ہمارے ملک میں اللہ کے دین کے قیام کی منظم تحریک جماعت اسلامی ہند گوں نہ گوں اعتبار سے اپنا ایک اعتبار ‘وزن اور مقام رکھتی ہے۔ اس کی خصوصیت عمل و عزم ہے۔ ہماراملک اپنے اندرمختلف رنگ روپ‘منفی ومثبت جہات رکھتا ہے۔ اس میں دین حق کے تعارف و اقامت کا کام۔ فرزندان تحریک کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور موقع بھی؛ ساتھ ہی دعوتی میدان عملی جدوجہد کرنے والوں کامتلاشی بھی ہے اور پیاسا بھی۔ اس گلستان ہائے ہزار رنگ کی مٹی میں رواداری اور قبولیت رچی بسی ہے،مذہب پسندی اور اس کے لیے وارفتگی اس کے خمیر کا حصہ رہا ہے۔ چنانچہ دین حق کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے ہر فرد بشر کو جس کوصحیح فہم و شعور سے کچھ حصہ ملا ہو۔ لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نازک و اہم ترین ذمہ داری کا حقیقی ادراک کرے۔ اتنا ہی نہیںبلکہ یہ ادراک و فہم ۔شعور ی عمل کے رنگ میں ڈھل کر متلاشیان حق کی اولین پسند بن جائے؛اور اس ابلاغ و تبلیغ کا حاصل اختیار و قبولیت کی شکل اختیار کرے۔ دوسری جانب‘یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تحریک و تنظیم کی بقا وترقی مرکز نگاہ بنی رہے‘وہیں اُس کے اُصول و نظریات بھی نظروں سے اوجھل ہونے نہ پائیں۔
انسانی ادارے اور تحریکیں بشری خوبیوں کی بدولت پھلتی پھولتی اور برگ و بار لاتی ہیں۔ وہیں انسانی کمزوریوں‘شعوری و غیر شعوری کوتاہیوں‘غلطیوں و تقصیروں کا خمیازہ بھی بھگتی ہیں۔ اس تناظر میں تنظیمی جائزہ احتساب و اصلاح کا موقع فراہم کرتاہے۔ تحریک اسلامی کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ شخصی آراء کو بنیادبنانے کے بجائےاصول و نظریات کا پلڑا بھاری رکھتی رہی ہے۔ چنانچہ مناصب کا وقار و تکریم اور لحاظ و مروت جائزے میں حائل نہیں ہوتے۔ مقامِ ارفع و بلند سے فرو تر فکر وعمل کے تئیں ناپسندیدگی بھی تحریک اسلامی اور اس کے فرزندان کا شعار رہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اصلاح وتربیت ایک مسلسل و مطلوبہ ضرورت ہے۔ قیادتوںپر بدرجہ اولیٰ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظم و ضبط کی برقراری و پائیداری ،میقاتی اہداف کی تکمیل، باہمی تعلقات کی استواری نیزمقصد و منزل کی جانب مسلسل جدوجہدجیسے اہم امور پر نگاہ جمائے رکھیں۔ جہاں فرد پر لازم ہے کہ اس سے غافل نہ رہے‘وہیں اجتماعیت پر بھی کئی گنا زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مطلوبہ معیار سے جتنی دوری ہوگی۔ بیماری اتنی ہی ہلاکت خیز ہوتی جائے گی۔ علاج و دوا کی مقدار و معیار کا انحصار مرض کی شدت اور مریض کی حالت پر ہوتا ہے۔ نظریاتی تحریکوں میں غفلت جب در آتی ہے اوراصلاح و احتساب بند ہوجاتا ہے ،تب جان لیوا مرض گھر کے مکیں کو بے دم کرکے ہی دم لیتاہے۔ اقامت دین کی علمبردارتحریکات اسلامی کو اس سلسلے میں مستعد رہنا چاہئے۔
اخلاقی تنزل کے موجودہ دور میں اصلاح و تربیت کا عمل، بسااوقات شفا آور کڑوی دوا کے مثل گراں محسوس ہونے لگتا ہے۔ گریز و فرار‘تساہل و تغافل بھیس بدل بدل کر راستہ روکتے ہیں۔ پاس و ادب‘لحاظ و مروت کے درمیان اصول و روایات قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ اصلاح و تربیت کی اصولی سختی کو مناسب نہیں خیال کیا جاتا۔ دل چاہتا ہے کہ زندگی جس ڈگر پر چلی جارہی ہے چلتی جائے،بعض اوقات ذات واَنا آڑے آجاتی ہے،تمناحقیقت کا روپ اپنا لیتی ہے‘اور نیک نامی متاثرہونے لگتی ہے۔ یہ عمل لاشعوری طور پر بھی انجام پاسکتا ہے۔ کانٹے کی چبھن ونشتر کی کسک دلِ ویراں میں محسوس ہی نہیں ہونے پاتی ۔ سکتہ کے مریض کواحساس سے کوئی واسطہ تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ــــ۔ ۔ مقام غور ہے کہ۔ ۔ کیا بے نیازی وبے احتسابی ‘چھوٹ و آزادخیالی‘اور محض وقت گزاری اجتماعی وجود کے داغ دھبوںو ناسوروں کو چھپانے و بڑھانے کا ذریعہ نہیں ہے؟۔ کیاسہل انگاری اور غفلت کی چادرقلب و ضمیر کو جگانے و جھنجھوڑنے کے عمل کو روک نہیں دیتی ہے؟
