مشہور صحابیٔ رسول حضرت ابو ذرغفاریؓ نے نبی اکرمﷺ سے دریافت فرمایا کہ صحف ابراہیم میں کیا تعلیمات تھیں؟ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ اس میں تعلیمات، تمثیل کی زبان میں پیش کی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
‘‘دانا شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کو جاننے والا ہو۔‘‘
خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کامشہور قول ہے:
‘‘عقل مند وہ نہیں ہے جو یہ جانے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟ بلکہ عقل مند وہ ہے جو یہ جانے کہ دو(۲) شر میں سے کون سا شر بہتر ہے۔‘‘
اسی بات کوفقہائےکرام نے وضاحت کے ساتھ کہا ہے:
‘‘جو شخص اپنے اہل زمانہ سے واقف نہ ہو تو وہ جاہل ہے۔‘‘
اپنے زمانہ کو سمجھنا، حالات کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنا اور اس کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی مسائل حیات کو مفید اور مثبت رخ دینا، وقت کی ضرورت ہے اور بسا اوقات بہت سے شر میں سے اسی شر کا انتخاب کر نا پڑ تا ہے، جو شرنسبتًا بہتر ہو۔ آج کے حالات میں ہم اس کو اختیار کر یں۔
ہندو اور مسلم سماج کے درمیان خلا کا خاتمہ
ملک کے مختلف مذہبی گروہوں، خاص طور پر ہندو اور مسلم سماج کے مابین پیدا شدہ خلا ختم کر نا اس وقت سب سے اہم کام ہے۔ یہ خلا اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب کہ زبانیں اور آبادیاں مشترک ہوں۔ اہل سیاست اور میڈ یا نفرت کی تخم ریزی کرنے میں وہیں کام یاب ہوئے ہیں جہاں ہندو اور مسلمانوں کی زبانیں اور آبادیاں الگ اور منقسم رہی ہیں۔ ملک کی جن ریاستوں میں برادرانِ وطن اور مسلمانوں کی زبانیں اور آبادیاں جس قدر مشترک ہیں، اس قدرفرقہ وارانہ منافرت وہاں کم ہے۔ یہ سوال ضرور اہم ہے کہ کیا ہندو اور مسلمان کی زبانیں اور آبادیاں بھی مشترک ہوسکتی ہیں؟ لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر زبان یا کم از کم آبادیوں کا مشترک ہونا ناممکن ہو جائے تو پھر فرقہ پرستی کا خاتمہ بھی ناممکن ہی ہوگا۔
دوسرا اہم کام مسلمانوں میں علیحدگی پسندانہ رویوں کو ختم کرنا اور ان کے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔
قوم اور ملت دومختلف شناختیں ہیں۔ ان دونوں شناختوں کا اجتماع ممکن بلکہ ہندوستانی تناظر میں ضروری ہے۔
ملتیں مشترک ایمان اور عقیدے سے وجود میں آتی ہیں جب کہ قو میں مشترک جغرافیہ اور ثقافت کی بنا پر۔ ہندوستانی مسلمان اپنے ایمان و عقیدے کے لحاظ سے عالمی ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔ یہ ان کی شناخت ہے۔ اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں پایا بھی جاتا ہے، تا ہم مسلمانوں کی ایک دوسری شناخت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستانی قوم بھی ہیں۔ اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں مفقود ہے، بلکہ بعض مرتبہ ‘شرعی’ بنیادوں پر اس کی نفی بھی کر دی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانانِ ہند اپنے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا احساس نہیں کریں گے جب تک وہ تمام انبیا ئے اسلام کی طرح ہندوستان کے ہندو اور دیگر برادرانِ وطن کو یا قومی (اے میری قوم کے لوگو) کہہ کر پکارنے کی پوزیشن میں نہیں آئیں گے اور جب تک یہاں کے برادران وطن بھی مسلمانوں کو ‘اپنی قوم کے افراد’ محسوس نہیں کریں گے، ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت کا شعلہ سر نہیں ہو سکے گا۔ (اقتباس: میری نگاہ میں سے شب تاریک کی سحر،سعود فیروز،رفیق منزل،ستمبر۲۰۱۹ء)
