زندگی نو کے سابقہ شمارے (جنوری ۲۰۲۳) کے اشارات میں راقم السطور نے “اسلامی معاشرے کی اہم علامتیں”کے عنوان سے مضمون رقم کیا تھا۔ مضمون کی تمہید میں درج ذیل جملے بھی درج کیے گئے تھے:
“اسلامی معاشرے کے لیے اسلامی ریاست کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ معاشرہ کسی غیر مسلم اکثریت والے ملک میں مسلم اقلیت کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح سول سوسائٹی حکومت کی بیساکھی کے بغیر بھی تہذیب و تمدن کے تقاضے پورے کرتی ہے، اسی طرح اسلامی معاشرہ حکومت کے بغیر بھی اسلامی اجتماعیت کے بہت سے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے۔”
اس پر بعض احباب کو اشکال ہوا اور انھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ کہیں اس سے اسلامی ریاست کے قیام کی دین میں اہمیت اور اس کے لیے کوشش کے وجوب کی نفی تو نہیں ہورہی ہے۔ چناں چہ مناسب معلوم ہوا کہ راقم السطور کی جانب سے وضاحت شائع کردی جائے، جو حسب ذیل ہے:
مجھے بے حد خوشی ہے کہ تحریک کے افراد اقامت دین اور اس کے متعلقات کے حوالے سے حد درجہ حسّاس ہیں، زندگی نو کے تازہ اشارات کے ایک جملے کے سلسلے میں بعض احباب نے اپنی جس تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ قابل قدر ہے۔ رفقائے تحریک کی فکر مندی، حساسیت اور اس کا بے لاگ اظہار تحریک کا قیمتی سرمایہ ہے، اور یہی تحریک کی سمت سفر کا محافظ بھی ہے۔
فرد کا تزکیہ، معاشرے کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل اور ریاست کا اسلامی اصولوں پر قیام۔ یہ تینوں اقامت دین کے بنیادی لازمی عناصر ہیں، ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنے سے اقامت دین کا کام مکمل نہیں ہوتا ہے۔
البتہ ان تینوں کی مستقل حیثیت بھی ہے۔ معاشرہ اور ریاست اسلامی نہیں ہوں تو بھی فرد کے لیے اپنا تزکیہ ضروری ہے۔ اسلامی معاشرہ تیار نہیں ہو لیکن اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہو (مسلم اکثریت والے ممالک میں یہ صورت پیش آسکتی ہے) تو اسلامی معاشرے کی تکمیل کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اسلامی ریاست کی منزل دور ہو تو اسلامی معاشرے کی تشکیل سے غفلت نہیں برتی جائے گی اور نہ ہی اس کے لیے ریاست کے قیام کا انتظار کیا جائے گا۔ غرض جب جس ہدف کا حصول ممکن ہو اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ باقی اہداف بھی پیش نظر رہیں اور ان کے حصول کی جدوجہد بھی جاری رہے۔
دستور جماعت میں بھی، اسی حقیقت کے پیش نظر، تینوں اہداف کو اقامت دین کے اجزا طور پر بیان کیا گیا ہے۔
خاص طور سے کسی غیر مسلم اکثریت والی ریاست میں تو جب تک مسلمان قولی شہادت کے ساتھ عملی شہادت پیش نہیں کریں گے اسلامی ریاست کی منزل دور ہی رہے گی۔ اسلامی ریاست نہ ہونے کے باوجود وہاں عملی شہادت صالح مسلم افراد کی صورت میں بھی ہوگی اور صالح اسلامی معاشرے کی صورت میں بھی ہوگی۔ اس لیے ایسے ممالک کے مسلمانوں کو بہت زیادہ توجہ فرد کے تزکیہ اور معاشرے کی اصلاح پر دینی چاہیے۔
مولانا مودودی ‘شہادت حق ‘نامی کتابچے میں عملی شہادت کی اس ترتیب کو بیان کرتے ہیں:
“رہی عملی شہادت تو اس بارے میں ہماری کوشش یہ ہے کہ اول تو ایک ایک شخص اسلام کا زندہ گواہ ہو، پھر ان افراد سے ایک ایسی منظّم سو سائٹی نشو و نما پائے جس کے اندر اسلام اپنی اصل اسپرٹ میں کام کرتا ہوا دیکھا جاسکتا ہو، اور بالآخر یہ سوسائٹی اپنی جدو جہد سے نظامِ باطل کے غلبے کو مٹا کر وہ نظامِ حق قائم کرے جو دُنیا میں اسلام کی مکمل نمائندگی کرنے والاہو۔”(ص 26)
مجھے اپنے مضمون میں اس بات کو دو ٹوک لفظوں میں لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کہیں اسلامی ریاست کا نہ ہونا فرد اور معاشرے کے ذریعے عملی شہادت سے غفلت کا بہانا نہ بن جائے۔ نیز ان لوگوں کو بھی آگاہ کرنا مقصود تھا جو عملی شہادت کے طویل اور صبر آزما مرحلے سے پہلوتہی کرے اقامتِ دین کے شارٹ کٹ کے فراق میں ہیں۔
ریاست کے بغیر مکمل اقامت دین کی بات کوئی تحریکی فرد کر ہی نہیں سکتا۔ میرے مضمون کا موضوع تحریک کا نصب العین یا اقامت دین کا مطلب یا تحریک کی مکمل جدوجہد کا تعارف نہیں تھا بلکہ جدوجہد کا وہ پہلو ہی اس کا موضوع تھا جس کا تعلق معاشرے کی اصلاح سے ہے۔ یہ کام ریاست نہ ہو یا ریاست کا مرحلہ دور ہو تب بھی کرنا ہے۔ مضمون کا یہ جملہ کہ “اسلامی معاشرہ حکومت کے بغیر بھی اسلامی اجتماعیت کے بہت سے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے” خود یہ اشارہ کررہا ہے کہ اسلامی اجتماعیت کے متعدد تقاضوں کی تکمیل حکومت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سماج کو اسلامی معاشرے میں تبدیل کرنے کا کام اقامت دین کا ضروری مرحلہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2023