آزاد ہندوستانی ریاست کا آغاز 1947میں ہوا۔ ریاست کی بنیاد تحریری دستور پر رکھی گئی جس کو دستور ساز اسمبلی نے ترتیب دیا اور دستور 1950سے نافذ ہوگیا۔ دستور کے مطابق ہندوستانی ریاست جمہوری ہے، اس کا ڈھانچہ وفاقی (فیڈرل) ہے اور دستور کے مطابق یہ ضروری ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطحوں پر الیکشن باقاعدہ منعقد کیے جائیں۔ ان کے ذریعے صوبائی و مرکزی سطح پر اسمبلیاں اور پارلیمنٹ تشکیل پاتی ہیں۔ یوں تو اسمبلی یا پارلیمنٹ کو قانون ساز اداروں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن واقعے کے اعتبار سے یہ مجالس، محض قانون سازی نہیں کرتیں بلکہ ان میں اکثریت رکھنے والی پارٹی، صوبے یا مرکز میں حکومت کا تقریباً پورا نظام چلاتی ہے۔ مقننہ (Legislature)کہلانے والے یہ ادارے، انتظامیہ (بیوروکریسی) کے ساتھ مل کر اقتدار کے بڑے حصے پر قابض ہوتے ہیں اور دیگر دو مراکز اقتدار(Centers of Power)یعنی عدلیہ اور میڈیا کا رول محدود اور ضمنی ہوتا ہے۔ اقدامی حیثیت (Initiative)سے یہ ضمنی ادارے، محروم ہوتے ہیں البتہ مقننہ اور بیوروکریسی پر کسی حد تک اثر ڈال سکتے ہیں۔
ہندوستانی ریاست کے سفر کا آغاز
آزادی کے بعد ہندوستانی ریاست نے کچھ نعروں کے ذریعے اپنی سوچ کو پیش کیا۔ ان میں چند رجحانات نمایاں تھے، سیکولرزم، صنعتی ترقی، ملی جلی معیشت، ریاست کا فلاحی کردار (یعنی ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور)، پنچایتی راج، نیشنلزم (وطن پرستی) اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی (Non- Alignment)۔ان رجحانات کو تقویت دینے والی طاقتور شخصیت پہلے وزیر اعظم نہرو کی تھی (جن کا انتقال آزادی کے 17برس بعد 1964میں ہوا) تاہم نہرو کے بعد بھی دو دہائیوں تک مذکورہ بالا رجحانات ہندوستانی ریاست پر غالب رہے اور اس کے کردار کی تشکیل کرتے رہے۔
کانگریس کی قیادت میں چلنے والی تحریک آزادی، محض انگریزوں کی حکومت سے نجات نہیں چاہتی تھی، بلکہ سماج اور ملک کی انقلابی تعمیرِ نو کی خواہاں تھی۔ چنانچہ آزادی کے بعد بننے والا ملکی دستور، محض انتظام چلانے کے لیے مرتب کیا گیا، ایک مجموعہ ضوابط نہ تھا بلکہ سماج کی نئی صورت گری کے خطوطِ کار متعین کرنے والا پیش بیں خاکہ(Vision Document)بھی تھا۔ مستقبل کے اس خواب میں ہندوستانی سماج اور نظام کی جو تصویر نظر آتی تھی وہ اس طرح تھی:
(الف) ذات پات اور مذہب کی سماجی اہمیت کم ہوتی جائے گی اور صنعتی دور کی نفسیات سے ہم آہنگ، سیکولر سماج کی ابتدا ہوگی۔ صنعتی اعتبار سے ملک، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں آجائے گا۔
(ب) ملک کے عوام کی معاشی حالت درست ہوگی۔ تعلیم، روزگار اور علاج سب کی دسترس میں ہوں گے۔ مقامی اداروں (لوکل باڈیز) کے ذریعے کارِحکومت کے بڑے حصے میں عوام کو شامل ہونے کا موقع مل جائے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں پر قابو پالیا جائے گا اور محنت کش طبقہ عزت کی زندگی جی سکے گا۔
(ج) بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی غیر جانبدارانہ پالیسی، اُس کا اخلاقی وزن بڑھائے گی اور ہندوستان کے عالمی اثرات میں وسعت آئے گی۔
(د) ثقافتی اعتبار سے ملک میں ایک متحدہ تہذیب ابھرے گی جو باشندگانِ ملک کو ایک تہذیبی رنگ میں رنگ دے گی۔ اس متحدہ تہذیب کی تشکیل میں دورِ جدید کا سائنسی مزاج (Scientific Temper)کلیدی رول ادا کرے گا۔ تاہم یہ تہذیبی رنگ، نیشنلزم سے بھی ہم آہنگ ہوگا یعنی ملکی مفادات کو (جن کی نشاندہی برسرِ اقتدار گروہ کیا کرتا ہے) مجرد اخلاقی اصولوں پر فوقیت حاصل ہوگی۔
ایمانی بصیرت کا پرتو
