(جماعتِ اسلامی ہند کے ذمہ داران کے ایک اجلاس میں کیے گئے خطاب سے ماخوذ)
تحریکِ اسلامی اصلاً ایک دعوتی اور فکری تحریک ہے۔ یہ انبیائی تحریک کا تسلسل ہے اور اس غرض کے لیے برپا ہوئی ہے کہ لوگوں کی شخصیتوں، انسانی سماج اور تمدن کو اللہ کی مرضی اور اس کی ہدایت کے مطابق استوار کیا جائے۔ تحریکِ اسلامی کا نصب العین اقامتِ دین ہے جس کا مطلب افکار و خیالات میں تبدیلی اور اس کے ذریعے پورے نظامِ تمدن میں تبدیلی ہے۔ اس نصب العین کی سمت اس ملک میں پیش رفت کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہاں کی رائے عامہ کو مثبت رُخ پر بدلا جائے۔ اس لیے رواں میقات میں جماعتِ اسلامی ہند نے رائے عامہ میں تبدیلی کو اپنا میقاتی ہدف یا میقاتی مشن قرار دیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہے۔
ہماری کوشش ہوگی کہ دنیا اور ملک کے حالات اور خاص طور پر فکری و نظریاتی حالات کا مختصر جائزہ لیا جائے اور یاد دلایا جائے کہ ان حالات میں ہمارے نصب العین کے کیا تقاضے ہیں؟ پبلک اوپینین کو بدلنے کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اور کیسے دنیا کے فکر و خیال پر ہم اثرانداز ہوسکتے ہیں؟
جو فکری و تہذیبی رجحانات زیرِ بحث لائے جارہے ہیں، اُن کا تعلق ملک سے بھی ہے، دنیا سے بھی ہے اور ملت سے بھی ہے۔ ان رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان حالات میں کیسے ہم رائے عامہ کو متاثر کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔
فکر اور فکرِ اسلامی
جس چیز کو ہم اسلامی فکر کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ فکر کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے۔ فکر چند نعروں کا بھی نام نہیں ہے۔ رٹی رٹائی چیزوں کی بے معنی تکرار، فکری عمل نہیں ہے۔ لٹریچر میں آئیڈیولوجی کی تعریف ہی اس طرح کی گئی ہے کہ:
Practical engagement with the historical moment through a worldview.
(اپنے ورلڈ ویو کے مطابق تاریخ کے مخصوص دورانیے کے ساتھ عملی تعامل)
یہ بھی کہا گیا ہے:
Ideology arises from the interplay of belief systems with historical conditions.
(تاریخی احوال اور نظامِ عقائد کے درمیان تعامل اور باہم اثر و نفوذ کے نتیجے میں نظامِ فکر کا ظہور ہوتا ہے۔)
گویا، فکر—اپنے عقائد اور اپنی اساسیات کو محور بناکر—اپنے عہد سے تعامل کا نام ہے۔ ہمارے زمانے کے مسائل، ہمارے زمانے کی الجھنیں، ہمارے زمانے کے سوالات، ان سب کا اپنے پیراڈائم کے مطابق حل فراہم کرنے کا نام فکری عمل ہے۔ اپنے زمانے کی جاہلیت سے، طاغوت سے نبرد آزمائی کا، اپنے زمانے کی گم راہیوں سے مقابلے کا نام ہے۔ فکری عمل مونو لاگ کا نام نہیں ہے کہ آپ صرف اپنی بات کہتے رہیں۔ فکری عمل کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ اپنے عہد کو سمجھیں، اس عہد کے لوگوں کے خیالات کو سمجھیں، ان کے رویوں کو سمجھیں، ان کے دعووں اور بیانیوں کو زیرِ بحث لائیں، ان کی الجھنوں کو رفع کریں اور اپنے خیالات دلیل کی طاقت سے اس طرح پیش کریں کہ ان کے ذہن بدلنے لگیں۔ اسی کے نتیجے میں رائے عامہ بدل سکتی ہے۔
رائے عامہ چند رٹی رٹائی تقریروں کو مسلسل دہرانے سے نہیں بدلتی۔ خود اللہ کی کتاب نے اس کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ ہر پیغمبر کی بنیادی دعوت ایک ہے۔ لیکن اس کے تفصیلی بیانیوں میں ان کے زمانوں کے عکس موجود ہیں۔ قرآن کے اپنے بیانیوں پر مکی زندگی کے چار الگ الگ ادوار اور مدینے کے ادوار کے اثرات صاف طور پر موجود ہیں۔ مشرکین سے مخاطبت ہے تو ان کی تاریخ، ان کے خیالات، ان کے اعمال، ان کی حساسیتیں (sensitivities)، اور ان کے رویوں کا لحاظ ہے اور اہلِ کتاب کو مخاطب کیا گیا ہے تو ان کے امور کا لحاظ ہے۔ فکری عمل موثر ہو ہی نہیں سکتا جب تک آپ اپنے زمانے کو اور اس کے مسائل کو نہ سمجھیں اور جس جاہلیت سے مقابلہ ہے اس کو گہرائی سے نہ سمجھیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے: إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِی الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ یعْرِفْ الْجَاهِلِیةَ (بے شک اسلام کے سر رشتے ایک ایک کر کے ٹوٹتے چلے جائیں گے، اگر اسلام میں ایسے لوگ پرورش پانے لگیں جو جاہلیت سے ناواقف ہوں)۔ صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں کہ كانَ النَّاسُ یسْأَلُونَ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ علیه وَسَلَّمَ عَنِ الخَیرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ یدْرِكَنِی (لوگ رسول اللہﷺ سے خیر اور بھلائی کے بارے میں سوالات کرتے تھے اور میں شر اور برائی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں وہ مجھے لاحق نہ ہوجائیں)۔
