ہندوستانی سماج اور تحریک اسلامی

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۱۹ (آل عمران:۱۹)

(اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نےاختیار کئے جنہیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام وہدایات کی اطاعت سے انکار کرے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔)

یہ واقعہ ہے کہ آج دنیا نے مادی لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی ہے اور مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہ رہے ہیں، تعلیم وتدریس عام ہورہی ہے، ریسرچ اور تحقیق کے نئے نئے پہلو تلاش کئے جارہے ہیں، قدیم اور جدید معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔

اقتصادی میدان میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ مختلف ممالک اس معاملہ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں ہیں۔ جو چیزیں دست یاب نہیں تھیں وہ اب قابل حصول ہیں۔ عیش وعشرت کے سامان کی فراوانی ہے۔ آمد ورفت کی غیر معمولی سہولتیں حاصل ہیں۔ جو سفر ہفتوں اور مہینوں میں طے ہوتے تھے وہ دنوں میں، بلکہ گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کوئی اہم واقعہ پیش آئے وہ سب کی نگاہوں میں آجاتا ہےاور اس پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔ رسل ورسائل اور پیغام رسانی کے ذرائع اس قدر ترقی کرچکے ہیں کہ منٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بات آسانی سے منتقل ہوجاتی ہے۔ ان تمام وجوہ سے دنیا ایک بستی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو ممالک سائنس اور ٹکنالوجی میں جتنے آگے ہیں ان کو مادی سہولتیں بھی زیادہ حاصل ہیں۔ اور وہی دنیا کی قیادت بھی کررہے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک مادی ترقی سے چمک رہے ہیں اور اُن کی چمک دمک سے نگاہیں خیرہ ہورہی ہیں، دوسری طرف مثلاً افریقی ممالک ہیں، جہاں اکثریت غربت، افلاس، مرض اور جہالت کی شکار ہے اور بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے اور کہیں کہیں تو جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

آج عالمی سطح پر انسانی حقوق کاچرچا ہے، لیکن جدھر دیکھئے، انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات کے حقوق محفوظ نہیں ہیں، ہرفرد کا یہ حق سمجھا تو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات کا سلوک ہو اور اسے عدل وانصاف حاصل ہو اور ریاست کی ذمہ داری بھی قرار دی جاتی ہے کہ وہ بغیر کسی فرق وامتیاز کے مظلوم کو انصاف فراہم کرے اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے۔ اس کے لیے ہر ملک میں عدالتیں قائم ہیں، لیکن عدالتی کارروائی اتنی طویل اور پیچیدہ ہوتی ہے اور اس کے مصارف اتنے زیادہ ہیں کہ عام آدمی کے لیے حصول انصاف دشوار سے دشوار تر ہوتاجارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر عدل وانصاف کی نگرانی کرنے والے ادارے موجود ہیں، لیکن ان میں اتنی ہمّت نہیں ہے کہ ظالم اور جابر قوموں کے خلاف کوئی اقدام کریں۔

آج کی دنیاکا یہ عجب ماجرا ہے کہ ہر طرف امن وامان کا ذکر ہے ، ناجنگ معاہدے بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود دنیا جنگ وجدال سے محفوظ نہیں ہے۔ ہمیشہ اِنسان اِس کا قائل رہا ہے کہ جنگ ظلم وجور کے خاتمہ اور حق وانصاف کے قیام کے لیے ہوسکتی ہے۔ لیکن یہاں امن کے نام پر کمزور قوموں کا خون بہایا جارہاہے۔ اس طرزِ عمل کے خلاف کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔

ہندوستانی سماج

ہمارا ملک بھی مادّی ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں اسے  نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک غیر متوازن ترقی ہے۔ اس کا فائدہ شہری آبادی کو، اور وہ بھی اس کے ایک مخصوص طبقہ کو حاصل ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی غربت اور افلاس کی زندگی گزاررہی ہے۔ یہاں کی چالیس فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی بیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔  رہائش ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں بھی اسے میسر نہیں ہیں۔ ان حالات میں اسے اپنا وجود باقی رکھنا ہی مشکل ہے، وہ ترقی کے بارے میں کس طرح سوچ سکتی ہے ؟ اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں، ان کے درمیان غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، نفرت اور عداوت ہے۔ اس وجہ سے ذہنی فاصلے ہیں، انہیں سمجھنے اور دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے۔ ان مذاہب کے درمیان جو فرق واختلاف ہے وہ بھی ملک کےسامنے اچھی طرح واضح نہیں ہے کہ وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں۔ہندوستان کا سماج مختلف ذاتوں اور طبقات میں منقسم ہے۔ ان میں سے بعض طبقات کو اعلیٰ وارفع اور بعض کو ادنیٰ اور پست تصور کیاجاتا ہے۔ اس عدم مساوات کو مذہبی سند بھی حاصل ہے۔ سیاسی پارٹیاں بہ ظاہر اس کے خلاف ہیں، لیکن عملاً اسے ختم کرنا نہیں چاہتیں۔ بلکہ اسے باقی رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس تفریق سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ ان کی پوری سیاست کسی نہ کسی طبقہ کی حمایت پر قائم ہے۔

یہاں بعض طبقات تعلیمی اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں اور ملک کی زمام اقتدار ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کے پس ماندہ طبقات کو اوپر اٹھانے اور اقتدار میں انہیں شریک کرنے کی جو چھوٹی بڑی تدبیریں کی جارہی ہیں، وہ ناکافی ہیں، اس لیے ابھی وہ اقتدار میں شرکت سے دور ہیں۔ یہاں اکثریت اور اقلیت کافرق بھی ہے۔ دستوری لحاظ سے گوسب کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن عملاً یہ حقوق اقلیتوں کو پوری طرح حاصل نہیں ہیں اور تعلیم اور معیشت میں پیچھے اور سیاسی لحاظ سے کم زور ہیں۔ وہ ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوتے رہتے ہیں، ان کے ساتھ اور بھی مسائل ہیں۔

اس ملک کا بلکہ پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ کرپشن ، رشوت، خیانت اور بدعہدی کا زور ہے۔ یہاں کسی بھی شخص کو خریدا جاسکتا ہے اور پیسہ کے ذریعے جائز اور ناجائز کام کیا اور کرایا جاسکتا ہے۔فطرت کاتقاضا ہے کہ جنسی تعلقات کو حدود کاپابند ہونا چاہئے، اس کی خلاف ورزی پہلے بھی ہوتی رہی ہے، لیکن اب مغرب کے زیر اثر جنسی آوارگی جس طرح پھیل رہی ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہے ۔ آزادانہ جنسی تعلق میں کوئی قباحت نہیں محسوس کی جاتی، اس پر کسی قسم کی بندش کو خلافِ فطرت تصور کیاجاتاہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم جنسی کی لعنت کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

سیاسی نظام

یہ ملک سیاسی ودستوری لحاظ سے سیکولر اور جمہوری ہے۔ اسی کی بنیاد پر یہاں کااجتماعی نظام چل رہا ہے۔ قوانین وضع ہوتے ہیں اورعدالتی نظام قائم ہے۔ اسی کو مضبوط بنانے کے لیے تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ لیکن مذہبی لحاظ سے یہاں کی اکثریت شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہے۔ اسی کے تحت عبادات ہوتی ہیں، خوشی اور غم کے سارے رسوم انجام پاتے ہیں۔ یہاں کی تہذیب ومعاشرت پر مغرب کے اثرات بھی ہیں اور وہ اپنے مضبوط تہذیبی ونظریاتی اثرات بھی رکھتی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہاں احیاءِ مذہب کا جذبہ بھی موجود ہے۔ ہندومت، عیسائیت، بدھ مت، جین مت اور اب تو یہودیت تک کی تبلیغ ہورہی ہے۔ اس کے لیے اسکول، کالج اور مختلف رفاہی ادارے کام کررہے ہیں۔ اپنے ملک کے ان حالات میں اقامت دین کا فرض انجام دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا ایمان و یقین ہے کہ دنیا اور آخرت میں انسان کی فلاح اسلام ہی سے وابستہ ہے۔ اسی میں اس کے دُکھ درد کا علاج ہے اور اسی سے اس کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اسی سے انسانوں کے درمیان فرق وامتیاز ختم ہوسکتا ہے اور ظلم کا خاتمہ اور عدل وانصاف کا قیام ممکن ہے۔ اسی سے سکون سے محروم انسان کو سکون وراحت اور آخرت کی فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔

اقامت دین کے تقاضے

اِس اہم فریضے کے کلیدی پہلو درج ذیل ہیں:

(الف) موجودہ دور کااجتماعی اور سیاسی نظام سیکولرزم اور جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہے۔ مذہب کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کردیاگیاہے۔ اس رویہ کے حق میں عقل اور تجربہ کو پیش کیاجاتا ہے کہ انسانی عقل بہتر نظام تجویز کرسکتی ہے اور مذہب دنیا کو عدل وانصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ مسائل کےحل کے لیے عقل اور تجربہ کافی نہیںہے۔ اس کے لیے خدا اور وحی ورسالت پر ایمان ضروری ہے۔ فطرت سلیم کے لیے آخرت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ نیکی اور بدی کاوجود، انسان کی آزادیٔ فکر وعمل اور عدل وانصاف اس بات کاتقاضا کرتے ہیںکہ ایک روز انسان کے اعمال کا احساب وکتاب ہو اور اس کو اس کی جزا یا سزا ملے۔ آخرت کے انکار کے بعد انسان بے لگام ہوتا ہے۔ انسان کے اندر اعلیٰ کردار پیدا نہیں ہوتا اور اسے قانون کا پوری طرح پابند بنانا بھی دشوار ہے۔

(ب) موجودہ دور نے مادی فلسفۂ حیات کو اپنایاہے۔ اس کاپورا طرزِ حیات اسی فلسفہ کے تابع ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کی نظر محدود ہے۔ وہ اپنی ذات کے ارد گرد گھومتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ اپنا خاندان اس کے پیش نظر ہوتا ہے، جس سے اس کے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ ملک و قوم کو بھی اپنے مفاد ہی کے پہلو سے دیکھتا ہے۔ اس مفاد پرستی کے نتیجے میں یہاں خود غرضی ہے، ظلم اور ناانصافی ہے، استحصال ہے، جرائم ہیں اور جنسی آوارگی ہے۔ معاملات میں صداقت و راست بازی، تعلقات میں محبت ، ہمدردی، ایثار اور قربانی جیسی اعلیٰ اخلاقی خوبیاں ختم ہورہی ہیں۔ دین اس کے اندر اعلیٰ کردار پیداکرتا ہے اور اسے عدل وانصاف اور قانون کا پابند بناتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے پاس بڑا قیمتی لٹریچر موجود ہے۔ جماعت سے باہر کے حلقوں میں بھی اس پر بڑی قابل قدر کوششیں ہوئی ہیں۔ موجود الحاد اور بے دینی کے مقابلے کے لیے اس سب سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ جدید حالات کے پس منظر میں علمی کام کو اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس طرف ہماری توجہ ہونی چاہئے۔

(ج) دعوتِ دین ، شہادت علی الناس اور اقامت دین پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپناکردار اداکررہی ہے۔ وہ اپنی جدوجہد میں پوری اُمت کو شریک کرناچاہتی ہے۔ یہ اس کی اصلاحی کوشش کا اہم پہلو ہے۔ اس کے لیے اس کی جدوجہد جاری ہے۔ اس کے اثرات کہیںکہیں محسوس ہورہے ہیں۔ اُمت کے اندر اس کا شعور بیدار ہورہا ہے۔ مختلف افراد، مدارس اور حلقے اس طرف متوجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو کامیاب کرے۔