اس ضمن میں جماعت اسلامی ہند کے حالیہ میقاتی منصوبہ (پالیسی و پروگرام ۳۲-۲۰۱۹ء) میں‘ہندوستانی سماج’ کے تحت تحریر کردہ اقتباس ہمیں فکر و عمل کی دعوت دیتا ہے:
’’ہندوستانی سماج ایک مذہبی اور روحانی سماج ہے۔ اس کی مثبت خصوصیات اور اچھی قدروں کو باقی رہنا چاہیے۔ جماعت مذہبی رہ نماؤں کے تعاون سے ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہوگی جو سماج میں پیدا ہوگئی ہیں۔ مثلا ظلم و استحصال، بد دیانتی، مکر وفریب،اونچ نیچ اور عصبیت، اوہام پرستی، بے حیائی، قتل ناحق، قتل اولاو، جہیز کے لیے جبر،لڑکیوں کی حق تلفی، جو ا،شراب، سود، اسراف اور صارفیت۔‘‘
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کئی قسم کی غلط فہمیاں غیر مسلموں کے اندر پائی جاتی ہیں،دعوت دین کی منصوبہ بندی میں ان غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں، جسے وہ نہیں جانتے۔ برادران وطن میں اسلام کے عدم مطالعہ، انگریزوں اور فرقہ پرستوں کے غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے اور خود مسلمانوں کے غلط کر دار اور رویے کی وجہ سے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً: جہاد، کافر اور تعدداز دواج جیسی اصطلاحیں اور پھر اا؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش وغیرہ۔ شریعت کے معانی یہ سمجھ لیے گئے ہیں کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے اور زانی کو سنگسار کیا جائے، حالاں کہ شریعت اسلامی انسانی زندگی میں مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالے کا ذریعہ ہے۔ تمل ناڈو نے تیس (۳۰) مقامات پر ‘مانوڈا سسٹم’ (بہارِ انسانیت) کے نام تین چار گھنٹوں کی سوالات و جوابات کی نشست ان شہروں کے مرد اور خواتین کو جمع کرکے کیا ہے۔ غلط فہمیوں کو دور کرکے اسلام کے مثبت اور حیات بخش پیغام کو پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے ویڈیو مقامی چینلوں میں بھی نشر کیے جاتے ہیں۔
اس طرح ایک غلط تصور‘‘وحدت ادیان‘‘ کا ہے کہ تمام مذاہب ظاہری فرق کے باوجودحقیقت میں ایک ہیں۔ وہ ایک ہی مشترک منزل کی طرف جانے کے متعدد راستے ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں اسلام کی صحیح ترجمانی کرنی ہوگی اور اسلام کو دین حق اور نجات کا واحد حل ثابت کرنے کی حکمت و دانائی سے کوشش کرنی چاہیے۔ مذاہب کے اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام (Respect) کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور آپس کی غلط فہمیوں کو دور کر نے کی کوشش کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔
داعی افراد کی تیاری
سب سے پہلا اور بنیادی کام یہ ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ داعی ہے اور اس پیغام کا امین ہے جو اس کے نبی نے اس کے سپردکیا ہے۔ آپؐ نے اپنے آخری حج میں اس کے ذمے یہ کام کیا تھا کہ وہ تمام انسانوں تک اپنے قول و عمل کے ذریعے اللہ کا پیغام بالکل اسی طرح پہنچائے، جس طرح خود آپؐ نے ان تک پہنچایا تھا۔ دعوت کا کام کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں، بلکہ پوری امت کا ہے اور یہ امت داعی امت ہے، اسے خود کو اور تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانا اور جنت کی ابدی کامرانیوں سے ہم کنار کرانا ہے۔ امت مسلمہ نے اپنے دورِاول میں اس کام سے غفلت برتی،جس کی وجہ سے آج اسے ذلت اور نکبت سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ دعوت کی تڑپ اور اس پیغام کو پہنچانے کی فکر اگر امت کے ہر فرد میں پیدا ہو جائے تو دعوت کا یہ کام بہتے ہوئے پانی کی طرح اپنی راہیں خود متعین کر لے گا اور غیب سے نصرت خداوندی حاصل ہو گی۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس امت میں داعیوں کا ایک گر دہ تیار کرنا ہوگا جو دعوت کی تڑپ رکھتے ہوں،دعوت کے مزاج ومنہاج کو بھی سمجھتے ہوں اور اس راہ کی آزمائشوں کو صبر و ہمت سے انگیز کر سکتے ہوں۔ ہماری سب سے اہم ترجیح صلاحیت اور صالحیت والے افراد کی تیاری (human resources development) ہونی چاہیے۔ وقت، سرمایہ اور محنت اس قسم کے افراد تیار کرنے میں لگائے جائیں۔
جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال
جدید ذرائع ابلاغ (modern mass communication) نے دعوت دین کو وسیع طور پر پہنچانے کا اچھاذریعہ فراہم کیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ایک دور آئے گا کہ اسلام ہر کچے پکے گھر میں پہنچے گا۔ آج ایساممکن ہے، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا صحیح اور بھر پور استعمال ہونا چاہیے۔ کمپیوٹر دور جدید میں قلم کی ایک اعلیٰ شکل ہے اور دعوت دین اور اپنی بات کو مؤثر اور بہ عجلت پہنچانے کا ایک مفید ذریعہ ہے، جو اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔
اسی طرح انٹرنیٹ سوشل میڈ یا فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کے ذریعے سے بھی ہم اپنی بات کولاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو گھر بیٹھے پوری دنیا میں پہنچا سکتے ہیں اور تبادلہ خیال کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن ان جدید ذرائع میں فحاشی، عریانی اور گندگی کی بھر مار اور اختلاطِ مردوزن کی وجہ سے دین دار طبقوں میں اس کے استعمال کے سلسلے میں کافی تردد پایا جا تا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں شرح صدر کے لیے اسوۂ رسول ﷺ سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ‘عکاظ’ کے میلے میں پہنچ کر اپنی بات رکھی۔ اس طرح آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر ‘یاصباحا’ کی آواز بلند کی، لیکن اس دور میں اس کام میں جوقباحت موجوتھی،اسے دور کر کے اس ذریعہ کا استعمال کیا۔ یعنی ‘نذیر عریاں’ (بر ہنہ، ڈرانے والا) جاہلیت میں کوئی اہم خبر دی ہوتی تو اس پہاڑی پر ایک شخص بالکل برہنہ ہو کر لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا۔ آپؐ نے کپڑے اتارے بغیر اس ذریعۂ پیغام رسانی کو دعوت دین کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی ہمیں جدید ذرائع و وسائل کو دنیوی قباحتوں سے پاک کر کے وحی الٰہی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس ضمن میں سنجیدگی سے غور وفکرفرمائیں گے اور جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے حدود و قیود کا مناسب انداز میں جائزہ لیں گے۔ دنیا جائز اور نا جائز کے دو کناروں پر کھڑی ہے۔ کیا دعوتِ دین اوررسالت کے لیے ان کے درمیان کوئی بیچ کی راہ نکالی نہیں جاسکتی؟
جدید ذرائع ابلاغ میں حلقۂ کیرلہ نے کئی مثبت اقدام اٹھائے ہیں۔ مادھمم اخبار بین الاقوامی اخبار قرار دیا گیا ہے۔ Media One جو دبے کچلے افراد کے لیے مسیحائی کا کام دے رہا تھا، اس کی آواز دبائی جا رہی ہے اور اس کو قانونی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اسے پوری سوسائٹی اور تمام گروپس کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔
فلمی دنیا میں بھی کیرلہ کے جوانوں نے کام یابی حاصل کی ہے۔وہاں ابھی یہ دو فلمیں بنائی گئی ہیں:
Sudani from Nigeria اور Halal Love Story
ان فلموں نے مسلم خواتین کو اور مسلم معاشرے کو نئے انداز سے پیش کیا ہے اور کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
قصہ گوئی (Story Telling) آج کے دور میں ترسیل افکار کا ایک بہترین ذریعہ سمجھا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جد ید مینجمنٹ کے کورس میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ہندوستانی سماج میں کتھاؤں کا رواج ماضی میں بھی رہا ہے اور آج بھی رامائن اور مہا بھارت کے قصے رات بھر سنے جاتے ہیں۔ قرآن میں بھی قصص موجود ہیں اور سورۂ یوسف کو تو احسن القصص قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ نے بھی قصہ گوئی کے ذریعے دین وشریعت کے مقاصد ومنہاج کو ساری انسانیت کے سامنے پیش کیا اور صحابہ کرام کی تربیت فرمائی اور دعوت کا ذریعہ بھی بنایا۔
مشتر کہ امور میں غیر مسلموں کے ساتھ تعاون
دعوتِ دین کومؤثر بنانے میں غیر مسلموں سے تعاون اور مشترک امور میں مل جل کر کام کرنے کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔ بھلائیوں کے فروغ، برائیوں کے ازالے،سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے برادران وطن سے باہمی تعاون واشتراک کی صورتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ رشوت خوری،شراب، جوا اور خواتین پر ظلم وستم وغیرہ جیسے منکرات کے ازالےاور صحت وصفائی،عفت و پاکیزگی اور مکمل خواندگی وغیرہ جیسے مسائل میں ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس سے برادران وطن کو یہ احساس دلا یا جا سکے گا کہ اسلام ساری انسانیت کا خیر خواہ ہے اور یہ دین رب العالمین کا ہے اور اس کے پیغمبر رحمۃ للعالمین ہیں۔
سیرت رسول ﷺ میں ’حلف الفضول‘کا ذکر آتا ہے، جو جاہلیت کے دور میں شہر مکہ کے صاحبِ دل و دردمند لوگوں نے مظلومین کی امداد کے لیے ایک انجمن بنائی۔ اس میں شریک لوگ متحد ہوکر رضا کارانہ طور سے اپنے شہر میں مظلوموں کی مد دکر تے، ظالموں سے ان کا حق دلاتے اور انھیں ظلم سے باز رکھتے تھے۔ اس معاہدے میں شرکت آپؐ کی ابتدائی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ ہے اور آپؐ کی قومی زندگی (پبلک لائف) کا اولین سنگ میل ہے۔
ضروری ہے کہ سیرت کی کتابوں سے حلف الفضول کی تفصیلات کو جانیں اور اس کی روشنی میں آج کے دور میں عدل وقسط کے قیام اور ظلم و استحصال کے خلاف (غیر مسلم بھائی اور بہنوں کے ساتھ مل کر) مشترکہ طور پر فورم تشکیل دیں۔ اس طرح سنتِ نبویؐ کی پیروی میں ان بنیادی انسانی اقدار کو اجا گر کر کے دین حق کی تعلیمات کو سماج کے تمام طبقات میں واضح طور پر عملی شکل میں پیش کر سکتے ہیں۔
غیر مسلموں سے تعلقات۔ موجودہ دور کی ضرورت
دعوتِ دین کا کام اس بات کا متقاضی ہے کہ غیر مسلموں سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نفرت، اجنبیت اور تعصب کی جو دیوار برسوں سے کھڑی ہوئی ہے، اسے منہدم کرکے بے لوث انسانی رابطہ قائم کیا جائے۔ ہم دنیوی امور اور معاملات کے لیے مختلف حیثیتوں سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ہمارے درمیان برسوں سے غیر مسلم بھائی بہن رہتے ہیں۔ان سے تعلقات بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، مگر دینی نقطۂ نظر سے ہم نے ان تک پیغامِ حق کبھی نہیں پہنچایا۔ ان کے دکھ درد میں کام آنا، ان کی خوشیوں میں شامل ہونا، انھیں مفید مشورہ دینا اور ان کے اعتماد اور حسنِ ظن کو حاصل کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں تحفے و تحائف کا لین دین بھی مفید اور مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنے اور روابط قائم کرنے کے جو بھی ذرائع اور معروف طریقے ہوں، انھیں بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔
دعوت دین اور خواتین
دعوتِ دین کی منصوبہ بندی میں جہاں مردوں کا حصہ ہے و ہیں خواتین کے لیے بھی بھر پور منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہ کی تسلی کے کلمات: ‘‘ اللہ کی قسم! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،لوگوں کو کمانے کے قابل بناتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی باتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت عائشہ کی فقہی خدمات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ کارِنبوت کی تکمیل و ترویج میں خواتین کا بھی بڑا اہم رول رہا ہے۔ مکہ سے ہجرت حبشہ کی ساری داستان اور نجاشی کے دربار میں کفار مکہ کے سفیروں کی آمد، ان کی ریشہ دوانیوں کی تفصیلات،نجاشی اور حضرت جعفر طیار کے مکالمہ کے متأثر کن واقعات کا خاکہ کھینچا ہے، اس کو حضرت ام سلمہؓ نے روایت کیا ہے جو تاریخ دعوت و عزیمت کا درخشاں باب ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر جومشور ہ حضرت ام سلمہؓ نے آپؐ کو دیا ہے اس سے بھی ان کی ذہانت،معاملہ فہمی اور غیر معمولی صلاحیتوں کا انداز ہ ہوتا ہے۔ خواتین کیسے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا آج آپ ایسا رول خواتین کو دینے کے لیے تیار ہیں۔
آج بھی خواتین خاص طور پر مغربی ممالک میں اسلام سے متاثر ہوکر کثیر تعداد میں دائرۂ اسلام میں آئی ہیں اور وہ نہ صرف اپنے خاندان میں بلکہ اپنے ملک کے سماج کے تمام دائروں میں اثر پذیر ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک کی سیاست، عدالت اور سماجی اداروں میں اپنا کردار کر رہی ہیں۔
ملک عزیز میں بھی خدمتِ خلق کے میدان میں خواتین نے سنامی کے دوران اپنا منفرد اور مؤثر کام کیا ہے۔ covid warriorsکووڈ کے زمانے میں خواتین کے کاموں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔
مناظرے کے بجائے مکالمے کی ضرورت
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کر نے کے لیے انفرادی روابط، وفود کے ذریعے ملاقاتیں، بالمشافہ گفتگوئیں، سمپوزیم، سمینار، تقاریر و خطابات، کارنر میٹنگیں وغیرہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ Inter Faith Dialogueیعنی مختلف مذہبی لیڈروں اور قائدین کے درمیان مذاکرات بھی اس سلسلے میں مفید اور مؤثر ہو سکتے ہیں۔مستشرقین اور آریہ سماجوں نے ماضی میں اسلام اور پیغمبر اسلامؐ پر رکیک حملے کیے تو علمائے کرام نے عیسائی پادریوں اور ہندو رہ نماؤں سے مناظرے کیے اور کئی ایک کو شکست بھی دی۔ اس قسم کے مناظروں سے اسلام کی عظمت و رفعت اور مسلمانوں میں اعتماد اور حوصلہ تو پیدا ہوتا ہے لیکن فریق ثانی کو اسلام کا قائل نہیں کرایا جاسکتا، کیوں کہ مناظرے میں ایک فریق ہارتا اور دوسرا جیتتا ہے۔ جب کہ دعوت کا کام دلوں اور دماغوں کو متأثر کرنا اور مدعو کے دل میں داعی سے انس پیدا کرنا اور اس کے دل و دماغ میں سوالات پیدا کر کے اسے سوچنے اور غوروفکر کرنے کا موقع دینا ہے۔اس لیے آج کے دور میں مناظرے(debate) کے بجائے مکالمے(dialogue)کی ضرورت ہے۔مکالمے ومذا کرے میں فریق کے دلائل کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری ہے، اس کے اچھے نکات کی تعریف کرنا اور بعض اختلافی باتوں پر دلائل کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری ہے۔ مکالمے میں اپنی بات کو پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کرنا ایک فن ہے اور اپنی بات کی مؤثر انداز میں ترسیل کرنا(effective communication) دور جدید کا ایک آرٹ ہے۔ ہماری دعوتی منصوبہ بندی میں اس قسم کے ماہرین کو تیار کرنا بھی ضروری ہے۔