ہندوستان کے مطلوبہ مستقبل کی مندرجہ بالا تصویر، یوروپ کے فلسفہ انسان پروری یا ہیومنزم (Humanism)کی یاد دلاتی ہے اس لیے کہ یہ تصویر، اسی فلسفے سے مستعار معلوم ہوتی ہے۔ اس تصویر کے پُرکشش پہلو، انسان کی عظمت (Human Dignity)کی بحالی اور آفاقیت (Universality) ہیں۔ تاہم یوروپ کے استادوں اور مشرق کے شاگردوں کی نگاہ، اس اندرونی تضاد کو نہ دیکھ سکی جو اس Vision(خواب) میں پایا جاتا ہے، یعنی نیشنلزم اور آفاقیت کا تضاد۔
اگر اہلِ ایمان کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو بحیثیت مجموعی، تعمیرِ نو کا یہ خواب انسانوں کے اچھے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور تاریخی ارتقاء کے تناظر میں انسانی شعور کے اندر بہتری کی علامت ہے۔ تاہم تصورات کے اس خاکے میں ضروری اصلاح درکار ہے اور اندرونی تضاد کو دور کرنا بھی لازم ہے۔ چنانچہ(تبدیلی و اصلاح کے بعد) ایمانی بصیرت سے ہم آہنگ، مستقبل کی شبیہ کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
(الف) غیر معقول معتقدات سے نجات پر مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کی دریافت
(ب) اخلاقی اقدار کی رہنمائی میں وسائل کا استعمال
(ج) عدل پر مبنی معیشت
(د) انسانوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل
(ہ) انسانی شخصیت کی اصلاح، تربیت، تعمیر اورارتقاء
(و) جبر واکراہ کا خاتمہ، انسان کی عظمت کی بحالی، حق گوئی کی آزادی
(ز) اجتماعی اداروں کو درست رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کے مواقع
(ح) غیر معقول بندھنوں، روایات، رسوم و رواج سے نجات
(ط) معروف کا فروغ اور منکر کا ازالہ
(ی) بین الاقوامی معاملات میں منصفانہ موقف
اس طرح کا پیغام مسلمان، آزادی کے بعد پیش کرتے توملک کی صالح تعمیرِ نوکے داعی بن سکتے تھے، لیکن اُن کے سنگین مسائل نے ان کو اتنا موقع ہی نہ دیا۔ تاہم آج بھی مسلمان یہ کام کرسکتے ہیں کہ ہندوستانی ریاست نے سفر کے آغاز میں جو خواب دیکھا تھا اس کی تشکیل نو کریں اور مندرجہ بالا نکات کی صورت میں اسے پیش کریں۔ اس نئے رنگ میں اس خواب کے اندرونی تضادات دور ہوجاتے ہیں اور یہ بہتر، جامع اور حسین تر بن جاتا ہے۔
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نواؤں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
سفر کے موڑ:
نقائص کے باوجود، ہندوستانی ریاست کے سفر کے آغاز میں تعمیری جذبات موجود تھے چنانچہ ملک نے پیش قدمی کی۔ دیہاتوں اور شہروں میں موجود پرانے سماجی بندھنوں سے نجات کی توقعات قائم ہونے لگیں۔ تعلیم کے مواقع، ذرائعِ ابلاغ کے فروغ اور الیکشن میں بالغ حق رائے دہی نے عوام کو کچھ حقوق دلوائے، احساس بے بسی کچھ کم ہوا۔ ان کو اپنی قدروقیمت کی طرف توجہ ہوئی، جاگیرداری کا نظام ختم ہوا۔ کارخانے کھلے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور معاشی ترقی کے اثرات نظر آنے لگے۔ تیسری دنیا کے ملکوں نے ہندوستان سے توقعات وابستہ کیں اور ناوابستہ تحریک (Nonaligned Movement)مقبول ہوئی۔
لیکن ملک میں اور دنیا میں دیگر عوامل بھی موجود تھے جنھوں نے ہندوستانی ریاست کے سفر کے اس ابتدائی رخ کو موڑ دیا۔ تبدیلی کے ان عوامل میں مؤثر ترین دو تھے: (الف) ملک کے اندر جارحانہ قوم پرستی کی تحریک کا عروج اور (ب) دنیا کی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا احیاء۔ گزشتہ صدی کے آخری دس برسوںمیں یہ دونوں عوامل ایک ساتھ ابھرے اور انھوںنے انسان پروری کے اُس جذبے کا خاتمہ کردیا جو ہندوستانی ریاست کے تعمیری و مثبت کردار کے لیے محرک کا کام کرتا رہا تھا۔ چنانچہ ریاست کے سفرکا رخ بدل گیا۔ اس کی علامتیں یہ ہیں:
(الف) ملک آزاد ہوچکا تھا اور اب بھی آزاد ہے مگر اس کی خارجہ پالیسی پر طاقتور ملکوں کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں۔ ناوابستہ تحریک کا صرف نام باقی ہے، عملاً یہ تحریک ختم ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی منصفانہ نظام کی بات اب ہمارے ملک کی طرف سے، سامنے نہیں آتی۔