(د) ایک سیکولر ملک میں کروڑوں کی آبادی رکھنے والی اُمت مسلمہ بعض مسائل سے بھی دوچار ہے۔ اس کا تعلق اس کے وجود وبقا سے بھی ہے اور اپنی دینی شناخت کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے سے بھی۔ ان مسائل میں جان ومال کی حفاظت، فسادات کی روک تھام، غربت وافلاس اور جہالت کا ازالہ، دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کا نظم، مساجد اور مدارس کا قیام، پرسنل لا میں عدم مداخلت، اوقاف کا تحفظ اور ان کا صحیح استعمال، عدل وانصاف کا حصول اور ظلم وناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس کے لیے چارہ جوئی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کی طرف جماعت کی شروع ہی سے توجہ رہی ہے۔ اس کے لیے وہ سیاسی سطح پر مختلف تدابیر اختیار کرتی رہی ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں وہ مزید مؤثر اقدامات کرناچاہتی ہے۔

(ہ) اسلام اللہ کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کاخالق و مالک ہے، وہی ہماری عبادت واطاعت کا مستحق ہے۔ انسان کے لیے اس کے سوا نہ تو کسی کے سامنے سرجھکانا جائز ہے اور نہ اس کی ہدایت سے بے نیاز کسی کی اطاعت ہوسکتی ہے۔ اللہ کا یہی دین اس کے پیغمبروں اور اس کے نیک بندوں کے ذریعہ دنیا کو ملتا رہا ہے۔ آج بھی دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دور کاانسان اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔ جماعت اپنے یوم تاسیس سے اسی حقیقت کو واضح کرتی آرہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اسلام چند عقائد وعبادات ہی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایک نظام حیات ہے، جس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ جماعت اسلامی کی یہی شناخت ہے کہ وہ اسلام کو نظام حیات کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔

(و) ہم جب کہتے ہیں کہ اللہ کے دین کا تعلق پوری زندگی سے ہے، عقائد و عبادات، اخلاق وقانون، معیشت ومعاشرت اور سیاست سب اس کے دائرے میں آتے ہیں تو بہت بڑادعویٰ کرتے ہیں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں زبردست تبدیلی کی دعوت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان عقیدۂ توحید قبول کرے اور اپنی زندگی میں خداپرستی کی راہ اختیار کرے۔ اس کے مطابق اس کی عبادات ہوں، اخلاقی قدریں اور معاشرت ومعیشت اس سے ہم آہنگ ہو اور نظام سیاست اس کے تابع ہو۔ یہ دراصل ’’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً‘‘ کی دعوت ہے۔

(ز) ہم اسلام کو موجودہ نظام حیات کے متبادل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ہماری دعوتی وتعلیمی کوششوں میں یہی تصور کار فرما ہوتا ہے اور اسی کے لیے ہم خدمت خلق کاکام انجام دیتے ہیں۔ ہماری جو مہمات ہوتی ہیں ان کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ اسلام ایک متبادل کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے۔ان تمام کوششوں کے باوجود یہ احساس ہورہا ہے کہ اسلام کو اس ملک اور پوری نوع انسانی کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کرنے کے لیے ابھی بہت جدوجہد اورتگ ودو کرنی ہوگی۔ یہ بات کھل کر کہنی چاہئے اور اس کے جو تقاضے ہیں وہ پورے ہونے چاہئیں۔

(ح)جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاق اور قانون کی پابند ہے اور پرامن ذرائع اختیار کرتی ہے۔ اس کی سرگرمیاں ملک کے سامنے ہیں۔ اس کا طریقہ ٔ کار بالکل کھلا ہے۔ وہ نہ تو خفیہ تدابیر اختیار کرتی ہے اور نہ مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور عداوت کے جذبات اُبھارتی ہے، بلکہ انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کے احترام کی تعلیم دیتی ہے۔ محبت، ہم دردی اور نصح وخیر خواہی کے ساتھ اللہ کا دین ان تک پہنچاتی ہے۔

اس ملک میں جمہوریت ہے، جو یہ مواقع فراہم کرتی ہے کہ اسلام کا ہم بھرپور تعارف کرائیں اور بتائیں کہ اسی میں اس ملک کی اور پورے عالم کی فلاح ہے۔ اس کے تقاضے پورے کریں اور اس راہ میں جو رکاوٹیں ہیں۔ انہیں دُور کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223