مدعو قوم کی نفسیات، نظریات اور رجحانات سمجھنے کی ضرورت
دوسری اہم بات مدعوقوم کی نفسیات، نظریات اور رجحانات کو سمجھنا ہے۔فریق ثانی کی پسند اور نا پسند کو جاننا ہے۔ اس کے لیے ان کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کی اپنی زبان میں کرنا ہوگا۔ آج ہند وسماج اپنے مذہبی سر چشموں اور دھارمک گرنتھوں سے بہت دور جا پڑا ہے۔اسے سمجھنے کے لیے خود اس سماج سے قریب ہونے کی ضرورت ہے، ذاتی روابط سے اسے جاننے کی کوشش ہونی چاہیے۔مثال کے طور پر آج عیسائی اداروں میں جو عیسائی مبلغ تیار ہوتے ہیں۔ ان کے نصاب میں دیگر مذاہب کے تعلق سے اسباق ہوتے ہیں اور چند ہفتے ان مبلغین کو متعلقہ مذہب کی سوسائٹی میں رکھ کر حقیقی صورت حال کی جان کاری حاصل کرائی جاتی ہے۔
ہر سال امریکہ کی اولاف یونی ورسٹی سے طلبہ و طالبات کا ایک گروپ اسلامک فاؤنڈیش ٹرسٹ چنئی آ تا ہے اور تقریباً پورا دن اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے میں گزارتا ہے۔ ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور دین حنیف کی سادہ اور سچی تعلیمات کو ان کے سامنے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ الحمدللہ یہ سلسلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور اس کے مفید اور مثبت نتائج رونما ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے داعی حضرات بھی ایسا نہیں کر سکتے؟
مدعوقوم کی زبان سے اچھی طرح واقفیت اور اس پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا معاملہ یہ تھا کہ ’’آپ ہرقبیلے سے اس کی زبان میں گفتگوفرماتے اور اسی زبان کے محاورے استعمال فرماتے۔‘‘
دعوت کے کام کی اہمیت کے پیش نظر اردوزبان ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ مقامی زبانیں جو مختلف ریاستوں میں بولی جاتی ہیں اور اس طرح سنسکرت اور پالی (Pali) زبان کو جاننا اور اس میں کمال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً انگریزی زبان سیکھنے اور ان میں ادبی کمال پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں کسی قوم کے رجحانات اور نظریات کو جاننے کے لیے شماریاتی جائزے (statistical survey) کر ا ئے جاتے ہیں۔اس فن نے بڑی ترقی کی ہے اور الیکشن کے موقع پر چند افراد کے ذریعے پورے نتیجے کا ادراک کر لیا جا تا ہے۔ اس قسم کے اداروں کے ذریعے سے بھی مدعوقوم کی نفسیات اور رجحانات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نومسلم حضرات کے حالاتِ زندگی سے بھی اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ تمل ناڈو کے مشہور نو مسلم داعی عبد اللہ اڈیار جنھیں ان کی کتاب ’’اسلام، جس سے مجھے عشق ہے‘‘کی وجہ سے شہرت حاصل ہے، داعی اسلام جمیل احمد صاحب نے اسے اپنی کتاب ’دعوتِ دین کے تقاضے‘میں شامل کیا ہے۔ اس کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
ابو طالب بنائیے
