلوب کا بیان بھی دستور جماعت میں ہے ۔

(ان امور کی وضاحت احقر نے اپنے ایک مضمون میں کی ہے جو ماہنامہ زندگی نو مارچ ‘ اپریل 2014 میں شائع ہوا ہے ۔)

دستور جماعت کی مذکورہ بالا دفعات اور ذمہ داران جماعت کے مطلوبہ اوصاف میں ’علم‘ کا کلیدی کردار ہے اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ سارے علوم کی کنجی (Key) مطالعہ ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن کے مقدمہ میں قرآن حکیم کو شاہ کلید (Master Key) لکھا ہے۔

٭           جماعت کا دستور اپنے مطلوبہ صالح انقلاب کیلئے ایک صالح اجتماعیت کو بر پاکرنے کا لزوم عائد کر تا ہے۔ ایک صالح اجتماعیت کے عناصر ترکیبی یہ ہیں:۔ (۱) امیر (۲)مامورین (صاحب امر کی ہدایات پر عمل پیرا گروہ) اور (۳) ضابطہ امرواطاعت (دستور جماعت) ۔ ان تین عناصر سے مل کر اجتماعیت بنتی ہے لیکن یہ اسکا نظری پہلو ہے میدان عمل میں سرگرم احتساب ۔(امیر و مامورین سے باز پرس) کے بغیر کسی صالح اجتماعیت کی فعالیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کسی اجتماعیت سے بے مقصد خوابیدہ تعلق کا کوئی فائدہ بظاہر محسوس نہیں ہوتا رسمی تعلق خواہ برسوں پر محیط ہو مگر اسکا حاصل کیا؟ یہ سارے امور علم حقیقی اور اس سے تشکیل شدہ مثالی نمونے اور سرگرم و سازگار ماحول کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

٭             اقراء: بہ اسم ربک الذی خلق (سورہ علق۱) سے آغاز کارنبوت ہوا اور حکم تھا پڑھنے کا

٭پھر      یا ایہا المدثر قم فاانذر و ربک فکبر کا حکم ملا ۔ یعنی کھڑے ہو جائو اور ڈرائو اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔

آج اگر کسی پر سردمہری یا غفلت طاری ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ کی کمی یا فقدان ہے ۔ مطالعہ جہاں سے سرگرمی ‘حرارت و روشنی ملی تھی وہ منبع علم مسدود ہو گیا ہے ۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا

کہا ں سے آئے صدا لاالٰہ الاّ اللہ

مطالعہ قرآن‘ حدیث و سیرت اور صالح لٹریچر کے مطالعہ کی تاکید (سہ ماہی نصاب مطالعہ کی نشاندہی )کا عمل جاری ہے ۔ مطالعہ ہورہا ہے یا نہیں ؟کوئی پرسان حال ہے ؟کسے کار ے کسے کارے نباشد!! ورنہ یہ ناممکن ہے کہ مطالعہ کتب بھی جاری ہو اور سردمہری بھی باقی رہ جائے ۔

دینی لٹریچرہر ہندوستانی زبان میں ہے مگر اردو میں اسے پڑھنے سے جو تحریکیت ملتی ہے (کیونکہ وہ مصنف وقائد تحریک کی اپنی زبان ہے )ترجمہ اسکا بدل نہیں ہو سکتا ۔ ضرورت ہے کہ لٹریچر کے براہ راست مطالعہ کیلئے لٹریچر کی زبان اردو زبان سیکھی جائے تب ہی دین کی وہ سمجھ پیدا ہو گی جو مصنف کو مطلوب تھی۔ یہی حال عربی سیکھ کر قرآن دانی کا ہے ۔

مشمولہ: شمارہ

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223