مناصب پر فائزذمہ داران ہر دور میں مختلف مشکلات سے گزرتے رہے ہیں۔ آفاقی نصب العین اپنے حصول کے لیے منظم تربیت و تنظیم چاہتاہے۔مطلوب خلافت کے نظم و انصرام کا ایک چھوٹا سا نمونہ موجودہ تربیت و نظم ہے اس کی مشکلات بھی سواء ہیں اور درجات بھی سواء۔ اگرجدوجہد کا حق ادا کریں تو ذمہ دارخادمان تحریک دہرے اجر اکے حقدار ہیںکہ انسانی تہذیب و تنظیم بھی عبادت ہی کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ ذمہ داریاں یا مناصب سہل انگاری برتنےکی شئے ہیں ہی نہیں یہاں اصول و نظریات سے پرے ‘زمانے اور حالات و افراد سے مغلوبیت کی غمازمفاہمتی وکم ہمتی کی گنجائش نہیں۔ مامورین کی اصولی و نظریاتی رہنمائی اور زمانے کی پُر پیچ وخار دار راہ میں دین کے قیام کی راہوں کی نشاندہی ضروری ہے۔دوسری جانب مامورین معروف کے دائرہ میں بہ رضا و رغبت اطاعت و فرمانبرداری کے رویے کے ذریعے دین و تحریک کی عمارت کو بنیان مرصوص بناتے ہیں۔ اللہ کی جانب سے اس پر دونوں گروہ اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دونوں گروہ اپنے دائرہ کا لحاظ رکھیں اور سعی بلیغ میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ ایک اہم پہلو محبت و شفقت اور اخلاص کا بھی ہے یہ عنصر جتنا گہرا ووسیع ہوگا تحریک و تنظیم کے لیے مفید ہوگا۔ مذکورہ بالا دونوں اموراصلاح وعلاج ا ور رویے۔ ہم سب کی توجہ و تجزیہ کے طالب ہیں۔ چنانچہ انفرادی و اجتماعی حیثیت میں بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ ان مثبت و منفی مذکورہ امور اوران کے اثرات و نتائج سے واقف ہوں۔ دستور کی پاسداری نظم و تنظیم کی جان ہے اور تحریک کی حیات کی ضامن اور مقصد و نصب العین کے حصول کے لیے ازبس ضروری ہے۔ چنانچہ خود احتسابی کے جذبے کے ساتھ اپنے اطراف و جوانب کے متعلقہ ماحول کی فکر کریں۔ یادرکھیں کہ کم ظرفی کے مظاہرے اور نمائشی قیل وقال سے نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ خود ہمارا اپنا ہوگا ۔چنانچہ توبہ و انابت‘رجوع و استحضارِ ذمہ داری نیز استغفار کو وظیفہ زندگی بنالیں۔
یہ ممکن ہے کہ دین و تحریک کے وسیع و عمیق تر مفاد پر جو نگاہ ذمہ داروں اور احباب فکر و نظر کی جاتی ہے ‘اُ س تک مامورین بالعموم پہنچ نہ پاتے ہوں۔ چنانچہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اصحاب اَمر تحریک کی گاڑی کو درست سمت کی جانب کھینچ کر لے جائیں اوراس بابت کسی لومۃ ولائم اور ایں و آں کو راہ نہ دیں یہ بھی حکمت بالغہ و مفاد تحریک کا ہی تقاضا ہوگا کہ اُس طریقِ حسنہ کو اپنایا جائے جس سے تحریک کی راہ کھوٹی نہ ہوتی ہو اور نہ ہی بے چینی و بے اعتمادی کی پرورش کے امکان کو کوئی موقع ملے۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ اصحاب رائے سے مشورہ نظم و ضبط کو مضبوط کرنے اور اعتماد کو بحال و مضبوط رکھنے میں معاون ہوگاکہ دین اسلام نے اصحاب امر کونہ ڈکٹیٹر (آمر)بنایا ہے اور نہ حکمت بالغہ کو طاق نسیاں کے سپردکرنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے بلکہ بشری کمزوریوں کے پیش نظر نرم خوئی ودلجوئی‘درگزر و صرف نظر کی ترغیب دی ہے۔ قرآن حکیم نے اس کی اہمیت و ضرورت کودوپہر کی کھلی روشنی کی طرح عیاں کردیا ہے۔ ان پہلو ؤں کے عملی نمونوں سے سیرت سرورعالمؐ کا گلستاں شاداب و آباد ہے تاکہ قیامت تک ہر نظم و تنظیم کے وابستگان اور جمیع اصحاب امر اس پر متوجہ بھی رہیں اور اپنے عملی برتاؤ سے تحریک و تنظیم کے زرخیز میدان کو ایک حسین ودل کش گلستاں میں تبدیل کردیں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015