(۴) رسوم جاہلیت سے پاک زندگی اپنانا
بالعموم لفظ رَسْمٌ کے ساتھ روَاجْ مستعمل ہو تا ہے ۔مختلف رسوم کا جائزہ اس نقطئہ نظر سے لیاجاناچاہئےکہ جاہلیت کی کونسی قسم یا اقسام ان کی بنیاد ہے،پھراسلامی شرعی اصول کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔ دستور جماعت کی عبارت میں احکام شریعت ‘ کے خلاف رسوم جاہلیت سے زندگی کو پاک کرنے کی ہدایت ہے اس لیے اولاً یہ معلوم کرنیکی ضرورت ہے کہ لٹریچر سے کونسی عبارتیں اس معاملہ میں رہنمائی کر تی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب’’ رسائل و مسائل‘‘ سے چند حوالے پیش کیے جاتے ہیں :
(ا) رُسموں کی شریعت
شادی بیاہ کی رسوم جو بر صغیرہند و پاک و بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں ان کے بارے میں تفصیلی وضاحت کی گئی ہے اور ان کی اصلاح کی جانب متوجہ کیا گیا ہے :
’’ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے۔ خدا اور رسول کے طریقے پر لوگ آجائیں تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوںگی اور چھوٹی چھوٹی خرابیاں بھی دور ہوںگی۔‘‘ (حصہ اول صفحہ: ۱۳۱۔ ۱۲۳)
مولانا موصوف نے ان خرابیوں کو ’’ معاشرتی پھند ے کہا ہے جنہیں لوگوں نے خود اپنے گلوں میں ڈال لیا ہے۔ حالانکہ اسلامی شریعت ان پھندوں اور بیڑیوں سے گلو خلاصی کے لیے آئی ہے۔
(ب) گھر‘ گھوڑے اور عورتوںمیں نحوست: اہل جاہلیت عورت‘ گھوڑے اور گھر میں نحوست و بدشگونی کے قائل تھے۔ مگر اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں کیونکہ کوئی مصیبت زمین میں یا نفوس کو نہیں پہنچتی الاّ یہ کہ مقدّرات منجانب اللہ میں سے ہو (حدیث حضرت عائشہ ؓ ) اوراسلام میں ’ تو ہم پرستی ‘ کے لیے کوئی مقام نہیں ہے۔ (رسائل و مسائل حصہ دوم صفحہ: ۱۰۹۔ ۱۰۶)
(ج) ایصال ثواب کے غیر شرعی طریقے (نذرو نیاز اور ایصال ثواب)
(i ) نذرو نیاز جو خا لصۃ اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے بالکل جائز اور موجب اجر و ثواب ہے۔
(ii ) بزرگوں کے نام پر کی جانیوالی نذرونیاز‘ حرام اور گناہ ہے بلکہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ (رسائل ومسائل حصہ دوم صفحہ : ۲۹۰۔ ۲۷۸)
(iii) ایصال ثواب ہر ایک (صاحب ایمان) کے لیے کیا جاسکتا ہے ۔
(حصہ سوم صفحہ : ۲۲۵۔ ۲۲۳)
(د) مُصَافَحہ اور مُعَانقۃِ
ثانی الذکر کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک یہ مطلقاً مکروہ ہے۔ (حصہ پنجم: صفحہ ۳۰۰۔ ۱۹۸)
(۵) نفسانیت اور دنیا پرستی کی بنیاد پر قائم تعصبات اور دلچسپیوں سے قلوب کو پاک رکھنا: تعصبات کے لغوی انگریزی معنٰی ہیں (PREJUDICES) پہلے سے قائم شدہ جانبدارانہ رائے۔ اردو لغوی معنوں میں ہٹ دھرمی(BIGOTRY) مذہبی ستم رانی Religious Persecution بھی شامل ہیں۔ دنیا پرستی و مادہ پرستی انسان کو خود غرضی کی انتہا پر پہنچادیتی ہے اپنی ذات ‘ خاندان قبیلے اور فرقہ و قوم کے مفادات کا دیوانہ بنا دیتی ہے یہ انسانیت کش رویہ اور طرز عمل ہے۔ اس ذہنی بیماری کی تفصیلی کیفیت جاننے کے لیے مسئلہ قومیت (از: سید مودودیؒ) ملاحظہ فرمائیں یہ نازیوں ‘ فسطائیوں کا نسلی برتری کا تعصب ہی تھا جو دو جنگ ہائے عظیم کا باعث بنا۔ یہ یہودیوں کی (صیہونیت) اور ہندوتوکی قوم پرستی ہے جو فلسطین و بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا باعث ہے۔ مسلمانوں سے بھی خطاب ہے کہ وہ کسی ’قوم پرستی‘ مسلکی اور لسانی تعصب ( مثلاًعرب قوم پرستی) میں مبتلا نہ ہوں اور غیر ضروری مشاغل ‘ جھگڑوں اور بحثوں (کج بحیثوں) سے اپنے قلوب اور زندگیوں کو پاک و صاف رکھیں اور صحیح معنوں میں مسلم حنیف و انسانیت کے بہی خواہ بنیں۔
