اسلامی انقلاب کی آمد آمد ہے۔ جدوجہد جاری اور منزل قریب ہے۔ لیکن اسلامی نظام جب عملی چیز کے بجائے نرافلسفہ بن کر رہے گا اور اسلامی تعلیمات اپنے اپنے مقام پر اورساری کی ساری بروئے عمل آنےکے بجائے تقسیم ہوگئیں تو مسلمان زوال کا اور اسلام پسپائی کا شکار ہوا۔ زوال جوں جوں پختہ ہوتا گیا،اسلام کی محکم اور رفیع الشان عمارت کے اجزاء بکھرنے لگے، جسے جو جز اچھا لگا،اسے لے اڑا اور اسی کو پورا اسلام قیاس کرلیا۔ تصوف کا بازار گرم ہوا تو اس علم کے لئے مدرسے اور مکتب قائم ہوئے۔ اوراد و وظائف کے حلقے بنے۔ وعظ وتلقین کی مجلسیں برپا ہوئیں۔ نماز اور وضو کے فقہی مسائل پر کتب شائع ہونے لگیں۔ صدقات و خیرات کی سعادت بھی حاصل کی جاتی رہی۔ تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کے لئے سلوک و معرفت کی منزلیں طے کرانے کے اہتمام ہوئے۔ تفاسیر کثیر تعداد میں لکھی گئیں۔ سب کچھ ہوا لیکن تین اہم کڑیاںصدیوں تک گم رہیں۔ ان کی اہمیت کا کسی کو اندازہ اور ان کی گمشدگی پر تشویش نہ تھی۔ پھر ان کی بازیافت کی کون فکر کرتا۔ وہ تین کڑیاں یہ تھیں:
(۱) دین کاایک نظام زندگی کے طور پر شعور اور اس کی اقامت وغلبے کی کوشش۔
(۲) امر بالمعروف ونہی عن المنکر
(۳) جہاد فی سبیل اللہ
اُمت مسلمہ کے صدیوں کے اس طویل سفر کے دوران میں مختصر عرصے کے لئے چند مرتبہ جہاد فی سبیل اللہ کی خلافت راشدہ کے بعد آواز بلند ہوئی ، لیکن مجموعی طور پر فریضۂ جہاد متروک و فراموش ہی رہا۔ ہمارے خیال میں سید مودودیؒ کا وجود جنوبی ایشیا میں اور حسن البناشہیدؒ اور سید قطب شہیدؒ کی ہستیاں بیسویں صدی عیسوی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا مسلمانانِ عالم کے لئے ایک کرشمہ ہے۔ اور اس طرح بیسویں صدی کے مسلمان خوش نصیب ہیں کہ ان میں اسلام کا شعور جاگا اور غلبۂ اسلام کے لئے راہیں ہموار ہوئیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دین کامل ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہونے کے لئے آیا ہے:
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ (سورہ المائدہ:۳)
’’یہ لوگ اپنے منھ کی پھونکوں سے اللہ تعالیٰ کے نورکو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلاکر رہے گا، خواہ کافروں کویہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے ، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف:۸۔۹)
ماضی قریب کی تاریخ میں بھی علمائے اسلام میں کوئی ایسے نہیں ہیں جنھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت سے انکار کئے ہوں ، لیکن منظم طور پر اس کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعتیں خال خال ہی رہیں۔
اگلی سطور میں ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان اقدامات کا ذکر کریں گے جو سیرت طیبہ کی روشنی میں اسلامی انقلاب کے لئے ناگزیر ہیں۔ ان میں باہم دگر ایک منطقی ربط نہیں ہے۔ ہر اقدام امت مسلمہ پر ایک فرض کے طور پر عائد ہے لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اگلے اقدام سے اہل ایمان کو بے نیاز کردے۔
دعوت الی اللہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے منصب رسالت پر فائز کیا تو آپؐ کے فرائض رسالت کا آغاز دعوت الی اللہ سے ہوا۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’اے نبیؐ ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بناکر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت سے، اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بن کر‘‘۔ (الاحزاب:۴۵۔۴۶)
اس ارشاد خداوندی کے مطابق دعوت اسلامی کے کام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے کیا۔ آپ نے بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی غلامی اختیار کرلینے، بتوں کی پرستش کرکے شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہونے کے بجائے توحید باری تعالیٰ کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ کفر کو ترک کرکے اسلام کو قبول کرنے کی تعلیم دی، شیطان اور طاغوت کی اطاعت ترک کرکے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے کے علاوہ یہ دعوت انذار وتبشیر کے رنگ میں بھی دی گئی۔ آپ نے فساق وفجار جابروں اور ظالموں کے سامنے بھی دعوت پیش کی۔ آپ نے غریبوں اور امیروں سب کو اپنی دعوت کا ہدف بنایا۔ بادشاہوں اور سرداروں کو خط لکھ کر اتمام حجت کیا۔
