انّ خیرالحدیث کتاب اللہ و خیرالھدی ھدی محمّد ﷺ وانّ خیرالامورعوازمھا و شرالامورمحدثاتھا کلّ محدثۃ بدعۃ وکلّ بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النّار۔
لفظ بدعت، بدع سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا ایسے طریقے پر ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔ بدعت سنت کی ضد ہے۔اس طرح اس لفظ کے تحت ہر قسم کی نئی نئی ایجادات، طور طریقہ، رسم ورواج، عادات و اطوار، علوم و فنون اور سائنسی انکشافات وغیرہ آجاتے ہیں۔یوں اس لفظ کادائرہ استعمال اس قدر وسیع و ہمہ گیر ہوجاتا ہے کہ اس کی حدبندی ناممکن ہے۔
بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس کسی نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیاجو ہمارے دین کے طریقے پر نہیں ہے تووہ مردودہے۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ایک قسم ایسی بدعت جس کا تعلق قول واعتقاد سے ہے جیسے معتزلہ، رافضہ اور تمام گمراہ فرقوں کے اقوال و اعتقادات۔
دوسری قسم عبادتوں میں بدعت ہے جیسے اللہ کی پرستش غیر مشروع عبادت سے کرنا۔اور اس کی چند قسمیں ہیں: (۱) نفس عبادت ہی بدعت ہوجیسے کوئی ایسی عبادت ایجاد کرلی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد اور اصل نہ ہو۔جیسے غیر مشروع نماز، غیر مشروع روزہ، یا غیر مشروع عیدین جیسے عید میلاد وغیرہ۔ (۲) جو مشروع عبادت میں زیادتی کی شکل میں ہو۔جیسے کوئی ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت زیادہ کرے۔ (۳) جو عبادت کی ادائیگی کے طریقوں میں ہو یعنی اسے غیر شرعی طریقے پر ادا کرے۔جیسے مشروع اذکار و دعائیں اجتماعی آوازاورخوش الحانی سے اداکرنا۔اور اپنے آپ پر عبادت میں اتنی سختی برتنا کہ وہ سنت رسول اللہ ﷺ سے تجاوز کرے۔ اور (۴) جو مشروع عبادت کسی ایسے وقت کی تخصیص کی شکل میں ہو جسے شریعت نے خاص نہ کیا ہو۔ جیسے پندرھویں شعبان کی شب و روز نمازوروزے کے ساتھ خاص کرناکیونکہ نماز و روزے اصلاً مشروع ہیںلیکن کسی وقت کے ساتھ خاص کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے۔
ابوداؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ دین میں ہر بدعت حرام ہے اور باعث ضلالت وگمراہی ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے ــکہ دین کے اندر تمام نئی پیدا کی ہوئی چیز وں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیزبدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہاہے۔ بعض بدعتیں صراحتاً کفر ہیں جیسے صاحب قبر سے تقرب حاصل کرنے کے لئے قبروں کا طوا ف کرنااور ان پر ذبیحے اور نذرونیازپیش کرنا ان سے مرادیں مانگنا اور فریادرسی کرنا۔بعض بدعتیں وسائل شرک میں سے ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنااور وہاں نماز پڑھنا یا دعائیں مانگناوغیرہ۔بعض بدعتیں فسق اعتقاد ی ہیں جیسے خوارج، قدریہ اور مرجیہ کے اقوال اور شرعی دلیلوں کے مخالف ان کے اعتقادات۔ بعض بدعتیں معصیت و نافرمانی کی ہیں جیسے شادی و بیاہ سے کنارہ کشی اور دھوپ میں کھڑے ہوکرروزہ رکھنے کی بدعت اور شہوت جماع ختم کرنے کی غرض سے خصی کرنے کی بدعت۔
جس نے بدعت کی تقسیم اچھی اور بری بدعت سے کی ہے وہ غلطی اور خطاپر ہے۔اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث فان کل بدعۃ ضلالۃ کے برخلاف ہے۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے تمام بدعتوں پرگمراہی کا حکم لگایاہے اور جو صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ کچھ بدعتیں ایسی ہیںجو نیک ہیں اور اچھی ہیںوہ غلطی پر ہے۔
شیخ الاسلا م ابن تیمیہ نے فرمایا کہ عام بدعتیں جن کا تعلق علوم و عبادات سے ہے یہ خلفائے راشدین کے آخری دور خلافت میں رونماہوئیں۔جیسے کہ نبی ﷺ نے اس کی خبردی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سےجو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے تو تم لوگ میری سنت اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت کو لازم کرلو اور اسی پر جمے رہو۔)
سب سے پہلے انکار تقدیر، انکار عمل، تشیع اور خوارج کی بدعتیں ظاہر ہوئیں۔ یہ بدعتیں دوسری صدی ہجری میں رونما ہوئیں جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین موجود تھے۔ انہوں نے ان بدعتیوں پر گرفت کی۔پھر اعتزال کی بدعت ظاہر ہوئی اور مسلمانوں میں طرح طرح کے فتنے ظاہر ہوئے۔پھر خیالات میں اختلاف پیداہوا۔ بدعات اور نفس پرستی کی جانب میلان ہوا۔صوفیت اور قبروں پر تعمیر کی بدعتیں بہترین زمانوں کے گزرجانے کے بعد ظاہر ہوئیں۔اور جوں جوں وقت گزرتاگیاقسم قسم کی بدعتیں بڑھتی رہیں۔