(ب) ملک میں جمہوریت کا ظاہر موجود ہے، لیکن انتخابات کا انعقاد جو صحت مند فضا چاہتا ہے وہ متاثر ہوچکی ہے۔ اب یہ بھی اطمینان کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ووٹوں کی گنتی فی الواقع وہی ہے جو بتائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں شکوک و شبہات کی مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ ان شکوک کو دور کرنے کے لیے جو تجویز بھی پیش کی گئی، الیکشن کمیشن نے اس کو بلاتکلف رد کردیا۔ عدالت سے رجوع کیا گیا مگر اس نے کوئی دادرسی نہیں کی۔
(ج) الیکشن میں ووٹ دینا، جمہوریت کا ایک مظہر ہے۔ اس کے علاوہ نظامِ ملکی میں توازن کے لیے یہ بھی ضروری سمجھا گیا تھا کہ مقننہ اور بیوروکریسی کے علاوہ، نظام حکمرانی کو متاثر کرنے والے ادارے، زیادہ سے زیادہ آزاد رکھے جائیں مثلاً تعلیمی ادارے، منصوبہ سازی کے مراکز، تحقیقی ادارے، ریزروبینک، الیکشن کمیشن، انسانی حقوق کمیشن وغیرہ۔ اب حقیقی حالات یہ ہیں کہ ان اداروںکی آزادی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ بہت سے صرف نام کی حد تک باقی ہیں مگر فعال نہیں ہیں۔
(د) ریاست اب زبانی بھی اپنے کو اس کا پابند نہیں کہتی کہ وہ بنیادی ضروریات سب کو فراہم کرے گی۔ تعلیم، روزگار اور علاج کے سلسلے میں عوام کی پریشانیوں میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے اور سرمایہ داروں کے لیے لوگو ںکا استحصال کرنے کے مواقع بڑھتے جارہے ہیں۔
(ہ) بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ملازموں اور محنت کشوں کے حقوق کی پامالی عام ہے۔ قوانین میں تبدیلی کرکے سرمایہ داروں کی منشا کے مطابق پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ طبعی ماحول متاثر ہورہا ہے اور نمائشی اعلانات کے علاوہ، اس جانب کوئی سنجیدہ توجہ نہیں پائی جاتی۔
(و) ملک کا دستور موجود ہے لیکن اس کو بدلنے کے عزائم کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ دستور میں باضابطہ تبدیلی کے بغیر اس کو عملاً غیر مؤثر بنانے کے طریقے بھی اپنائے جاتے رہتے ہیں۔
(ز) کہا جاتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے لیکن راہ چلتے بے قصوروں پر حملے ہوتے رہتے ہیں اور اکثر واقعات میں قانون کے محافظ، زیادتی کرنے والوں کو خلاف کوئی موثر اقدام نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ بے قصور مظلوموں کو قانون کے جال میں پھنساتے ہیں اور الٹا ان کو مجرم بنادیتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جن میں طاقتور افراد اطمینان سے قانون شکنی کرتے ہیں۔ سیاست دانوں میں ایک قابلِ لحاظ تعداد ملزمین اور مجرمین کی ہے۔
جارحانہ رجحان کی مقبولیت کے اسباب
بہرحال ہندوستانی ریاست کا کردار خاصا بدل چکا ہے۔ آزاد ہندوستان کے سفر کے رخ کی تبدیلی نے، اس ریاست کو جو کسی حد تک عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتی تھی، اب محض سرمایہ داروں اور استحصال کرنے والوں کے عزائم کا آلہ کار بنادیا ہے۔ ریاست کے اس نئے رول کو عوام کی قابلِ لحاظ تعداد کی تائید بھی حاصل ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایک ایسی ذہنیت کو، جو کسی طور پر عدل و انصاف کی علمبردار یا تعمیری قدروں کی حامل نہیں کی جاسکتی، مقبولیت کیوں مل رہی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہندوستانی آبادی کا ایک مؤثر گروہ ایسا ہے جو ہندوستانی ریاست کی موجودہ شبیہ کو پسند کرتا ہے، اس گروہ کے مزاج کی تشکیل شرک سے ہوئی ہے اور اس گروہ کے ذہن و دل پر قوم پرستی کا جذبہ بھی چھا گیا ہے۔ قوم پرستی کے جذبے سے جو جارحانہ مزاج پیدا ہوتا ہے اس کو جارحیت کے لیے کوئی خارجی ہدف چاہیے چنانچہ مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے اور تاریخی و عصری حقائق کو مسخ کرکے، بعض نادانوں کی جانب سے، مسلمانوں کے خلاف زیادتیاں کی جارہی ہیں اور ان زیادتیوں کو جواز فراہم کیا جارہا ہے۔ اپنے روز مرہ کے مسائل کی تلخی کے احساس کے باوجود قوم پرستی کا یہ نشہ، عوام کے ایک عنصر پر غالب ہے اور وہ آبادی کے جس حصے کو اپنا حریف سمجھتا ہے، اس کو مظالم کا نشانہ بنانا بالکل جائز گردانتا ہے۔ مظلوموں کو جبر واکراہ کا شکار بناکر جارحیت کے قائل قوم پرستوں کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ ریاست اپنی بے عملی کی بنا پر اس جارح طبقے کے منفی مزاج کی ترجمان اور مؤید بنتی جارہی ہے چنانچہ اس طبقے کے درمیان مقبول بھی ہورہی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کسی بنا پر پڑوسی ملک سے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو اس کے رویے پر شاکی ہونے والے، اپنی شکایت کا رخ بآسانی یہاں کے مسلمانوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ قوم پرستی کا جذبہ (جس کی دیگر تاویلیں بھی ممکن تھیں) واقعے کے اعتبار سے مسلم دشمنی کا جذبہ بن گیا ہے۔ قوم پرستی اور مسلم دشمنی، لازم و ملزوم ٹھہری ہیں۔
اسی جارح طبقے کے قلب و ذہن پر شرک کا قبضہ ہے۔ مذہبی جذبات (خواہ ناقص ہی کیوں نہ ہوں) افراد کی اخلاقی تربیت اور اعلیٰ حقائق کی معرفت کی جانب تگ و دو، کے لیے محرکات بھی فراہم کرسکتے ہیں لیکن یہ اُس وقت ممکن ہے جب مذہب سے وابستگی کے پیچھے تلاشِ حق کا یا راہِ نجات کی دریافت کا داعیہ کسی درجے میں موجود ہو۔ اس کے برخلاف اگر مذہب سے وابستگی کے معنی محض ایک گروہ سے وابستگی کے ہوں اور بہکانے والے بھی موجود ہوں تو پھر مشرکانہ افکار کی ایسی تاویل بآسانی ممکن ہے، جو اپنے حاملین کو دوسرے انسانی گروہوں کے خلاف جبر و اکراہ پر اکسائے۔ ہمارے ملک میں رائج شرک نے یہی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ نظامِ شرک میں معبودوں سے عقیدت کا اظہار محض ایک ذریعہ بن گیا ہے، جسے ایک گروہ کو دوسرے گروہوں کے خلاف متحد کرنے اور متحد رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عوام میں بگاڑ
آج کل عام خیال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کا مزاج منصفانہ ہوتا ہے اور یہ قائد و حکمراں ہوتے ہیں جو اُن کو بگاڑتے ہیں لیکن قرآن مجید بتاتا ہے کہ افراد کے علاوہ، مجموعی اعتبار سے گروہ بھی فاسق ہوتے ہیں اور وہ بآسانی گمراہ کرنے والوں کے بہکائے میں آجاتے ہیں۔اس طرح کی ایک قوم کی مثال پیش کی گئی ہے:
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہُ فَأَطَاعُوْہُ إِنَّہُمْ کَانُوا قَوْماً فَاسِقِیْنَ )الزخرف، آیت ۵۴)
’’پھر عقل کھودی اپنی قوم کی۔ پھر انھوں نے اس کا کہا مانا۔ بلاشبہ وہ نافرمان (فاسق) لوگ تھے۔‘‘
اِسی طرح یہ ممکن ہے کہ مذہبی جذبات کا استعمال کسی گروہ کو متحد رکھنے کے لیے کیا جائے:
وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَوْثَاناً مَّوَدَّۃَ بَیْنکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِیْنَo )النعکبوت: ۲۵)
’’ابراہیم نے اپنی قوم سے کہا، تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا۔‘‘
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بت پرستی کی بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کرلی ہے جو دنیوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہوسکتے ہیں خواہ حق ہو یا باطل۔ اور ہر اتفاق و اجتماع، چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو باہم دوستوں، رشتہ داریوں، برادریوں اور دوسرے تمام مذہبی، معاشرتی و تمدنی اور معاشی وسیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘
انسانوں کے ذہن و فکر کی اصلاح
سوال یہ ہے کہ مسلمان حالات کا مقابلہ کیسے کریں؟