کہا جا سکتا ہے کہ خود اس ملک میں ایک فسطائی طاقت موجود ہے جو اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ مضبوط اور متحد ہے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کا استحصال کرنے یا انھیں اچھوت بنانے یا اپنے میں انضمام کرنے کی منتظم کوشش کر رہی ہے۔ تبدیلی ٔمذہب پر پابندی لگانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریتی طبقے کے بڑے حصے کو معاشرتی اونچ نیچ، معاشی ناانصافیوں اور سماجی واجتماعی عدل کے فقدان نے اپنے آبائی مذہب سے متنفر کر دیا ہے اور وہ دین حنیف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بعض دینی جماعتوں اور تحریکوں نے اس ملک میں کچھ کوششیں کی ہیں اس کے نتائج بہت امید افزا ہیں۔
فسطائی قوتوں کی کوشش ہے کہ سماج میں کشمکش کی صورت حال باقی رہے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمان خود اپنی بقاو تحفظ کے چکر میں پھنسے رہیں۔ کم زور اور کچلے ہوئے طبقے اور سماج کے پسماندہ افراد اسلام کے حیات بخش پیغام کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں۔ ملت اسلامیہ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ان مذموم منصوبوں سے باخبر رہیں اور ملت کو جذباتی اور ہنگامی طرزعمل اختیار نہ کر نے دیں۔ رد عمل (Reaction) او ر انتقامی جذ بہ(Retalitation) سے اوپر اٹھ کر اپنی حکمت عملی طے کر یں۔ برادران وطن کے اندر اسلام اور مسلم مخالف عناصر کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ ان کے تعلق سے ہمارا رو یہ وہی ہونا چاہیے جو اللہ کے رسول ﷺکا تھا۔ آپؐ نے وقت کے ابوجہل کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی تھی اور ابوطالب سے ان کی قوت اور مددحاصل کی تھی اور آخری وقت تک ان کی ہدایت کی کوشش کرتے رہے۔ اکثریتی طبقے کا ایک بڑا حصہ جس میں سیکولر جمہوری قوتیں اور غیر جانب دار افراداور جماعتیں ہیں۔ اقلیتوں اور مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی مذمت کے ساتھ ان کے حقوق کے لیے لڑ بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے ابوطالبوں کو برقرار رکھنا اور انھیں دین حق سے قریب کر کے ابوبکر بنانے کی منصوبہ بند سعی و جہد کر نا ضروری ہے
آخری بات
بر صغیر میں شدھی تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ فضا سخت کشیدہ اور صورتِ حال دینی لحاظ سے بڑی اضطراب انگیز تھی۔ اس موقع پر نوجوان سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ہماری سادگی اور کوتاہ اندیشی اور مخالفین کی عیاری اور تدبر کے ضمن میں جو لکھا تھا وہ آج بھی ہمارے غور و فکر کے لیے اہمیت کا حامل ہے، پیش خدمت ہے:
’’ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریقے کس قدر عمیق اور کار گر ہیں۔ ان کی مثال بالکل ایک سیلاب کی سی ہے جو ایک ہی وقت میں شور بھی مچاتا ہے، عمارتوں کو تہہ و بالا بھی کرتا ہے اور سیل بن کر بڑے بڑے ایوانوں کی بنیادیں بھی ڈھا دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں نہ معمولی تختہ بندی کام کر سکتی ہے اور نہ محض لیپا پوتی۔ اس کے لیے تو ضرورت ہے کہ ہم بھی اتنے ہی عمیق اور کارگر ذرائع اختیار کریں، جتنے ہمارے مخالفین نے اختیار کر رکھے ہیں، ورنہ مدافعت میں ہمارا کام یاب ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے۔‘‘
(اسلام کا سرچشمۂ قوت، ص ۷۰۔اسلام کیسے پھیلا، ص ۵۷)
اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کی تھی: اے اللہ ! چیزیں جیسی کچھ ہیں ویسے ہی دیکھنے کی توفیق و صلاحیت نصیب فرما۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حالات کو صحیح تناظر میں دیکھنے، حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2022