اس عہد کی جاہلیت
ہمارے عہد کی جاہلیت کیا ہے؟ دنیا اور ملک کے حالات کا سرسری جائزہ اس عہد کی بعض اہم خصوصیات سامنے لاتا ہے۔ یہ خصوصیات بہت سارے پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہیں۔ جدید جاہلیت قدیم زمانے کی طرح سادہ نہیں ہے۔ گذشتہ پانچ سو برسوں کے متعدد پیچیدہ فلسفے ہیں جنھوں نے ایک خاص ذہن تشکیل دیا ہے۔ خدا بے زاری، مادہ پرستی، نفس پرستی، عقل پرستی، لادینیت، سائنس پرستی، قوم پرستی اور اس طرح کی متعدد پرستشوں نے انسانوں کا ایک خاص مزاج بنایا ہے۔ ادھر حالیہ چند دہوں میں سرمایہ داری نے جو عالم گیر شکل اختیار کی اور جس طرح اس کے لیے چھ بلین انسانوں کو مشینی پیداوار کنندہ (producer) اور بے زبان صارفین (consumers) میں بدلنے کی منصوبہ بند کوششیں ہوئیں اس نے انسانی رویوں کا ایک ایسا سانچہ تیار کیا ہے جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی اب ختم ہو رہی ہے اور اس چوتھائی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ٹکنالوجی کو ترقی کی ایک نئی چوٹی پر پہنچادیا ہے۔ معلومات کا دھماکا، اطلاعات کی تیز رفتاری، سوشل میڈیا، ایپس کے ذریعے انسانوں کی ساری سرگرمیوں کی خودکاری اور ان کا نیا روپ، آگمنٹیڈ ریئلٹی کے ذریعے من پسند ’حقائق‘ کو تخلیق کرنے کی سہولت اور پھر آرٹیفیشیل انٹلی جنس کی صورت میں الہ دین کے ایک ذہین و فطین جن کی ہر دم حاضری۔ ان سب نے ایک بالکل نیا انسانی سماج تشکیل دے دیا ہے۔ اس سماج کی دیگر چیزیں جس طرح مختلف ہیں اسی طرح اس کی جاہلیت کا بھی اپنا ایک الگ رنگ روپ، اپنی اثر انگیزی، تاثیر کی اپنی گہرائی اور اپنی ہمہ گیریت ہے۔ ان سارے عوامل نے مل کر ہمارے زمانے کے انسان کا ایک خاص ذہنی شاکلہ تشکیل دیا ہے جو بالآخر اس کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کو تشکیل دیتا ہے۔ اس شاکلے کو سمجھنا اس عہد کی فکری دھاراؤں کے فہم کے لیے ضروری ہے۔ میرے نزدیک اس کی درجِ ذیل پانچ خصوصیات خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ ان خصوصیات کا اثر ہمہ گیر ہے۔ اصلاً تو یہ جاہلی معاشرے کی منفی خصوصیات ہیں لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے، مسلمان بھی ان خصوصیات سے متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ کہیں کہیں باشعور دین پسند حلقوں میں بھی ان میں سے بعض کے منفی اثرات نظر آتے ہیں۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان خصوصیات کو سمجھا جائے۔ ان پر باریک اور گہری نظر رکھی جائے اورحکمت کے ساتھ اس شاکلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے۔
انفرادیت پسندی
ہمارے عہد کی سب سے بڑی کم زوری حد سے بڑھی ہوئی انفرادیت پسندی (hyperindividualism) ہے۔ معاصر ٹکنالوجی کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ وہ انسان کو سماج سے کاٹ رہی ہے۔ انسان اور مشین کا مجموعہ (man-machine unit) اب سماج کی جگہ لے رہا ہے۔ تفریح و دل جوئی سے لے کر تعلیم و تعلم تک، مشاورت و رہ نمائی سے لے کر بحث و گفتگو تک بلکہ جنسی معاملات تک، وہ سارے اُمور جن کے لیے انسان دوسرے انسانوں کی صحبت اور قرب کی ضرورت محسوس کرتا تھا، اب مشینوں کے ذریعے ان کا حصول ممکن بنادیا گیا ہے۔ محفلوں میں بھی افراد اپنے اپنے ہینڈ سیٹ کے ساتھ اپنی اپنی خلوتوں میں بند رہنا پسند کرنے لگے ہیں۔ اخلاق کے اکثر سوالات کا تعلق انسانوں کے باہمی تعلقات سے ہے۔ جب سماجی رابطہ کم زور ہوگا تو خود بخود اخلاقی وجود کم زور ہوگا۔ انفرادیت پسندی کی روایت مغربی فلسفوں میں جدیدیت کے زمانے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اس پختہ روایت کے ساتھ جب اس صورتِ حال کا ملاپ ہوا تو ایک خاص مزاج ساری دنیا میں پروان چڑھنے لگا۔ اپنے آپ پر ساری توجہ مرکوز کرنے کا مزاج، سماج اور اس کی ذمے داریوں سے بے اعتنائی کا مزاج۔ میرا انتخاب، میری سچائی (my choice, my truth) والا اندازِ فکر، میرا جسم، میری مرضی والا طرزِ حیات۔ اس نے انسان کو سماج سے، اخلاقی حس سے اور اجتماعی قدروں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس دور کا سب سے بڑا بُت انسان کی اپنی انا ہے اور ’میری پسند‘ یہ سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے (The ego is the new god and the choice is the new religion)۔ انسان سماج سے کٹ رہا ہے، خاندان سے کٹ رہا ہے، اعلیٰ مقاصد سے کٹ رہا ہے۔ صرف ایک مشین، ایک صارف اور کنزیومر بنا جا رہا ہے۔
فریبی روحانیت
اس شدید انفرادیت پسندی نے اخلاقی و روحانی طلب کے فطری جذبے کی تسکین کے بالکل نئے اور فریبی طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں۔ یہ اس عہد کی دوسری اہم خصوصیت ہے۔ نام نہاد معاصر روحانیت (new age spirituality)نے مذہب کو نظر انداز کرکے یا مختلف مذاہب کا اپنی مرضی کے مطابق کاک ٹیل (religious syncretism) بناکر روحانیت کا ایک ایسا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جس سے انسانی تاریخ کبھی آشنا نہیں رہی ہے۔ کسی اخلاقی اصول و ضابطے کے بغیر، چند بے معنی تصورات کو بنیاد بناکر روحانی فلسفے گھڑ لینا اور ان کو روحانی تسکین کے لیے کافی سمجھ لینا، اس تصور کی اہم خصوصیت ہے۔ اب لوگوں کو سماج سے پاکیزہ اور تعمیری تعلق نہیں چاہیے بلکہ روحانیت کے نام پر راہِ فرار (escape route) چاہیے۔ جو ہماری انا کی تسکین کرے وہی سچائی ہے۔ values نہیں vibes، ایتھکس نہیں انرجی۔feeling cool اور feeling high یہی روحانیت کا حتمی مقصد بن گیا ہے۔ اس میں مذہب صرف ایک جمالیاتی تحریک بن کر رہ جاتا ہے۔ محض طرزِ زندگی کی ایک ضرورت (lifestyle accessory)، خوش رکھنے اور اچھا محسوس کرانے کا محض ایک وسیلہ (feelgood therapy)۔ گویا رومی چاہیے رسول اللہ نہیں، اوراد و وظائف اور میڈیٹیشن گیان دھیان چاہئیں، مشن اور جدوجہد نہیں۔ عالمی سطح پر ابراہیمی اکارڈ ہو یا سیکولر روحانیت (secular spirituality) یا ہمارے ملک میں طرح طرح کے باباؤں کے ذریعے فروغ دی جارہی نو روحانیت (neo-spirituality)، ان سب میں یہی خصوصیات آپ محسوس کریں گے۔
سچائی کا بحران
فکر وخیال اورعلم و خبر کی سطح پر بڑا بحران سچائی کا بحران ہے۔ یہ ہمارے عہد کی تیسری اہم خصوصیت ہے۔ مابعد سچائی زمانہ (post-truth age)، جہاں حقائق کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت جذبات کی یا احساسات کی ہے۔ جہاں سچائی دریافت نہیں کی جاتی بلکہ تخلیق کی جاتی ہے۔ جو وائرل ہے وہی سچ ہے (What is viral is true)۔ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں اس کا تعین دلیل کے وزن سے نہیں بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ کی بات وائرل ہو رہی ہے یا نہیں۔ دلیل کے بجائے جذبات اور ان کا مکارانہ استحصال خیال کی اصل طاقت بن گیا ہے۔ محقق کی برسوں کی عرق ریزی کو ایک میم (meme)کے ذریعے خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ ایک اعلیٰ و ارفع پیغام ٹرول آرمی کے ذریعے بے وقعت کیا جاسکتا ہے۔ شدت پسند بیانیوں کی یلغار کے ذریعے، حقائق کو من مانے طریقے سے توڑ مروڑ کے اور مبالغہ و تکرار کے سہارے واقعات کو بالکل غلط رخ دیا جاسکتا ہے اور بڑی سے بڑی شخصیات کے وقار کو ملیامیٹ کیا جاسکتا ہے۔ جہاں بحث و مباحثے کے لیے حقائق کی، دلائل کی، سنجیدہ استدلال کی کوئی ضرورت نہیں، جذباتی بیانیوں سے آناً فاناً لوگوں کی سوچ کو ریت کے ٹیلوں کے مانند بدلا جاسکتا ہے۔
استبدادی عوامیت
سیاسی اور سماجی سطح پر سب سے بڑا بحران وہ ہے جسے استبدادی عوامیت (authoritarian populism) کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ اس عہد کی چوتھی بڑی خصوصیت ہے۔ ساری دنیا میں جمہوریت اور جمہوری ادارے پاپولزم کے شکار ہوکر بے اثر ہوتے جارہے ہیں۔ عوامی جذبات کی طاقت ور لہر پر سوار ہوکر ظالم ڈکٹیٹر اقتدار پر فائز ہو رہے ہیں اور ہر طرح کے اختلافِ رائے کو پوری طاقت سے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سچائی بغاوت کہلانے لگی ہے، انصاف کی طلب کا نام ٹیررزم ہوگیا ہے۔ جھنڈوں، نعروں، خوابوں، لفاظی (rhetoric) اور مصنوعی خوف (manufactured threat)کے ذریعے ساری سنجیدہ اور دیانت دار بحثوں کو آسانی سے قابو میں رکھنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس نے عوامی جذبات کو ایک ایسے ہتھیار میں بدل دیا ہے جس سے حق و صداقت کی ساری آوازوں کا خون کیا جاسکتا ہے۔