اسلامی ممالک بدعتوں کے ظاہر ہونے میںمختلف ہیں۔شیخ الاسلا م ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ وہ بڑے بڑے شہر جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے سکونت اختیار کی اور جن سے علم و ایمان کی قندیلیں روشن ہوئیں، پانچ ہیں : دونوں حرم (مکہ و مدینہ)، دونوں عراق (بصرہ و کوفہ) اور شام۔انہیں جگہوں سے قرآن و حدیث، فقہ و عبادت اور دیگر اسلامی امور کی کرنیں پھوٹیں اور بجز مدینہ نبویہ کے انہی شہروں سے اعتقادی بدعتیں نکلیں۔کوفہ سے شیعیت و ارجاء کی ابتدا ہوئی جو بعد میں دیگر شہروں میں پھیلی اور بصرہ سے قدریت و اعتزال اور غلط و فاسد عبادتوں کا ظہور ہوا جو بعد میں دوسرے شہروں میں پھیلی اور شام ناصیت و قدریت کا گڑھ تھا رہی جہمیت تو اس کا ظہور خراسان کی جانب سے ہوا اور یہ سب سے بری بدعت ہے۔
بدعتوں کا ظہور شہر نبوی سے دوری کے اعتبار سے ہوااور جب حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد فرقہ بندی ہوئی توحروری بدعت کا ظہور ہوا۔ لیکن مدینہ نبویہ ان بدعتوں کے ظہور سے محفوظ تھا اگرچہ وہاں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو دلوں میں بدعات چھپائے ہوئے تھے مگر اہل مدینہ کے نزدیک وہ ذلیل و رسوا تھے۔کیونکہ مدینہ میں قدریہ وغیرہ کی ایک جماعت تھی لیکن یہ لوگ ذلیل و مغلوب تھے اس کے برخلاف کوفہ میں شیعیت و ارجاء، بصرہ میں اعتزال و زاہدوں کی بدعتیں اور شام میں اہل بیت سے برا ء ت کا اظہار تو یہ چیزیں ان مقامات پر ظاہر باہر تھیں۔بلاشبہ کتاب و سنت پر مضبوطی سے جمے رہنے ہی میں بدعت وگمراہی میں پڑنے سے نجات ہے۔ نبی کریم ﷺنے اس کوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت میں واضح کردیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ رسول اللہﷺ نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے۔ پھر اس کے دائیں و بائیں چند لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ یہ بہت سارے راستے ہیں اور ان میں سے ہر ایک راستے پر شیطان ہے جو اپنی جانب بلارہاہے۔ پھر آپﷺ نے سورہ الانعام کی آیت۱۵۳ تلاوت فرمائی:
’’اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پرمت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جداکردیں گی۔ اس کا تم کواللہ نے تاکیدی حکم دیاہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیارکرو‘‘۔
بدعتوں کے ظہور کے اسباب کا خلاصہ درج ذیل میں پیش کیا جارہاہے:
دینی احکام سے لاعلمی و جہالت: جوں جوں زمانہ گزرتاگیااور لوگ آثار رسالت سے دور ہوتے چلے گئے۔ علم کم ہوتارہا اورجہالت عام ہوتی رہی۔ ابودؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے زندہ رہنے والاشخص بہت سا رے اختلافات دیکھے گا۔عبداللہ بن عمروبن العاصؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی علم بندوں سے چھین کر نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کو ختم کرکے علم ختم کرے گایہاں تک کہ جب زمانہ کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گاتو لوگ جاہلوں کو رؤساء بنالیں گے اور یہ لوگ مسئلہ پوچھے جانے پر بغیرعلم کے فتوی دیں گے تو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کوبھی گمراہ کریں گے۔
خواہشات کی پیروی: جو کتاب و سنت سے اعراض کرے گا وہ اپنے خواہشات کی پیروی کرے گاجیسا کہ سورہ القصص کی آیت۵۰ میں ارشاد باری ہے:
’’اگریہ تیری بات نہ مانیںتوتو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکاہواکون ہے؟ جواپنی خواہش کے پیچھے پڑاہواہو بغیر اللہ کی رہنماء کے‘‘۔
مخصوص لوگوں کی رائے کے لئے تعصب برتنا: کسی کی رائے کی طرفداری کرنایہ انسان اور دلیل کی پیروی و معرفت حق کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔سورہ البقرۃ کی آیت ۱۷۰ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور ان سے جب کہا جاتاہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے‘‘۔
آج کل یہی حالت متعصبین کی ہے۔ خوا ہ وہ مذاہب و صوفیت کے بعض پیروکارہوں یا قبوری حضرات جب انہیں کتاب وسنت کی پیروی اوران دونوں کی مخالف چیزوں کو چھوڑنے کو کہا جاتاہے تو یہ حضرات اپنے مذاہب، مشائخ اور آباء واجداد کو دلیل بناتے ہیں اور بطور حجت پیش کرتے ہیں۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015