دنیا میں عام طور پر اور ہمارے ملک ہندوستان میں خاص طور پر مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کی فکر و نظر کی اصلاح کریں۔ اس کے بغیر محض وقتی نوعیت کی تدبیروں کو اپنا کر وہ توقع نہیں کرسکتے کہ دنیا اور ملک سے نا انصافی ختم ہوسکے گی، قانون کا احترام ہونے لگے گا، انسانوں کو ان کے حقوق ملیں گے اور ان کے مسائل حل ہوں گے۔ اس وقت ہندوستان کی موجودہ فضا میں تین باتیں گونج رہی ہیں۔
(الف) وطن سے والہانہ وابستگی کے اظہار کا مطالبہ کیا جارہا ہے (سارے شہریوں سے اور خصوصاً مسلمانوں سے)۔ نیشنلزم کو ایک معقول تصور مان لینے کے بعد اُس کی انتہا پسندانہ تعبیر کرلینا زیادہ مشکل نہیں۔ یہی ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔
(ب) ایک قدیم شخصیت کو (جو تاریخی بھی ہوسکتی ہے اور خیالی بھی) معبود کی حیثیت دے دی گئی ہے اور سب سے مطالبہ کیا جارہا ہے (جن میں مسلمان شامل ہیں) کہ اس شخصیت سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرو۔
(ج) مندرجہ بالا دونوں مطالبات کو منوانے کے لیے جبرواکراہ کا استعمال جائز کرلیا گیا ہے، بلکہ مستحسن سمجھا جاتا ہے۔ اس فضا کی تشکیل میں ریاست (اپنی غفلت کی بنا پر) برابر کی شریک ہے۔
اِن حالات میں اہلِ ایمان کو چاہیے کہ ہندوستان کے باشندوں کو مالکِ حقیقی سے روشناس کرائیں۔ وہ تنہا عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کی عبادت بے جا ہے، چاہے وہ معبود کوئی انسان ہو، قوم و وطن ہو یا خیالی وجود ہو۔ اہلِ ایمان بتائیں کہ سارے انسان ایک ماں باپ (آدم و حوا) کی اولاد ہیں۔ زمین کے ایک خطے میں رہنے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے خطے میں رہنے والوں پر زیادتی کریں۔ پھر اہلِ ایمان، انسانوں کو جبر و اکراہ سے باز رہنے کی تلقین کریں۔ جبر کا استعمال تو اس مقصد کے لیے بھی جائز نہیں کہ کسی شخص کو زبردستی، اہلِ حق کے گروہ سے وابستہ کیا جائے۔ پھر بھلا باطل افکار کو منوانے کے لیے جبر کا استعمال کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
اِن اصلاحی مساعی کا اثر آہستہ آہستہ ہی ہوسکے گا۔ بہرحال جب مفسدین کو اقتدار حاصل ہو تو قرآن اہلِ ایمان کو تلقین کرتا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں، متکبرین کے غلط مطالبات نہ مانیں اور ان کے مقابلے میں اللہ کی پناہ طلب کریں۔
لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (البقرۃ، آیت ۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام کیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً o وَاتَّبِعْ مَا یُوحٰی إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراًo وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفَی بِاللّٰہِ وَکِیْلاًo (الاحزاب، آیات ۱-۳)
’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو۔ حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔ پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جارہا ہے۔ اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِیْ أَقْتُلْ مُوسَی وَلْیَدْعُ رَبَّہُ إِنِّیْ أَخَافُ أَن یُبَدِّلَ دِیْنَکُمْ أَوْ أَن یُظْہِرَ فِیْ الْأَرْضِ الْفَسَادَo وَقَالَ مُوسٰی إِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُم مِّن کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ o (المؤمن، آیات ۲۶-۲۷)
’’ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا ’’چھوڑو مجھے، میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں، اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔‘‘ (اِس گفتگو کی روداد سن کر) موسیٰ نے کہا ’’میں نے تو ہر اُس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات قرآنی، اس لائحہ عمل کی نشاندہی کرتی ہیں جو آج اہل ایمان کو اپنانا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2019