(۶) فُسیاق و فجّاراور خدا سے غافل لوگوں سے مودّت و موالات کے تعلقات نہ رکھنا اور خدا ترس لوگوں سے تعلقات قائم کرنا۔
فاسق و فاجر کے لغوی معنیٰ ہیں :
فاسق : حد سے تجاوز کرنے والا۔ گناہ گار، بد چلن، بد قماش شخص ۔
فاجر: فواحش میں مبتلا، عیاش و معصیت زدہ شخص ۔
مذکورہ بالا دونوں برائیوں میں غرق وہی ہوگا جو خوف خدا سے عاری اور آخرت فراموش ہو۔
نبی کریم ﷺ کے دو ارشادات کے تناظر میں اس دستوری شق کو سمجھنا آسان ہے پہلی حدیث ہے : مَنْ اَحَبَّ لِلہ وَاَبْغَضَ للہ وَاَعْطٰی لِلہِ وَمَنَعَ لِلہِ فَقَدْ اِسْتَکْمَلَ اْلاِیمَانَ یعنی آدمی پورا مومن اس وقت بنتا ہے جب اسکی کیفیت یہ ہو جائے کہ اسکی دوستی او ردشمنی اور اس کا دینا وروکنا جو ہو خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اور دنیوی محرکات ختم ہو جائیں۔ دوسری حدیث ہے :
’’میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم دیا ہے۔
کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں
کسی پر مہربان ہوں یا کسی کے خلاف غصہ میں ہوں
دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں۔
خواہ فقیری کی حالت میں ہوں یا امیری کی حالت میں
بہرحال راستی و اعتدال پر قائم رہوں۔
اور یہ کہ جو مجھ سے کٹے میں اُس سے جُڑوں
اور جو مجھ پرزیادتی کرے میں اسے معاف کردوں
اور جو مجھے محروم کرے میں اُسے دوں
او ریہ کہ میری خاموشی تفکر کی خاموشی ہو
او رمیری گفتگو ذکر الٰہی کی گفتگو ہو۔
اور میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔
انِ اوصاف مطلوبہ کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نیکی کا حکم دوں اور بدی سے روکوں‘‘۔ داعی حق گروہ کے ہر فرد کو ان اوصاف کو لازماً اختیار کرنا چاہیے۔ (تحریک اور کارکن : صفحہ : ۱۲۳۔ ۱۲۲)
دستور جماعت کی مذکورہ شق میں نوٹ دیا گیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نا مطلوبہ کردار کے حاملین سے عام انسانی روابط قائم رکھے جائیں گے۔ البتہ دوستانہ وقریبی تعلقات سے پرہیز کیاجائے گا۔
(۷) کسی غیر الٰہی نظام حکومت کا آلہ کار ہو نے یا اس کے قوانین کے اجراء میں مدد گار ہونے کی صورت میں اس سے علیحدگی۔
دستور جماعت کی دفعہ ۸ شق ۶ کی ذمہ داریوں میں لفظ آلہ کار کے بجائے کلیدی منصب “KEY POST” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کسی نظام حکومت میں کلیدی منصب کا مقام وزراء ‘ اعلیٰ سرکاری عہدیداران معتمدین (SECRETARIES)یا ججوںاور اعلیٰ پولیس عہدیدار وں کو حاصل ہو تا ہے۔ یہ عہدے و مناصب جماعت کے ارکان کے لیے ممنوع ہیں۔ دفعہ ۸ شق ۶ کے دائرہ سے (دستوری ترمیم کے ذریعہ )مجلس قانون ساز کی رکنیت کو کلیدی منصب ہونے کے مفہوم سے خارج کیا جاچکا ہے۔ (دستوری ترمیم اپریل ۲۰۱۱ء) غیر الٰہی نظام حکومت کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ نے ’’ غیر اسلامی اور خلاف حق نظام حکومت ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مجلس شوریٰ کے نزدیک ہر وہ نظام حکومت جس کی اساسی فکر قرآن و سنت پر مبنی نہیں ہے یا جس کے قوانین قرآن وسنت کو اعلیٰ ترین منبع قانون تسلیم نہیں کر تے وہ ایک غیر الٰہی نظام حکومت ہے۔ اس تشریح کا انطباق مسلم و غیر مسلم نظام ہائے حکومت پر یکساں طور پر ہو گا۔
’نظام حکومت ‘ کے بارے میں جماعت کے سابق موقف میں مذکورہ ترمیم نے جُزوی تبدیلی کی ہے۔ سیکولرزم اور جمہوریت موجودہ نظام حکومت کے بنیادی نظریات قرار دیے گئے ہیں ان کے سلسلہ میں جماعتی طرز فکر میں ارتقا کا اندازہ مرکزی مجلس شوریٰ کی قرارداد ’’ سیکولر جمہوری نظام ‘‘سے لگایا جاسکتاہے اسکے علاوہ نظام حکومت سے استفادہ کے بارے میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس بنگلور (جون ۱۹۷۴ء) نے اہم فیصلےکیے ہیں ان کو سامنے رکھناچاہئے۔
(۸) غیر اسلامی عدالتوں میں اضطرار کے بغیر معاملات کے تصفیے کے لیے نہ جانا۔ دفعہ ۸ شق ۶(الف) کی رو سے کسی غیر الٰہی نظام حکومت کے نظام عدالت میں فصل مقدمات کا عہدہ پہلے ہی سے ارکان جماعت کے لیے ممنوع ہے۔ اس شق میں اس سے آگے کی بات کہی جارہی ہے کہ شرعی اضطرار کے بغیر ان عدالتوں کا رخ بھی نہ کیا جائے۔ غیر اسلامی عدالتوں کے پیشہ وکالت کو بھی از روئے شرع غلط ٹھہرایا گیا ہے۔ (رسائل و مسائل حصہ اول صفحہ: ۹۹)
(۹) اپنے معاملات کو راستی ‘ عدل ‘ خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔ تعلق باللہ اور فکر آخرت کی مضبوطی افراد کو اپنی جگہ مستحکم رہنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ اور استقامت علیٰ الحق عطا کر تی ہے یہ صفت اُن کی سیرت میں ایک زبردست قوت تسخیر پیدا کر دیتی ہے۔ سید مودودیؒنے مذکورہ بالا سلسلہ اظہار خیالات میں تحریر فرمایا ہے :
’’ خدا کی راہ میں کام کرنیوالے لوگوں کو عالی ظرف و فراخ حوصلہ ہو نا چاہیے۔ ہم درد خلائق اور خیر خواہ انسانیت ہونا چاہیے۔ کریم النفس اور شریف الطبع ہو نا چاہیے۔ خود دار اور خوگر قناعت ہونا چاہیے۔ متواضع اور منکسر المزاج ہونا چاہیے۔ شیریں کلام اور نرم خو ہونا چاہیے وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں ‘ جن سے کسی کو شرکا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک ان سے خیر خواہی کا متوقع ہو۔ جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے پر تیار ہوں۔ جو برائی کا جواب بھلائی سے دیں یا کم سے کم برائی سے نہ دیں۔ جو اپنے عیوب کے معترف اور دوسروں کی بھلائیوں کے قدرداں ہوں۔ جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کم زوریوں سے چشم پوشی کرسکیں اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں جو خدمت لے کر نہیں خدمت کر کے خوش ہوتے ہوں۔ اپنی غرض کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں ہر تعریف سے بے نیاز اور ہر مذمت سے بے پرواہ ہو کر اپنا فرض انجام دیں اور خدا کے سواکسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں جو طاقت سے دبائے نہ جاسکیں دولت سے خریدے نہ جاسکیں مگر حق اور راستی کے آگے بے تامل سرجُھکاد یں۔ جن کے دشمن بھی ان پر بھروسہ رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت و دیانت وانصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہو سکتی۔ یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں۔ ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر او ران کا سرمایہ سیم و زرکی دولت سے گراں ہے کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گردوپیش کی آبادی کو مسّخر کر لیتا ہے لیکن اگر کوئی جماعت ان اوصاف سے متصف ہو اور پھر وہ کسی مقصد عظیم کے لیے منظم سعی بھی کر رہی ہو تو ملک اس کے آگے مسّخر ہو تے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست دینے میں کام یاب نہیں ہو سکتی‘‘(تحریک اسلامی کامیابی کے شرائط صفحہ ۱۶۔ ۱۵)ایسی سیرت و کردار کے حامل رکن جماعت کے معاملات یقینا راستی (سچائی) عدل (انصاف) خدا ترسی (تقویٰ) اور بے لاگ حق پرستی (حق پر استقامت و فدا کاری)پر ہی قائم ہونے چاہئیں۔
(۱۰) اپنی دوڑ دوھوپ اور سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا اور اپنی زندگی کی حقیقی ضرورتوں کے سوا تمام مصروفیتوں سے دست کش ہو جانا۔ دفعہ ۸ کی شق ۸ کی رو سے دعوتی جدوجہد کی ذمہ داری ہر رکن جماعت پر عائد ہو تی ہے۔ معیار مطلوب کی اس آخری شق میں اس دعوتی جدوجہد کے لیے یکسو ہوجانے کی اعلیٰ ترین کیفیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اسی طرح معیار مطلوب کے اخلاق عشرہ کا ذمے داریوں کے آٹھ نکات سے موازنہ کریں تو یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ یہ ان ذمے داریوں کو اعلیٰ پیمانے یا مثالی طرز پر انجام دینے کے مطلوبہ معیارات ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ذمے داریوں کے بیان میں اورمعیار مطلوب کے تعین میں بین السطور اور روح متحرکہ کے طور پر جو اخلاق فاضلہ لازم ہیں وہ اعلیٰ پیمانے کی تربیت کے بغیر حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ اس پس منظر میں علم، فکر اور صلاحیتوں کا ارتقا تحریکی تربیت کے معیار مطلوب کا جُزہے۔تحریکی مناصب کے لیے مطلوبہ اوصاف میں ’’ علم ‘‘ کو اولیت دی گئی ہے مقامی سطح پر دینی معلومات، حلقہ کی سطح پر علم دین اور مرکزی سطح کی قیادت کے لیے علم کتاب و سنت کا تذکرہ کیا گیا ہے اور جہاں تک مذکورہ اوصاف کا معاملہ ہے ان کی حقیقت سے آگاہی بھی اسی دائرہ علم میں آتی ہے۔
تحریکی زندگی میں تربیت کے معیار مطلوب کو نفل سمجھنا ایک غلطی ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ شرائط و فرائض کے بعد اس کا درجہ اہم ہے اس کے بغیر آگے کے مراحل طے نہیں ہو سکتے بلکہ جمود و تعطل، تفریق و انتشار کی کیفیت سے دو چار ہونے کی نوبت آجاتی ہے اور انحطاط کا عمل سب کئے کرائے کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ علم کسی مدرسہ سے ‘ چند کتابوں کو پڑھ لینے یا اجتماعات میں بے دلی سے شریک ہو جانے سے حاصل نہیں ہوتااِسی طرح ظاہر و باطن کی وہ کیفیت جسے تقویٰ کہا جاتا ہے اس کے بغیر کوئی بھی علم ایک وبال اور فتنہ ہے۔ علم تقویٰ کے شانہ بشانہ ہو تو بتوفیق الٰہی وہ نور بصیرت حاصل ہو تا ہے جو جہل کی تاریکیوں میں بطور شمع فرد کے آگے پیچھے دائیں بائیں موجود رہتا ہے اور کٹھن مراحل میں ایک مضبوط سہارے کا کام دیتا ہے۔ فکر و نظراور شعور و آگہی کی بدولت مزاج شناسِ تحریک شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ اسلام درویشی نہیں سکھاتا،لیکن میانہ روی کی تعلیم ضرور دیتاہے۔ فرد اپنی کمائی اپنے اوپرخرچ کرنے میں اسراف سے بچے یہ مستحسن روش ہے اسی طرح جماعتی رقوم کو خرچ کر نے میں نہ صرف محتاط رہنا ضروری ہے بلکہ امانت و دیانت کی اعلیٰ ترین مثالوں کو آئیڈیل بنانا ضروری ہے ،دور نبوی اور خلافت راشدہ سے محض زبانی تذکیر کے لیے نہیں قلبی لگائو کے ساتھ مثالیں ڈھونڈیں تو ہمارا سرندا مت سے جھک جاتا ہے تحریک اسلامی کے دور اول کے لوگ شاہد ہیں کہ انہوں نے اس کے امراء و عام ارکان میں سادگی قناعت پسندی ‘ امانت و دیانت کے مثالی کر دار دیکھے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں اول و آخر صرف تحریک تھی۔
علم کے بعد فکر و صلاحیت کا اونچا معیار پسندیدہ ہی نہیں تحریک کے بقا و عروج کے لیے ضروری بھی ہے دل و نگاہ کی مسلمانی اس کے لیے شرط اول ہے۔ صحیح اور متوازن علم خواہ دین و شریعت کا ہو یا دنیوی آداب و معاملات زندگی کا وہ فکر و دانش پر مثبت و تعمیری اثرات مرتب کر تا ہے جبکہ بے مہار و غیر متوازن علم فکر دنیا اور فکر ذات کے اطراف فرو د جماعت کوگھماتا ہے۔ اوّل الذکر علم فکر آخرت،دنیوی احوال کی اصلاح اور ذاتی و خاندانی معاملات میں دینی معیارکا لحاظ سکھاتا ہے۔ تحریکی فرد کی فکر محض خیالی نہیں ہوتی بلکہ و ہ اس کو تحریکی کاز میں سرگرم رکھتی ہےاور قوت و توانائی کا ایمانی ٹانک فراہم کرتی ہے۔ فرد کی صلاحیتوں کی کوئی انتہا نہیں ہے یہ قدرت کی دین ہےاگر صحیح علم اور متوازن فکر کے ذریعے صلاحیتوں کو اجا گر کرنے انہیں جلا بخشنے اور پروان چڑھانے کے مواقع نہ ملیں یا صالح اجتماعیت اور فکر انگیز ماحول نہ ملے تو فرد تحریک اسلامی کے لیے اچھا کارکن نہ بن سکے گا۔
متوازن طور پر اجاگر صلاحتیں جد و جہد کے اثرات کو دوبالا کرتی اور عملی زندگی میں بہترین کارکردگی کی ضمانت ہو تی ہیں۔ تحریکی تربیت کی منصوبہ بندی میں یہ امر پیش نظررکھا جاتا ہے کہ فرد کو اپنی صلاحیتوں کا شعور ہو اور وہ ان کے ارتقاء کی مسلسل کوشش کر تا رہے تب وہ تحریک کے لیے ہی نہیں اپنی ذات ‘ خاندان اور سماج کے لیے بھی مفید ہو سکے گا۔ اچھے اخلاق ایک خیر پسند فرد کے لیے اُسی طرح کام کر تے ہیں جیسے غذائیت سے بھر پور غذا صحت مند معدہ کے لیے قوت و توانائی کا باعث ہو تی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا شعور معرفت نفس ہے۔نفس انسانی میں ملکوتی اور شیطانی قوت کے درمیان کشمکش بر پا رہتی ہے اس پر نظر رکھتے ہوئے صحیح، متوازن اور فطری روحانی غذا اسلام عطا کرتاہے۔ جناب نعیم صدیقی کے الفاظ میں:
’’ ہر اصلاح طلب آدمی کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ اپنی خاص کمزوریوں کا شعور حاصل کرے۔ بار بار کے تجربات سے ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ ہماری سیرت کا کمزور پہلو کیا ہے۔ کسی کے اندر کبر کا رنگ پایا جاتا ہے کسی میں غصے کی تلخی زیادہ ہو تی ہے کسی میں خود داری کا مرض ہو تا ہے کسی کے جنسی میلانات میں عدم توازن پایا جاتا ہے۔کسی میں اسراف یا بخل کے آثار ہوتے ہیں کسی پر سیاست کے حملے زیادہ ہو تے ہیں کسی میں علیحدگی پسندی پائی جاتی ہے اور کسی میں کچھ اور کمزوریاںہوتی ہیں۔ اپنے اندر کی ایسی کمزوریوں کو جان لینا اور ان کے خلاف ایک جدو جہد جاری رکھنا سیرت کو سنوارنے کے لیے انتہائی لازم ہے۔ ورنہ اگر ہم اپنی کمزوریوں کو ڈھیلا چھوڑدیں تو آخر کار وہ پورے کر دار پر چھا جائیں گی‘‘۔ (اپنی اصلاح آپ صفحہ ۲۹۔ ۳۰)
یادر ہے کہ مذکورہ بالا کمزوریاں فرد کی انفرادی صلاحیتوں کو اسی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح زنگ لوہے کو۔ انسان خدا داد صلاحتیں‘ جبلتیں اور استعداد لے کر پیدا ہو تا ہے اور تعلیم و تربیت سے ان میں مزید نکھار پیدا ہو تا ہے۔ صلاحیتوں اور استعداد میں قوت گویائی‘ تر سیل ِ خیالات ‘ انتظامی صلاحیت اور قائدانہ صلاحیت شامل ہیں۔قوت فیصلہ غور و فکر کی صلاحیت ‘ شخصیت و کردار کی پختگی، خود اعتمادی، ملنساری سب قائدانہ کردار کے لوازم ہیں۔
صلاحتیں اور جبلتیں نیکی و بدی کے لیے یکساں سواری (Vehicle) مہیا کر تی ہیں فرد اگر نیکیوں کو اختیار کر ے تو خوبیاں اور بدی کو اختیار کرے تو کمزوریاں اس کا کردار بن جاتی ہیں۔
علم و فکر نور بصیرت ہے جوساری تحریکی زندگی کے لیے مثل روح کے ہے۔ روحانی قوت متحرکہ جس فرد میں نہ ہو وہ ایک بے جان و جود ہے ایک بوجھ ہے جو تحریک کی راہ کھوٹی کرتا اور جماعت کی سرگرمیوں کو ماند کرتا ہے۔ دین کا علم حاصل کرنا‘ اس علم کی روشنی میں دنیوی امور و مسائل کا حل نکالنا اس بات پر منحصر ہے کہ غور و فکر اور شعور و دانش دینی معیار کے اعتبار سے پختہ ہو جائے اور فرد کی صلاحیتیں دینی رخ پر پروان چڑھیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے مگرایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقہ کے باشندوں کو خبردار کر تے تاکہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کر تے۔‘‘ (سورۂ توبہ)
اسلام میں نظام تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں سورہ توبہ کی یہ آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جہالت کو دور کر نا اور اسلامی شعور پیدا کر نا اس نظام کا مقصد ہے وہیں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اس کا اصل مقصد محض خواندہ بنا دینا اور عوام میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلا دینا نہیں ہے بلکہ واضح طور پر اس کا مقصد حقیقی یہ متعین کیا گیا ہے کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں۔
تحریک اسلامی کے لٹریچر اور اس کے تربیتی اجتماعات کے ذریعہ اس بات کی سعی کی جاتی ہے کہ وابستگان جماعت کا فکری ارتقاء اور تزکیہ نفس قرآن و سنت اور سیر ت طیبہ کی روشنی میں مسلسل ہوتا رہے۔ اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقامی ‘ ضلعی و حلقہ واری سطح پر تربیت گاہوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014