پانچویں خصوصیت بیان کرنے سے پہلے میں ایک اہم پہلو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے زمانے کی ان خصوصیات نے اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کو ایک فیصلہ کن مرحلے میں پہنچا دیا ہے۔ پیو فاونڈیشن نے ابھی گذشتہ مہینے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں کئی چونکانے والی باتیں سامنے آئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں الحاد اور مذہب بے زاری بہت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ لا مذہب لوگوں کی تعداد آبادی کی ایک چوتھائی کے لگ بھگ ہوگئی ہے۔ گذشتہ برسوں میں ستائیس کروڑ لوگوں نے لامذہبیت کو قبول کیا ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے مطابق مذاہب میں اب تیزی سے پھیلنے والا دین صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جسے قبول کرنے والوں کی تعداد اِس کے ترک کرنے والوں سے زیادہ ہے۔ ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر اور مذہب بے زار جاہلیت جسے مولانا مودودیؒ نے جاہلیتِ خالصہ کہا تھا، ہمارے عہد کی اصل اور غالب جاہلیت ہے اور اس جاہلیت کا مقابلہ صرف اسلام سے ہے۔ چاہے عقیدے کا محاذ ہو یا اخلاق و اقدار کا، سیاست کا ہو یا معاشی اصولوں کا، عالم گیر مذہب مخالف جاہلیت اصلاً اسلام کی حریف بن کر ابھر چکی ہے اور وہ اپنی پوری طاقت اسلام کے مقابلے میں لگا رہی ہے۔ ہمارے زمانے کی مذکورہ بالا چاروں خصوصیات اسلام کی اصولی تعلیمات سے براہِ راست متصادم ہیں۔
اسلاموفوبیا
یہی وہ چار رجحانات ہیں جن کے دوش پر سوار ہوکر پانچویں اہم خصوصیت نمودار ہوتی ہے۔ اسلام کی شدید مخالفت، اسلام سے خوف، حسد اور اس کے خلاف ساری قوتوں کو مجتمع کرکے طاقت ور تحریک۔ عالمی سطح کا اسلاموفوبیا ہو یا ہمارے ملک میں اسلام مخالف تحریک، دونوں نے ہمارے عہد کی ان چار خصوصیات سے اصل غذا حاصل کی ہے۔ ان خصوصیات سے جاہلیت کا ایک بالکل نیا روپ سامنے آتا ہے۔ محض غلط نظریات والا روپ نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے سے انسانی ذہن کو الجھا دینے والا (confusion engineered)روپ۔ عالمی سطح پر یہ کہہ کر کنفیوز کیا جاتا ہے کہ اسلام فنڈامنٹلزم ہے، جدید اقدار کا حریف ہے، رجعت پسندی کی تحریک ہے۔ ہمارے ملک میں اسلام کا نام ابراہیمی مذہب یا سامی مذہب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی مذہبی روایت ہے جو دھارمک روایت کے خلاف ہے، یہاں کے سماج کے لیے نامانوس ہے، انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
یہ سب الزامات دراصل جذباتی جال (emotional traps)ہیں جن میں نریٹیو کو قید کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ اسلام کو ایک اخلاقی متبادل (a moral alternative) کے حقیقی روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ یہ ایک منصوبہ بند نریٹیو پروجیکٹ ہے جو عالمی سطح پر بھی پوری مکاری کے ساتھ زیرِ عمل ہے اور ہمارے ملک میں بھی اس کی کارفرمائی اپنے عروج پر ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ اسلام سے یہ حسد اور یہ پریشانی اس کی خوبیوں اور اس کی کشش کی وجہ سے ہے۔ لوگوں کو اطاعت پر آمادہ کرنے کی اس کی عظیم صلاحیت ہے جس سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے۔ اس کے تئیں یقینِ کامل (conviction) کی وہ بے مثال کیفیت ہے جس سے لوگوں کو حسد ہے۔ سخت سے سخت حالات میں اور شدید مخالفت کے باوجود باقی رہنے بلکہ اور پھلنے پھولنے کی اس کی حیرت انگیز صلاحیت ہے جو لوگوں کی پریشانی کا اصل سبب ہے۔ اسلام کو جو چیلنج درپیش ہیں اس کی کم زوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ وہ ہر محاذ پر رہ نمائی کی ہمت و جرأت دکھاتا ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جس میں فرد ہی سب کچھ ہے، جس میں حدود و قیود سے لوگوں کو الرجی ہے، اسلام جب حدود بتاتا ہے تو لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ اسلام کنزیومر کلچر کو چیلنج کرتا ہے، جنسی اباحیت کی جڑیں کاٹتا ہے، افراتفری کو ناپسند کرتا ہے، بڑی طاقتوں کے استعمار کو اپنے اصولوں کے ذریعے چیلنج کرتا ہے۔ ہم اپنے ملک کی بات کریں تو اسلام ہی ہے جو ذات پات کی تفریق کو جڑ سے ختم کرسکتا ہے، سرمایہ داروں کے استحصال کا توڑ بن سکتا ہے، لوگوں کی ان مذہبی الجھنوں کو دور کرسکتا ہے جسے پیچیدہ فلسفوں کی گتھیوں میں صدیوں کی محنت سے تشکیل دیا گیا اور جو لوگوں کو کنٹرول میں رکھنے کا ایک آسان نسخہ ہے۔ اسلام کی یہ خصوصیات ہی ہیں جنھوں نے ایک بدلی ہوئی دنیا میں، ایک غیر فطری دجالی دنیا میں، اسلام کا خوف پیدا کردیا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ خصوصیات ہی اسلام کی اصل کشش ہیں جوانسانی فطرت کی آواز ہیں اور جب بھی دنیا فطرت کی طرف لوٹے گی تو اسلام ہی کو جائے پناہ پائے گی۔
ان حالات میں احیائے اسلام کا خواب دیکھنے والی اسلامی تحریکوں کو اپنا راستہ طے کرنا ہے۔ راستہ کیا ہو؟ اس حوالے سے بھی میں چار باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
الف) مقصد و نصب العین
ان احوال میں سب سے پہلی ضرورت یہی ہے کہ اسلامی تحریک اپنے مقصد و نصب العین کے سلسلے میں بالکل صاف ذہن رہے۔ ذہنوں کی تبدیلی کے اپنے اصل کام پر اس کا مکمل ارتکاز رہے۔ تحریکِ اسلامی کا اصل کام بھی یہی ہے اور موجودہ حالات میں اس کام کے لیے غیر معمولی مواقع بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ یہ ہے کہ حالات کے دباؤ میں ہم خود اس اصل راستے کو چھوڑ دیں یا اس اصل کام کے بجائے دوسرے کام ہمارے ذہنوں پر حاوی ہوجائیں۔ بنیادی و لازمی کاموں (اپنی تربیت، مسلم معاشرے کی اصلاح، اسلامی دعوت اور انسانوں کی خدمت) کے سلسلے میں جو زور دیا جارہا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے۔ فکر کی اشاعت اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی، یہی ہمارا اصل کام ہے۔ بڑے سے بڑا مسئلہ اور شدید سے شدید رکاوٹ بھی اس اصل کام پر ہمارے ارتکاز کو کم کرنے کا سبب نہ بنے، اس کو یقینی بنانا ہی اصل ضرورت ہے۔
ہر نظریے کو مزاحمت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب نظریے کے حاملین اس مزاحمت کے مقابلے میں پائیداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نظریے کی سچائی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ نظریے کے علم بردار اپنی فکر کے معاملے میں سچے اور سنجیدہ ہیں۔ اس سنجیدگی کو دیکھ کر ہی لوگ اس نظریے کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ نظریے کے قوت بننے کے یہ فطری مراحل ہیں۔ حالات کی سختی سے گھبرا کر جب ہم مداہنت کا شکار ہوجاتے ہیں یا نظریے کے بجائے دوسرے کاموں میں دل چسپی لینے لگتے ہیں یا محض اپنی حفاظت و دفاع کے وقتی تقاضوں میں پوری طرح الجھ کر رہ جاتے ہیں تو ہم اپنے نظریے کو بے اثر کردیتے ہیں۔ اس وقت وہ مخاطبین میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ یہ کوئی گہری اور سنجیدہ فکر نہیں ہے۔ اس طرح علم بردار گروہ کا عدم استقلال اور غیر سنجیدگی عظیم سے عظیم نظریے کو بھی قوت بننے نہیں دیتا۔
ہماری یہ شناخت بننی چاہیے کہ ہم ملک کے لیے ایک منفرد نظامِ فکر کے علم بردار ہیں۔ ایک نئے حل (سولوشن) کو تجویز کرنے والے اور اس تجویز کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی دل چسپی ایک نظریے اور ایک نظامِ فکر میں ہے۔
ب) نریٹیو لیڈرشپ
ہماری تحریک ماڈرن ازم کے پیدا کردہ چیلنجوں کے زمانے میں برپا ہوئی۔ ہم بحث و مذاکرے کے طریقِ کار (discursive method)کے عادی ہیں۔ تمہید، بیان، اختتام، دلیل، ترتیب، یہ سب ہمارے طرزِ بیان کی اہم خصوصیات ہیں۔ ایک بدلے ہوئے مابعد سچائی (پوسٹ ٹروتھ) زمانے میں جب جذبات، دلیل سے زیادہ اہم ہوگئے ہیں، خیالات دلائل سے نہیں بیانیوں (narrative)سے بدلے جارہے ہیں، اس زمانے میں اُس چیز کی بڑی اہمیت ہے جسے میں نے نریٹیو لیڈرشپ کا نام دیا ہے۔ اجتماعی ادراک (collective perception)کو رخ دینے کی صلاحیت، اس پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت۔ اس کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ آپ اپنے سماج کو سمجھیں۔ اس کے جذبات کو سمجھیں۔ اس کی حساسیتوں (sensitivities) کوسمجھیں۔ صرف سچ بولنا کافی نہیں ہے بلکہ سچ کو اس طرح بولنا کہ اس کا قبول کرنا آسان ہو، یہ ضروری ہے۔ اس کے لیے سچائی کو اپنے زمانے کے حالات کے حوالے سے بیان کرنا ہوگا۔ واقعات کو بیان کرتے ہوئے بیانیوں (narratives) کے ذریعے سچائی کو ذہن و قلب میں اتارنا ہوگا۔ کب بولنا ہے؟ کیا بولنا ہے؟ کس لہجے میں بولنا ہے؟ کس زبان اور کن الفاظ کا استعمال کرنا ہے اور کس لہجے میں نہیں بولنا ہے؟ کن الفاظ اور کس لہجے سے گریز کرنا ہے؟ اور کیا بولنے کے لیے مناسب وقت کا صبر کے ساتھ انتظار کرنا ہے۔ یہ سب طے کرنے کی صلاحیت داعیانہ حکمت کا عین تقاضا ہے۔ اور اس تقاضے کی تکمیل کے بغیر رائے عامہ کو متاثر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نریٹیو پاور کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ عملی نمونے چاہتی ہے۔ اسلام کو زیادہ سے زیادہ قابلِ مشاہدہ (visible) بنانا، عملی شہادت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا، اس کے زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کے قابلِ مشاہدہ (observable) عناصر تخلیق کرنا، یہ تخلیقیت اور ندرت (creativity and innovation) لیڈرشپ کا اصل امتحان ہے۔
ج) اسلامی شخصیت: مثالی کارکنوں کی تیاری
اس کے لیے ہمارے کارکنوں کی تربیت پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ بنیادی و لازمی کاموں کا جو تصورہمارے میقاتی منصوبے میں دیا گیا ہے اس کا مقصد یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یا بَنِی إِسْرَائِیلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی أَنْعَمْتُ عَلَیكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِی أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِیای فَارْهَبُونِ ﴿٤٠﴾ وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَإِیای فَاتَّقُونِ ﴿٤١﴾ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِینَ ﴿٤٣﴾ ۞ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾ وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِینَ۔ الَّذِینَ یظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَیهِ رَاجِعُونَ
اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمھارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰة دو اور جو لوگ میرے آگے جُھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جُھک جاو۔ تم دُوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو! حالاں کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے؟ صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک یہ ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے ربّ سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ جانا ہے۔ [البقرة 40-46]
سورہ بقرہ کی ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے جو اہم باتیں بیان کی ہیں، وہ موجودہ دور میں مطلوب تحریکی شخصیت کی بڑی جامع تعریف (definition)تشکیل دیتی ہیں۔ اللہ سے کیے گئے عہد کی تکمیل پر توجہ دینا، اللہ پر پختہ ایمان، اللہ کی کتاب اور اس کے اصولوں کے سلسلے میں کسی درجے کی بھی مداہنت اور کم زوری سے گریز، حق میں کبھی کوئی ملاوٹ نہ ہونے دینا، کتمانِ حق سے بچے رہنا اور حق کے اعلان و اظہار کو اپنا اصل مشن جاننا، نماز، زکٰوة اور رکوع کے ذریعے اللہ سے مضبوط تعلق، قول و فعل میں یکسانیت اور اپنے اصولوں کو اپنے کردار اور عمل سے واضح کرنا، اور پھر صبر، صبر کے ساتھ ڈر، خوف، مایوسی، جلد بازی سے بچتے ہوئے اپنا کام مسلسل کیے جانا، یہ ساری باتیں جو ان آیات میں بیان کی گئی ہیں وہ جس قسم کی پرسنالٹی کو سامنے لاتی ہیں، جس قسم کا مزاج، جس قسم کا ایٹی ٹیوڈ اور کیرکٹر سامنے لاتی ہیں، وہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ہمارے کارکنوں میں بھی جس طرح کی سوچ نظر آتی ہے، وہاٹس اپ گروپوں اور سوشل میڈیا پوسٹوں سے ان کی ترجیحات کا جو اندازہ ہوتا ہے، جس طرح کی لایعنی باتوں میں ان کو الجھتا ہوا ہم دیکھتے ہیں، یا جس طرح جذباتی وقتی سیاست ان کے اعصاب پر سوار نظر آتی ہے، ایسی چیزوں کو دیکھ کر بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو بدلنا ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