آج ہمارے معاشرے میں کھلے بندوں اور دھڑلے سے خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے ایک دو نہیں کروڑوں کی تعداد میں کرۂ ارض پر پائے جاتے ہیں۔ دین کی سچائیوں اور توحید کی حقیقت سے لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے کان توحید کی آواز سے نا آشنا ہیں۔ اسلامی انقلاب کا داعی ہر گروہ میں دعوت کے کام کی تکمیل سے ناآشنا اگر اسلامی انقلاب برپا ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے تو یہ ایسا خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ دعوت کی منزل کو سر کیے بغیر آگے بڑھ کر کسی سرگرمی کو اختیار کرلے تو گویا وہ انقلاب اسلامی کے فطری طریقے سے انحراف کر رہا ہے۔
تزکیہ وتربیت
جو لوگ اسلامی انقلاب کی حقیقت سے آگاہ اور اس انقلاب کی آمد کے لئے چشم براہ ہیں، ان کا فر ض ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفس کی آبیاری کا اہتمام کریں۔ قرآن وسنت کی تعلیم، حلال وحرام کی تمیز اور اخلاقی مفاسد و مفاتن کا شعور اور شیطانی مداخل اور راستوں کے بارے میں اتنا کچھ بتائیں کہ انہیں ایک عام خدا ترس مسلمان کے طور پر رہنے کا موقف حاصل ہوجائے اور نیکی کاماحول پروان چڑھے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
تعلیم وتربیت کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص نیکیوں کو اختیار کرے گا اور برائیوں سے مجتنب ہوکر رہے گا۔ مسلم معاشرے میں نیکی کی فضا قائم رکھنے اور برائیوں کے قلع قمع کرنے کے لئے مسلمانوں کو پابند کیاگیا ہے کہ وہ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے لوگوں کو روکنے پر کمربستہ رہیں۔ یہ کام معمولی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا مقصد بعثت ہی یہی بتایا ہے کہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایاگیا ہے ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران:۱۱۰)
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اجتماعی طورپر انجام دینا چاہئے۔ اس فرض کو کما حقہ انجام نہ دیاجائے تو تعلیم وتربیت کے لئے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ البتہ کسی معاشرے میں گناہ اور فسق وفجور کا بازار گرم ہو اور نیکی کی قدرومنزلت کو پہچاننے والے کم رہ جائیںتو وہاں نیکی کی ترغیب دینے سے بدی پر بند باندھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں دو موقعوں پر نہی عن المنکر والفساد کا ذکر جوآیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہی عن المنکر کی اہمیت وضرورت مقابلتاً زیادہ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم میں جو کوئی برائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اس کی قوت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اس کی بھی قوت نہ ہوتو دل سے اسے برا مانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔ (مسلم ۔ کتاب الایمان)
جہاد وقتال فی سبیل اللہ
جہاد کی تاکید اور اس کی ترغیب کے لئے قرآن حکیم میں دوچار آیتیں نہیں بلکہ پوری پوری سورتیں ایسی ہیں جو احکام جہاد کے لئے نازل ہوئی ہیں اور راہِ حق میں جان دینے پر ابھار رہی ہیں۔ یہاں احکام وفضائل جہاد کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سپاہی بننے کے بجائے کتابی بننے میں فضیلت تصور کرتے ہیں ان کے نقص فہم پر افسوس ضرور ہوتا ہے۔ اگر معاملہ صرف ان کی ذات کا ہوتا تو بھی یہ نقطۂ نظر خرابی سے خالی نہ تھا لیکن جب زعم رہنمائی و ہمہ دانی اور تدبر قرآن کے دعوے کے ساتھ جب وہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو معاملے کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہم نے جن چار بنیادی نوعیت کے اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ ان کاآپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان میں سے ایک کام جاری ہوتو دوسرا کام کرنے کیلئے پہلے کے ختم ہونے کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ باہمی اتفاق و اتحاد، آپس میں محبت وایثار و تعاون ،تعلیم وتلقین، تقویٰ کا احساس، بوقت نماز خدا ئے واحد کے حضور سجدہ ریزی سب پر لازم رہتے ہیں۔ رہی قیادت کی بات تو جو شخصیت اس انقلاب کے گمشدہ تصور کو تابناک صورت میں پیش کرسکتی ہے ، قیادت بھی وہی کرسکتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2014