ہندوستان میں امتِ مسلمہ اس وقت جن حالات سے دو چار ہے اس میں اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اس کی برسوں پرانی تحفظ و سلامت روی کی ذہنیت (survival mindset) اور مستحکم ہوجائے۔ سلامت روی (سروائیول) کے ذہن کے ساتھ کبھی بڑے مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس امت کا اصل المیہ یہی رہا ہے کہ آزادی کے بعد کچھ تو حالات کی وجہ سے اور کچھ اپنی کم زوریوں کی وجہ سے بھی وہ ہمیشہ تحفظ و سلامت روی کے مسائل ہی میں گھری رہی۔ کسی اقدامی ایجنڈے پر، تعمیر و ترقی کے ٹھوس منصوبے پر، اپنے اصل مقصد و نصب العین پر مرتکز ہوکر کام کرنے کا اسے موقع نہیں ملا۔ یہ ہماری کم زوری کے اصل اسباب میں شامل ہے۔ اس وقت کے حالات میں یہی مائنڈ سیٹ اور مستحکم ہو رہا ہے۔ اگر یہی مائنڈ سیٹ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں میں بھی پروان چڑھے تو یہ بہت بڑا بحران ہوگا۔
ہمیں اپنے کارکنوں کو اندیشوں سے نکالنا ہوگا۔ وہ کیفیت پیدا کرنی ہوگی جو قرآن کے نزدیک داعیوں کی پہلی مطلوب خصوصیت ہے۔الَّذِینَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِیلُ
اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ [آل عمران 173]
د) صالح اور تعمیری تحریکی کلچر
ان ساری چیزوں کو انجام دینے کے لیے ایک صالح، تعمیری، حساس، سرگرم، ڈائنامک تحریکی کلچر مطلوب ہے۔ اس کی تفصیل میں خود بیان کرنے کے بجائے مصر کے مشہور تحریکی مفکر و دانش ور استاذ محمد عمارہؒ کی زبان سے بیان کروں گا۔ ڈاکٹر عمارہ چوٹی کے مفکر تھے۔ پانچ سال پہلے ان کا انتقال ہوا۔ علامہ یوسف قرضاویؒ نے ان کے جیتے جی ان کی شخصیت پر کتاب لکھی تھی اور انھیں ’اسلامی فکر کی سرحدوں پر ہر وقت بیدار اور چاق چوبند رہنے والا پاسبان‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں موجودہ تحریکات اسلامی کی سات بڑی رکاوٹوں کو ذکر کیا ہے۔ من مظاهر الخلل فی الحركات الإسلامیة المعاصرة (معاصر اسلامی تحریکوں میں کم زوریوں کے مظاہر) یہ بڑا اہم مضمون ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ہم نے زندگی نو میں چند سال پہلے شائع کرایا تھا۔
محمد عمارہؒ کے مطابق اسلامی تحریکوں کی سات بڑی رکاوٹوں میں پہلی رکاوٹ وہ ہے جسے وہ کہتے ہیں: الخلل فی فهم ”التعددیة“ وفی الإیمان بجدواها، یعنی رایوں کے تنوع کو سمجھنے اور اس کی افادیت پر یقین رکھنے کے حوالے سے کم زوری۔ میں نے حال ہی میں مہاراشٹر کے ایک تربیتی پروگرام میں اس کو اس طرح بیان کیا تھا کہ ثوابت اور متغیرات (constants and variables) میں کنفیوژن۔ اسلام میں مطلوب یہ ہے کہ جو باتیں قرآن وسنت کی نصوص ہیں وہ ثوابت (constants) ہیں ان پر مضبوطی سے جم جایا جائے اور جو باتیں اجتہادی ہیں، جن میں الگ الگ آرا کی گنجائش ہے، ان میں رواداری ہو، مختلف آرا کا احترام ہو، آرا کے تنوع کو بخوشی قبول (accommodate) کرنے کے لیے دلوں میں وسعت ہو۔ یہ نہ ہو تو آپ نریٹیو لیڈرشپ فراہم ہی نہیں کرسکتے۔ اپنے عہد سے انگیج ہو ہی نہیں سکتے۔ آپ کی فکر محض مونو لاگ، محض ایک نعرہ اور ایک تقریر بن کر رہ جاتی ہے۔ جس طرح فقہی مسالک مسلکی آرا کے معاملے میں جمود کے شکار ہوگئے اسی طرح ہم فکر کے معاملے میں جمود کے شکار ہوجائیں تو ہم بھی مسلک بن جاتے ہیں تحریک نہیں رہتے۔
دوسری کم زوری وہ کہتے ہیں: الخلل فی علاقة الذات بـ”الآخر‘‘، یعنی اپنوں اور غیروں کے درمیان تعلق کی سمجھ کے حوالے سے کم زوری۔ ایک طرح کے فکری غرور میں مبتلا ہوجانا، اپنے سوا سب کو کم عقل، بے فہم، فکری لحاظ سے کم زور، گم راہ وغیرہ سمجھنے لگنا، اسلامی تحریکوں کے بانیوں اور اولین نظریہ سازوں نے بار بار اس رجحان کے خلاف خبردار کیا۔ لیکن کیڈر پر مشتمل تحریکوں میں کئی دفعہ ایسا رجحان پیدا ہوجاتا ہے کہ خیالات کا تنوع انحراف سمجھا جانے لگتا ہے۔ ہر مختلف رائے رکھنے والا ’غیر‘ محسوس ہونے لگتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جس تحریک کو سماج کے درمیان دریا کے مانند بہنا تھا، لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنی تھی، وہ سماج سے کٹ کر ایک ایکو چیمبر بن جاتی ہے۔
تیسری کم زوری بھی بڑی اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں: الخلل فی العلاقة بین ’’المحلیة‘‘ وبین ’’العالمیة الإسلامیة‘‘ ، یعنی اسلام کی آفاقی اور مقامی جہتوں کے درمیان فرق و تعلق کے حوالے سے کم زوری۔ امت کا عالمی تصور اور اسلام کی آفاقیت ہمارے ذہنوں پر اس طرح حاوی ہو جائے کہ ہم اپنے مقام سے، اپنے ملک سے، یہاں کے حالات و مسائل سے کٹ جائیں۔ ہم تحریک کے آفاقی پہلو کو سامنے رکھ کر سوچنے لگیں، ترکی اور ایران کے مسائل سے دل چسپی کا عشرِ عشیر بھی بہار اور منی پور کے احوال میں نظر نہ آئیں۔ مسلمانوں اور عالمِ اسلام کے جذبات کا تو خیال رہے لیکن پڑوس میں رہنے والی آبادی کے احساسات کا جائز خیال بھی ہم رکھ نہیں پائیں۔ اس طرح کی کم زوری کے سلسلے میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
چوتھی کم زوری کے لیے وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں: الخلل فی علاقة ’’التاریخ‘‘ بـ”العصر‘‘، وفی علاقة ’’الأموات‘‘ بـ ’’الأحیاء“، وفی علاقة ’’الموروث‘‘ بـ ’’الإبداع‘‘، یعنی تاریخ اور عصریت، زندہ لوگوں اور مرحومین کے درمیان اور ورثے اور اجتہاد کے درمیان مناسب تعلق میں کم زوری۔ جس کے نتیجے میں ہم ماضی میں جینے لگتے ہیں۔ تاریخ کے بیانیے ہم کو زیادہ لبھاتے ہیں۔ آج کے زندہ مسائل میں گفتگو کم ہوتی ہے۔ اس خرابی کی وجہ سے تحریکات عصرِ حاضر کے حقائق سے منھ موڑ کر ماضی میں جیتی ہیں، زندوں کے معاملات کا فیصلہ مُردوں کے سپرد کرتی ہیں اور تخلیقیت سے منھ موڑ کر موروثی ترکے میں منہمک ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر عمارہؒ کے نزدیک پانچویں بڑی خرابی الخلل فی علاقة ’’الحركة‘‘ بـ“الفكر‘‘فکر اور تحریکیت کے درمیان تعلق کے حوالے سے کم زوری ہے۔ یعنی یا تو فکر اور نظریے ہی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے لیے جو عملیت پسندی، جدوجہد، راستے نکالنے اور آگے بڑھنے کا مزاج ہونا چاہیے وہ مفقود ہوجاتا ہے یا پھر دوسری انتہا پر صرف سرگرمی، مہمات اور دوڑ دھوپ ہی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور فکر اور نظریاتی اساس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ چھٹی خرابی ان کے نزدیک وہ ہے جسے وہ الخلل فی علاقة ’’التربیة الروحیة‘‘ بـ’’التربیة السیاسیة “کہتے ہیں یعنی روحانی تربیت اور سیاسی تربیت کے درمیان توازن کے حوالے سے کم زوری اور ساتویں خرابی تنظیمی سطح پر ہے، الخلل فی علاقة ’’الطاعة‘‘ بـ“الحریة‘‘حریت فکر اور تنظیمی اطاعت کے درمیان توازن کے حوالے سے کم زوری۔ تحریکیں اسی وقت ترقی کرسکتی ہیں جب ان کے کارکنوں میں اطاعت کا جذبہ بھی ہو اور اطاعت کے حدود بھی معلوم ہوں۔ اطاعت عمل میں ہے فکر میں نہیں ہے۔ فکر میں حریت، اظہارِ خیال کی آزادی اور عملی معاملات میں نظم و ضبط یہی مطلوب ہے اور ان حوالوں سے کنفیوژن بھی تحریک کو کم زور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
استاذ عمارہؒ کے یہ ساتوں نکات بڑے اہم ہیں۔ ان حوالوں سے ہمارے تحریکی کلچر کی حفاظت و اصلاح دنیا کے احوال پر اثر انداز ہونے کے لیے ضروری ہے۔
فکری و تہذیبی رجحانات، چاہے ملکی سطح پر ہوں یا عالمی سطح پر، وہ معاصر ذہن کے شدید انتشار کی غمازی کرتے ہیں۔ چند دہوں پہلے جو نظامِ فکر، متکبرانہ خود اعتمادی کے ساتھ خاتمۂ تاریخ (end of history)کا اعلان کر رہا تھا، آج لبرل خود اعتمادی کے خاتمے کا (end of liberal confidence)کا مظہر بن چکا ہے۔ بظاہر تہذیبی جارحیت اور فکری یلغار بہت شدید محسوس ہوتی ہے لیکن گہرائی میں جاکر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ محض احساسِ کم تری کا نتیجہ اور زوال و شکست کی جھنجھلاہٹ ہے۔ اہلِ اسلام کے لیے یہ صورتِ حال ایک عظیم موقع (opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس موقع کا استعمال جس فکری صلابت، مقصدی یکسوئی، حکمتِ تنظیم، جہد و عمل کے جس معیار اور جس توازن و اعتدال کا تقاضا کرتا ہے، اُس کا فقدان ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تحریکِ اسلامی کا اصل کام اسی فقدان کو دور کرنا ہے اور اسی کام کی کام یابی پر ہمارے روشن مستقبل کا انحصار ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025






